بسم اللہ الرحمن الرحیم
284:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
قرآنی مجلسیں
بتاریخ : 25/ ربیع الاول 1437 ھ، م 05، جنوری2016 م
عن عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ، يَقُولُ: كُنَّا جُلُوسًا فِي الْمَسْجِدِ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَرَدَدْنَا عَلَيْهِ السَّلَامَ، ثُمَّ قَالَ: ” تَعَلَّمُوا كِتَابَ اللهِ وَاقْتَنُوهُ – قَالَ قُبَاثٌ: وَحَسِبْتُهُ قَالَ – وَتَغَنُّوا بِهِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَلُّتًا مِنَ الْمَخَاضِ مِنَ الْعُقُلِ ". مسند أحمد 4/150، صحيح ابن حبان 1/221، الطبراني الكبير 17/291
ترجمہ : حضرت عقبہ بن عامرجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں ہم لوگ مسجد میں بیٹھے قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے ، اسی درمیان ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو آپ نے ہم سے سلام کیا اور ہم لوگوں نے آپﷺ کے سلام کا جواب دیا ، پھر آپ نے فرمایا : اللہ کی کتاب کو سیکھو ، اسے یاد کرو اور اسے خوش الحانی سے پڑھو ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے یقینا یہ قرآن سینوں سے نکل جانے میں اس اونٹنی سے بھی زیادہ تیز ہے جو رسیوں میں بندھی ہوئی ہو ۔ {مسند احمد ، الطبرانی الکبیر ، صحیح ابن حبان }۔
تشریح : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عادت مبارکہ تھی کہ وہ عموما مسجد میں ذکر ، علمی مذاکرہ اور قرآن مجید کی تعلیم و تعلم کے لئے بیٹھا کرتے تھے، نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کی ان مجلسوں میں تشریف لاتے کبھی ان کے ساتھ بیٹھ جاتے اور کبھی اس عمل خیر پر ان کی تعریف کرتے ، ایسی مجلسوں کے فضائل بیان فرماتے اور قرآن مجید اور علم دین کے تعلیم و تعلم کی ترغیب دیتے ، اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور انہیں نبی ﷺ کی بہت سی حدیثوں کے سننے اور سیکھنے کا موقعہ بھی ملتا ، ایسے ہی ایک موقعہ پر جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسجد نبوی میں باہم بیٹھے قرآن مجید کی تلاوت کررہے تھے اور اس مبارک کتا ب کے تدبر میں مشغول تھے کہ نبی ﷺ ان کے پاس تشریف لائے ، ان سے سلام کیا اور چند قیمتی نصیحتیں فرمائیں اور خصوصا قرآن کے اہتمام کی ترغیب دیں ۔
عہد نبوی کے اس واقعہ سے ایک مسلمان کو بہت سے علمی فائدے حاصل ہوتے ہیں ، ان میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :
[۱] قرآن مجید کی تعلیم و تعلم کے لئے مسجد میں مجلس منعقد کی جاسکتی ہے ،بلکہ یہ سب سے عمدہ اور پاک جگہ ہے جہاں قرآن مجید جیسی پاک اور عمدہ کتاب کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے ۔ فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ (36)النور۔
یہ ان گھروں میں ہوتے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالی نے حکم دیا ہے کہ ان میں اللہ تعالی کا نام بلند کیا جائے اور اسی کا ذکر کیا جائے ، ان مساجد میں صبح و شام ایسے لوگ اللہ تعالی کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔
[۲] قرآن کی تلاوت کرنے والے شخص کوبھی سلام کرنا مسنون ہے ، کیونکہ نبی ﷺ نے قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے صحابہ سے سلام کیا ، جو اس
بات کی واضح دلیل ہے کہ ہمارے یہاں جو یہ مشہور ہے کہ قرآن پڑھنے والے سے سلام نہیں کرنا چاہئے وہ بلا دلیل اور اس صحیح حدیث کے خلاف ہے ، بلکہ سلام کی تو یہ اہمیت ہے کہ نمازی کو بھی سلام کیا جاسکتا ہے ، اس بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہیں ، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ ایک بار نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے ، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کی اور آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا ۔ {صحیح مسلم : 540 }۔
واضح رہے کہ نمازی کو سلام کرنا صرف جواز کی حد تک ہے اور اس شرط کے ساتھ کہ عام مصلیوں کو تشویش نہ ہو ، شاید یہی وجہ ہے کہ عہد نبوی میں ایسا کبھی کبھار ہوا ہے ، عام صحابہ کہ یہ عادت نہیں رہی ہے کہ مسجد میں داخل ہوں اور لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو انہیں بلند آواز سے سلام کریں ۔ واللہ اعلم ۔
اسی طرح کھانا کھانے والے اور دیگر قابل ذکر کام میں مشغول انسان کو بھی سلام کیا جائے گا ، جیسے مسجد میں داخل ہوتے وقت ، ذکر و اذکار میں مشغول لوگوں کو، کسی دینی مجلس میں حاضر لوگوں سےوغیرہ ان تمام لوگوں کو سلام کرنا مسنون ہے ، البتہ قضائے حاجت میں مشغول انسان یا اس قسم کے دیگر حالات جو ذکر الہی کے لئے مناسب نہیں ہوتے ، اس وقت سلام نہ کیا جائےگا ۔
[۳] قرآن مجید کی تلاوت کرنے والا ، نماز پڑھنے والا ، ذکر و اذکار میں مشغول رہنے والا شخص سلام کا جواب بھی دیگا ، جیسا کہ صحابہ نے آپ کے سلام کا جواب دیا ، البتہ نمازی حالت نماز میں سلام کا جواب اپنی انگلی اور ہتھیلی کے اشارے سے دیگا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اگر چاہے تو لفظا بھی جواب دے سکتا ہے،جیسا کہ نبی ﷺ سے ثابت ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعود کے سلام کا جواب دیا ۔ {سنن ابو داود : 924 } ۔
[۴] قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام بڑی اہم عبادت ہے ، اس پر بہت بڑے اجر کا وعدہ ہے حتی کہ ایک ایک حرف پر دس دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں ، لہذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ اگر قرآن سمجھ کر نہ پڑھا جائے تو اس پر کوئی اجر نہیں ہے ،یہ جہالت اور اصل مسئلہ کو نہ سمجھنے کی دلیل ہے ، البتہ یہ الگ مسئلہ ہے کہ بغیر قرآن کو سمجھےاور اس پر عمل کئے قرآن پر ایمان کا مقصد پورا نہ ہوگا ۔
[۵] قرآن مجید کا حفظ کرنا بہت ہی اہم کام ، دنیا و آخرت میں برکت اور آخرت میں بلند سے بلند درجات کے حصول کا سبب ہے ، لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ حتی المقدور قرآن مجید کو یاد کریں، کیونکہ اصل میں قرآن مجید یاد کرنے اور سینوں میں محفوظ رکھنے والی چیز ہی ہے ۔ بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ۔ العنکبوت:49۔بلکہ وہ قرآن تو واضح آیات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔
[۶] قرآن کو خوش الحانی اور اچھی آواز سے پڑھنا چاہئے کیونکہ اچھی آواز سے اچھے کلام کے حسن میں اضافہ ہوتا ہے ، ارشاد نبوی ہے : اپنی آوازوں سے قرآن کو زینت بخشو کیونکہ اچھی آواز سے قرآن کا حسن بڑھ جاتا ہے ۔ {مسند الدارمی – سنن ابو داود- بروایت براء بن عازب } ۔
[۷] قرآن کے حفظ کا دور بہت ہی ضروری ہے ،کیونکہ قرآن کا یا د کرنا جس قدر آسان ہے اسی قدر قرآن بہت جلد سینوں سے غائب بھی ہو جاتا ہے ، اسی لئے نبی ﷺ نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے ، اور اسے برابر پڑھتے رہنے کی ترغیب دی ہے ۔