طلاق کے احکام [2]/حديث نمبر :166

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :166

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :21/22/ جمادی الاولی1432 ھ، م 26/25،اپریل2011م

طلاق کے احکام [2]

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، ” أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَأَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيُمْسِكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ، ثُمَّ تَحِيضَ ، ثُمَّ تَطْهُرَ ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ ” .

( صحيح البخاري :5251 ، الطلاق – صحيح مسلم :1471 ، الطلاق )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خود انہوں نے عہد نبوی میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیا جب کہ وہ حالت حیض میں تھی ، تو ان کے والد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا [ جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت سخت برہم ہوئے اور ] فرمایا : اس سے کہو کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے اور اسے روکے رکھے یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے ، پھر اسے حیض آئے ، پھر وہ پاک ہو پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اسے اپنی بیوی کے طور پر روکے رکھے اور اگر چاہے تو مباشرت سے پہلے اسے طلاق دے ، یہی وہ عدت ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ عورتوں کو اس میں طلاق دے جائے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم }

تشریح:جہاں اسلام نے وقت ضرورت و حاجت طلاق کی اجازت دی ہے وہیں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ طلاق دینے کا طریقہ بھی بتلایا ہے بلکہ اس کی بہت بڑی تفصیل تو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے حتی کہ قرآن مجید کی ایک سورت کا نام سورہٴ طلاق ہے ، اسی سورت کے بالکل ابتداء میں ارشاد باری تعالی ہے :[يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا العِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّكُم]{الطَّلاق:1}” اے نبی [ اپنی امت سے کہو ]جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ تعالی سے جو تمہارا رب ہے ڈرتے رہو ”

زیر بحث حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی عدت کا ذکر فرمایا ہے اور امت کو حکم دیا ہے کہ طلاق عدت میں دیا کریں ، جس کی تفصیل درج ذیل ہے : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علماء کہتے ہیں کہ طلاق دینے کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں طلاق سنی و طلاق بدعی ۔۔۔۔

طلاق سنی : یہ ہے کہ کہ وہ طلاق جو سنت کے مطابق دی جائے یعنی شریعت نے طلاق دینے کی جو عدت متعین کی ہے اس کا جو طریقہ بتلایا ہے اور اس کے لئے وقت و حالت کی جو تحدید کی ہے اس کا لحاظ رکھا جائے اور اس بارے میں حکم الہی کی پابندی کی جائے اور ۔۔۔۔

طلاق بدعی : یہ ہے کہ سنت کے مطابق طلاق نہ دی جائے بلکہ طلاق دینے کے متعین وقت و حالت کا لحاظ نہ رکھا جائے ۔ سنی طلاق کی صورتیں : زیر بحث حدیث اور اس سے ملتی جلتی دوسری حدیثوں سے سنت کے مطابق طلاق دینے کی درج ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں جن کا جاننا ہر مسلمان اور خاص کر شادی شدہ جوڑوں کے لئے نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اس کی معرفت نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ طلاق دینے کا

بدعی طریقہ استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے دینی طور پر وہ گناہ بلکہ بسا اوقات کبیرہ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اور دنیاوی طور پر شرمندگی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے سچ فرمایا خلیفۃ المسلمین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے : جو شخص بھی سنت کے مطابق طلاق دے گا وہ کبھی بھی شرمندہ نہ ہوگا ۔ { البیہقی } ۔ جس کا واضح مفہوم ہے کہ جو شخص بھی طلاق کا بدعی طریقہ اختیار کرے گا وہ ضرور شرمندہ ہوگا ۔

[۱] حالت طہر میں طلاق دی جائے بشرط یہ کہ اس طہر میں اپنی بیوی سے صحبت نہ کی گئی ہو ، اور صرف ایک طلاق دے کر چھوڑ دےیہاں تک کہ تین حیض کی عدت پوری ہوجائے ، اس کی دلیل زیر بحث حدیث ہے ۔

[2] حالت حمل میں طلاق دے ، یعنی جب عورت کا حمل واضح ہوتو اسے ایک طلاق دیکر چھوڑ دے، پھر جب وضع حمل ہوجائے گا تو وہ اسکی عدت پوری ہوجائے گی ، جیسا کہ حضرت ابن عمر کی حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پھر اگر طلاق دینا چاہے تو حالت طہر میں یا حالت حمل میں طلاق دے ۔

{ صحیح مسلم } ۔

[3] اگر کسی عورت کا صرف نکاح ہوا ہے اور رخصتی نہیں ہوئی ہے یعنی میاں بیوی کے درمیان صحبت نہیں ہوئی ہے تو اس کے لئے طلاق سنی کا کوئی وقت متعین نہیں ہے ، شوہر جب چاہے اسے طلاق دے سکتا ہے ، البتہ صرف ایک ہی طلاق دے گا اور یہ طلاق طلاق بائن واقع ہوگی ۔

[۴] اگر بیوی کو ابھی تک حیض نہیں آیا یا اس عمر کو پہنچ چکی ہے کہ حیض آنا بند ہوگیا ہے تو اسے کسی بھی وقت طلاق دیا جاسکتا ہے لیکن ایک ہی طلاق دی جائے گی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تمام صورتیں سنی طلاق کی ہیں اور ہر ایک میں شرط یہی ہے کہ ایک طلاق دی جائے ، بظاہر اس کا فائدہ یہ ہے کہ اولا تو طلاق شدہ عورت کو عدت گزارنے میں کسی الجھن کا سامنا نہ ہوگا اور ثانیا شوہر کے لئے یہ مہلت باقی رہے گی کہ اگر یہ پہلی یا دوسری طلاق ہوگی تو وہ عدت گزرنے سے قبل اپنی بیوی سے رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت گزر جائے تو نئے سرے سے نکاح کرسکتا ہے ، البتہ تیسری صورت میں صرف تجدید نکاح کی گنجائش ہے اس میں رجوع کی گنجائش نہیں ہے ۔

بدعی طلاق کی صورتیں : طلاق بدعی کی مختلف صورتیں ہیں بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ سنی طلاق کے علاوہ جتنی بھی طلاقیں ہیں وہ سب بدعی ہیں ، بدعی طلاق کی جو صورتیں کثیر الوقوع ہیں وہ یہ ہیں :

[۱] حالت حیض میں طلاق دی جائے ، اسی حکم میں نفاس بھی داخل ہے اور اس کا حکم حرمت کا ہے ، اس صورت میں رجوع کرنا واجب ہوگا جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے ، البتہ طلاق واقع ہوجائے گی ۔

[۲] اس طہر میں طلاق دے جس میں اپنی بیوی سے صحبت کر چکا ہے ، از روئے شرع یہ بھی ممنوع ہے اور رجوع واجب ہے ۔

[۳] ایک ساتھ ایک سے زائد طلاقیں دی جائیں ، اس کا حکم بھی حرمت کا ہےبلکہ ایسا کرنا کبیرہ گناہ ہے اور اس کی مزید تفصیل بعد میں آئے گی ۔

[۴] ایک ہی طہر میں الگ الگ موقعہ پر تین طلاقیں دے ، یہ بھی از روئے شرع ممنوع ہے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں