بسم اللہ الرحمن الرحیم
عاشوراء کے روزے کی فضیلت
از قلم : ابو عدنان محمد طیب السلفی
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ اجمعین۔ امابعد ۔
محترم مسلمان بھائیو!
یوم عاشوراء کی بڑی فضیلت ہے، اور اس کی حرمت ایک پرانی چیز ہے، اور اس دن کے روزے کی فضیلت حضرات انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے درمیان معروف ومشہور تھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ “ جو شخص اللہ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا اللہ تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال تک دور رکھے گا”
( بخاری ومسلم)
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ “ رمضان شریف کے روزوں کے بعد حرمت والے مہینہ محرم کاروزہ تمام (نفلی) روزوں سے افضل ہے ”
( سنن ترمذی، اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے محرم کے نفلی طور پر کسی بھی پورے مہینے کاروزہ رکھنا مستحب نہیں قرار دیا۔
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ عاشوراء کے روزے سے متعلق میں اللہ سے یہ امید کرتا ہوں کہ وہ سال گزشتہ کے گناہوں کاکفار ہے”
( صحیح مسلم )
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ “میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یوم عاشوراء کے دن سے بڑھ کر کسی اور دن کے روزے کو فضیلت دیتے ہوئے نہیں دیکھا، اور نہ ہی ماہ رمضان سے بڑھ کر کسی اور مہینے کو فضیلت دیتے ہوئے”
(صحیح بخاری)
عاشوراء کا روزہ پہلے واجب تھا لیکن ماہ رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد اس کی حیثیت سنت کی رہ گئ ۔ (علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کو اپنے فتاوی میں راجح قرار دیا ہے ۔
دیکھئے ( فتاوی ابن تیمیہ ج۲۵/ ۳۱۱)
جیساکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت نقل کی ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یوم عاشوراء کے روزے کا حکم دیا ، لیکن جب رمضان کاروزہ فرض ہوا تو آپ نے فرمایا اب جس کاجی چاہے اس دن کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے ” ( صحیح بخاری)
رہ گئ بات عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کی حکمت سے متعلق تو اس کی حکمت کو عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث اجاگر کرتی ہے، جو بخاری شریف میں یوں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے، تو یہودیوں کو یوم عاشوراء( محرم کی دسویں تاریخ) کاروزہ رکھتے ہوئے دیکھا، دریافت کرنے سے معلوم ہوا یہ وہ مبارک دن ہے جس میں اللہ تبارک وتعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دی تھی تو اس کے (شکریہ) میں حضرت موسی علیہ الصلاۃو السلام نے یہ روزہ رکھاتھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حضرت موسی کی اتباع کا میں تم سے زیادہ حقدار ہوں، چنانچہ آپ نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
( صحیح بخاری)
اور بہتر یہ ہے کہ یہود کی مخالفت کرتے ہوئے محرم کی دسویں تاریخ کے ساتھ نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھاجائے جیسا کہ صحیح مسلم شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کاروزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا، توصحابہ کرام نے کہا اے اللہ کے رسول یہ وہ دن ہے جس کو یہود ونصاری بڑا عظیم دن تصور کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ ان شاء اللہ آئندہ سال (ہم دسویں تاریخ کے ساتھ) نویں تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے”
( صحیح مسلم)
اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے“ کہ اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو ضرور بالضرور نویں تاریخ کا روزہ رکھوں گا ” اس طرح یہود کی مخالفت ہوجاتی ہے کہ اس دن کو عید کادن نہ سمجھتے ہوئے صرف روزہ رکھنے ہی پر اکتفا کیا جائے، اس لئے کہ یہود اس دن عید مناتے ہیں، جسے وہ عید الفصح ( نجات وخلاصی کی عید) کے نام سے موسوم کرتے ہیں ، جو ان کی نظروں میں تمام عیدوں سے اہم عید ہے۔
عہد نبوی میں بچے بھی یوم عاشوراء کے دن روزہ رکھتے تھے جیساکہ صحیح بخاری میں حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے“ وہ کہتی ہیں ہم خود بھی عاشوراء کے دن کا روزہ رکھتے تھے اور اپنے بچوں کو بھی رکھاتے، اور ان کے لئے اون کا ایک کھلونا بنادیتے، جب کوئ بھی کھانے کے لئے ضد کرتا توہم اس کو یہ کھلونا دے دیتے (جس سے وہ بہل جاتا) یہاں تک کہ افطار کاوقت آپہنچتا”
( صحیح بخاری)
اور ہمارے لئے یہ بات بھی مشروع قراردی گئ ہے کہ دسویں محرم سے ایک دن پہلے یاایک دن بعد روزہ رکھیں، لیکن دسویں کے ساتھ نویں تاریخ کا روزہ رکھنا افضل ہے، اور اگر کوئ دسویں کے ساتھ نویں اور گیارہویں کا بھی روزہ رکھ لے تو کوئ مضائقہ نہیں۔
اس سلسلہ میں وارد شدہ بعض روایات واحادیث کے پیش نظر جو یوں ہیں “دسویں محرم سے ایک دن پہلے یاایک دن روزہ رکھو” لیکن صرف دسویں محرم کاروزہ رکھنا مکروہ ہے۔
(فتاوی لسماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ)
شیخ عبد اللہ بن جبرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس دن شیعہ حضرات کا ماتم ونوحہ کرنا، منہ نوچنا، گریبان چاک کرنا ایک قبیح بدعت ہے ، جس کی کوئ اصلیت وحقیقت سنت مطہرہ میں نہیں ہے۔
اس لئے آپ خود بھی ان دنوں کاروزہ رکھیں اور اپنے بیوی بچوں اور گھروالوں کوبھی روزہ رکھنے کی ترغیب دیں، اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں طاعات پر چلنے اور منکرات وبدعات سے بچنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین۔
انہ ولی ذلک والقادرعلیہ وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد
پیشکش:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
ختم شدہ