طلاق کے احکام [3]/حديث نمبر :167

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :167

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :28/29/ جمادی الاولی1432 ھ، م 3/2،مئی 2011م

طلاق کے احکام [3]

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : كَانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَبِي بَكْرٍ ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ : وَاحِدَةً ، فَقَالَ عُمَرُ : ” إِنَّ النَّاسَ قَدْ اسْتَعْجَلُوا فِي أَمْرٍ كَانَ لَهُمْ فِيهِ أَنَاةٌ ، فَلَوْ أَمْضَيْنَاهُ عَلَيْهِمْ . فَأَمْضَاهُ عَلَيْهِمْ ” .

( صحيح مسلم :1472 ، الطلاق – مسند أحمد :1/ 314 – سنن أبو داؤد :2200 ، الطلاق )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سال تک [ایک مجلس کی ] تین طلاق ایک ہوا کرتی تھی ، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملے میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لئے مہلت تھی [ اس میں جلدی کرنے لگے ہیں ] لہذا بہتر یہ ہے کہ ہم ان پر اسے نافذ کردیں چنانچہ حضرت عمر نے تین طلاقوں کے تین ہونے کو نافذ کردیا ۔

{ صحیح مسلم و مسند احمد و سنن ابو داود }

تشریح : جہالت و بدقسمتی سے ہمارے درمیان بعض غلط امور اس قدر رائج ہوجاتے ہیں کہ اس کو لوگ حق اور شرعی طریقہ تصور کرتے ہیں ،انہیں امور میں سے طلاق کا وہ بدعی طریقہ بھی ہے جسے ایک مجلس یا بیک لفظ تین طلاق کہا جاتا ہے یعنی شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی ساتھ تینوں طلاقیں دے دے ، طلاق کا یہ طریقہ بدعی اور گناہ کبیرہ ہے ، لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ منتشر اور واقع ہے بلکہ مصیبت تو یہ کہ مسلمانوں کا عام طبقہ یہی سمجھتا ہے کہ اس کے علاوہ طلاق کا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں اور نہ اس میں کوئی شرعی قباحت ہے جب کہ یہ طریقہ غیر شرعی اور گناہ ہے جس کا اندازہ عہد نبوی کے اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ کسی موقعہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص کے بارے میں یہ اطلاع دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں ایک ہی ساتھ دے دی ہیں ، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے ، پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے جس میں فرمایا : ” ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظھرکم ” ابھی میں تمہارے درمیان موجود ہوں اور کتاب الہی کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ناراض تھے کے حاضرین میں سے ایک صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ کیا میں اس کو قتل کردوں ۔

{ سنن النسائی :3431 } ۔

زمانہ قدیم سے ہی اہل علم میں یہ اختلاف چلا آراہا ہے [ اس اتفاق کے باوجود کہ ایک ساتھ دی گئی ایک مجلس کی تین طلاق نا جائز حرام اور گناہ کبیرہ ہے ] کہ ایسی طلاق ایک واقع ہوگی یا کہ تین واقع ہوں گی ، بہت سے علماء اسے تین مانتے ہیں نتیجۃ اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق حاصل نہیں رہتا اور بیوی اس کے اوپر ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے الا یہ کہ وہ کسی اور مرد سے شادی کرے اور وہ اپنی رغبت سے اسے طلاق دے دے ، اب اس کے لئے بہت سے لوگ حلالہ کا فتوی دیتے ہیں۔

دوسرے بہت سے علماء ایک مجلس کی ایک سے زائد طلاق کو ایک ہی طلاق تصور کرتے ہیں : جن کی دلیل زیر بحث حدیث ہے کہ عہد نبوی ، عہد صدیقی او رعہد فاروقی کے ابتدائی دو تین سالوں تک ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا ، البتہ لوگوں کی غلط روی پر روک لگانے کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں دی گئی تینوں طلاقوں کے تین ہونے کا حکم نافذ کیا جس کا مطلب تعزیر و تادیب تھی نہ کہ شریعت کے حکم کو تبدیل کرنا اور قرآنی حکم کو منسوخ کرنا ، اس مسلک کی تائید درج ذیل امور سے بھی ہوتی ہے ۔

[۱] اللہ تعالی فرماتا ہے کہ :[الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ] {البقرة:229} ” یہ طلاقیں دو مرتبہ ہیں ، پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ” ۔ یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو رجوع کا حق حاصل ہے وہ دو مرتبہ ہے اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ رجعی طلاقیں دو ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ دو مرتبہ ہیں ، جس کا مطلب ہے کہ ایک ساتھ کی ایک سے زائد طلاق کا اعتبار نہیں ہے ۔

[۲] عہد نبوی میں حضر ت عبد یزید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجوع کرنے کا حکم دیا ، وہ کہنے لگے کے یا رسول اللہ ! میں نے اسے تین طلاقیں دے دی جس سےاب رجوع کیسے کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مجھے معلوم ہے کہ تم نے تین طلاقیں دی ہے ، رجوع کرلو کیونکہ وہ ایک ہی کے حکم میں ہے ۔

{ سنن ابو داود : 2096، 2206 } ۔

[۳] یہی طریقہ روح شریعت کے موافق ہے خاص کر آج عوام کی جہالت کا یہ حال ہے کہ وہ طلاق کے صحیح طریقے سے غافل ہیں اور بے خبری کی وجہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیتے ہیں اور پھر پچھتاتے ہیں ، بلکہ کتنے گھر ہیں جو نادانی کی وجہ سے اجڑتے نظر آتے ہیں اور کتنے خاندان ہیں جو بکھرتے دکھائی دیتے ہیں ، یا پھر حلالہ کی لعنت کا شکار ہوتے ہیں ، لہذا اس کا حل یہی ہے کہ بیک وقت یا بیک لفظ دی گئی تین طلاقوں کے ایک ہی واقع ہونے کا فتوی دیا جائے جیسا کہ عصر حاضر کی بہت سی حکومتوں اور ہر مسلک کے بہت سے علماء نے اس ضرورت کو محسوس کیا ہے ۔

فوائد :

۱- عہد نبوی ، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے دو تین سال دور خلافت تک امت کا اجماع رہا کہ ایک مجلس میں دی گئیں ایک سے زائد طلاقیں وقوع کے لحاظ سے ایک تھیں ۔

۲- ایک ساتھ دی گئیں تین طلاقوں کے ایک ہونے کا فتوی سب سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا ۔

۳- بیک وقت یا بیک لفظ تین طلاقیں دینا بدعت و ضلالت ہے ، جس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ، البتہ وقوع کے لحاظ سے وہ ایک واقع ہوگی ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں