ماں

موضوع:
ماں
پہلا خطبہ:
إن الحمدلله نحمده، ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهده الله فلا مضلَّ له، ومن يضلل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسوله.
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴾ [المائدة: 35].
حمد وثنا کے بعد!
اللہ کے بندو! آج ہماری گفتگو کا موضوع سخت جان بہادر، جفاکش اور مخلص ہستی ہے، جو شفقت ومحبت کا سرچشمہ ہے، رحمت ورافت کا محور ہے، جو سب سے وفادار دوست اور سب سے خیر خواہ محبوب ہے، وہ ہستی جس نے آپ کے لیے نرس اور ڈاکٹر کا رول ادا کیا، مربی اور معلم کا کردار نبھایا، وہ اس معرکہ کی فوج ہے جہاں نہ کوئی لشکر ہوتا ہے اور نہ کوئی جنگ، بغیر سرحد کے بھی وہ رات رات بھر جاگ کر نگرانی کرتی ہے، اپنے عمل میں مخلص ہے، اس کی طرح کوئی انسان مخلص نہیں ہوسکتا ، وہ دن رات اپنے جسم وجان سے اپنے مشن میں لگی رہتی ہے،اس کی کوئی ماہانہ تنخواہ نہیں جو مہینہ کے اخیر میں مل جایا کرے،آ ج ہماری گفتگو اس ذات کے بارے میں ہے جس کا شریعت مطہرہ نے بڑ ا خیال کیا ہے، ہمیں اس کے ساتھ حسن سلو ک کرنے اور اخلاص کے ساتھ اس کی فرمانبرداری کرنے کی رغبت دی ہے، ہماری گفتگو کا موضوع ماں ہے۔
آپ اس عجیب وغریب واقعہ کو سماعت کیجئے جو ایک ایسے عابد وزاہد شخص کے ساتھ پیش آیا جس نے اپنے آپ کو نماز او رعبادت کے لیے وقف کردیا تھا، صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: "صرف تنو بچوں کے سوا آغوش مادر مں کسی نے بات نہں کی: حضرت عیسیٰ بن مریم اور جریج (کی گواہی دینے) والے نے۔ جریج ایک عبادت گزار آدمی تھا۔ انہوں نے نوکیلیچھت والی ایک عبادت گاہ بنا لی۔ وہ اس کے اندر تھے کہ ان کی والدہ آئی اور وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ تو اس نے پکار کر کہا: جریج! انہوں نے کہا: مراے رب! (ایک طرف) مرےی ماں ہے اور (دوسری طرف) مر ی نماز ہے، پھر وہ اپنی نماز کی طرف متوجہ ہو گئے اور وہ چلی گئی۔ جب دوسرا دن ہوا تو وہ آئی، وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ اس نے بلایا: او جریج! تو جریج نے کہا: مرفے پروردگار! مریی ماں ہے اور مروی نماز ہے۔ انہوں نے نماز کی طرف توجہ کر لی۔ وہ چلی گئی، پھر جب اگلا دن ہوا تو وہ آئی اور آواز دی: جریج! انہوں نے کہا: مررے پروردگار! مرنی ماں ہے اور مریی نماز ہے، پھر وہ اپنی نماز مں لگ گئے، تو اس نے کہا: اے اللہ! بدکار عورتوں کا منہ دیکھنے سے پہلے اسے موت نہ دینا۔ بنی اسرائل آپس مںو جریج اور ان کی عبادت گزاری کا چرچا کرنے لگے۔ وہاں ایک بدکار عورت تھی جس کے حسن کی مثال دی جاتی تھی، وہ کہنے لگی: اگر تم چاہو تو مںر تمہاری خاطر اسے فتنے مںن ڈال سکتی ہوں، کہا: تو اس عورت نے اپنے آپ کو اس کے سامنے پش کاا، لکنن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے۔ وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو (دھوپ اور بارش میں) ان کی عبادت گاہ کی پناہ لاک کرتا تھا۔ اس عورت نے چرواہے کو اپنا آپ پش کاہ تو اس نے عورت کے ساتھ بدکاری کی اور اسے حمل ہو گات۔ جب اس نے بچے کو جنم دیا تو کہا: یہ جریج سے ہے۔ لوگ ان کے پاس آئے، انہںت (عبادت گاہ سے) نچے آنے کا کہا، ان کی عبادت گاہ ڈھا دی اور انہیںمارنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کہا: تم لوگوں کو کاے ہوا ہے؟ لوگوں نے کہا: تم نے اس بدکار عورت سے زنا کاا ہے اور اس نے تمہارے بچے کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے کہا: بچہ کہاں ہے؟ وہ اسے لے آئے۔ انہوں نے کہا: مجھے نماز پڑھ لنےن دو، پھر انہوں نے نماز پڑھی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو بچے کے پاس آئے، اس کے پٹو مںآ انگلی چبھوئی اور کہا: بچے! تمہارا باپ کون ہے۔ اس نے جواب دیا۔ فلاں چرواہا۔ آپ نے فرمایا: پھر وہ لوگ جریج کی طرف لپکے، انہںک چومتے تھے اور برکت حاصل کرنے کے لےر ان کو ہاتھ لگاتے تھے اور انہوں نے کہا: ہم آپ کی عبادت گاہ سونے (چاندی) کی بنا دیتے ہںل، انہوں نے کہا: نہںے، اسے مٹی سے دوبارہ اسی طرح بنا دو جیجو وہ تھی تو انہوں نے (ویسے ہی) کاا…”۔
اللہ تعالی نے ان کی ماں کے منہ سے نکلی دعا کو قبول کرلیا، افضل یہ تھا کہ جریج (نفل نماز میں مصروف رہنے کے بجائے) اپنی ماں کی آواز پر لبیک کہتے کیوں کہ یہ عظیم ترین واجبات میں سے ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں: "نفل نماز میں انہماک کے ساتھ مشغول رہنا مستحب ہے، واجب نہیں، جب کہ ماں کی پکار پر لبیک کہنا اور اس کی فرمانبرداری کرنا واجب اور اس کی نافرمانی کرنا حرام ہے”۔ انتہی
بلکہ اللہ نے مشرک ماں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے:
﴿ وَإِنْجَاهَدَاكَعَلَىأَنْتُشْرِكَبِيمَالَيْسَلَكَبِهِعِلْمٌفَلَاتُطِعْهُمَاوَصَاحِبْهُمَافِيالدُّنْيَامَعْرُوفًا ﴾ [لقمان: 15]
ترجمہ: اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کرے جس کا تجھے علم نہ ہو تو تو ان کا کہنا نہ ماننا ، ہاں دنیا میں ان کے ساتھ اچھی طرح بسر کرنا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اگر والدین مومن ہوں تو آ پ پر ان کے کیا حقوق ہو سکتے ہیں؟
آئیے –میرے بھائی-ہم اس عظیم آیت پر سرسری نظر ڈالتے ہیں جو بارہا آپ نے سنا ہے:
﴿ وَقَضَىرَبُّكَأَلَّاتَعْبُدُواإِلَّاإِيَّاهُوَبِالْوَالِدَيْنِإِحْسَانًا ﴾ [الإسراء: 23]
ترجمہ: اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔
آپ غور کریں کہ کس طرح اللہ تعالی نے والدین کے حقوق کو اپنے حق کے ساتھ ذکر کیا ہے، جب کہ اپنے حق کے ساتھ کسی کا حق بیان نہیں کیا۔
اللہ نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا، اس حکم میں احسان کے تمام قولی وفعلی معانی شامل ہیں، اس عموم کے بعد خاص طور پر یہ تنبیہ فرمائی کہ:
﴿ إِمَّايَبْلُغَنَّعِنْدَكَالْكِبَرَأَحَدُهُمَاأَوْكِلَاهُمَافَلَاتَقُلْلَهُمَاأُفٍّ ﴾ [الإسراء: 23]
ترجمہ: اگر تیری موجود گی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔
ادنی قسم کی لفظی اذیت سے بھی منع کیا گیا ہے،﴿ وَلاَتَنْهَرْهُمَا﴾ اس میں کسی بھی طرح کی ایسی حرکت سے منع کیا گیا ہے جس سے ان کو زچ ہو، عطاء بن ابی رباح کا قول ہے: ان کے سامنے اپنے ہاتھ نہ جھاڑو۔ انتہی
جب اللہ نے بری بات اور برے کام سے منع فرمایا تو اس کے بعد اچھی بات اور حسن سلوک کا حکم دیا: ﴿ وَقُلْلَهُمَاقَوْلاًكَرِيمًا﴾
ترجمہ: بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔
ابن کثیر فرماتے ہیں: یعنی: نرم بات، اچھی بات اور پیاری بات کرنا، وہ بھی ادب ، احترام اور توقیر کے ساتھ ۔ انتہی۔
اللہ نے والدین کے سامنے تواضع اختیار کرنے کاحکم دیا ہے ، چنانچہ فرمایا:
﴿ وَاخْفِضْلَهُمَاجَنَاحَالذُّلِّمِنَالرَّحْمَةِ ﴾ [الإسراء: 24]
ترجمہ: اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا ۔
والدین کے تعلق سے ان اوامر کا خاتمہ یوں کیا کہ: ان کے حق میں دعائیں کرتے رہنا:
﴿ وَقُلْرَبِّارْحَمْهُمَاكَمَارَبَّيَانِيصَغِيرًا ﴾.
ترجمہ: اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔
میرے مبارک بھائی! اگر آپ کے لیے یہ ممکن ہو کہ آپ روزانہ اپنی والدہ کی زیارت کریں اور ان کے پا س بیٹھیں، تو ایسا ضرور کریں۔ اگر آپ ان سے دور ہوں تو فون پر بات کر لیا کریں، کیوں کہ یہ بھی ان کی فرمانبرداری کا حصہ اور ان کو خوش کرنے کا طریقہ ہے، ان کے مطالبہ سے پہلے ان کی ضروریات پوری کریں، ان کی ضروریات کے بارے میں دریافت کریں اور ان کے حالات کا جائزہ لیتے رہیں، ان کے لیے اللہ سے دعا کریں، ان کے مطالبہ پر خوشی کا اور ان کے حکم کی تعمیل پر مسرت کا اظہار کریں، وقتا فوقتا ان کو تحفہ دیتے رہا کریں، اور اگر آپ صاحب ثروت ہیں تو خوب ہدیے اور تحفے دیں، ان کو دین کی تعلیم دیں اور ایسے احکام سکھائیں جن سے رب تعالی کے نزدیک ان کا مقام ومرتبہ بلند ہو، سلام کرتے ہوئے ان کے سر کا بوسہ دیں، ان کی زیارت کے لیے اپنی اولاد کو ساتھ لے جائیں، ان کے بیٹے بیٹیوں کی ضرورت پوری کریں، کیوں کہ اس سے ان کو خوشی ملتی ہے، ان کے سامنے اپنے غموں کی داستان نہ سنائیں، کیوں کہ اس سے ان کو بہت رنج پہنچتا ہے، ان سے مشورہ طلب کریں، اور اپنے اہم امور سے ان کو آگاہ کریں، اپنے بھائیوں اور بہنوں کے تئیں اپنی ہمدردی اور فکر مندی کا اظہار کریں، کیوں کہ آپ کے آپسی اتحاد واتفاق سے ان کو یک گونہ فرحت اور دلی مسرت حاصل ہوتی ہے، ان کے پسندیدہ موضوعات پر ان سے گفتگو کریں، ایک داعی کا کہنا ہے: ایک ماں اپنے ایک بیٹے سے بہت خوش تھی، جب کہ اس کے سارے ہی بیٹے اچھے تھے، تو انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا ، تو اس بیٹے نے جواب دیا: میری ماں کو خوش کرنے کی ایک کنجی ایسی جسے ہے میرے دوسرے بھائی استعمال نہیں کرسکے، پوچھنے پر بتایا کہ: بہت آسان سی کنجی ہے، میں ان کے ساتھ ایسے موضوعات پر بات کرتا ہوں جن کی ان کو فکر دامن گیر رہتی ہے، فلاں کی شادی ہوگئی، فلاں کو اولاد ہوئی، فلاں بیمار ہوا تو میں اس کی زیارت کو گیا، ایسے ہی دیگر امور…جب کہ میرے دیگر بھائی عام طور پر ان کے ساتھ تعمیراتی امور اور تجارتی مشاغل وغیرہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
میرے مبارک بھائی! والدہ کی فرمانبرداری کے بہت سے دروازے ہیں، آپ کوشش کریں کہ تمام دروازے سے داخل ہوں، یہ تمام طریقے اپنے والد کے ساتھ بھی اپنائیں، ان کی زندگی کو غنیمت جانیں، اے اللہ! ہمیں اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق عطا فرما، ہماری کوتاہی کو در گزر فرما، اللہ تعالی ہمیں ہمارے علم سے فائدہ پہنچائے، ہمیں علم نافع عطا کرے ، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمدللهكثيرًا،وسبحاناللهبكرةوأصيلاً،وصلىاللهوسلمعلىخاتمرسلهتسليمًاوفيرًا.
حمد وصلاۃ کے بعد:
کتاب الہی سے زیادہ فصیح وبلیغ کوئی کتاب نہیں، یہ کتاب بیان کرتی ہے کہ ہماری ماؤں نے حمل کے دوران اور حالت رضاعت میں ہماری خاطر کس قدر تکلیف برداشت کیں، اللہ تعالی اپنی کتاب مجید میں فرماتا ہے:
﴿ وَوَصَّيْنَاالْإِنْسَانَبِوَالِدَيْهِإِحْسَانًاحَمَلَتْهُأُمُّهُكُرْهًاوَوَضَعَتْهُكُرْهًاوَحَمْلُهُوَفِصَالُهُثَلَاثُونَشَهْرًا ﴾ [الأحقاف: 15]
ترجمہ: اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے، اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا ۔ اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے کا ہے۔
ایک دوسری آیت میں اللہ فرماتا ہے:
﴿ وَوَصَّيْنَاالْإِنْسَانَبِوَالِدَيْهِحَمَلَتْهُأُمُّهُوَهْنًاعَلَىوَهْنٍوَفِصَالُهُفِيعَامَيْنِأَنِاشْكُرْلِيوَلِوَالِدَيْكَإِلَيَّالْمَصِيرُ ﴾ [لقمان: 14]
ترجمہ: ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا ، اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
قتادۃ فرماتے ہیں : اس آیت میں "وهنًاعلىوهن”کے معنی ہیں: دکھ پر دکھ اٹھاکر۔
اے وہ شخص جس کے والدین اس دنیا سے گزر چکے ہیں، آپ کے پا س بھی خیر کے بہت سے مواقع ہیں، بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے گزرے ہوئے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کے ایسے نمونے پیش کرتے ہیں جو بعض ایسے لوگ بھی نہیں پیش کر پاتے جن کے والدین با حیات ہیں، اللہ المستعان، آپ اپنی حالت درست کریں اور کثرت سے والدین کے لیے دعا کریں، صحیح مسلم میں مرفوعاً یہ حدیث آئی ہے:” جب انسان فوت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے سوائے تنا اعمال کے (وہ منقطع نہںل ہوتے) : صدقہ جاریہیا ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا نکع بٹا جو اس کے لےی دعا کرے”۔
والدین کی جانب سے صدقہ کیا کریں، ان کے رشتہ داروں اور دوستوں سے صلہ رحمی کریں ، ان کے عہد وپیمان کو پورا کریں، مسند احمد اور سنن ابی داود کی روایت ہے کہ : ایک آدمی آپ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی فرمانبرداری کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ” ہاں۔ ان کے لےا دعا کرنا ، ان کے لے بخشش مانگنا ، ان کے بعد ان کے عہد کو پورا کرنا، ایسے رشتہ داروں سے ملہ ملاپ رکھنا کہ ان ( ماں باپ ) کے بغرے ان سے ملاپ نہ ہو سکتا تھا اور ان کے دوست کی عزت کرنا "۔
میرے فاضل بھائی! والدین کے ساتھ حسن سلوک اوران کی فرمانبرداری ایک عظیم عبادت ہے جو آپ کو اللہ سے قریب کرتی ہے، یہ عمل برکت اور توفیق الہی کا سبب ہے، اس سے معاملات آسان ہوتے ہیں، یہ آپ کی حفاظت اور سلامتی کا سبب ہے، یہ اس کا بھی ایک بڑا سبب ہے کہ آپ کی اولاد آپ کے ساتھ حسن سلوک کرے، بالعموم یہ دنیا اور آخرت کی توفیق کا راز ہے۔
اخیر میں –اللہ آپ پر رحم فرمائے- آپ ہادی وبشیر نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجیں!
اللهمياذاالأسماءِالحسنىوالصفاتِالعلى،اغفرْلآبائِناوأمهاتِنا،جازِهمبالإحسانِإحسانًا،وبالسيئاتِعفوًامنكَوغُفرانًا،اللهمياحيُّياقيومُ،ارزقنابرَّوالديناأحياءًوأمواتًا،واجعلنالهمقرةَأعين،وتوفناوإياهُموأنتَراضٍعناغيرغضبان،اللهمباركْلنافيأعمارِناوأولادِناوأموالِنا.

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں