بسم الله الرحمن الرحيم
خلاصہ درس : شیخ ابو کلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 18 / رمضان المبارک 1429ھ م 18/ستمبر2008م
قرابت داروں کے حقوق
عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : الرحم معلقة بالعرش تقول : من وصلني وصله الله ومن قطعني قطعه الله .
( صحيح البخاري : 5989 ، الأدب /
صحيح مسلم : 2555 ، البر و الصلة )
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : رحم [ رشتہ داری ] عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے ، جو مجھے ملائے ، اللہ اسے ملائے اور جو مجھے کاٹے ، اسے اللہ تعالی کاٹے ۔
تشریح : اللہ تعالی نے قرآن مجید میں تقریبا 9 مقامات پر رشتہ داروں کو ان کا حق دینے یا ان کے ساتھ حسن سلوک کاحکم دیا ہے ، علاوہ ازیں بعض اور مقامات پر بھی ضمنا اسکا تذکرہ آیا ہے ، اللہ تعالی نے اسکے لئے بیشتر مقامات پر یہ الفاظ استعمال کئے ہیں :” اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو ” انہیں آیات میں سے ایک آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب اللہ تعالی نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو رحم [ رشتہ ] نے کھڑے ہوکر کہا : [ اے اللہ ] یہ اس شخص کامقام ہے جو قطع رحمی سے تجھ سے پناہ مانگے ؟ اللہ تعالی نے فرمایا : ہاں کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھ سے تعلق جوڑے اور اس سے قطع تعلق کرلوں جو تجھے قطع کرے ، رشتے [ رحم ] نے کہا کیوں نہیں [ ایسا ہی ہونا چاہئے ] اللہ تعالی نے فرمایا : پس یہ تیرے لئے ہے یعنی ایسا ہی ہوگا پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم چاہو تو [ اسکی تائید میں یہ آیات قرآنی ] پڑھ لو :
فھل عیستم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض و تقطعوا ارحامکم ، اولئک الذین لعنھم اللہ فاصم وا عمی ابصارھم [ سورہ محمد : 22 ، 23 ] [ صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ ]
یہ رشتہ داریاں کیا ہیں اور ان کے حقوق کیا ہیں انکی فہرست بہت لمبی ہے ہم یہاں ان میں سے چند حقوق کا ذکر کرتے ہیں ۔
[ ۱ ] رشتہ جوڑنا : قرابت داروں کا سب سے بڑا وجوبی حق یہ ہیکہ جو رشتہ جہاں سے جڑتا ہے حتی الامکان اسے جوڑا جائے ، نہ اسے توڑا جائے اور نہ ان اسباب کے قریب جایا جائے جو اس رشتہ کو توڑنے کا سبب بنتے ہیں ۔ ” واتقوا اللہ الذی تساءلون بہ و الارحام [ سورۃ النساء : 1 ] ڈرو اللہ تعالی سے جسکے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور ڈرو قرابت مندیوں کو توڑنے سے ۔ ارشاد نبوی ہے : جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ، اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے ۔[ الحدیث ، صحیح بخاری و صحیح مسلم : بروایت ابو ہریرہ ]
[ ۲ ] زیارت و خبر گیری : کوئی بھی شخص رشتہ داری کا حق ادا نہیں کرسکتا اور نہ ہی رشتے کو جوڑے رکھ سکتا ہے ، یہاں تک کہ اپنے رشتہ داروں کی درجہ بدرجہ زیارت و خبر گیری کرتا رہے ۔
ارشاد نبوی ہے کہ : اپنے نسب اور خاندان کے بارے میں اتنی معلومات [ تو ضرور ] رکھو جس سے اپنے رشتہ داریوں کو جوڑ سکو ، اسلئے کہ رشتہ جوڑنے سے اپنے لوگوں سے محبت پیدا ہوتی ہے ، مال میں اضافہ ہوتا ہے اور عمر دراز ہوتی ہے ۔ [ سنن الترمذی ، بروایت ابوہریرہ ] ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی رشتہ داریوں کو ملحوظ رکھو خواہ سلام ہی کرکے ، [ شعب الایمان ، بروایت انس ]
[ ۳ ] ہدیہ و تحفہ : اہل قرابت کا ایک حق یہ ہیکہ موقعہ بموقعہ خصوصا کسی خاص مناسبت سے انہیں ہدیہ و تحفہ پیش کیا جائے ، ارشاد نبوی ہے : ہدیہ کا لین دین کیا کرو کیونکہ یہ عمل دل کی نفرت کو دور کرتا ہے ، [ احمد و البیھقی ، بروایت ابو ہریرہ ]
حضرت انس بن مالک اپنے بچوں کو وصیت کرتے تھے : اے بیٹو ! آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ تحفہ پیش کیا کرو کیونکہ اس سے تمہارے درمیان الفت باقی رہے گی ۔ [ الادب المفرد ]
[ ۴ ] مالی و بدنی مدد : اہل قرابت اپنے رشتہ داروں کی مالی و بدنی مدد کے زیادہ حقدار ہیں ، اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ” تیرے احسان ، صدقہ اور مال کے سب سے زیادہ حقدار تیری ماں اور تیرے باپ ہیں [ پھر ] تیری بہن اور تیرا بھائی ہے پھر وہ شخص جو تیرے قریب سے قریب تر ہو ۔ [ مسند احمد ، الطبرانی الکبیر ، بروایت ابو امامہ ] ام المومنین حضرت میمونہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک لونڈی کو آزاد کردیا لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ نہیں لیا ، جب آپ میرے پاس تشریف لائے تو آپ سے اسکا ذکر کیا ، آپ نے فرمایا : اگر تم اسے اپنے ماموں کو دے دیتی تو زیادہ اجر کا باعث تھا [ صحیح بخاری و مسلم ]
[ ۵] دفاع اور مدد : اگر کسی پر ظلم و زیادتی نہ ہو اور اپنا رشتہ دارکسی جرم کا ارتکاب نہ کررہا ہو تو اسکی طرف سے دفاع کرنا اور اسکی مدد کرنا بھی اسکا حق ہے ، ارشاد نبوی ہے : تم اپنے بھائی کی مدد کرو ، وہ ظالم ہو یا مظلوم [ صحیح بخاری بروایت انس ] ایک اور حدیث میں ہے : تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے خاندان و قبیلہ کی طرف سے دفاع کرے ، بشرطیکہ اسمیں کسی گناہ پر مدد نہ ہو ۔ [ شعب الایمان ، بروایت عبداللہ بن حرملہ ]
قرابت داروں کے انکے علاوہ بھی حقوق ہیں جیسے : ۶- ان کے دکھ سکھ میں شرکت ، ۷- انکے ساتھ محبت اور خیر خواہی کا جذبہ ، ۸- انکے ساتھ حسن سلوک ، وغیرہ ۔
ختم شده