بسم الله الرحمن الرحيم
خلاصہ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 13/ رمضان المبارک 1429ھ13 /ستمبر 2008م
علما ء کے حقوق
عن عبادة بن الصامت رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ليس من أمتي من لم يجل كبيرنا ويرحم صغيرنا ويعرف لعالمنا .
( مسند أحمد ، ج : 5 ، ص : 323 / مستدرك الحاكم ، ج : 1 ، ص : 122 )
ترجمہ : حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری امت سے اس شخص کا تعلق نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہیں کرتا ، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے عالم { کے حق } کو نہیں پہچاننا ۔
تشریح : اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتاہے :
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ( سورة المجادلة : 11 )
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے خدا ان کے درجے بلند کرے گا۔
یعنی اہل ایمان کے درجے غیر اہل ایمان پر اور اہل علم کے درجے اہل ایمان پر بلند کئے گئے ہیں جسکا مطلب ہے ایمان کےساتھ دینی علم سے واقفیت مزید درجات کی بلندی کا سبب ہے ، ایسا کیوں نہ ہو ؟ اسلئے کہ اہل علم نبیوں کے وارث ہیں ، نبیوں کے علم کے حامل ہوتے ہیں ، اگر وہ نہ ہوں تو لوگ فرائض کی ادائیگی نہ کرسکیں ، حرام کاموں سے نہ بچ سکیں اور اللہ تعالی کی صحیح عبادت نہ ہوسکے ، اسی لئے اللہ تعالی نے انکے مقام کو بلند کیا ہے ، اور انکے کچھ حقوق رکھے ہیں ، اگر کوئی شخص ان حقوق کو ادا نہیں کرتا ہے تو اسے یہ دھمکی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح راستہ سے بھٹکا ہوا ہے ۔
عالموں کے حقوق :
[ 1 ] محبت و موالات : انسان کے ایمان کا جزء اور اسکا مضبوط کڑا اللہ کیلئے محبت اور اسی کیلئے دشمنی ہے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ان اوثق عری الایمان ، ان تحب فی اللہ و تبغض فی اللہ ۔
[ مسند احمد ، ج : 4، ص: 286 ، بروایت براء بن عازب ]
دین کا مضبوط دستہ اللہ تعالی کیلئے محبت اور اسی کیلئے دشمنی رکھتا ہے ۔
ظاہر ہیکہ اس حدیث اور اس قسم کی حدیثوں کےسب سے زیادہ مستحق علمائے ربانی ہیں ۔
[ 2 ] احترام و تعظیم : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ : سفید ریش ، بزرگ مسلمان کے ، حامل قرآن { حافظ ، قاری و عالم } کی جو نہ قرآن کے بارے میں حد سے تجاوز کرنے والا ہو اور نہ اس سے اعراض و بے وفائی کرنے والا ہو اور منصف بادشاہ کی عزت کرنا اللہ تعالی کی عزت کرنے کے ہم معنی ہے
{ سنن ابو داود بروایت ، ابو موسی }
[ 3 ] اطاعت و سوال : اہل علم کا ایک اہم حق یہ ہیکہ یہ جو دین کی باتیں وہ دلیل سے بتلائیں اس پر انکی اطاعت کی جائے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنكُمْ ( النساء : 59 )
مومنو! خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحب حکومت ہیں
اس آیت میں اولو الامر سے مراد علماء اور حکام ہیں ۔
ایک اور آیت میں ہے :
فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (سورة الأنبياء : 59 )
اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو
[ 4 ] تائید و مدد : دین کی بات لوگوں تک پہنچانے میں اہل علم کی مدد عام لوگوں پر انکا ایک حق ہے :
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ( سورة المائدة : 2 )
نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو
دین کی تبلیغ اور کلام الہی و کلام رسول لوگوں تک پہنچانے سے بڑی نیکی اور کیا ہوسکتی ہے ۔
[ 5 ] لغزشوں سے چشم پوشی : اگر اہل علم کے عیوب کو برملا بیان کیا گیا تو اس سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے گا اور یہ اعتماد نہ صرف اہل علم سے اٹھے گا بلکہ علم دین سے بھی اٹھ جائے گا ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سرکردہ لوگوں کی حدود کے علاوہ غلطیوں سے تجاوز کرو
{ احمد ، ابو داود بروایت عائشہ }
[ 6 ] دعاء و استغفار : وَالَّذِينَ جَاؤُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( سورة الحشر : 10 )
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے
ختم شده