قیامت کے دن عزت واکرام سے سرفراز ہونے والے

قیامت کے دن عزت واکرام سے سرفراز ہونے والے
اور ذلت واہانت سے دوچار ہونے والے لوگ (۱)
پہلا خطبہ:
إنَّ الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله مِن شرور أنفسنا، ومن سيِّئات أعمالنا، مَن يهده الله فلا مضلَّ له، ومَن يُضْلل فلا هادي له.
وأشهد أن لا إله إلا الله، وحدَه لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ﴾ [آل عمران: 102]. ﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ﴾ [النساء: 1]. ﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا * يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70 – 71].
حمد وثنا کے بعد!
میرے ایمانی بھائیو! ہمارے پروردگار نے اپنی کتاب میں قیامت کا تذکرہ بہت زیادہ کیا ہے، اس دن کو مختلف صفات سے متصف کیا ہے، جن میں سے چند صفات یہ ہیں : آخرت کا دن ، بعث (دوبارہ اٹھائے جانے) کا دن، خروج کا دن ، فیصلے کا دن، جزا وسزا کا دن، حسرت کا دن، ہمیشگی کا دن، حساب وکتاب کا دن، بہت ہی قریب آنے والا دن، جمع ہونے کا دن، ملاقات کا دن، وعید کا دن، ہانک پکار کا دن، ہار جیت کا دن، اللہ نے اسے الساعۃ (قیامت)، القارعۃ (کھڑکا دینے والی) ، الصاخۃ (بہرے کردینے والی)، الواقعۃ (واقع ہونے والی )اور الغاشیۃ ( چھپالینے والی)سے موسوم کیا ہے۔قرطبی فرماتے ہیں: "ہر وہ چیز جس کا مقام ومرتبہ بڑا ہوتا ہے اس کی صفات بھی مختلف ہوتی ہیں اور اس کے نام بھی بہت ہوتے ہیں…پھر فرمایا: چونکہ قیامت کا معاملہ عظیم الشان ہے اور اس کی ہولناکیاں بہت زیادہ ہیں، اس لیے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں اسے مختلف ناموں سے موسوم کیا ہے اور متعدد صفات سے متصف فرمایا ہے”۔
میرے اسلامی بھائیو! دلوں میں ترغیب وترہیب پیدا کرنے کے لیے ميں اس عظیم دن عزت وسرخروئی سے سرفراز ہونے والے مومنوں اور عذاب سے دوچار ہونے والے گناہ گار مسلمانوں کے حالات پر روشنی ڈالنے جا رہا ہوں، اللہ کے بندوں کی ایک جماعت ایسی ہوگی-اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے احباب کو ان میں شامل فرمائے- جسے اس دن خوف لاحق نہیں ہوگا جس دن سارے لوگ خوف کے عالم میں ہوں گے اور اس وقت اسے حزن وملال نہ ہوگا جس وقت دیگر لوگ حزن وملال سے دوچار ہوں گے، یہ رحمن کےوہ اولیا ہوں گے جنہوں نے اللہ پر ایمان لایا اور اس کی اطاعت کی ، تاکہ اس دن کی تیاری کرسکیں، اس دن اللہ تعالی انہیں امن وامان سے سرفراز فرمائے گا، اور جب وہ قبروں سے اٹھائیں جائیں گے تو رحمن کے فرشتے ان کا استقبال کریں گے اور انہیں اطمینان دلائیں گے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُم مِّنَّا الْحُسْنَى أُوْلَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ * لَايَسْمَعُونَ حَسِيسَهَا وَهُمْ فِيمَا اشْتَهَتْ أَنفُسُهُمْ خَالِدُونَ * لَايَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّا هُمُ الْمَلَائِكَةُ هَذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴾ [الأنبياء:101، 103]
ترجمہ:البتہ بے شک جن کے لئے ہماری طرف سے نیَع پہلے ہی ٹھہر چکی ہے۔ وه سب جہنم سے دور ہی رکھے جائںہ گے* وه تو دوزخ کی آہٹ تک نہ سنںي گے اور اپنی من بھاتی چز وں مںا ہمشہں رہنے والے ہوں گے *وه بڑی گھبراہٹ (بھی) انہں غمگنی نہ کر سکے گی اور فرشتے انہںج ہاتھوں ہاتھ لںہ گے، کہ ییہ تمہارا وه دن ہے جس کا تم وعده دیئے جاتے رہے۔
اس دن رحمن کے اولیا کو اطمینان دلانے کے لیے یہ ندا لگائی جائے گی:﴿ يَاعِبَادِ لَاخَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ * الَّذِينَ آمَنُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ ﴾ [الزخرف:68، 69]
ترجمہ: مرمے بندو! آج تو تم پر کوئی خوف (و ہراس) ہے اور نہ تم (بد دل اور) غمزده ہوگے* جو ہماری آیتوں پر ایمانﻻئے اور تھے بھی وه (فرماں بردار) مسلمان۔
