لباس کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے کی حُرمت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لباس کو ٹخنوں سے نیچے تک لٹکانے کی حُرمت

از:شیخ ندیم اختر سلفی حفظہ اللہ

داعیہ جالیات حوطہ سدیر

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ]يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاساً يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ[(الأعراف26)

ترجمہ:اے آدم (علیہ السلام )کی اولاد ہم نے تمہارے لئے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو بھی چھپاتا ہےاو رمُوجبِ زینت بھی ہے اورتقوے کا لباس،یہ اس سے بڑھ کر ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہےتاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔

لباس اللہ تعالیٰ کی بےشمار نعمتوں میں سےاس کے بندوں پر ایک عظیم نعمت ہے۔یہ سترپُوشی اورٹھنڈی،گرمی وغیرہ ہر قسم کے آفات سے بچنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔جسم کے کتنے حصے کو چھُپانا واجب ہے،کونسا لباس مُستحب،حرام،مکروہ اور مُباح ہے،اس کی مقدار اور کیفیت،یہ ساری تفاصیل شریعت میں واضح طور سے موجود ہیں۔

Yلباس کو ٹخنوں کےنیچےتک لٹکانا:

کپڑے کو ٹخنوں سےنیچے لٹکانےکی حُرمت ہر لباس کےلئے عام ہےجنہیں مرد حضرات استعمال کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عُمر رضي الله عنه کی بیان کردہ حدیث میں ہےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:”الإسبال في الإزار والقميص والعمامة،من جرّ منها شيئاً خيلاء لم ينظر الله إليه يوم القيامة ” (ابوداؤد حديث:4094،صحيح الألباني للألباني:22770)

(ترجمہ:اسبال (کپڑا لٹکانا)تہبند،قمیص،اور پگڑی سبھی میں ہے،اور جس نے ان میں سے کسی کپڑے کو تکبر سے زمین پر گھسیٹا،اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف (نظرِ رحمت سے)نہیں دیکھیں گے)

اسبال کی حُرمت پر صحاح،سنن،اور مسانید میں کثیر تعداد میں حدیثیں وارد ہیں،جن میں صاحبِ اسبال کو عذابِ الٰہی کی دھمکی دی گئی ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ جس فعل پر عذاب یا غضب ِالٰہی کا سامنا ہو تو ایسا کام حرام اور بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے،حُرمت ِاسبال کا یہ حکم دائمی اور ابدی ہے اس کےمنسوخ ہونےپر کوئی بھی دلیل موجود نہیں ۔

Y اسبال میں کئی طرح کا خطرہ ہے:

(1)- طریقئہ نبوی کی مخالفت:

چنانچہ مسند احمد میں بروایت ابوہریرہtمروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:”أزرة المؤمن إلى عضلة ساقيه،ثم إلى نصف ساقيه،ثم إلى كعبيه،فما كان أسفل من ذلك في النار”(2/278)

(مومن کا تہبند اس کی پنڈلیوں کے عضلہ(پٹھوں)تک ہے،پھر اس کے بعد کا مرحلہ آدھی پنڈلیوں تک ہے،پھر ٹخنوں تک،پس جو اس کےنیچے ہوگاوہ جہنم کی آگ میں ہے)

اور ایک دوسری روایت میں ہے:”فإن أبيت فأسفل،فإن أبيت فلا حق للإزار في الكعبين”(سنن الترمذي حديث:1783)

(ترجمہ:(یعنی نصف پنڈلیوں تک اونچا رکھنا)اگر تیرےلئے ممکن نہ ہوتو (ٹخنےتک)لٹکالو،اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو تہبند کےلئے ٹخنوں میں کوئی حق نہیں )

(2)- ٹخنوں کےنیچے تہبند لٹکانےوالے کےلئے سخت وعید:

چنانچہ حضرت ابوہریرہ tکا بیان ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” ما أسفل من الكعبين من الإزار ففي النار”(صحيح بخاري حديث:5787)

(ترجمہ:تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے ہوگا وہ جہنم میں جائےگا)

(3)- اس میں تکبر کا اظہار ہے:

اسبال میں ایک طرح کا تکبر ہے جو نفس میں خود بینی ،غرور اور ترفع پیدا کرتا ہے اور انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے،اور یہ تمام چیزیں مُوجبِ غضب الٰہی ہیں۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ }(لقمان18)

(ترجمہ:کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالٰی پسند نہیں فرماتا)

(4)- اس میں عورتوں کی مشابہت ہے:

اور حدیث میں عورتوں کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔جیساکہ حضرت ابن عباس tسے روایت ہے کہ ” لعن رسول اللهصلی اللہ علیہ وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء،والمتشبهات من النساء بالرجال”(صحيح البخاري حديث:5885)

(ترجمہ:کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں)

(5)- لباسوں میں نجاست اور گندگی کا خطرہ:

ایک مومن اس بات پر مامور ہے کہ وہ نجاستوں سے اپنے آپ کو دور رکھے۔

اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ]وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ [(المدثر4)

(ترجمہ:اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر)

اسی لئے حضرت عمر بن الخطابرضي الله عنهنےاس جوان کو جو آپ کی زیارت کےلئے آیاتھا اپنا تہبند اوپر اٹھائے رکھنے کا حکم دیا جبکہ آپ مرض الموت میں تھےاور اس سے فرمایا کہ اس سے تمہارے کپڑے کی صفائی بھی ہے اور تمہارے رب سے تقوے کا باعث بھی ہے۔(صحیح بخاری:حدیث:370)

(6)- کبیرہ گناہوں میں سے ہے:

حضرت ابوذر غفاری رضي الله عنه سے روایت ہے کہ بنی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:” ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة، ولا ينظر إليهم،ولا يزكيهم، ولهم عذاب أليم” قال فقرأها رسول اللهصلی اللہ علیہ وسلم ثلاث مرار.قال أبوذر:خابوا وخسروا،من هم يا رسول الله ؟ قال:” المسبل،والمنان،والمنفق سلعته بالحلف الكاذب” (صحيح مسلم حديث:106)

(ترجمہ:تین شخص ایسے ہیں کہ قیامت کےدن اللہ تعالٰی نہ ان سے بات کرےگا اور نہ انہیں نظرِ رحمت سے دیکھےگا اور نہ ہی انہیں پاک کرےگا اور ان کےلئے دردناک عذاب ہوگا،آپصلی اللہ علیہ وسلم نےیہ تین بار فرمایا،میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کون لوگ خائب وخاسر ہوگئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(1)اپنے کپڑے کو لٹکانے والا (2)احسان جتلانے والا (3)جھوٹی قسمیں کھاکر اپنے سامان کو فروخت کرنے والا)

شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :مذکورہ انہیں وجوہات کی بناپر مَردوں کو اسبال سے مُطلقاً منع کیا گیا ہے،اگر یہ تکبر کی وجہ سے ہے تو اس پر امت کا اجماع ہے،اور اگر تکبر نہ ہو تو حرام اور مذموم ہے۔(حد الثوب والأزرة وتحريم الإسبال ولباس الشهرة)

اور ایک حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” إياك وإسبال الإزار فإن إسبال الإزار من المخيلة وإن الله لا يحب المخيلة”(مسند أحمد 5/64 بروايت جابررضي الله عنه)

(ترجمہ:تہبند کو لٹکانےسے بچو ،اسلئے کہ یہ تکبر میں سے ہے اور اللہ تعالٰی کو تکبر ناپسند ہے)

اس حدیث سے ظاہراً یہی معلوم ہوتا ہے کہ مجرد اسبال(صرف لٹکانےسے)ہی تکبر لازم آتا ہےگرچہ پہننے والے کا یہ ارادہ نہ ہو،علاوہ ازیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے صاحبِ اسبال پر یہ دیکھے بغیر انکار کیا کہ اس کا مقصد تکبر ہے یانہیں،چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنےعبد اللہ بن عمر،جابربن سلیم،عمرو الانصاریyکو اسبال سے منع کیا تو انہوں نے آدھی پنڈلیوں تک اپنے تہبند اٹھالئے۔

یہ اس بات کی واضح دلیل ہےکہ بعض حدیثوں میں جو خُیلا٫(تکبر)کی قید ہےوہ بطورِ غالب احوال کے ہے،اور اصولیوں کے نزدیک یہ بات معروف ہے کہ جب کسی چیز کی قید باعتبار غالب ہو تو اس کا کوئی مفہوم نہیں ہوتا جیسا کہ اس آیت میں ہے: ]وَرَبَائِبُكُمُ اللاَّتِي فِي حُجُورِكُم [ (النساء23)

(ترجمہ:اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں )

اس آیت میں "فی حُجورکم”کی قید غالب احوال کے اعتبار سے ہے،بطورِ شرط کے نہیں ہے۔

Yتین حالتیں اس سے مستثنی ہیں :

(1)- کسی عارض کی بناپر ہو:

جیسے:کوئی بھول جائے،یالٹکتے وقت اس کا خیال نہ ہو،جیساکہ حضرت ابوبکررضي الله عنهنے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میراتہبند نیچے لٹک جاتا ہےجب تک کہ میں اس کا خیال نہ رکھوں،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے ان سے فرمایا کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں جو تکبر کے طور پر یہ کام کرتے ہیں (صحیح بخاری:3665،صحیح مسلم:2085)

(2)- جوپیروں میں کسی بیماری کےسبب اسبال کرے،کیونکہ ضرورت کے تحت کئے گئے کام کے احکام کچھ اور ہوتے ہیں۔

(3)- عورتوں کو ستر پوشی کےلئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دی ہے:جیساکہ حضرت عبد اللہ بن عُمررضي الله عنه کی حدیث میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ عورتیں اپنی چادروں کے بارے میں کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” يُرخين شبراً” قالت:إذا تنكشف أقدامهن.قال:” فيُرخينه ذراعاً لا يزدن”

(أبوداؤد:4119والترمذي:1731)

(ترجمہ:وہ(نصف پنڈلی سے )ایک بالشت نیچا کریں،انہوں نے کہا:تب ان کے پاؤں نظر آئیں گے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو وہ ایک ہاتھ نیچا چھوڑ دیں اس سے زیادہ نہ کریں)

خلاصئہ کلام یہ کہ مَردوں کے حق میں اسبال مطلقاًمنع ہےاور یہ کہ وہ بذات خود تکبر ہے،نیز یہ کہ صاحب اسبال حرام اور بڑے گناہ کا مُرتکب ہوگا اور دنیا وآخرت میں عُقوبت الہی سے دوچار ہوگا۔

Yصاحب اسبال کی نماز:(1)

رہا یہ مسئلہ کہ صاحب اسبال کی نماز صحیح ہے یا باطل،تو اس میں اہلِ علم کے مابین اختلاف ہے۔علما٫ کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اس کی نماز درست نہیں ،اس لئے کہ اس کا کپڑا حلال نہیں اور اللہ نے ہمارے لئے حلال کپڑوں کو مباح قرار دیا ہے اسلئے کہ اللہ تعالٰی کا قول ہے: ]يَا بَنِي آدَمَ خُذُواْ زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ[(الأعراف31)

(ترجمہ:اے آدم کی اولاد!تم مسجدوں کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو)

یعنی جو لباس اللہ نے مباح اور حلال کیا ہے،لیکن جو حرام لباس ہیں ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ اس سے منع کیا گیا ہے۔

نیز حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے بارے میں فرمایا:” إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره وإن الله لا يقبل صلاة رجل مسبل”(أبوداؤد:4086)

(کہ یہ اپنے تہبند کو (ٹخنوں سے نیچے)لٹکاکر نماز پڑھتا ہے، اور اللہ تعالٰی اس آدمی کی نماز کو قبول نہیں فرماتےجو اپنے تہبند کو (ٹخنوں سے نیچے)لٹکاتا ہے۔

اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہےکہ اللہ تعالٰی مُسبل(ٹخنوں سے نیچےلٹکانےوالے)کی نماز قبول نہیں فرماتا،یعنی اس کی نماز فاسد ہے جس کا اعادہ ضروری ہے۔

لیکن اس سلسلہ میں علما٫ کا صحیح قول یہی ہے کہ مُسبل کی نماز درست ہے ،لیکن اسبال کی وجہ سے وہ گنہگار ہوگا ،اس کی مثال جیسےکوئی شخص حرام لباس-جیسے:چوری کیاہوا لباس،یاایسا لباس جس میں تصویر یا نشانِ صلیب ہو،یا جس میں جاندار کی تصویر ہو-پہن کر نماز پڑھے تو اس کی نماز تو درست ہے لیکن وہ گنہگار ہوگا،اور اس مسئلہ میں یہی راجح قول ہے،اس لئے کہ حدیث میں وارد ممانعت نماز کے ساتھ خاص نہیں ،کیونکہ حرام لباس چاہے نماز کے اندر ہو یا باہردونوں حالتوں میں منع ہے،لہذا اس سے نماز باطل نہ ہوگی،اور یہی صحیح قاعدہ ہے جس سے جمہور علما٫نے اخذ کیا ہے۔اور جہاں تک حدیث کا تعلق ہےتو ضعیف ہونے کی بناپر ناقابلِ استدلال ہے۔

واللہ تعالٰی اعلم ،وصلی اللہ علی نبینا محمد وسلم

ختم شدہ

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }

ــــــــــــــــــــــــــــ

(1)شرح ریاض الصالحین لفضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین(4/299-301)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں