بسم اللہ الرحمن الرحیم
281:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
قسم اللہ کی
بتاریخ : 5/ صفر 1437 ھ، م 17، نومبر 2015 م
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَحْلِفُ بِأَبِيهِ، فَقَالَ: «لَا تَحْلِفُوا بِآبَائِكُمْ، مَنْ حَلَفَ بِاللَّهِ فَلْيَصْدُقْ، وَمَنْ حُلِفَ لَهُ بِاللَّهِ فَلْيَرْضَ، وَمَنْ لَمْ يَرْضَ بِاللَّهِ، فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ». سنن ابن ماجة:2101 الكفارات، السنن الكبرى 10/181
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو اپنے باپ کی قسم کھاتے سنا تو فرمایا : اپنے باپ و دادا کی قسم نہ کھاو [بلکہ صرف اللہ تعالی کی قسم کھاو ]، جوا للہ کی قسم کھائے اسے چاہئے کہ وہ سچ بولے ، اور جس کے لئے اللہ کی قسم کھائی جائے وہ اس پر راضی ہوجائے ، اور جو اس [ اللہ کے نام کی قسم ] پر راضی نہ ہو اس کا اللہ تعالی سے کوئی واسطہ نہیں ۔ { سنن ابن ماجہ و سنن کبری } ۔
تشریح : ہر شخص کی زندگی میں ایسے مواقع آتے ہیں کہ وہ اپنی بات کو مدلل کرنے اور اسے یقینی بنانے کے لئے قسم کا سہارا لیتا ہے ، قسم کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ سامنے والے اس کی بات کی تصدیق کریں اور اسے سچا تسلیم کریں ، اسی لئے تو قسم کھانے میں کسی عظیم یا اہم چیز کا سہارا لیا جاتا ہے ، جس کے بارے میں یہ ڈر ہوتا ہے کہ خلاف واقعہ ہونے کی صورت میں وہ ہم سے انتقام بھی لے گا۔ قسم کا رواج ہر قوم میں رہا ہے لیکن قسم کھانے کے سلسلے میں لوگوں میں بہت سی غلطیاں پائی جاتی رہی ہیں ، جس کی ایک صورت یہ رہی ہے کہ لوگ غیر اللہ کی قسمیں کھاتے ، کوئی اپنے باپ و دادا کی قسمیں کھاتا تھا ، کوئی اپنے باطل معبودوں کی قسم کھاتا تھا ، اور کوئی اپنی زندگی یا اپنے جسم کے کسی اہم حصے جیسے سر اور آنکھ وغیرہ کی قسمیں کھاتا تھا وغیرہ وغیرہ،لیکن چونکہ اللہ تعالی کی عظمت و کبریائی کا تقاضا ہے کہ قسم صرف اسی کے ناموں اور صفتوں کی کھائی جائے ،لہذا اس کے علاوہ کسی اور کی قسم ایک غیر شرعی امر ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالی کی شان میں گستاخی ہے ، اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں اصلاح کے طور پر قسم کھانے والے اورقسم لینے والے دونوں کے لئے کچھ حدود و قیودبیان کی ہیں ، ان میں سے بعض کا ذکر زیر بحث حدیث میں ہے۔ 1—غیراللہ کی قسم سے منع فرمایا۔ چنانچہ ایک بار نبی ﷺ نے کسی شخص کو سنا کہ وہ اپنے باپ کی قسم کھا رہا ہے ، لیکن چونکہ کسی کی قسم کھانے کا معنی یہ ہے کہ قسم کھانے والااپنی صداقت پر اس ذات کو گواہ بنا رہا ہے ، یا اس کی عظمت کا اعتراف کررہا ہے کہ یہ ایسی عظیم ذات ہے کہ اس کا نام لے کر جھوٹ نہیں بولا جاتا اور اگر میں جھوٹا ہوا تو یہ ذات مجھ سے انتقام لینے کی صلاحیت رکھتی ہے ، اور ظاہر بات ہے کہ یہ حیثیت صرف اور صرف باری تعالی ہی کو حاصل ہے ،اسی لئے آپ ﷺ نے اس شخص کو روکا اور فرمایا کہ اپنے باپ دادا کی قسم نہ کھاو، بلکہ صرف اللہ رب العزت کی قسم کھاو ۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ جس نے غیر اللہ کی قسم کھائی اس نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا ۔ {سنن ابو داود ، سنن ترمذی بروایت عمر } ۔ اسی طرح چونکہ غیر اللہ کی قسم خواہ باپ دادا کی ہو یا باطل معبودوں کی شرک کی ایک قسم ہے لہذا ایسے شخص کو ا پنے ایمان کی تجدید کی طرف توجہ دلائی ، ارشاد نبوی ہے کہ جو شخص قسم کھاتے وقت یہ کہے کہ لات اور عزی کی قسم تو اسے چاہئے کہ فورا لا الہ الا اللہ کہہ لے ۔ {متفق علیہ بروایت ابو ہریرہ } ۔ یعنی اگر عقیدۃ نہیں صرف زبان سے لات و عزی کی قسم نکل جائے اور اس کا مقصد نہ ہوتو بھی اسے لا الہ الا اللہ کہہ لینا چاہئے تاکہ اس سے اس شرکیہ الفاظ کا کفارہ ہوجائے ۔
[۲] قسم سچی کھائی جائے : قسم کھانے کا معنی یہ ہے کہ جس کی قسم کھائی جارہی ہے اسے اپنے قول و قرار کی سچائی پر گواہ بنایا جارہا ہے، اس طرح گویا اللہ تعالی کی قسم کا معنی ہے کہ جس بات کی قسم کھائی جارہی ہے اس پر اللہ تعالی کو گواہ بنا رہا ہے ، اب اگر وہ شخص جھوٹا ہے اور اپنی جھوٹ پر اللہ تعالی کو گواہ بنا رہا ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ اس کا دل اللہ تعالی کی عظمت سے خالی ہے ۔ ۔۔۔ایک حدیث میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : مجھ سے یہ کہا گیا ہے کہ میں تم لوگوں سے ایک ایسے مرغے [ ایک فرشتہ جس کی شکل مرغ کی ہے ] کے بارے میں بتلاوں جس کے دونوں پیر زمین میں دھنسے ہوئے ہیں اور اس کی گردن عرش کے نیچے مڑی ہوئی ہے اور وہ کہہ رہا ہے کہ ” سبحانک ما اعظمک ربنا ” اے میرے رب تو پاک اور کس قدر عظیم ہے ،تو اللہ تعالی اس کی اس تسبیح کے جواب میں فرماتا ہے : لیکن وہ شخص میری اس عظمت کو نہیں جانتا جو میرا نام لے کر جھوٹی قسم کھاتا ہے ۔ { الطبرانی الاوسط بروایت ابو ہریرہ } ۔
[۳] اللہ کے نام پر لی گئی قسم پر راضی ہوجائے : یعنی اگر کوئی شخص اللہ کا نام لے کر قسم کھا رہا ہے تو اس پر راضی ہویاجائے اور اس کے سچ ہونے کو مانا جائے ،کیونکہ اس قسم کو رد کردینے کا معنی یہ ہے کہ بندے کے دل میں اللہ تعالی کی عظمت اور ان کے نام کا احترام نہیں ہے، حالانکہ اللہ تعالی کی ذات تو وہ عظیم ہے کہ جس جگہ اس کا نام آجائے وہاں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہنی چاہئے ، چنانچہ ایک بار حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو فرمایا : کیا تم نے چوری کی ہے ؟ اس نے کہا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئِی معبود نہیں ہے میں نے چوری نہیں کی ، حضرت عیسی علیہ السلام نے فورا فرمایا : "آمنت باللہ و کذبت عینی” میں اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہوں اور اپنی آنکھوں کو جھوٹا کہتا ہوں ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابو ہریرہ } ۔کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے اللہ کے نام کو اس سے بہت عظیم سمجھا کہ کوئی اللہ کا نام لے کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ابلیس کے قسم پر اعتبار کرلیا تھا ۔
[۴] اس حدیث میں چوتھی چیز یہ بیان ہوئ ہے کہ اللہ تعالی کے نام پر کھائی گئی قسم پر اعتماد نہ کرنا بڑا گناہ ہے :
غیر اللہ کا نام لے کر قسم کھانے یا حلف اٹھانے کی تین صورتیں ہوتی ہیں :
۱—کسی معامعلہ میں باہمی اختلاف کی صورت میں جب معاملہ قسم پر آئے اور دونوں فریق قسم پر راضی ہوجائیں اوروہاں قسم کے مطابق فیصلہ ہوجائے تو اس سے اختلاف کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، کیونکہ اس پر راضی نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اس شخص کے دل میں اللہ کی قسم کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔
۲—ایک شخص جو اپنے ظاہر کے لحاظ سے قابل اعتماد ہے اور وہ کوئی بات یا وعدہ اللہ تعالی کی قسم لے کر کرتا ہے تو اس پر اعتبار کرنا ضروری ہے ، اس پر اعتبار نہ کرنا گناہ ہے ۔ کیونکہ اس پر شک کرنا اللہ تعالی کے نام کی عظمت کی کمی کی دلیل ہے ۔
۳—ایک شخص اپنے ظاہر اور افعال و گردار کے لحاظ سے نا قابل اعتبار ہے اور ایسا شخص قسمیں کھاتا ہے تو اس کی قسم کا کوئی اعتبار نہ ہوگا اور اس کی قسم پر راضی نہ ہونے میں کوئی گناہ نہیں ہے ۔
فوائد :
- قسم صرف اللہ تعالی کے نام و صفت کی کھانی جائز ہے ۔
- غیر اللہ کی قسم کھانا اللہ تعالی کے حق عظمت میں غیر اللہ کو شریک کرنا ہے ۔
- اللہ تعالی کے نام پر کھائی قسم کا اعتبار نہ کرنا کمال توحید کے منافی ہے ۔