واللہ اعلم اس امن وامان کا راز جس سے اللہ اپنے متقی بندوں کو نوازے گا، یہ ہے کہ دنیا میں ان کے دل خوف الہی سے لبریز تھے، جیسا کہ اللہ تعالی نے ان کی زبانی ارشاد فرمایا: ﴿ إِنَّا نَخَافُ مِن رَّبِّنَا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيراً * فَوَقَاهُمُ اللَّهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَّاهُمْ نَضْرَةً وَسُرُوراً ﴾ [الإنسان:10، 11]
ترجمہ: بے شک ہم اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ہںو جو اداسی اور سختی واﻻ ہوگا*پس انہںً اللہ تعالیٰ نے اس دن کی برائی سے بچا لار اور انہںا تازگی اور خوشی پہنچائی۔
حدیث قدسی ہے کہ: "اللہ عزیز وبرتر کا فرمان ہے: میری عزت کی قسم! میں اپنے بندے کے لیے نہ دو امن وامان ایک ساتھ جمع کرتا اورنہ دو خوف وہراس ، اگر وہ دنیا میں مجھ سے مامون رہا تو اس دن میں اسے خوف میں مبتلا کردوں گا جس دن میں اپنے تمام بندوں کو جمع کروں گا، اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے خائف رہا تو میں اسے اس دن امن وامان سے نوازوں گا جس دن میں اپنے تمام بندوں کو جمع کروں گا”۔اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے۔
بندہ کے اندر جس قدر اخلاص اور توحید پائی جائے گی اسی قدر وہ قیامت کے دن امن وامان میں رہے گا، بخاری ومسلم نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ فرماتےہیں: جب یہ آیت اتری: (الَّذِينَآمَنُواوَلَمْيَلْبِسُواإِيمَانَهُمْبِظُلْمٍ) "جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمزَش نہںل کی”۔ تو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ پر یہ آیت گراں گزری اور انہوں نے گزارش کی: ہم مںُ سے کون ہے جو اپنے نفس پر ظلم نہ کرتا ہو؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آیت کا مطلب وہ نہںز جو تم سمجھتے ہو۔ ظلم وہ ہے جس طرح لقمان نے اپنے بٹے سے کہا تھا: (يَابُنَيَّلَاتُشْرِكْبِاللَّهِإِنَّالشِّرْكَلَظُلْمٌعَظِيمٌ) "اے بٹےط! اللہ کےساتھ شرک نہ کرنا، شرک یناً بہت بڑا ظلم ہے”۔
قیامت کے دن عزت واكرام كا ايك منظر یہ بھی ہوگا کہ اللہ تعالی مومنوں کو اپنے سائے تلے جگہ دے گا، چنانچہ جس وقت لوگ حشر کے میدان میں سخت دھوپ کے نیچے عظیم ہولناکی سے گزر رہے ہوں گے ، اس وقت مومنوں کی ایک جماعت رحمت کے عرش کے سائے تلے ہوگی ، انہیں وہ ہولناکیاں لاحق نہیں ہوں گی جن سے دوسرے لوگ دوچار ہوں گے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی خبر دی ہے:”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے مں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا: انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت مں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجدوں مںی اٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لے اور جدا ہوں تو بھی اس کے لےف، وہ شخص جسے کوئی خوبرو اور معزز عورت برائی کی دعوت دے اور وہ کہہ دے: مںں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشدوہ طور پر صدقہ دے کہ اس کے بائں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کا دایاں ہاتھ کا خرچ کرتا ہے اور ساتواں وہ شخص جو خلوت مںج اللہ کو یاد کرے تو (بےساختہ) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائںق”۔(صحیح بخاری وصحیح مسلم)۔یہ سایہ صرف ان سات لوگوں کو ہی نہیں ملے گا ، بلکہ ابن حجر نے اس مسئلہ میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے : "معرفۃ الخصال الموصلۃ إلى الظلال” ، جن خصلتوں کے بنا پر یہ سایہ نصیب ہوگا ان میں سے یہ بھی ہے: تنگ دست کو مہلت دینا، یا اسے معاف کردینا، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "جو شخص کسی تنگ دست کو مہلت دے یا اس کا قرض معاف کردے تو اللہ تعالی اسے اپنے سائے تلے جگہ دے گا”۔صحیح مسلم
اے اللہ! ہمیں قیامت کے دن امن وامان سے سرفراز ہونے والوں میں شامل فرما، اے اللہ! ہمیں قیامت کے دن اپنے عرش کا سایہ نصیب فرما، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:
الحمدللهوحدهوصلىاللهعلىنبيهوعبدهوعلىآلهوصحبه.
حمد وصلاۃ کے بعد:
تمام بندے قیامت کے دن یکساں حالت میں نہیں ہوں گے، بلکہ کچھ مسلمان ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے گناہ کیا ہوگا، ان گناہوں کی وجہ سے وہ ہولناکیوں، مشقتوں اور سزاؤں سے دوچار ہوں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کے بارے میں یہ خبردیا کہ وہ حشر کے میدان میں عذاب سے دوچار ہوں گے، ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو زکاۃ ادا نہیں کرتے، احادیث میں آیا ہے کہ وہ مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہوں گے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قاامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل مںٰ لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہرییا جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن مںہ پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھںو پکڑ کر کہے گا:مںا ترجا مال ہوں، مں تریا خزانہ ہوں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:﴿ وَلاَيَحْسَبَنَّالَّذِينَيَبْخَلُونَبِمَاآتَاهُمُاللّهُمِنفَضْلِهِهُوَخَيْراًلَّهُمْبَلْهُوَشَرٌّلَّهُمْسَيُطَوَّقُونَمَابَخِلُواْبِهِيَوْمَالْقِيَامَةِوَلِلّهِمِيرَاثُالسَّمَاوَاتِوَالأَرْضِوَاللّهُبِمَاتَعْمَلُونَخَبِيرٌ ﴾ [آلعمران: 180] (جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لتےَ ہںَ وہ اس خانل مںَ نہ رہںَ (کہ یہ بخی ا) ان کے حق مںن اچھی ہے،نہںل بلکہ یہ ان کے حق مںَ انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہںں وہی قایمت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا، آسمانوں اور زمین کی میراث اللہ تعالی کے لئے ہے اور جوکچھ تم کر رہے ہو ، اس سے اللہ تعالی آگا ہ ہے) صحیح بخاری وصحیح مسلم۔
صحیح مسلم میں آیا ہے کہ: "جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان مںآ سے(یا ان کی قمتی مںر سے) ان کا حق(زکاۃ) ادا نہںل کرتا تو جب قاومت کا دن ہوگا(انھںا) اس کے لئے آگ کی تختایں بنا دیا جائے گا اور انھں) جہنم کی آگ مںل گرم کاں جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو،اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا،جب وہ(تختایں) ٹھنڈ ہوجائیں گی،انھںا پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا،اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے(یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا)حتیٰ کہ بندوں کے درماون فصلہ کردیا جائے گا،پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا”۔
اللہ کے بندو!
حشر کے میدان میں جن لوگوں کو عذاب دیا جائے گا ان میں: کبر وغرور کرنے والے بھی ہوں گے، کیوں کہ کبر وغرور اللہ کی شریعت میں ایک بڑا جرم ہے، اللہ تعالی کبر کرنے والوں کو نہایت ناپسند کرتا ہے، جب اللہ تعالی بندوں کو دوبارہ زندہ کرے گا تو متکبروں کو ذلیل وخوار بناکر اٹھا ئے گا، مسند احمد اور سنن ترمذی کی روایت ہے: "متکبر (گھمنڈکرنے والے) لوگوں کو قاامت کے دن مددان حشر مںے چھوٹی چھوٹی چوزنٹویں کے مانند لوگوں کی صورتوں مں لایاجائے گا، انہں ہرجگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قدی خانے کی طرف ہنکائے جائںو گے جس کا نام بولس ہے۔ اس مںو انہں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس مں جہنمواں کے زخموں کی پپ پئںں گے جسے طۃنا الخبال کہتے ہںا،یینل سڑی ہوئی بدبودار کچڑج”۔ اس حدیث کو البانی نے حسن قرار دیا ہے۔
چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی شکل میں انہیں اٹھایا جائے گا جنہیں لوگ اہمیت نہیں دیں گے اور لاشعوری میں اپنے پاؤں سے کچل دیں گے، صحیح مسلم کی مرفوع حدیث ہے: "تنن (قسم کے لوگ) ہںئ جن سے اللہ قاتمت کے دن بات نہںد کرے گا اور نہ ان کو پاک فرمائے گا، ان میں یہ بھی ذکر فرمایا: تکبر کرنے والا عانل دار محتاج”۔
اللہ تعالی متکبروں کے ان ناموں کو بھی ناپسند کرتا ہے جن سے وہ اپنے آپ کو موسوم کرتے ہیں تاکہ کبر وغرور اور غلبہ وسطوت کا مظاہرہ کرسکیں، چنانچہ صحیحین میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے نزدیک سب سے بد ترین نام اس شخص کا ہوگا جو اپنا نام ملک الاملاک (شاہان شاہ) رکھے گا”۔مسلم میں یہ اضافہ ہے: "اللہ عزیز وبرتر کے سوا کوئی مالک حقیقی نہیں”۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں: (حدیث میں وارد لفظ) أخنع کے معنی ہیں: سب سے بدترین اور حقیر ترین نام۔
ابن بطال کہتے ہیں: جب یہ نام تمام ناموں سے زیادہ حقیر ہے تو اس سے موسوم ہونے والا اس سے بھی زیادہ ذلیل وخوار ہوگا۔
معزز حضرات!
میدان محشر میں متقیوں اور اللہ کے نافرمان بندوں کے جو حالات ہوں گے، ان میں سے چند حالات پر ہم نے روشنی ڈالی، اے اللہ! ہم تجھ سے ترکی رحمت کو واجب کرنے والی چزروں کا اور ترہی بخشش کے یینہ ہونے کا سوال کرتے ہیں، اور ہر نیی! مںھ سے حصہ پانے کا اور ہر گناہ سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں، جنت سے سرفراز ہونے اور جہنم سے نجات پانے کا سوال کرتے ہیں۔

صلى اللہ علیہ وسلم

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین