موضوع الخطبة :عداوة الشيطان في القرآن
الخطيب : حسام بن عبد العزيز الجبرين/ حفظه الله
لغة الترجمة : الأردو
موضوع:
قرآن میں شیطان کی عداوت كا بيان
پہلا خطبہ:
الحمد لله أنشأ الكون من عدم وعلى العرش استوى، أرسل الرسل وأنزل الكتب تبيانًا لطريق النجاة والهدى، نحمده – جل شأنه – ونشكره على نِعَمٍ لا حصر لها ولا منتهى.
وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له يرتجى، وأشهد أن نبينا محمدًا عبد الله ورسوله الحبيب المصطفى، صلى الله عليه وعلى آله وصحبه ومن سار على النهج واقتفى.
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ سب کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیوں کہ جو شخص اللہ کا تقوی اختیار کرتا ہے اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف کردیتا، اس کو بڑے اجر وثواب سے نوازتا، اس کے مشکلات کو دور کردیتااور اس کے تمام معاملات آسان فرمادیتا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ﴾ [لقمان: 33]
ترجمہ:لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو جس دن باپ اپنے بیٹے کو کوئی نفع نہ پہنچا سکے گا اور نہ بیٹا اپنے باپ کا ذرا سا بھی نفع کرنے والا ہوگا۔ (یاد رکھو) اللہ کا وعدہ سچا ہے (دیکھو) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈالےاور نہ دھوکے باز (شیطان) تمہیں دھوکے میں ڈال دے۔
رحمن کے بندو!یہ ایسی عداوت ہے جس کی تاریخ طویل ہے، ہمارے آباء واجداد کی پوری زندگی میں یہ عداوت قائم رہی، انبیائے کرام بھی اس دشمنی سے نہیں بچ سکے، اگر دشمن کو غلبہ حاصل ہوجائے تو اس دشمنی کا اثر بڑا خطرناک ثابت ہوتا ہے، بایں معنی کہ اس دن کا خسارہ اٹھانا پڑتا ہے جب اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے، اس عداوت کا ذکر قرآن کی بہت سی آیتوں میں آیا ہے، اس دشمنی کا ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ ہم اس دشمن کو دیکھ نہیں پاتے…یقینا وہ شیطان کی عداوت ہے۔
آئیے ہم اس دشمنی سے متعلق بعض آیتوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
یہ دشمنی ہم سب کے باپ آدم کے ساتھ شروع ہوئی جب آپ جنت میں تھے اور اللہ نے حکم دیا کہ آدم کا سجدہ کیا جائے تو ابلیس سجدہ کرنے سے باز رہا، جب آدم او رحوا کو (مخصوص) درخ کا پھل کانے سے منع فرمایا تو ابلیس نے اس وہم میں مبتلا کرکےانہیں گناہ کا شکار بنا لیا کہ وہ ہمیشگی کا درخت ہے اور ان کے سامنے قسم کھا کر کہنے لگا کہ وہ ان کا خیر خواہ ہے: ﴿ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْءَاتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَآنَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ * قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴾ [الأعراف: 22 ، 23]
ترجمہ: سو ان دونوں کو فریب سے نچےِ لے آیا پس ان دونوں نے جب درخت کو چکھا دونوں کی شرمگاہںا ایک دوسرے کے روبرو بے پرده ہوگئںک اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور ان کے رب نے ان کو پکارا کا مںئ تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا اور یہ نہ کہہ چکا کہ شطاین تمہارا صریح دشمن ہے؟ دونوں نے کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کاں اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں مںر سے ہوجائںک گے۔
سورۃاعراف کی ان آیتوں میں آدم کا قصہ بیان کیا گیا ہے اور ان کو شیطان کے جن وسوسوں کا سامنا ہوا ، ان کاذکر آیاہے، اس کے بعد دو مرتبہ لوگوں کو ان الفاظ میں خطاب کیا گیا ہے: ﴿ يَا بَنِي آدَمَ ﴾
ترجمہ:اے آدم کی اولاد!
اس خطاب کی حکمت یہ ہے کہ: اولاد اپنے آباء واجداد کا بدلہ لیتی ہیں، ان کے دشمنوں سے دشمنی کرتی ہیں اور اس کے پھندے میں پڑنے سے ہوشیار رہتی ہیں۔
﴿ يَا بَنِي آدَمَ لاَ يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْءَاتِهِمَا إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لاَ تَرَوْنَهُمْ ﴾ [الأعراف: 27]
ترجمہ:اے اوﻻدِآدم! شیطانتمکوکسیخرابیمیںنہڈالدےجیسااسنےتمہارےماںباپکوجنتسےباہرکرادیاایسیحالتمیںانکالباسبھیاتروادیاتاکہ وه ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وه اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔
اللہ کے بندو! حق سبحانہ نے ہمیں شیطان سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ ﴾ [فاطر: 5]
ترجمہ: لوگو! اللہ تعالیٰ کا وعده سچا ہے تمہیں زندگانیٴ دنیا دھوکے میں نہ ڈالے، اور نہ دھوکے باز شیطان تمہیں غفلت میں ڈالے۔
ابن کثیر فرماتے ہیں: اس آیات میں (الغرور-دھوکے باز) سے مراد شیطان ہے، ابن عباس کا قول ہے: یعنی شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے۔
اللہ پاک نے ہمیں شیطان کی دشمنی کی یاددہانی کرانے کے بعد ہمارے اس کا مقصد بھی واضح کر دیا ہے: ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ [فاطر: 6]
ترجمہ: یاد رکھو! شیطان تمہارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو وه تو اپنے گروه کو صرف اس لئے ہی بلاتا ہے کہ وه سب جہنم واصل ہو جائیں۔
ایمانی بھائیو! اللہ پاک نے ہمیں شیطان سے ہوشیار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ بندہ پر مرحلہ وار حملہ کرتا ہے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:
﴿ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴾ [البقرة: 168]
ترجمہ: شیطانی راه پر نہ چلو، وه تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے ۔
اللہ پاک نے ہمارے سامنے یہ بھی کھول کر بیان کردیا کہ شیطان کی کیا کوشش ہوتی ہے اور وہ کس چیز کا حکم دیتا ہے:
﴿ إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاء وَأَن تَقُولُواْ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 169]
ترجمہ: وه تمہیں صرف برائی اور بےحیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں۔
نیز پاک پروردگار نے یہ بھی بیان فرمایا کہ صدقہ سے روکنے کے لئے شیطان بندوں کے ساتھ کیسی مکاری کرتا ہے، اسے فقر ومحتاجگی سے ڈراتا اور بخیلی کا حکم دیتا ہے:
﴿ الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاء وَاللّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴾ [البقرة: 268]
ترجمہ: شیطان تمیںم فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمیںء شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والاہے۔
اللہ پاک نے ہمیں یہ بھی بتایا ہے کہ شیطان باطل اور حرام کو خوبصورت بناکر پیش کرتاہے:
﴿ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ ﴾ [العنكبوت: 38]
ترجمہ: شیطان نے ان کے لیے ان کے کام مزین کر دیے، پس انیںَ اصل راستے سے روک دیا۔
دوسری آیت میں فرمایا:
﴿ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ﴾ [الأنعام: 43]
ترجمہ: لیکن ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کے لیے خوش نما بنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے۔
تیسری آیت میں فرمایا:
﴿ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الأَرْضِ وَلأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ [الحجر: 39]
ترجمہ: اس نے کہا اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کردوں گا۔
اللہ کے بندو! شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ مومن کو حزن وملال میں مبتلا کردے:
﴿ إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ﴾ [المجادلة: 10]
ترجمہ:(بری) سرگوشیاں، شیطانی کام ہے جس سے ایمان داروں کو رنج پہنچے۔ گو اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر وه انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اللہ کے ذکر کو فراموش کرنے اور اس سے غفلت برتنے کا شیطان سے بڑا گہرا ربط ہے، اللہ پا ک کا فرمان ہے:
﴿ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ ﴾ [الأنعام: 68]
ترجمہ: کبھی شیطان تجھے ضرور ہی بھلا دے۔
دوسری آیت میں فرمایا:
﴿ وَمَا أَنسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ ﴾ [الكهف: 63]
ترجمہ:دراصل شیطان نے ہی مجھے بھلا دیا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
﴿ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ ﴾ [المجادلة: 19]
ترجمہ: ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔
اللہ کے بندو! شیطان اپنے دوستو ں کے ذریعہ بندوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے:
﴿ إِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءهُ فَلاَ تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴾ [آل عمران: 175]
ترجمہ:یہ خبر دینے واﻻصرفشیطانہیہےجواپنےدوستوںسےڈراتاہےتمانکافروںسےنہڈرواورمیراخوفرکھو،اگرتممومنہو۔
شیطان فتنوں کی آگ اور دشمنی کا شعلہ بھڑکانا چاہتاہے:
﴿ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَانُ أَن يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللّهِ وَعَنِ الصَّلاَةِ ﴾ [المائدة: 91]
ترجمہ: شیطان تو یوں چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے سے تمہارے آپس میں عداوت اور بغض واقع کرا دے اور اللہ تعالیٰ کی یاد سے اور نماز سے تم کو باز رکھے ۔
دوسری آیت میں آیا ہے:
﴿ وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُواْ الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلإِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴾ [الإسراء: 53]
ترجمہ:اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
اے اللہ! ہم شیطان کے شرور وفتن، اس کے شرک اور سازش ،جنون، وسوسے اور کبر و غرور سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ آپ سب اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ بڑامعاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله القائل: ﴿ إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ ﴾ [فاطر: 6]، وصلى الله وسلم على نبيه الذي أرشدنا وعلمنا ما يحفظنا من الشياطين صلى الله عليه وعلى آله وأصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
حمد وصلاۃ کے بعد:
اللہ پاک پر بندہ کا ایمان اور توکل جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر یہ ایمان وتوکل اسے شیطان سے محفوظ رکھیں گے:
﴿ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴾ [النحل: 99]
ترجمہ: یمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کا زور مطلقاً نہیں چلتا۔
شیطان ایسی مخلوق ہے کہ اس کی سازش ومکاری کو اس کے پاک خالق سے پناہ طلب کرکے دور کیا جا سکتا ہے، اللہ جل شانہ نے فرمایا:
﴿ وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴾ [الأعراف: 200]
ترجمہ: اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناه مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وه خوب سننے واﻻخوبجاننےواﻻہے۔
پناہ طلبی کے تعلق سے اللہ تعالی نے عمران کی نیک بیوی کا یہ قول بیان کیا ہے:
﴿ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وِإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ﴾ [آل عمران: 36]
ترجمہ:میں نے اس کا نام مریم رکھا، میں اسے اور اس کی اوﻻدکوشیطانمردودسےتیریپناهمیںدیتیہوں۔
سورۃ الناس کا پورا موضوع یہی ہے کہ شیطان کے وسوسوں سے پناہ طلب کی جائے، اس سورۃ میں اللہ کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور لوگوں پر اس کی بادشاہت کے ذریعہ وسوسہ ڈالنے والے شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا ذکر آیا ہے ،اس قدر عظمت اور احترام کے ساتھ اللہ کی پناہ طلب کرنے کا ذکر اس بات پر دلالت کرتاہے کہ وسوسہ ڈالنے والا شیطان (ہمارے لئے) کس قدر خطرناک ہے، اسی کے نیتجےمیں مخلوقِ الہی کفر ، گناہ، شبہات اور شہوات کی شکار ہوئی…!
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں جحفہ اور ابواء کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ اسی دوران اچانک ہمیں تیز آندھی اور شدید تاریکی نے ڈھانپ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "قل أعوذ برب الفلق” اور "قل أعوذ برب الناس” پڑھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: "اے عقبہ! تم بھی ان دونوں کو پڑھ کر پناہ مانگو، اس لیے کہ ان جیسی سورتوں کے ذریعہ پناہ مانگنے والے کی طرح کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ نہیں مانگی”۔ عقبہ کہتے ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ انہیں دونوں کے ذریعہ ہماری امامت فرما رہے تھے۔ (اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح کہا ہے۔)
اے ایمانی بھائیو! جس طرح اللہ کی پناہ طلب کرنے سے شیطان بھاگ جاتا ہے، اسی طرح اللہ عز وجل کا ذکرکر نے سے بھی شیطان دور بھاگتا ہے، اللہ کے فرمان : ﴿ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴾ کی تفسیر میں ابن عباس سے مروی ہے کہ: شیطان انسان کے دل پر سوار رہتا ہے، جب وہ غفلت اور نسیان کا شکار ہوتا ہے تو شیطان اسے وسوسہ ڈالتا ہے، او ر جب اللہ کا ذکر کرتا ہے تو دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔
اخیر میں عرض ہے کہ ہمیں شیطان کی دشمنی کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا چاہئے، اللہ سے مدد طلب کرنی چاہئے ، شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرکے اپنے ایمان کو مضبوط کرنا چاہئے، اور ہمیں اس دعا کا خوب اہتمام کرنا چاہئے جو اللہ نے اپنے نبی کو سکھائی کہ:
﴿ وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ. وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحْضُرُونِ ﴾ [المؤمنون: 97 ، 98]
ترجمہ:اور دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ہی کفر اور اس کے علاوہ تمام گناہوں کی بنیاد ہے…
درودد وسلام بھیجیں….
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین