بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :168
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :6/7/ جمادی الآخرہ1432 ھ، م 10/9،مئی 2011م
طلاق کے احکام [4]
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال : كَانَتْ تَحْتِي امْرَأَةٌ وَكُنْتُ أُحِبُّهَا ، وَكَانَ عمر يَكْرَهُهَا ، فقال لي طلقها ، فَأَبَيْتُ ، فأتى عُمَرُ اِلنَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فذكر ذلك له فَقَالَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم: طَلِّقْهَا.
( سنن ابوداؤد :5138، الأدب – سنن الترمذي :1189، الطلاق – أحمد :2/20 )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی جس سے میں محبت کرتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ [ میرے والد ] ، اسے ناپسند کرتے تھے ، چنانچہ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اسے طلاق دے دو ، لیکن میں نے انکار کیا ، پس عمر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اس معاملہ کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ مجھے حکم دیا کہ ]اسے طلاق دے دو ، ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ آپ نےکہا” باپ کی اطاعت کرو” ] ۔
{ سنن ابو داود ، سنن الترمذی ، مسند احمد } ۔
تشریح : یہ عام دستور ہے کہ جب بھی کسی انسانی جوڑے کے یہاں کوئی نرینہ اولاد پیدا ہوتی ہے تو پورے گھر و گھرانہ پر خوشیوں کا ماحول چھا جاتا ہے ، شیرینیاں تقسیم ہوتی ہیں ، دعوتیں کی جاتی ہیں اور ہر طرف سے مبارک بادی کے پیغام سنائی دیتے ہیں ، ماں باپ بچے کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور بہت سے لوگ تو بچوں کے لئے بچیوں کے حقوق بھی مارنے سے گریز نہیں کرتے ، بچے کے بڑے ہونے کے بعد ہر ماں باپ کی سب سب سے اہم خواہش اور سب سے پہلی کوشش رہتی ہے کہ اس کی شادی ہوجائے جس کے لئے والدین عمومی طور پر اپنی پسند کی لڑکی ڈھونڈتے اور اپنی رائے سے بہو کا انتخاب کرتے ہیں ، پھر جب کوئی لڑکی بہو بن کر نئے مہمان کی صورت میں اس گھر میں وارد ہوتی ہے تو سب سے زیادہ خوشی ماں باپ کو ہوتی ہے ، لیکن یہ عجیب المیہ ہے کہ کہ ابھی بہو کے گھر میں آئے ہوئے چند ہی دن گزرتے ہیں اور ماں جب یہ دیکھتی ہے کہ اس کا لڑکا اور لخت جگر اپنی بیوی سے محبت کرتا اور اس میں رغبت رکھتا ہے جو شادی کا مقصد عظیم ہے ، ماں کے دل میں غیرت کی چنگاری سلگنا شروع ہوجاتی ہے ، پھر اگر اس چنگاری کو ایمان کے پانی سے بجھایا نہ جائے اور عقل کی راکھ تلے دبانہ دیا جائے تو بیٹا جس قدر اپنی بیوی سے قریب ہوتا اور اس سے محبت کرتا جاتا ہے یہ چنگاری آگ اور شعلہ میں بدلتی جاتی ہے ، بعد میں عداوت ، بغض اور نفرت کی شکل اختیار کرلیتی ہے ، حتی کہ بعض ماں باپ اس حد تک آگے بڑھ جاتے ہیں کہ بیٹے پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، پھر اپنا یہ حکم منوانے کے لئے اپنے حق طاعت کا سہارا لیتے اور اپنے مقام و مرتبے کی دہائی دیتے ہیں ، بلکہ معاملہ اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ بعض ماں باپ بیٹے سے قطع تعلق کرلینے اور گھر سے نکل جانے کی دھمکی دیتے ، بلکہ گھر سے نکل جاتے ہیں ، اب ایسے موقعہ پر اللہ کا خوف رکھنے والا ، معاشرے میں اپنی عزت کا پاس و لحاظ رکھنے والا اور اپنی بیوی و بچے کی حقوق کی پاسداری کرنے والا مسلمان حیرت و پریشانی کی زندگی بسر کرتا ہے ،
بہت سے ماں باپ اس سلسلے میں زیر بحث حدیث کا سہارا لیتے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ واقعہ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں ، لیکن اس حدیث کا صحیح محمل کیا ہے ، اہل علم نے اس حدیث کو اپنے عموم پر رکھا ہے یا خاص حالات پر محمول کیا ہے ، بغیر اس کے سامنےرکھے کوئی فیصلہ مشکل ہے ، اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کوئی ماں باپ اپنے بیٹے کو مجبور کرے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس کی چند صورتیں ہیں :
[۱] بیوی میں کوئی شرعی عیب پایا جارہا ہے مثال کے طور پر بیوی بد چلن ہے جس سے نہ صرف خاندان کی بدنامی بلکہ خود بیٹے کے دین کو خطرہ لاحق ہے تو ایسی صورت میں شوہر پر واجب ہے کہ والدین کی اطاعت کرے ۔
[۲] بیوی میں کوئی عیب تو نہیں ہے ، البتہ شوہر اس کی محبت میں پڑ کر یا اس کے لاڈ پیار میں مشغول ہو کر اپنے دیگر دینی و دنیاوی واجبات و فرائض میں کوتاہی کررہا ہے تو ایسی صورت میں بھی والدین کی اطاعت واجب ہے ۔
[۳] بیوی میں کوئی عیب نہیں ہے ، البتہ لڑکا اس کے ساتھ رہنے کی وجہ سے بہت سے مستحبات اور وہ دینی امور جو غیر ضروری ہیں ان میں کوتاہی کررہا ہے ،اور اس کی وجہ سے والدین لڑکے سے طلاق کا مطالبہ کرتے ہیں تو اگر طلاق کی وجہ سے میاں بیوی کو کوئی ضرر نہیں لاحق ہو رہا ہے جیسے بچوں کی تربیت کا معاملہ یا شوہر کا حرام کاری میں پڑنے کا خطرہ یا لڑکی کی دوبارہ شادی کا مسئلہ کہ ایک بار تو اس کے والدین لاکھوں خرچ کرکے اس کی شادی کی ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔ ایسی صورت حال نہ ہو تو بیٹے کو والدین کی اطاعت کرنی چاہئے ۔
[۴] اگر بیوی میں کوئی عیب نہیں ہے ، صرف یہ کہ ماں کو بلا وجہ کی غیرت ہے ، یا بیوی کی وجہ سے لڑکا دیندار بن گیا ہے ، اس سے زنانہ اولاد پیدا ہوتی ہے ، تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ یہ کہ اگر والد یا والدہ بیٹے کو طلاق دینے کا حکم دیتے ہیں تو دیکھا جائے کہ وجہ کیا ہے ؟ اگر کوئی صحیح اور معقول شرعی وجہ ہو تو والدین کی اطاعت بچے پر لازم ہوگی ورنہ نہیں ، اور یہی محمل ہے زیر بحث حدیث کا کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان و تقوی سے یہ بعید ہے کہ بغیر شرعی وجہ کے اپنے بیٹے کو طلاق کا حکم دیں ۔ حضرت احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ میرے والد مجھے حکم دے رہے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں ؟امام احمد بن حنبل نے جواب دیا کہ طلاق نہ دو ، اس نے کہا : کیا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو طلاق دینے کا حکم دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : باپ کی اطاعت میں اپنی بیوی کو طلاق دے دو ؟ امام موصوف نے جواب میں فرمایا : کیا تمہارا باپ حضرت عمر کی طرح ہے ؟ ۔
فوائد :
۱- طلاق و نکاح میں والدین کی مطلق اطاعت نہیں ہے ۔
۲- والدین کے حکم میں بیوی کو طلاق نہ دینا ان کے ساتھ حسن سلوک کے خلاف نہیں ہے ۔
۳- بیوی کے خلاف والدین کی ہر بات کو سننا و ماننا حسن معاشرت کے خلاف ہے ۔
۴- عادات و تقالید سے مجبور ہو کر ایک باپ لاکھوں خرچ کرکے اپنی بیٹی کی شادی کرتا ہے ، اب محض بغیر کسی معقول وجہ سے صرف والدین کے کہنے پر اسے طلاق دے دینا صریح ظلم ہے ۔
ختم شدہ