بسم اللہ الرحمن الرحیم
عشرہ ذی الحجہ کے احکام وآداب
سوال وجواب
قسط نمبر :2/2
جمع وترتیب
ریاض الدین جمال الدین
مترجم: مکتب دعوة بالدوادمی
{پیشکش :مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
پچھلی قسط کے آخری سطور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ صحیح ہے۔(شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ/٤٢٠)
سوال٢٦:کیا یہ جائز ہے کہ قربانی کا ثواب فوت شدہ کو ہدیہ کردیا جائے؟
جواب: جب کوئی انسان اپنے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے اور یہ نیت کرے کہ اس کا اجروثواب اس کے اور اس کے زندہ ومردہ اہل خانہ کے لیے ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ (شیخ عثیمین رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ /٤٢٢)
سوال٢٧:کیا ایک جانور سارے گھر والوںکی طرف سے کافی ہے؟
جواب: ایک جانورکی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے۔ چاہے اس کنبہ میں بہت زیادہ افراد رہتے ہوں۔ اس لیے کہ آپ ۖ نے ذبح کرتے ہوئے دعا فرمائی:”باسم اللہ اللہم تقبل من محمد وآل محمد ومن امة محمد”(صحیح مسلم/١٩٦٧)
”اللہ کے نام سے ،اے اللہ! تو اسے محمد اور آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما”۔
سوال٢٨: اگر کوئی شخص قربانی کا جانور بغیر بسم اللہ کے ذبح کردے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر قربانی کرنے والا جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس کی قربانی ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ۔
سوال٢٩:جانور کو ذبح کرتے وقت اس کا رخ کدھر ہونا چاہیے اورکون سی دعا پڑھنی مسنون ہے؟
جواب: ذبح کرتے وقت جانور کو قبلہ رخ کرلینا چاہیے اور یہ دعا پڑھنا ثابت ہے:
”باسم اللہ اللہم تقبل من فلان وآل فلان ”(صحیح مسلم/١٩٦٧)
نوٹ: فلاں کی جگہ پر قربانی کرنے والا اپنا نام لے۔
سوال٣٠:قربانی خود کرنا ضروری ہے یا کسی کو اپنا نائب بنا یا جاسکتا ہے؟
جواب: مستحب یہ ہے کہ قربانی کرنے والا اپنا جانور خودذبح کرے اگرخود نہ کرنا چاہتا ہو تو پاس کھڑا ہوجائے اور دوسرے کو اپنا نائب بنا دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔آپ ۖ نے تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے ذبح فرمائے اور باقی ماندہ اونٹ کو ذبح کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنایا۔(صحیح مسلم/١٢١٨)
سوال٣١:کیا قربانی کا جانورعورت ذبح کرسکتی ہے؟
جواب: ہاں عورت کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ بوقت ضرورت قربانی یا دوسرے جانور ذبح کرسکتی ہے بشرطیکہ کہ ذبح کرنے کی دیگر شرائط موجود ہوں۔ (شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ/٤٢٢)
سوال٣٢:کیا قربانی کرنے والے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قربانی کے گوشت سے کھانے کا آغاز کرے؟
جواب: جس نے قربانی کرنی ہو اس کے لیے مستحب ہے کہ کچھ نہ کھائے حتی کہ عید کی نماز پڑھ لے اور پھر اپنی قربانی کے جانور ذبح کرے۔ اور اگر آسانی سے ممکن ہو تو اس دن کے کھانے کا آغاز اپنی قربانی کے گوشت سے کرلے، کیونکہ نبی کریمۖ اپنی قربانی کا گوشت تناول فرمایا کرتے تھے ۔(فتویٰ کمیٹی،فتاویٰ اسلامیہ/٤٢٣)
سوال٣٣:کیا قربانی کے جانور کا پہلے کلیجہ کھانا سنت ہے؟
جواب: بعض علماء نے مستحب کہا ہے کہ پہلے کلیجہ کھائے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کلیجہ جلدی پکتا ہے اس کو زیادہ دیر تک پکانے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے تاخیر کرنے سے افضل ہے کہ کلیجہ کو پہلے کھالے۔ (الشرح الممتع ٧/٤٨٢)
سوال٣٤:قربانی کے گوشت کی تقسیم کی کیا شکل ہوگی؟
جواب: سلف صالحین کا طریقہ رہا ہے کہ قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ایک حصہ اپنے گھر والوں کے لیے اور دوسرا حصہ دوست احباب ،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے لیے ہدیہ کرتے۔ اور تیسرا حصہ فقیروں اور مسکینوں کو صدقہ وخیرات کرتے۔(الشرح الممتع ٧/٤٨١)
سوال٣٥:کیا قربانی کا گوشت امیروں اور فقیروں سب کے لیے جائز ہے؟
جواب: جائز ہے کیونکہ ہدی،قربانی اور ہدی تمتع وقران کا گوشت تمام حاجیوں کے لیے ہے خواہ وہ امیر ہوں یا فقیر، خصوصاً جب کہ گوشت کے خراب ہونے کا بھی اندیشہ ہو جیسا کہ آج کل قربانی کے بہت سے جانوروں کے گوشت کو پھینک دیا ،جلادیا یا دفن کردیا جاتا ہے اور ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے اور پھرارشاد ربانی ہے: ”فَکُلُوا مِنْہَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرّ” (الحج/٣٦) ”ان میںسے تم (خود) بھی کھائو اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والے کو بھی کھلائو”۔(شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ ،فتاویٰ اسلامیہ /٤٢٣)
سوال٣٦:کیا قربانی کے گوشت کو ہدیہ اور صدقہ دینا جائز ہے؟
جواب: جائز ہے اگر فقیر ہے توصدقہ دیا جائے گا اور اگر مالدار ہے توہدیہ دیا جائے گا۔
سوال٣٧:کیاکسی کافرکو قربانی کا گوشت تحفہ میں دینا جائز ہے؟
جواب: مستحب یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں۔ (١) قربانی کرنے والے کے لیے (٢) دوست واحباب کے لیے (٣) مسکینوں کے لیے، فقیر، قرابت داروں،پڑوس یا تالیف قلب کے لیے کافر کو بھی قربانی کا گوشت دینا جائز ہے۔ (فتاویٰ کمیٹی ،فتاویٰ اسلامیہ /٤٢٤)
سوال٣٨: قصائی کو قربانی کے گوشت سے مزدوری دی جاسکتی ہے یا نہیں؟
جواب: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے آپۖ نے حکم دیا کہ میں آپ کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور گوشت، چمڑے اور جھولیں خیرات کردوں اور قصائی کو ان میں کچھ نہ دوں اور فرمایا: ہم اسے اپنی طرف سے مزدوری دیں گے”۔ (صحیح بخاری /١٦٣١ وصحیح مسلم/١٣١٧)
شیخ عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے گوشت سے قصائی کو مزدوری دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر قصائی غریب اور مسکین ہو تو اس کو صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ اور اگر مالدار ہے تو ہدیہ دیاجاسکتا ہے۔(الشرح الممتع ٧/٤٧٣)
سوال٣٩:اگر قصاب بے نمازی ہے تو کیا اس سے قربانی کا بکرا ذبح کرایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: قرآن وسنت سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہے کہ بے نماز کافر ہے تو اگر بے نماز جانور ذبح کرے تو اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے، اس لیے کہ وہ حرام ہے۔ یہودی یاعیسائی کا ذبیحہ تو ہمارے لیے جائز ہے مگر بے نماز کا نہیں، اس لیے کہ بے نماز کا ذبیحہ یہودی وعیسائی کے ذبیحہ سے زیادہ شریعت میں ناپسندیدہ ہے۔ والعیاذ باللہ
سوال٤٠: اگر ایک سے زیادہ بکرا قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو کیا کرے؟
جواب: اگرکوئی شخص ایک سے زیادہ قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ کے راستے میں اپنی طاقت کے مطابق زیادہ سے زیادہ قربانی کرے۔
دلیل وتفصیل کے لیے سوال نمبر ١٤ ملاحظہ فرمائیں ۔
سوال٤١:جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور قرض لے کرقربانی کرے اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر کوئی شخص قربانی کی طاقت نہیں رکھتا ہے تو اسے قرض لے کر قربانی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً ِلاَّ وُسْعَہَا ” (البقرہ/٢٨٦) ”اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا”۔
سوال٤٢:کیا آپۖ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کی ہے؟
جواب: جو شخص قربانی کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اسے اس بنیاد پر قربانی کرنے کا ثواب ملے گا کہ رسول اللہۖ نے اپنی امت کی طرف سے قربانی کردی تھی۔ جیسا کہ آپۖ نے ایک مینڈھا ذبح کرتے وقت فرمایا:”بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہ اَکْبَر ہَذَا عَنِّی وَعَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ أُمَّتِیْ”۔ (صحیح ابودائود/٢٤٣٦)” اے اللہ! یہ میری اور میری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے، جنہوں نے (عدم استطاعت کی بنیاد پر) قربانی نہیں کی”۔
ذبح کرنے کی ایک دوسری دعا سوال نمبر ٢٧ میں گذر چکی ہے۔
سوال٤٣: کیا قربانی کے کھال کو دباغت دے کر اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرسکتا ہے؟
جواب: قربانی کے کھال کو دباغت دے کر اپنی ضرورت کے لیے استعمال کرنا جائز ہے ، البتہ کارِ خیر میں لگادے تو بہتر ہے۔ لیکن اس کو کسی چیز کے بدلے خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔ (الشرح الممتع ٧/٤٧٥)
سوال٤٤: کیا قربانی کے کھال کومدرسہ وغیرہ میں دے سکتے ہیں؟
جواب: دے سکتا ہے کیونکہ یہ بھی کارِ خیر ہے بشرطیکہ مدرسہ توحیدی عقائد پر قائم ہو شرک کی فیکٹری نہ ہو۔
سوال٤٥:کیا قربانی کے جانور کی کسی چیز کو فروخت کرنا جائز ہے؟
جواب: قربانی کے جانور کی کسی چیز کو فروخت کرنا جائز نہیں ۔مثلاً گوشت،چربی،کھال وغیرہ اور یہ ایسامال ہے جو اللہ کے تعالیٰ کے لیے نکال دیا گیا ہے۔حتی کہ اس کی رسی کو بھی صدقہ کردیں۔
سوال٤٦: کیا قربانی کے جانور کے اون یا بال وغیرہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب: جائز نہیں ۔اِلّا یہ کہ جانور پر اون یابال زیادہ ہوں جس سے اس کو تکلیف پہنچ رہی ہو اوربال کاٹنا اس کے لیے باعث راحت وسکون ہوں، دوسری شکل یہ ہوسکتی ہے کہ جانور کو زخم لگ گیا اور زخم اس وقت تک صحیح نہیں ہوتا جب تک کہ اس کو ہوا نہ لگے لہذا طبی ضرورت کے تحت اس کے بال یا اون کاٹنا صحیح ہوگا۔ (الشرح الممتع٧/٤٧١)
سوال٤٧:جانور ذبح کرتے وقت کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
جواب: جانور کو ذبح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل آداب کا خیال رکھا جائے:
(١) جانور کے سامنے چھری تیز نہ کی جائے (٢) ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح نہ کیاجائے (٣) جانور کو ذبح کی جگہ پر گھسیٹ کر بے رحمی اور سنگدلی سے نہ لے جایا جائے(٤) ذبح کرنے والے پر ہر وہ کام حرام ہے جس سے جانور کو اس کی جان نکلنے سے پہلے تکلیف پہنچے۔
ختم شدہ
{پیشکش :مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }