قیامت کے دن عزت واکرام سے سرفراز ہونے والے
اور ذلت واہانت سے دوچار ہونے والے لوگ (۳)
پہلا خطبہ:
الحمدللهالذيأنشأوبرا،وأبدعكلشيءوذرا،لايغيبعنبصرهصغيرالنملفيالليلإذاسرى،وأشهدألاإلهإلااللهوحدهلاشريكله ﴿ لَهُمَافِيالسَّمَاوَاتِوَمَافِيالْأَرْضِوَمَابَيْنَهُمَاوَمَاتَحْتَالثَّرَى ﴾ [طه: 6] وأشهدأنمحمداعبدهورسولهوصفيهوخليلهصلىاللهوسلموباركعليهوعلىآلهوأصحابهوأتباعهإلىيومالدين.
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ کو اور اپنے آپ کو تقوی الہی کی وصیت کرتا ہوں، یہ ہمارے لیے اور ہم سے قبل کے تمام اقوام کے لیے اللہ کی وصیت ہے: ﴿ وَلَقَدْوَصَّيْنَاالَّذِينَأُوتُواْالْكِتَابَمِنقَبْلِكُمْوَإِيَّاكُمْأَنِاتَّقُواْاللّهَ ﴾ [النساء: 131]
ترجمہ:واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھییہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
ہمیں یہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ اور رسول کے اوامر ومنہیات کے تئیں ہمارے کیا حالات ہیں ، ہمیں ہر گناہ کے بعد از سر نو توبہ کرنا چاہئے، وہ کپڑا جسے گندا ہوتے ہی دھل دیا جائے، اس کپڑے کی طرح نہیں ہوتا جس پر ایک زمانے تک میل کچیل تہ بتہ بیٹھتا رہتا ہے، اس کے بعد اسے دھویا جاتا ہے، اس میں چمک لانے کے لیے بڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے…یہی حال گناہوں کے ساتھ دلوں کا بھی ہے۔
میرے ایمانی بھائیو!ہمارے دل سخت پڑ جاتے ہیں اور ہمیں ان اعمال کی ضرورت ہوتی ہے کہ جن سے دلوں میں نرمی پیدا ہو، تاکہ اللہ سے ہم قریب ہوسکیں اور تقوی کی خصلتوں سے دامن مراد کو بھر سکیں، جن امور سے دلوں میں رقت ونرمی پیدا ہوتی ہے، ان میں آخرت کے دن کی یاد بھی ہے جس کا ذکر اللہ نے اپنی کتاب میں کثرت سے کیا ہے، دلوں کو ترغیب وترہیب کی ضرورت ہوتی ہے۔
معزز حضرات! آئیے ہم ایسے چند نصوص پر غور وفکر کرتے ہیں جن میں قیامت کے دن لوگوں کے احوال ذکر کیے گئے ہیں، اللہ تعالی اپنے جن بندوں کو عزت واکرام سے نوازے گا ، ہم ان کے بعض حالات کا جائزہ لیں گے اور جن بندوں کو اللہ تعالی ذلت واہانت سے دوچار کرے گا، ان کے بھی بعض حالات پر غور وفکر کریں گے:﴿يَوْمَهُمبَارِزُونَلَايَخْفَىعَلَىاللَّهِمِنْهُمْشَيْءٌلِّمَنِالْمُلْكُالْيَوْمَلِلَّهِالْوَاحِدِالْقَهَّارِ * الْيَوْمَتُجْزَىكُلُّنَفْسٍبِمَاكَسَبَتْلَاظُلْمَالْيَوْمَإِنَّاللَّهَسَرِيعُالْحِسَابِ ﴾ [غافر: 16-17]
ترجمہ: جس دن سب لوگ ظاہر ہوں گے، ان کی کوئی چیز اللہ سے پوشیده نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہی ہے؟ فقط اللہ واحد و قہار کی*آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا۔ آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں،یقیناً اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے واﻻ ہے ۔
یہ اللہ تعالی کے عدل وانصاف ہی ہے کہ سارے بندے قیامت کے دن ایک ہی حالت وکیفیت میں نہیں ہوں گے:: ﴿ أًمْحَسِبَالَّذِينَاجْتَرَحُواالسَّيِّئَاتِأّننَّجْعَلَهُمْكَالَّذِينَآمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحَاتِسَوَاءمَّحْيَاهُموَمَمَاتُهُمْسَاءمَايَحْكُمُونَ ﴾ [الجاثية: 21].
ترجمہ: کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیںیہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمانﻻئے اور نیک کام کیے کہ ان کا مرنا جینایکساں ہوجائے، برا ہے وه فیصلہ جو وه کررہے ہیں۔
جن لوگوں کی فضیلت وبرتری قیامت کے دن ظاہر وعیاں ہوگی ان میں مؤذن حضرات بھی شامل ہوں گے، اس دن ان کی گردنیں سب سے لمبی ہوں گی، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد گرامی ہے: ” قیامت کے دن مؤذن، لوگوں میں سب سے زیادہ لمبی گردنوں والے ہوں گے”۔صحیح مسلم
اس دن مؤذن کے حق میں ہر وہ مخلوق شہادت دے گی جس نے دنیا میں ان کی اذن کی آواز سنی ہوگی، صحیح بخاری میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عبد الرحمن بن صعصعہ سے کہا: میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے، اس لیے تم جب اپنی بکریوں کے ہمراہ جنگل میں رہو اور نماز کے لیے اذان دو تو بلند آواز سے اذان دیا کرو، اس لیے کہ مؤذن کی آواز کو جو کوئی جن و انس یا اور کوئی سنے گا تو وہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی دے گا۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے۔
بعض شارحین حدیث کا کہنا ہے: "اس گواہی کا مقصد یہ ہے کہ جس کے لیے گواہی دی جائے گی وہ قیامت کے دن فضل ومرتبت اور علو درجات میں مشہور ہوگا، جس طرح اللہ تعالی شہادت کے ذریعہ کچھ لوگوں کو رسوا کرے گا اسی طر ح شہادت کے ذریعہ کچھ لوگوں کی عزت واکرام بھی کرے گا”۔
معزز حضرات!
بڑھاپا مسلمان شخص کے لیے قیامت کےدن باعث نور ہوگا، سنن ترمذی اور نسائی میں کعب بن مرۃ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواسلام میں بوڑھاہوجائے، توقیامت کے دن یہ اس کے لیے نوربن کر آئے گا۔(اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے)۔
اسی طرح وضو کی فضیلت بھی اس دن ظاہر وباہر ہوگی، امام مسلم نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ قبرستان میں آئے اور فرمایا: "اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو اور ہم بھی ان شاء اللہ تمہیں ساتھ ملنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو (بھی) دیکھا ہوتا۔صحابہنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں، جو ابھی تک (دنیا میں) نہیں آئے۔ اس پر انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو جو ابھی (دنیا میں) نہیں آئے، کیسے پہچانیں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بتاؤ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے (اور) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں، تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کےرسول! آپ نے فرمایا: وہ وضو کی بنا پر روشن چہروں، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشرو ہوں گا۔ خبردار ! کچھ لوگ یقیناً میرے حوض سے پَرے ہٹائے جائیں گے۔ جیسے (کہیں اور کا) بھٹکا ہوا اونٹ (جو گلے کا حصہ نہیں ہوتا) پرے ہٹا دیا جاتا ہے، میں ان کو آوازدوں گا: دیکھو! ادھر آجاؤ! تو کہا جائے گا: انہوں نے آپ کے بعد (اپنے قول و عمل کو) بدل لیا تھا۔ تو میں کہوں گا: دور ہو جاؤ! دور ہو جاؤ”۔ایک روایت میں ہے: تو کچھ لوگوں کو میرے حوض سے ہٹایا جائے گا ۔(صحیح مسلم)
بخاری ومسلم نے ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا روایت کیا ہے : میری امت کے لوگ قیامت کے دن وضو کے اثر سے روشن چہروں اور سفید چمکدار ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو قرآن وسنت کی برکتوں سے بہرہ ور فرمائے اور ان میں جو آیت وحکمت ہے ، انہیں ہمارے لیے مفید بنائے ، آپ سب اللہ سے مغفرت طلب کریں ، یقیناً وہ خوب معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمدللهوحدهوصلىاللهعلىنبيهوعبدهوعلىآلهوصحبه.
حمد وصلاۃ کے بعد:
میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور تجدید توبہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں، کیوں گناہ زندگی میں بھی باعث بدبختی ہے اور موت کے بعد بھی، جبکہ اطاعت وعبادت زندگی میں بھی باعث برکت ہے اور موت کے بعد بھی:﴿ أًمْحَسِبَالَّذِينَاجْتَرَحُواالسَّيِّئَاتِأّننَّجْعَلَهُمْكَالَّذِينَآمَنُواوَعَمِلُواالصَّالِحَاتِسَوَاءمَّحْيَاهُموَمَمَاتُهُمْسَاءمَايَحْكُمُونَ ﴾ [الجاثية: 21].
ترجمہ: کیا ان لوگوں کا جو برے کام کرتے ہیںیہ گمان ہے کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمانﻻئے اور نیک کام کیے کہ ان کا مرنا جینایکساں ہوجائے، برا ہے وه فیصلہ جو وه کررہے ہیں۔
میرے ایمانی بھائیو! قیامت کے دن کچھ بندوں کی عزت وتکریم کی جائے گی تو کچھ کی ذلت وتوہین، جن کی ذلت وتوہین کی جائے گی ان میں: دغاباز بھی ہے جو کسی بات کا وعدہ کرے اور اسے پورا نہ کرے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی حدیث ہے: "قیامت کے دن اللہ جب پہلے آنے والوں اور بعد میں آنے والوں کو جمع کرے گا تو بدعہدی کرنے والے ہر شخص کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی (کا نشان) ہے”۔(صحیح مسلم)جھنڈا سے مراد علم اور علامتی نشان ہے جو عام طور پر جنگ کے میدان میں لشکر کے سپہ سالار کے ہاتھ میں ہوتاہے۔عربوں کی عادت تھی کہ وہ عام محفلوں اور حج کے موسم میں دغا باز کی توہین کے لیے اس کے نام کا جھنڈا بلند کرتے تھے ، قیامت کے دن بھی اس کے لیے جھنڈا نصب کیا جائے جس سے اس کی رسوائی ہوگی، اس کی غداری جس قدر بڑی ہوگی اسی کے بقدر اس کا جھنڈا بھی بلند ہوگا، صحیح مسلم کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے: "عہد شکنی کرنے والے ہر شخص کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا جو اس کی بدعہدی کے بقدر بلند کیا جائے گا، سنو! عہد شکنی میں کوئی عوام کے (عہد شکن) امیر سے بڑا نہیں ہو گا”۔عوام کے امیر سے مراد حاکم یا خلیفہ ہے ، اس کی عہد شکنی سب سے بڑی عہد شکنی مانی جائے گی،کیوں کہ اس کا نقصان بہت سے لوگوں کو اٹھانا پڑتا ہے، اور اس لیے بھی کہ اس کے ہاتھ میں طاقت وقوت اور اختیار ہوتا ہے ، اس لیے عہد شکنی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالی نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور بندوں کے درمیان بھی اسے حرام ٹھہرایا ہے۔اسی بنا پر زمین غصب کرنے والے کی وعید آئی ہے ، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: "جو شخص کسی دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین ناحق لے لے تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں میں دھنستا چلا جائے گا”۔صحیح بخاری
اسی طرح قیامت کےدن اس شخص کو بھی عذاب دیا جائے گا جو جھوٹا خواب بیان کرے ، بایں طور کہ قیامت کے دن جوکے دو دانوں کے درمیان گرہ لگانے پر اسے مکلف کیاجائے گا ۔ اسی طرح وہ شخص جولوگوں کی بات پر کان دھرے جبکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں تو اس کے کان میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا، صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے تو قیامت کے دن دوجوکے درمیان گرہ لگانے پر اسے مکلف کیاجائے گا اوروہ ان دونوں کے درمیان گرہ ہرگزنہیں لگا سکے گا۔اور جو شخص کسی قوم کی باتوں پر کان لگائے حالانکہ وہ اسے ناپسند سمجھتے ہوں یا وہ اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہوں تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔ اور جو کوئی تصویر بنائے گا اسے عذاب دیا جائے گا اور اسے مکلف کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح ڈالے جو وہ نہیں کرسکے گا”۔اس سے مراد ذی روح کی تصویر بنانا ہے ، علمائے کرام کا اس سلسلے میں شدید اختلاف ہے کہ جو تصویر بنانا حرام ہے ، اس سے مراد کیا ہے ، کیا تراش کر مجسمہ کی شکل میں بنانا مراد ہے ، یا اس میں ہاتھ کی پینٹنگ اور ڈرائنگ بھی شامل ہے، اور اس میں فوٹو گرافک تصویریں شامل ہیں یا نہیں؟ جس کی تفصیل بیان کرنا یہاں مقصود نہیں، بلکہ میں نے صرف اشارہ اور تنبیہ کرنی چاہی۔
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین