1- فجر کے وقت کي قسم، اور (ذي الحجہ کي ابتدائي) دس راتوں کي قسم، اور ہر جوڑے اور فرد مخلوق کي قسم، اور رات کي قسم جب وہ گزر رہي ہوتي ہے۔ {الفجر}.
اکثر مفسرين کے نزديک آيت ميں دس راتوں سے مراد ذو الحجہ کي ابتدائي دس راتيں ہيں۔
2- مذکورہ آيت کے سياق و سباق ميں اللہ تعالي نے اور بھي چيزوں کي قسم کھائي ہے، جو خود بھي عظيم الشان اہميت کي حامل ہيں، جن سے ان دس راتوں کي اہميت و عظمت کو اور چار چاند لگ جاتے ہيں۔
3- اسي عشرہ ميں اللہ تعالي نے اپنے دين کي تکميل فرمائي۔ چند يہوديوں نے کہا کہ اگر يہ آيت ہمارے يہاں نازل ہوئي ہوتي تو ہم اس دن عيد منايا کرتے۔ حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے فرمايا: کون سي آيت؟ انہوں نے کہا: “آج ميں نے تم پر اپنے دين کو کامل کيا اور اپني نعمت تم پر پوري کردي”، اس پر عمر رضي اللہ عنہ نے فرمايا کہ مجھے خوب معلوم ہے کہ يہ آيت کہاں نازل ہوئي تھي۔ جب يہ آيت نازل ہوئي تو ميدان عرفات ميں کھڑے ہوئے تھے۔ (يعني حجۃ الوداع ميں)۔ [بخاري 4407]۔
4- ان دس دنوں ميں اسلام کے تمام ارکان جمع ہوتے ہيں ايسا کسي اور موقعہ پر نہيں ہوتا۔
5- ان دنوں کے اعمال اللہ کو بہت ہي زيادہ پسنديدہ ہيں بہ نسبت دوسرے دنوں کے اعمال کے ۔ حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ تعالي کو کوئي نيک عمل کسي دن ميں اس قدر زيادہ پسند نہيں ہے جتنا کہ ان دنوں ميں پسنديدہ اور محبوب ہوتا ہے، يعني ذو الحجہ کے پہلے عشرہ ميں، صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کيا جہاد في سبيل اللہ بھي نہيں؟ آپ نے فرمايا: نہيں، جہاد في سبيل اللہ بھي نہيں، مگر جو کوئي شخص اپني جان و مال لے کر نکلا ہو اور پھر کچھ واپس نہ لايا ہو۔ {أبوداود 2438 والترمذي 757 } بخاري [969] ميں افضل کا ذکر ہے۔
حضرت جابر رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: دنيا کے دنوں ميں سب سے افضل ذي الحجہ کے پہلے دس دن ہيں، پوچھا گيا کہ اللہ کے راستے ميں لگانا بھي ان کے برابر نہيں؟ آپ نے فرمايا: اللہ کي راہ ميں لگانا بھي ان کے برابر نہيں، مگر وہ آدمي جو اپني چہرہ مٹي ميں آلودہ کردے۔ {صحيح لغيره في الترغيب 1150}
حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہما سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ کے نزديک عشرہ ذي الحجہ سے بڑھ کر زيادہ عظيم (عظمت والے) دن اور عمل کے اعتبار سے بھي ان سے بڑھ کر پسنديدہ دن کوئي اور نہيں ہيں، چنانچہ ان ميں تہليل (لا الہ الا اللہ) و تکبير (اللہ اکبر)اور تحميد (الحمد للہ)کيا کرو۔ {مسند أحمد 6154 ، 10/296 حديث صحيح}
حضرت ابن عباس رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اللہ کے نزديک سب سے زيادہ پاکيزہ اور اجر کے اعتبار سے سب سے زيادہ عظيم وہ عمل خير ہے جو عشرہ ذي الحجہ ميں کيا جائے۔ [ دارمي 1815، صحيح الترغيب 1248]۔
6- انہي ميں سے ايک دن عرفہ کا بھي دن ہے۔ سورہ بروج ميں(وَِمَشْهُود)سے مراد عرفہ کا دن ہے۔حاجيوں کے لئے وہ دن حج کي روح ہے، اس کے بغير حج ہي نہيں۔ {الترمذي 889}
‚اس دن اللہ تعالي جس قدر لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے کسي اور دن نہيں کرتا اور اس دن قريب ہوتا ہے (جيسے اس کي شان کے لائق ہے) پھر فرشتوں کے سامنے ان پر فخر کرتا ہے۔ [مسلم 1348]۔
اللہ اہل عرفات کو بخش ديتا ہے، چاہے ان کے گناہ ريت کے ذرات، يا بارش کے قطروں يا سمند کے جھاگ کے برابر ہوں، اور ان کو بھي بخش ديتا ہے جن کے لئے انہوں نے دعا کي۔ [صحيح الترغيب 1112]
„ سب سے بہتر دعا يوم عرفہ کي دعا ہے۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ {الترمذي 3585}
7- جو حج نہيں کر رہے ہيں وہ لوگ عرفہ کا دن روزہ رکھيں گے ، جس کے بدلے ميں ان کے دو سال کے گناہ مٹادئيے جائيں گے۔ [مسلم 1162]۔
8- عشرہ ذي الحجہ کا آخري دن يوم النحر ہے جس کے بارے ميں اللہ کے رسول صلي اللہ عليہ وسلم کا ارشاد ہے: بے شک اللہ تبارک و تعالي کے نزديک سب سے عظيم دن يوم النحر (دس تاريخ قربانيوں والا دن) ہے، پھر اس کے بعد والا دن۔ {أبوداود 1765}
اعمال عشرہ ذي الحجہ 1- تجديد ايمان۔ 2- نماز کي پابندي۔ 3- زکاۃ و صدقات۔ 4- صوم۔ 5- حج و عمرہ۔ 6- قرباني۔ 7- عيد کے لئے جانا حتي کہ عورتيں بھي۔ 8- قرباني کرنے والا اپنے بال ناخن نہ کاٹے۔ 9- ذکر الہي۔ 10-عيد کا چاند ديکھنے سے ليکر 13کي شام تک تکبير کہنا۔ 11- ہر طرح کي برائي سے دوررہنا؛ خصوصا شرک، بے نمازي پن اور قطع رحمي۔ 12- بکثرت توبہ و استغفار کرنا۔ 13- قرآن کريم کي تلاوت بہت زيادہ کرتے رہنا ۔
ختم شدہ
{ناشر:مکتب توعيۃ الجاليات الغاط: www.islamidawah.com }