بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :165
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :14/15/ جمادی الاولی1432 ھ، م 19/18،اپریل2011م
طلاق کے احکام [1]
عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلَاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ ، فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ ” .
( أبو داؤد :2226 ، الطلاق – الترمذي :1187 ، الصلاة – ابن ماجة :2055 ، الطلاق ) .
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو عورت بغیر کسی [ معقول ] وجہ کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ۔
{ ابو داود ، الترمذی ، ابن ماجہ } ۔
تشریح : عقد نکاح کی بدولت ایک مرد و عورت کے درمیان جو رشتہ قائم ہوتا ہے اسے اسلام نے باعث رحمت و مودت ، وجہ تسکین و طمانینت اور نعمت و احسان قرار دیا ہے تاکہ باہم وابستہ ہوکر عفت و پاکبازی کے ساتھ مسرت و شادمانی کی زندگی گزاریں اور جس طرح وہ خود کسی کی اولاد ہیں اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور اولاد ان کے لئے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اور آخرت میں حصول جنت کا وسیلہ بنے ، لیکن ان مقاصد کے لئے ضروری ہے کہ دونوں میں محبت اور خوشگواری کا تعلق رہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہروں اور بیویوں کو باہم برتاؤ کی جو ہدایات دی ہیں ان کا بنیادی محور اور مرکزی نقطہ یہی ہے ، اس کے باوجود کبھی ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان سخت تلخی اور ناگواری پیدا ہوجاتی ہے اور ساتھ رہنا بجائے راحت و مسرت کے مصیبت بن جاتا ہے ، دونوں کے درمیان مودت و رحمت کے بجائے عداوت و نفرت پیدا ہوجاتی ہے ، ایسے وقت کے لئے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و ترغیب یہی ہے کہ حتی الوسع دونوں ناگواریوں کو جھیلیں ، نباہنے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں ، لیکن ہر طرح کی کوشش کے بعد بھی اگر حالات میں بناؤ نہ آئے اور نفرت و عداوت کی خندق چوڑی ہوتی جائے تو آخری چارہٴ کار کے طور پر طلاق کی بھی اجازت دی گئی ہے ، اگر کسی حالت میں طلاق و علحدگی کی اجازت نہ ہوتی تو پھر یہ تعلق اور رشتہ دونوں کے لئے عذاب بن سکتا ہے ، پھر طلاق کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات بھی دی گئی ہیں ، اس سلسلے میں سب سے پہلی اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ طلاق اور اس کے ذریعہ شوہر و بیوی کے تعلقات کا ٹوٹنا اللہ تعالی کو بےحد ناپسند ہے ۔ { معارف الحدیث } کیونکہ اس سے دو مسلمانوں کے درمیان دوری پیدا ہوتی ہے ، شیطان خوش ہوتا ہے ، بچوں کا مستقبل بگڑ جاتا ہے اور دو مسلمان خاندانوں میں رنجش پیدا ہوجاتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ اللہ تعالی کی حلال کی ہوئی چیز حرام کرلی جاتی اور اللہ کے نام سے کیا گیا عہد وپیمان توڑدیا جاتا ہے اور طلاق سے جادو جیسی حرام وناجائز چیز کا بڑا اہم مقصد پورا ہوتا ہے ” یفرقون بہ بین المرء و زوجہ ” اس جادو کے ذریعہ وہ شوہر اور اس کی بیوی میں تفرقہ ڈال دیتے تھے ”
زیر بحث حدیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ شرعی نقطہٴ نظر سے طلاق ناپسندیدہ چیز ہے اور یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس کی صحت علماء کے نزدیک مختلف فیہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک حلال کاموں میں سے سب سے ناپسندیدہ کام طلاق ہے ۔
{ سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ وغیرہ بروایت ابن عمر } ۔
ناپسندیدہ ہونے کی وجہ ہے کہ عمومی طور پر طلاق کے اسباب اور طلاق پر مرتب ہونے والے نتائج ازروئے شرع ناپسندیدہ ہوتے ہیں ، چنانچہ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ اصل میں طلاق مکروہ ہے لیکن حالات و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم بدلتا رہے گا ، چنانچہ کبھی طلاق کا حکم واجب ہوگا اور کبھی حرام ، کبھی مستحب ہوگا اور کبھی جائز ، جس کی تفصیل درج ذیل ہے :
واجب : بسا اوقات صورت حال یہ ہوتی ہے کہ طلاق دینا واجب ہوجاتا ہے مثلا کسی شخص نے اپنی بیوی یا بیویوں سے مباشرت نہ کرنے کی قسم کھالی ہے ، ازروئے شرع چار مہینے تک کے لئے تو یہ عمل جائز ہے البتہ چار مہینے گزر جانے کے بعد ضروری ہے کہ شوہر یا تو قسم کا کفارہ ادا کرکے وظیفہٴ زوجیت ادا کرے ورنہ طلاق دے { سور ہ بقرہ :226 } اسی طرح اگر کوئی عورت بد چلن ہے اور زنا کرتی ہے تو اسے بھی طلاق دینا واجب ہے ارشاد نبوی ہے : تین آدمی ایسے ہیں جن کی دعا قبول نہیں ہوتی ایک وہ شخص جس کے عقد میں کوئی بدخلق عورت ہے اور اسے طلاق نہیں دیتا { الحاکم } ۔
مستحب : کسی معقول وجہ سے عورت مرد کے ساتھ زندگی نہیں بسر کرنا چاہتی اور شوہر کے ساتھ رہنے میں ضرر لاحق ہوتا ہے تو ایسی صورت میں مستحب ہے کہ اس پر احسان کرتے ہوئے شوہر اسے طلاق دے دے ، اسی طرح اگر عورت بدخلق ہے البتہ اس میں کوئی ایسی برائی نہیں ہے جس سے عزت و آبرو پر دھبہ آتا ہے ، لیکن اخلاقی طورپر شوہر اس سے تنگ ہے تو اسے طلاق دے دینا بہتر ہے ۔
حرام : بیوی حالت حیض میں ہو اور اسے طلاق دیا گیا یا ایک سے زائد طلاق ایک ہی ساتھ دی گئی تو یہ طلاق حرام ہے ، کیونکہ حضرت ابن عمر نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ناراض ہوئے اور رجوع کرنے کا حکم دیا { متفق علیہ } اسی طرح ایک شخص نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور اسے کتاب الہی کے ساتھ مذاق قرار دیا ، { سنن النسائی } اسی طرح اگر طلاق دینے سے شوہر وبیوی دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو سخت ضرر لاحق ہورہا ہے یا بچوں کی پرورش کا معاملہ ہے اور طلاق کی کوئی ناگزیر حالت نہیں ہے تو بھی طلاق دینا حرام ہے جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے ۔
جائز : اور اگر عورت میں کوئی خرابی نہیں ہے ، اور نہ ہی اسے طلاق دے دینے میں کوئی بڑی خرابی لازم آرہی ہے اور مرد کا دل اس سے نہیں ملتا اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ رشتہ باقی رہا تو بہت ممکن ہے کہ بیوی کے ساتھ نا انصافی ہوگی تو ایسی صورت میں طلاق دینا جائز ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دیا تھا لیکن جبریل تشریف لائے اور فرمایا : حفصہ سے رجوع کرلیجئے کیونکہ یہ ایک تہجد گزار اور کثرت سے روزہ رکھنے والی عورت ہیں ۔
{ مستدرک الحاکم } ۔
فوائد :
۱- طلاق اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی ہے ۔
۲- بلا کسی معقول وجہ سے اگر کوئی شخص طلاق دیتا ہے تو یہ عمل کراہت سے خالی نہیں ہے ۔
۳- بلا کسی معقول سبب کے عورت کا اپنے شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ گناہ کبیرہ ہے ۔
ختم شدہ