قربانی کے آداب / حديث نمبر: 252

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :252

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

قربانی کے آداب

بتاریخ : 21/ ذو القعدہ  1435 ھ، م  16،ستمبر  2014م

عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَبَشَرِهِ شَيْئًا».

( صحيح مسلم:1977 ، الأضاحي – سنن أبي داود : 2791 ، الأضاحي – سنن الترمذي : 1561 ، الأضاحي )

ترجمہ  : حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب ذی الحجہ  کا [ پہلا ]  عشرہ داخل ہوجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اپنے  بال اور چمڑے کو نہ کاٹے ۔  ایک اور روایت میں ہے کہ نہ بال کاٹے اور ہی ناخن کاٹے ۔

{ صحیح مسلم – سنن ابو داود – سنن الترمذی } ۔

تشریح  : قربانی نبیوں کی سنت اورمسلمانوں کا طریقہ رہا ہے جب سے بنی نوع انسان اس دنیا میں ہے اسی وقت سے انہیں قربانی کا حکم دیا گیا ہے ، قرآن کریم  سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام  کے بیٹوں کو بھی  قربانی اور اللہ کی رضا  کے لئے  نذرانہ پیش کرنے کا حکم  ہوا تھا : وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِهِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ. الآية27 ۔۔ اور آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال انہیں سنادیں ، ان دونوں نے ایک قربانی پیش کی تو ایک کی قربانی قبول کرلی گئی اور دوسرے کی مقبول نہیں ہوئی ۔

البتہ وہ قربانی  جو عید الاضحی کے موقعہ پر مسلمان دیتے ہیں یہ حضرت ابراہیم  علیہ السلام کی سنت ہے اسی لئے نبی ﷺ جب قربانی کے جانور کو ذبح کرنے  کیلئے لٹا دیتے تو ذبح سے قبل یہ کلمات پڑھتے  : «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ عَلَى مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا، وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ. میں اپنا رخ اس رب کی طرف  کرتا ہوں جس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا ، میں ابراہیم  حنیف کی ملت  پر ہوں اور مشرک نہیں ہوں ۔ { مسند احمد ، سنن ابوداود وغیرہ } ۔

خود نبی کریم ﷺ قربانی کا بڑا اہتمام فرماتے تھے ، اپنے  مدینہ منورہ میں  قیام کے دوران آپ برابر قربانی کرتے رہے ، سفرو حضر میں کبھی  بھی قربانی نہیں چھوڑی ، قربانی کے احکام  و آداب  کو بھی آپ نے تفصیل سے بیان کیا ہے ۔

زیر بحث حدیث میں بھی  نبی کریم ﷺ نے قربانی کرنے والے کو بعض آداب کا ذکر  فرمایا ہے کہ جو شخص  بھی قربانی کا ارادہ رکھتا ہے ، اپنے  جسم سے متعلق  اسے کچھ پابندیاں  کرنی ہیں :

[۱] ذی  الحجہ  کا چاند دیکھنے  کے بعد اپنے جسم  کے کسی حصے  کے بال سے تعرض نہ کرے، نہ ہی اسے کاٹے نہ ہی چھیلے اور نہ ہی کسی اور طرح سے زائل کرے ، البتہ بالوں کو دھونا ، اس میں کنگی کرنا یا اس میں خوشبو لگانا جائز ہے ۔

[۲] ذی الحجہ کا چاند دیکھ لینے کے بعد اپنے ناخونوں کو نہ تراشے خواہ وہ ناخون پاوں کے ہوں یا ہاتھ  کے ، البتہ اگر ناخون ٹوٹ جائے  یا چوٹ لگنے کی وجہ سے تکلیف دے رہا ہے اور  اس کا زائل  کرنا ضروری ہوگیا ہے ،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

[۳] اپنے جسم کے کسی حصے کے چمڑے کے ساتھ بھی قربانی کا  ارادہ رکھنے والا تعرض  نہ کرے، نہ ہی اسے نوچے اور نہ ہی اسے کاٹے ۔

واضح رہے کہ  یہ حکم صرف ایسے شخص  کے لئے ہے جو خود قر بانی کررہا ہے یا اس نے اپنی طرف سے قربانی کرنے  کے لئے  کے لئے کسی کو وکیل بنایا ہے ،  البتہ  خود قربانی نہ کرنے  والا اور قربانی کرنے والے کے  اہل و عیال  اور وہ شخص  جو قربانی  کی استطاعت ہی نہ  رکھتا ہو ان لوگوں پر یہ پابندی نہیں ہے ۔

لیکن بعض آثار سے  معلوم ہوتا ہے کہ اگر  قربانی کرنے والے  کے اہل خانہ  بھی  اس کی پابندی کریں تو بہتر ہے چنانچہ حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے متعلق یہ مروی ہے کہ وہ عشرہ ذی الحجہ میں اپنے بچوں کے بال بھی نہیں کٹاتے تھے ۔ { المحلی 8/29 } ۔

قربانی کرنے والے کے لئے  ایک  ادب یہ بیان ہوا ہے کہ وہ قربانی کے لئے  کوئی خوبصورت  اور تندرست  جانور ہی چنے کیونکہ  یہ جانور  اللہ تعالی کے نام سے اور صرف  اس کا تقرب حاصل کرنے  کے لئے  ذبح کیا جارہا ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ (32) الحج.اور جو شخص  اللہ تعالی  کے شعائر  کی تعظیم  کرتا ہے تو یہ اس کے دل کی پرہیز گاری کی وجہ سے ہے ، آیت مذکورہ میں "شعائر” سے مراد قربانی  کا جانور اور اس کی تعظیم  سے مراد اسے موٹا کرنا اور اس کی اچھی قیمت کے لائق بنانا ہے ، اسی لئے  صحیح بخاری شریف  میں حضرت ابو امامہ بن سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مدینہ منورہ میں  اپنے قربانی کے جانوروں کی پرورش کرکے انہیں  تندرست کرتے تھے  اور دیگر مسلمان بھی انہیں  پال کر موٹا کرتے تھے ۔ { صحیح بخاری – الفتح :10/9}۔

قربانی کرنے والے کے لئے  تیسرا ادب یہ ہے کہ وہ اخلاص  و حسن نیت کو سامنے  رکھے کیونکہ  اخلاص عمل صالح کے لئے  ریڑھ کی ہڈی  کی حیثیت رکھتا  ہے ، اللہ تعالی کے نزدیک وہی عمل مقبول ہے جو اخلاص  اور حسن نیت  سے ادا کیا جائے  اسی امر کی وضاحت کرتے ہوئے  ارشاد باری تعالی ہے : لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ۔ الحج:37 اللہ تعالی کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے  نہ ان کے خون پہنچتے ہیں بلکہ  اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے ۔

فوائد :

  • قربانی کا ارادہ رکھنے والا ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد اپنے ناخن و بال وغیرہ  سے تعرض نہ کرے ۔
  • بال وغیرہ کے کاٹنے سے قربانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ  شرع کی مخالفت کا گناہ ہوگا ۔
  • اخلاص اور حسن نیت قربانی بلکہ کسی بھی عمل صالح  کی مقبولیت  کے لئے شرط اولیں ہے ۔