بسم الله الرحمن الرحيم
حديث نمبر :64
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 14 / 15 صفر 1430ھ م 10/09فروری 2009
قدرتی اصول
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من سره أن يستجيب الله له عند الشدائد والكرب فليكثر الدعاء في الرخاء .
( سنن الترمذي : 3382، الدعوات / مستدرك الحاكم :1/544/ مسند أبويعلى :11/283 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ مشکل و پریشانی کے اوقات میں اللہ تعالی اس کی دعا قبول کرے تو اسے چاہئے کہ صحت و عافیت کے وقت میں کثرت سے دعا کرے ۔
تشریح : حضرت یونس علیہ السلام جب اپنی قوم سے ناراض ہو کر بغیر اذنِ الہی اپنے شہر نینوا سے ساحل سمندر کی طرف بھاگے تو وہاں سے رخصت ہونے اور سفر کے لئے تیار ایک کشتی ملی جس پر وہ سوار ہوگئے ، کشتی جب ہچکولے لینے لگی اور حضرت یونس علیہ السلام کے پانی میں ڈال دینے کا فیصلہ ہوا، اور انہیں پانی میں ڈال دیا گیا تو بحکم ِالہی ایک بڑی مچھلی نے انہیں نگل لیا ، اب حضرت یونس علیہ السلام سخت مصیبت اور تاریک تر جگہ میں تھے ، ایک طرف تو رات کا اندھیرا ، دوسرا سمندر کی تہہ کا اندھیرا اور تیسرا مچھلی کے پیٹ کا اندھیرا ، اس اندھیرے میں اللہ تعالی کو یاد کرتے ہیں :
فَنَادَى فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (سورة الأنبياء : 87)
بالآخر وہ اندھیرے میں (خدا کو) پکارنے لگے کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں
ان کی مبارک زبان سے یہ آواز نکلنی تھی کہ اللہ تعالی نے ان کی دعا قبول کرلی اور انہیں مچھلی کے پیٹ سے نجات دی ، شاید یہ دنیا کا واحد واقعہ ہوکہ کسی انسان کو کوئی مچھلی نگل جائے اور وہ دوبارہ بغیر کسی ظاہری اسباب کے باہر صحیح سلامت نکل آئے ، لیکن سوال ہے کہ آخر اللہ تعالی کی یہ مدد اس تیزی سے کیوں آئی ؟ اس کا جواب بھی قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ میں موجود ہے ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَنَجَّيْنَاهُ مِنَ الْغَمِّ وَكَذَلِكَ نُنْجِي الْمُؤْمِنِينَ [سورۃ الانبیاء : 88]
تو ہم ان کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچالیا کرتے ہیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے : فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ * فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنْ الْمُسَبِّحِينَ * لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ
[سورہ صافات : 142-144]
پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا اور وہ (قابل) ملامت (کام) کرنے والے تھے * پھر اگر وہ (خدا کی) پاکی بیان نہ کرتے * تو اس روز تک کہ لوگ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے اسی کے پیٹ میں رہتے
ان آیات میں حضرت یونس علیہ السلام کے نجات پانے کی دو بڑی اہم وجہ بیان ہوئی ہے ، [۱] وہ مومن تھے ، [۲] وہ اس سے قبل بھی آرام و آسانی کے وقت میں اللہ تعالی کو یاد رکھتے تھے ، نماز و ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے تھے ۔
یہیں سے یہ عظیم فائدہ حاصل ہوا کہ ،صحت و عافیت ، مالداری و آسودگی اور خوشحالی وفراخی کے ایام میں اللہ تعالی کو یاد رکھنا ، پریشانی و مصیبت ، بیماری و بلاء ، غربت و مسکنت اور مشکل سے مشکل ترین وقت میں دعا کی قبولیت کا سبب ہے ، زیر بحث حدیث میں بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے امت کی توجہ اسی طرف مبذول کی ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے اور اس کی یہ خواہش ہے کہ مشکل گھڑی اور سخت ترین لمحہ میں اس کی دعا قبول ہو ، اللہ تبارک و تعالی اس کی مراد پوری کرے تو اسے چاہئے کہ آسودی اور امن و عافیت کے وقت میں اللہ تعالی کو کثرت سے یاد کرے ، آسودگی و عافیت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے اس نعمت پر اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرے ، کیونکہ عقلمند مومن کی یہ صفت ہے کہ وہ مصیبت و مشکل کے وقت سے پہلے اللہ تعالی کو یاد کرتا ہے اور منافق و کافر کی صفت ہے کہ وہ مشکل پڑنے پر اپنے مالک کی طرف رجوع کرتا ہے ، اور آرام و آسودگی کے وقت اپنے نفس اور شیطان کی پیروی میں لگا رہتا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی ان کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :
وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدْعُو إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [سور ہ زمر : 8 ]
اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے پروردگار کو پکارتا (اور) اس کی طرف دل سے رجوع کرتا ہے۔ پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے
اب جو شخص نجات چاہتا ہے ، اور مصائب و پریشانیوں سے نجات چاہتا ہے اسے چاہئے کہ ہر حال میں اللہ تعالی کو یاد رکھے اور اپنے منعم حقیقی کو نہ بھولے ، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز چچے زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس کو وصیت کی تھی کہ تو خوشحالی میں اللہ تعالی کو پہچان وہ مصیبت میں تیری خبر گیری کرے گا ۔ { ترمذی بروایت ابن عباس }
فوائد :
1- جو اللہ تعالی کو یاد رکھتا ہے ، اللہ تعالی اسے کبھی بھی نہیں بھولتا ۔
2-” لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ” ان کلمات کا ورد مصائب و پریشانی سے نجات دیتا ہے ۔
3- خوشی و غمی ہر حال اللہ تعالی کو یاد رکھنا ، ایمان کی علامت ہے ۔
ختم شده