طلاق كا حق 1/2

بسم اللہ الرحمن الرحیم

طلاق كا حق

قسط : 1/2

از قلم : شیخ عبد الرحمن عزیز

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

نکاح دراصل مرداور عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہے، شریعت اسلامیہ میں یہ معاہدہ بنیادی ، نہایت سنجیدہ ، اور قابل احترام ہے ، اور اس نیت سے کیا جاتا ہے کہ موت زوجین کو ایک دوسرے سے جدا کردے ۔ میاں بیوی کے درمیان ہونے والے اس معاہدے پر ہی خاندان اور معاشرے کا استحکام اور اس کی بہتری پر معاشرے کی بہتری موقوف ہے ۔نکاح دوستی اور برابری کی سطح پر قائم نہیں ہوتا بلکہ اس معاہدہ کی رو سے عورت شوہر کو اس ادارے کا سربراہ تسلیم کرتی ہے اور خود کو بیوی کی حیثیت سے مرد کے حبالہء عقد میں دے دیتی ہے ۔اور مرد اسے بیوی کے طورپر قبول کرلیتا ہے ۔ پھر ان میں سے ہر ایک شریعت کے مقرر ہ دائرہ میں رہ کر اپنے اپنے معاملات سنبھالتے اورفرائض انجام دیتے ہیں ۔مرد بیوی اور بچوں کی ضروریات کا ذمہ دار اور کفیل اور عورت اس کے تحت امور خانہ داری کی مسؤل قرار پاتی ہے ۔

معاہدہ نکاح زندگی بھر ساتھ نبھانے کی نیت پر وجود میں آتا ہے ۔لیکن زندگی میں کبھی ایسا موڑ آجاتا ہے کہ نباہ مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے،اور اسے توڑے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا ۔اگر یہ معاہدہ موت سے پہلے ٹوٹ جائے تو اسے طلاق کہتے ہیں ۔ طلاق شریعت کی نظرمیں ایک قبیح ترین چیز ہے ، اس کی بأمر مجبوری ہی اجازت دی گئی ہے ۔ اور اس سے بچنے کیلئے شریعت نے ایسے اصول و ضوابط مقرر کئے ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے بڑی حد تک معاہدہ نکاح کے ٹوٹنے سے یعنی طلاق سے بچایا جاسکتا ہے ، اور یہی شریعت کا مقصود ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ جس طرح معاہدہ نکاح کچھ اصولوں اور شرائط پر قائم ہواتھا،اسی طرح شریعت کے مقررہ اصولوںکی روشنی میں ہی توڑا جاسکتا ہے، یاتوڑا جانا چاہئے ۔

شریعت اسلامیہ نے نکاح اور طلاق کے معاملے میں مرد کو اس کی صلاحیتوں کے پیش نظر عورت پر فوقیت دی ہے ۔اور طلاق دینے کا اختیار مرد کے ہاتھ میں رکھا ہے ۔ خالق کائنات کا ارشاد ہے :

)الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ( [النساء/34]

” مرد حاکم ہیں عورتوں پر ، اس سبب سے جو اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ، اور اس وجہ سے کہ وہ اپنے أموال (عورتوں پر) خرچ کرتے ہیں ”

) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ ( [الطلاق/1]

” اے (متبعین ) نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دو ۔۔۔۔”

) لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ ( [البقرة/236]

” تم مردوں پر کوئی حرج نہیں اگر تم عورتوں کو طلاق دو ”

( وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ( [البقرة/228]

"(طلاق رجعی کے سبب جدائی ہونے کے بعد) اگر خاوند اصلاح(یعنی صحیح طورپر گھر بسانے )کا ارادہ رکھیں توعورتوں کو واپس لانے میں زیادہ حق رکھتے ہیں ”

علاقہ ابن قیم نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا:

٫٫ طلاق دینے کا حق صرف اسی کو ہے کہ جس نے نکاح کیا ہے (یعنی شوہر کو) کیونکہ رجوع کا حق بھی تو اسی کو ہے ،،

(التعليق علی فقه السنة بحواله کتاب الطلاق :72)

اس بات سے کسی عقلمند کو انکار نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عقل، فکر ،وسعت ادراک ،معاملے کے نتائج وعواقب تک رسائی حاصل کرنے اورعزم و صبر جیسے اوصاف میں مرد کو عورت پر برتری عطا کی ہے ۔اور اس کے برعکس عورت میں عزم میں کمزوری ،ہیجان انگیزی ،اپنا موقف صحیح طورپر پیش کرنے سے قاصر ،اور دوسروں کی باتوں سے متأثر ہونے اور بہت جلد متأثر ہونے کے اوصاف کی حامل ہے ۔

مرد نفسیاتی طورپر مضبوط اور بیوی کے خرچ کا ذمہ دار ، اپنے گھر کا نگہبان ،جبکہ عورت نفیساتی اعتبار سے کمزور ،اور نان ونفقہ کی طالب اور لینے کی مستحق ۔

خاوند نکاح کے وقت مہر دیتا ہے ،اور عورت مہر حاصل کرتی ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ عقد نکاح بھی اسی کے ہاتھ میں دی جائے جس نے مہر ادا کیا ہے ، اگرنکاح کی گرہ مہر لینے والی عورت کے ہاتھ میں دیدی جائے تو وہ مہر کے لالچ میں مرد کو طلاق دے کر دوسرے مرد پھر تیسرے مرد سے مہر وصول کرنے لگتی۔اور شریعت نے خاندان کا ادارہ جن مقاصد کیلئے قائم کیا ہے تو پورے نہ ہوسکتے ۔

سید ابوالاعلیٰ مود ودي فرماتے ہیں:

” جذبات کی لطافت ، وجدان کی نزاکت اور زود حسی سے جو ایک عورت کی خصوصیات ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کا ضمیر بنیادی طورپر عقل سے نہیں ،بلکہ جذبات سے اٹھایا گیا ہے ”

"یہ بات نہ بھولئے کہ بیشتر معالات میں عورت کے تأثرات منطق اور عقل کی قید سے آزاد ہوتے ہیں ،اور وہ مصلحت اور دور اندیشی کے بجائے اس کی مخصوص شخصیت کا آئنہ دار ہوتے ہیں ”

"چونکہ بالعموم مرد عورت کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ معقولیت کا مظاہرہ کرتا ہے ، اس لیے مرد کو عورت پر ایک گونہ برتری حاصل ہے ، لیکن اگر بیوی یہ محسوس کرتی ہو کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو ]اسلامی قوانین کے حساب سے [اس سے علیحدگی اختیار کرلے "۔

[اسلام اور جدید ذہن کے شبہات :202-201-184]

سید سابق رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

"اسلام نے طلاق کو صرف اکیلے مرد کا ہی حق قرار دیا ہے ، کیونکہ وہ اس شادی کو باقی رکھنے پر زیادہ حریص ہوتا ہے جس کے لئے اس نے مال خرچ کیا ہوتا ہے ۔ مراد یہ ہے اگر وہ عورت کا طلاق دے دے اور نئے نکاح کا ارادہ کرے تو اسے اتنا یا اس سے زیادہ مال (دوبارہ ) خرچ کرنا پڑے گا۔اس پر یہ بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ(نکاح کے وقت) عورت کو حق مہر کا حصہ دے ، طلاق (دیتے ہوئے اسے کچھ) مالی فائدہ دے ۔اور دوران عدت بھی اس پر خرچ کرے ۔وہ ان وجوہات کی بنا پر اور اپنے مزاج وعقل کے تقاضے کے باعث عورت کی ناپسندیدہ باتوں پر زیادہ صبر کرتا ہے ۔جب بھی اسے غصہ آتا ہے وہ طلاق کے لیے جلدی نہیں کرتا اور نہ ہی کسی تکلیف کے وقت اسے برداشت کرنا اس پر زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔

جبکہ عورت اس کی نسبت غصہ میں جلدباز اور برداشت میں کم ہوتی ہے ۔طلاق کے نتائج اور پھر نئے اخراجات کے حوالے سے اس پر وہ کچھ لازم نہیں ہوتا جو کچھ مرد پر لازم ہوتا ہے ۔کسی معمولی سبب کی بنیاد پر بھی وہ عقد زوجیت کو ختم کرنے کیلئے فوراً تیار ہوجاتی ہے ۔اگر عورت کو (طلاق کا )حق دے دیا جائے تو بسا اوقات وہ اس بنیاد پر بھی یہ حق استعمال کرسکتی ہے ،کہ جسے کوئی سبب شمار ہی نہ کیاجاتا ہو۔اس آخری علت کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ انگریز نے جب حق طلاق مردوں اور عورتوں کو مساوی طورپر دیدیا توان کے ہاں شرح طلاق بڑھ گئی اور مسلمانوں کی نسبت اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا”-

[فقه السنة للسيد سابق: 2/282 بحواله کتاب الطلاق۔از عمران أيوب لاهوری :72]

لہٰذا ثابت ہوا کہ إسلام کا ہر حکم بے بہا حکمتوں پر مشتمل ہے اور اس کا کوئی حکم عقل سلیم کے خلاف نہیں ہے ۔

یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے ،وہ جب ضرورت محسوس کرے عورت کو طلاق دے سکتا ہے۔ اس کے برعکس کبھیایسی صورت بھی پیش آسکتی ہے کہ عورت اپنے شوہر سے گلو خلاصی کی ضرورت محسوس کرے تو کیا وہ مرد کے سامنے مجبور محض ہے یا اس کیلئے کوئی راستہ ہے؟ ۔

شریعت اسلامیہ نے جس طرح مرد کو طلاق دینے کا اختیار دیا ہے اسی طرح عورت کو طلاق کے مطالبے کا حق دیا ہے ۔اور اسے شریعت کی زبان میں” خلع "کہا جاتا ہے ۔اور وہ یہ ہے :

اگر عورت شوہر سے جدائی کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو وہ مرد کی طرف سے حق مہر کی صورت میں یا اس کے بعد بیوی ہونے کی حیثیت سے دیا گیا مال اسے واپس کردے اور مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے طلاق دے کر جدا کردے ۔جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

) فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ([البقرة/229]

” اگر تم اس بات سے ڈرو کہ وہ دونوں حدود اللہ کی پاس داری نہ کرسکیں گے ، تو ان پر کوئی تنگی نہیں کہ بیوی فدیہ دے کر( طلاق حاصل کرلے ) ”

ایسی صورت میں مرد کیلئے حکم ہے کہ وہ عورت کو دیا ہوا مہر یا اس کے علاوہ کوئی مال عورت کو بیوی کی حیثیت سے دیا ہوواپس لے کر اسے طلاق دیدے۔ لیکن اگر مرد اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کرتا ،اور اسے طلاق دے کر فارغ نہیں کرتا تو ایسی صورت میں شریعت نے عورت کو عدالت سے رابطہ کرنے کا حکم دیا ہے ،اور عدالت کیلئے حکم ہے کہ وہ فریقین کی باتیں سن کر موافقت کی کوئی صورت بنتی ہو تو موافقت کرادے ورنہ مرد کو طلاق دینے کا حکم دے ۔اور انکار کی صورت میں اپنی جانب سے نکاح فسخ کردے ۔

لیکن جن لوگوں پر یورپی تہذیب کے جراثیم اثر کرچکے ہیں ،اورجن پر عورت کوہر میدان میں مرد کے برابرلاکھڑا کرنے کابھوت سوار ہے ،وہ اسلام کے اس پر حکمت حکم پر بھی سیح پا ہیں اور عورت کو بھی مرد کی طرح بلکہ عورت ہی کو طلاق کا اختیار دینا چاہتے ہیں ،تاکہ عورت بالکل آزاد ہو،جب چاہے خاوند کو فارغ کرکے دوسرا گھر تلاش کرلے ، یورپی تہذیب کے بعض اندھے مقلدین تو طلاق کے بعد عورت کی عدت تک کو بے کار بتانے اور باطل کرنے کے درپے ہیں ۔اورپاکستان میں اوپر کی سطح پر اکثر لوگ ایسی ہی بیمار ذہنیت کے ہیں ، لہٰذا انہوں نے مسلم خاندانی قوانین کے آرڈی ننس مجریہ 1961ئ (ہشتم 1961ئ) وضع کیا ہے،اور اس کے تحت نکاح فارم پرمندرجہ ذیل شقیں تحریر کی ہیں:

شق نمبر :18۔ آیا شوہر نے طلاق کا حق بیوی کو تفویض کردیا ہے ، اگر کر دیا ہے تو کونسی شرائط کے تحت۔

شق نمبر :19۔ آیا شوہر کے طلاق کے حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہے ۔

اب اس کانتیجہ یہ نکلا کہ نکاح کے موقع پر عورت کے سرپرست لڑکے سے یہ مطالبہ کرنے لگے کہ وہ حق طلاق لڑکی کو تفویض کردے یا اس کے حق طلاق پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے لگے ۔جس سے نکاح کی خوشگوار تقریب میں بدمزگی پیداہونے لگی ۔اورنکاح جو زندگی بھر ساتھ رہنے کا معاہدہ تھا ،اسی کی بنیاد توڑنے اور طلاق پر رکھی جانے لگی۔

اس کے علاوہ وقت حاضر کے ایک نام نہاد مجتہد جاوید احمد غامدی نے اس بات سے انکار کیا کہ شریعت اسلامیہ نے مذکورہ صورت کاکوئی حل نکالا ہے ، اور پھر عدالتوں کی موجودہ حالت کو باعث زحمت قرار دے کر ایک نیا حل نکالا ۔وہ کہتے ہیں :

سلسلہ جاری ہے

{ ناشر : مکتب الدعوہ ، الغاط ، www.islamdawah.com/urdu }

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں