بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :76
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 24 / 25 ربیع الثانی 1430ھ، م 21/20اپریل 2009
غصہ کے اسباب
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : جاء رجل فقال : يا رسول الله أوصني فقال : لا تغضب ، ثم ردد مرارا فقال : لا تغضب .
( صحيح البخاري : 6116 ، الأدب ، سنن الترمذي : 2020 ، البر ، مسند أحمد : 2/362 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوا ، اور عرض پرداز ہوا کہ آپ مجھے کوئی وصیت کردیجئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غصہ نہ کرو ، پھر اس نے کئی بار یہی سوال کیا اور ہر بار یہی جواب دیتے رہے : تم غصہ نہ کرو ۔
تشریح : حد قصاص سے متعلق ایک عجیب و غریب واقعہ زبان زد خاص و عام رہا کہ ایک دوکاندار اور ایک خریدار کا صرف ایک ریال کے بارے میں اختلاف ہوا یہاں تک کہ خریدار نے اپنے بغل میں پڑے ایک لوہے سے دوکاندار کے سر میں مارا جس کے نتیجے میں اس کی وفات ہوگئی اور جب معاملہ شرعی کورٹ میں گیا تو قاضی نے بطور قصاص قاتل کے قتل کا فیصلہ سنایا اور یہ سزا سرے عام نافذ بھی کردی گئی ۔
اس کا سبب ایک ریال نہیں ہے جیساکہ لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ اس کا سبب عام لوگوں میں پائی جانے والی ایک خطرناک بیماری ہے جو لوگوں کو ان کی اصل حالت ، سوچ اور عقل سے دور کردیتی ہے جس کا نتیجہ بیویوں کے طلاق ، بچوں کی جدائی دوستوں میں لڑائی اور بھائی و رشتہ داروں میں اختلاف کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ، وہ ہے غصہ آنے کی بیماری ، جس کاذکر زیر بحث حدیث میں ہوا ہے ۔
غصہ وہ چیز ہے جس سے انسان کے اندر سخت ھیجان پیدا ہوتا ہے ، چہرہ سرخ ہوجاتا ہے ، دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے ، نبض کی رفتار تیز ہوجاتی ہے ، سانس چڑھنے لگتی ہے حتی کہ ایک سنجیدہ و خوبصورت انسان خوفناک اور وحشت ناک شکل اختیار کرلیتا ہے غصہ ، کبر و خود بینی اور ظلم و تعدی سے مرتبط ہوتا ہے اسی لئے وہ ہلاکت و بربادی کا سبب بن جاتا ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے جہاں اپنے مومن ومخلص بندوں کی متعدد صفات بیان کی ہے وہیں ان کی یہ صفات بھی بیان کی ہے کہ "الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (134) ” یعنی وہ اپنے غصے کو پی جاتے اور روک لیتے ہیں اور قدرت کے باوجود حلم سے کام لے کر عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پہلوان وہ نہیں جو اپنے مد مقابل کو پچھاڑ دے بلکہ حقیقی پہلوان وہ ہے کہ جب اسے غصہ آئے تو اپنے آپ پر قابو پالے ۔
[ صحیح بخاری و مسلم ، بروایت : ابو ہریرہ ]
زیر بحث حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کرنے سے منع فرمایا ہے حالانکہ غصہ کا آنا انسان کی فطرت میں ہے جس پر کسی فرد و بشر کو اختیار نہیں ہے بلکہ اصل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
اس حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک مومن بندے کو اولا ان امور سے پرہیز کرنا چاہئے جو غصہ کا سبب بنتے ہیں اور ثانیا جب غصہ آجائے تو اسے حتی الامکان دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم پہلے ان اسباب کو پہچانیں جو غصہ کا سبب بنتے ہیں ، اور اگر بتقضائے بشریت غصہ آجائے تو دوسرے نمبر پر یہ دیکھیں کہ اس کا علاج کیا ہے ؟ آج کے درس میں غصہ کے اسباب کا ذکر ہوتا اور غصہ کا علاج آئندہ درس کا حصہ رہے گا ، ان شاء اللہ ۔
**** غصہ کے اسباب : ****
- خود بینی وفخر و غرور :جب آدمی سامنے والے کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے تو فطری طور پر اس کے نقد اور جواب پر غصہ ہوتا ہے جیساکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے غصہ کے اسباب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ غصہ کا سبب باعزت بننا ، حمیت ، تکبراور بڑا پن ہے ۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ جب کوئی بیٹا اپنے باپ پر ، خادم اپنے آقا پر ، شاگرد اپنے استاذ پر اور عامی کسی عالم پر معترض ہوتا ہے تو مذکورہ حضرات فورا غصہ میں آجاتے ہیں ، جس کے پیچھے صرف خود بینی اور بڑے پن کا جذبہ کام کرتا ہوتا ہے ، اسی لئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بینی و کبر کو حرام قرار دیا ہے ، لہذا ہر شخص کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔
- بحث وجدال : عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مجلس میں گفتگو کی ابتدا بالکل سنجیدہ ماحول میں ہوتی ہے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آواز بلند ہونی شروع ہوتی ہے ، ہر فریق اپنی رائے پر اڑ جاتا ہے اور سنجیدگی کی جگہ غصہ کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے بحث سے منع فرمایا ہے ، ارشاد نبوی ہے : میں جنت کے اطراف میں اس شخص کے لئے ایک گھر کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود بحث و مباحثہ کو ترک کردیتا ہے ۔ [ سنن ابو داود ، بروایت ابو امامہ ]
- کثرت مذاق : بہت سے لوگ مذاق اور خصوصا کثرت مذاق کے متحمل نہیں ہوتے ، اس لئے ان سے مذاق کرنا یا بار بار مذاق کرنا غصہ کا سبب بنتا ہے ، درج ذیل حدیث میں اسی مذاق سے روکا گیا ہے کہ اپنے بھائی سے نہ لڑائی کرو ، نہ مذاق کرواور نہ ہی وعدہ کرکے وعدہ خلافی کرو ۔ [ سنن ابوداود ، بروایت ابن عباس ] ۔ سچ فرمایا : حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے کہ کثرت مذاق سے پرہیز کرو کیونکہ وہ برے فعل کی طرف لے جاتا ہے اور کینہ و غصہ کا سبب بنتا ہے ۔ [ مصنف ابن ابی شیبہ ] ۔ اسی ضمن میں مذاق اڑانا بھی آتا ہے بلکہ بہت سے لوگوں کے غصہ میں آنے اور بہت سے ساتھیوں کے درمیان اختلاف کا سبب ان کا مذاق اڑانا ہی ہوتا ہے ۔
- بدزبانی و گالی گلوج : بات بات پر گالی دینا ، ہر ایک کے ساتھ بد زبانی سے پیش آنا غصہ کا بہت بڑا سبب ہے ، بلکہ اگر کوئی شخص کسی کو مذاق میں بھی بے وقوف کہتا ہے تو سننے والا شخص غصہ میں آجاتا ہے ، سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے : فحش گوئی ، فحش کلامی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور سبب سے اچھا مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہیں ۔ [ مسند احمد ] ۔
ختم شدہ