ماہِ محرم بدعات کے گھیرے میں

بسم االلہ الرحمن الرحیم

ماہِ محرم

بدعات کے گھیرے میں

تألیف: شیخ محمد سلیم ساجد المدنی

{ پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }

الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحابہ أجمعین، و بعد !

محرم کا مہینہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور یہ حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:

”حرمت والے مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم کا بھی ہے”

(صحیح بخاری ومسلم)

اس مہینہ میں جنگ و جدال ، قتل و غارت ، فحش کلامیاں، بیہودہ سلوک، نازیبا اخلاق اور ہر قسم کی گری ہوئی حرکتوں کا ارتکاب کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔

ماہ محرم ایک مقدس اور مبارک مہینہ ہے، اس کی دسویں تاریخ ابتدائے آفرینش سے ہی بڑی قدر و منزلت اور غیر معمولی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اس تاریخ کو بہت سے انبیاء کرام کی توبہ قبول ہوئی، بہتوںکی دعائیں مقبول ہوئیں، اور رب العالمین کی طرف سے بہت سے فیصلے صادر ہوئے ، ماہ محرم اور اس کی دسویں تاریخ کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی احادیث وارد ہیں، اس میں روزہ رکھنے کی بڑی توجہ دلائی گئی ہے:

(١) رمضان کے سوا نفلی روزوں میں سب سے افضل روزہ محرم کا روزہ ہے۔(صحیح مسلم)

(٢) نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا، آپ نے سبب دریافت کیا تو یہودیوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق آب کیا تھا، اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکرانہ اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم ان کی اتباع کررہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہم تمہاری بہ نسبت اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ (صحیح مسلم)

(٣) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے روزہ کی فرضیت سے قبل دسویں محرم کو روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے اور جو نہ چاہے وہ نہ رکھے۔ (صحیح مسلم)

بے حد افسوس ہے کہ آج مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اپنے اسلامی سال کا آغاز برے عقائد ، شیعی افسانے ، سبائی تحریک کی منظم کردہ داستانِ کربلا اور ایسی گھناؤنی حرکات کے ذریعہ کرتا ہے جنہیں اسلام دشمنوں نے ناخواندہ اور جاہل عوام کے لئے مزین کررکھا ہے اور ہمارے سنی بھائی بھی پرانے شکاریوں کے اس نئے جال میں پھنس کر اپنے سال کی ابتداء صحابہ کرام اور تابعین عظام پر سب وشتم اور لعن و طعن کے ذریعہ کرتے ہیں جو کہ ایک شرمناک امر اور سنت رسول سے سراسر بغاوت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”لَا تسُبوا أصحابی فوالذی نفس بیدہ لو أن أحدکم نفق مثل أحد ذہبا لا یبلغ مد أحدہم ولا نصیفہ” (صحیح مسلم)

”میرے صحابہ کو برا نہ کہو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کرے تو صحابہ کے ایک مد یا آدھے کے ثواب کے برابر بھی اس کا ثواب نہ ہوگا”

گرچہ مورخین کے درمیان شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی تاریخ میں اختلاف ہے، مگر اکثر وبیشتر روایات کے مطابق یہ سانحۂ عظیم بھی اسی دس محرم ٦١ھ کو پیش آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ تمام مسلمانوں کے لئے باعث رنج و الم ہے، کوئی مسلمان ایسا نہیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے نواسے کی شہادت کا غم نہ ہو، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس دن کھیل تماشے کئے جائیں، ڈھول ، تاشے اور شہنائیاں بجائی جائیں، بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہرہ کیا جائے اور حیا سوز و شرمناک امور کے ذریعہ قرآن وحدیث کی مقدس تعلیمات کو پامال کیا جائے، جبکہ کوئی اس بات کو گوارا نہیں کرے گا کہ اس کے گھر میں کسی کے مر جانے پر قسم قسم کے حلوے، پوری اور شربت تقسیم کئے جائیں، ڈھول تاشے بجائے جائیںاور بے غیرت و بے حیاعورت کو بلا کر مرثیہ خوانی کی محفلیں سجائی جائیں، پھر نبی کے نواسے کی شہادت پر ان گھنائونی چیزوں کا مظاہرہ کرکے بھی آپ عاشق رسول ہیں؟ کیا یہ امام حسین کی توہین نہیںہے کہ ان کے نام پر بانس و کاغذ کا ٹھاٹھ بناکر ڈھولک بجاویں، قوالی کرائیں، سارنگیاں بجاویں، اور بے حجاب و بے شرم عورتوں کو بلا کر یا حسین یا حسین کے نعرے لگوائیں؟

یہ تعزیہ کو پوجیں ڈھولک بجا بجاکر

قبروں پہ کریں جمگھٹ یہ عورتیں بلاکر

پھر تالیاں بجاتے قوالیاں یہ گاکر

ہر چیز مانگتے ہیں مردوں سے یہ جگا کر

اسلام میں ماتم، نوحہ خوانی اور بے ہودہ حرکات کا مظاہرہ قطعی طور پر حرام ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

”لیس منا من ضرب الخدود وشق الجیوب ودعا بدعوی الجاہلیة”

(متفق علیہ)

”وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جس نے ماتم کرتے ہوئے منہ کو پیٹا، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکاری” (صحیح بخاری ومسلم)

نیز فرماتے ہیں:

”أنا برئ ممن حلق وصلق وخرق” (متفق علیہ)

”میں اس شخص سے اپنی براء ت کا اعلان کرتا ہوں جو ماتم میں سر کے بال منڈوائے بلند آواز سے نوحہ کرے اور کپڑے پھاڑے”

(صحیح بخاری ومسلم)

مصائب و آلام کی گھڑی میں مسلمانوں کا شیوہ یہ ہونا چاہئے کہ صبر وتحمل سے کام لیں، اور” إنا للہ و إنا لیہ راجعون” پڑھ کر اجر وثواب کے مستحق ہوں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

[وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الخَوْفِ وَالجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأَمْوَالِ وَالأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ(155) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ(156) أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ المُهْتَدُونَ(157) ]. {البقرة}.

”اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک و پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے، اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمت ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں” (سورة البقرة: ١٥٥ـ١٥٧)

اسی طرح متعدد حدیثوں میں مصیبت کے وقت ”إنا للہ و إناإ لیہ راجعون” کے ساتھ” َللّٰہُمَّ اَجِرْنِيْ فِي مُصِیْبَتِْ وَاخْلُفُ لِيْ خَیْرًا مِّنْہَا”پڑھنے کی بھی فضیلت اور تاکید آئی ہے۔ (صحیح مسلم)

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کے لڑکے کی وفات کی خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیغام بھیجا:

”یہ اللہ کی امانت تھی جو اس نے واپس لے لی اور جو کچھ اس نے دے رکھا ہے وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لئے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے ، پس تم صبر سے کام لو اور اس پر اللہ سے ثواب کی امید رکھو” (صحیح بخاری ومسلم)

اسی طرح اسلام نے میت پر سوگ کے لئے ایک حد مقرر کررکھی ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

”جو عورت اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے اس کے لئے جائز نہیں کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے مگر اپنے شوہر کے انتقال پر چار مہینے اور دس دن سوگ کرے” (صحیح بخاری ومسلم)

شہادت حسین بھی ایک الم انگیز مصیبت ہے، لہٰذا مسلمانوں کو قضاء و قدر پر ایمان رکھ کر قرآن وسنت کے مطابق صبر وتحمل سے کام لینا چاہئے، غور کیجئے اعلان ِ حق اور توحید کے جرم میں جلیل القدر صحابیہ سمیّہ رضی اللہ عنہا کو بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا مگر کوئی ماتم نہیں، بیر معونہ پر ٦٧ صحابہ کو دھوکے سے تہہ تیغ کیا گیا مگر بین اور نوحہ کی کوئی محفل نہ سجائی گئی، جنگ احد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا اور ان کی لاشِ مبارک کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا گیا مگر کوئی مرثیہ خوانی نہیں ہوئی، آخر شہادت حسین پر ماتم اور نوحہ کا حیا سوز منظر کیوں ہے؟ جبکہ حضرت حسین کے صاحبزادے اور رشتہ داروں نے بھی ایسا نہیں کیا اور نہ دوسرے لوگوں نے، یہاں تک کہ ائمہ اربعہ سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں۔

تاریخ کے مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعزیۂ حسین کی بدعت کا آغاز واقعہ کربلا کے تین سو سال بعد ٣٥٢ہجری میں ہوا جبکہ ایک شیعہ امیر معز الدولہ دیلمی نے اپنے دورِ حکومت میں محرم کی دسویں تاریخ کو ماتمِ حسین کا دن مقرر کیا اور عوام کو ماتم ونوحہ کا حکم صادر کیا۔ (البدایہ والنہایہ لا بن کثیر :٢٨٣١٠)

ہندوستان کی سرزمین میں محرم کی رسوم وبدعات مغلوں کے دور اکبری میں عروج کو پہنچیں ، اور اس میں شک نہیں کہ اکبر بادشاہ مشرکانہ رسم ورواج اور بدعات وخرافات کا دلدادہ تھا اور ناخواندہ عوام کو بھی اس جانب دعوت دیتا تھا۔

واضح رہے کہ واقعہ کربلا سے متعلق جو مبالغہ آمیز واقعات اور افسانے بیان کئے جاتے ہیں وہ ہم تک شیعہ مصنفین کے شہادت ناموں سے پہنچے ہیں، اور یہ شیعہ راویوں ابو مخنف لوط بن یحییٰ ، محمد بن السائب الکلبی، اور ہشام بن محمد الکلبی کی جھوٹی اور موضوع روایتوں کے ذریعہ عوام الناس میں پھیلائے گئے ہیں، ان تینوں کو ائمہ حدیث نے کٹر رافضی ، دروغ گو، کذاب اور غیر معتبر قرار دیا ہے۔

(دیکھئے : میزان الاعتدال للذہبی، الاحادیث الموضوعہ للسیوطی ، الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث برھان الدین الحلبی ، منہاج السنہ لشیخ الاسلام ابن تیمہ)

مذکو رہ کتابوں کا مطالعہ فرمایئے ، پتہ چل جائے گا کہ یہ تینوں راوی کس قدر جھوٹے، دروغ گو اور کذاب تھے، مگر اس کے باوجود ان جھوٹے واقعات، مشرکانہ رسم ورواج اور بدعات و خرافات پر علماء کی ایک بڑی جماعت جو کبھی شرک وبدعت کے لئے آہنی دیوار تھی آج خاموش نظر آرہی ہے، فیا اسفا!!

آج ہمارایہ ماحول ہر قسم کے توہمات و بدعات اور رسوم ورواج کی دہلیزوں میں غلطاں ہے، الحاد وزندیقیت کے اندھیرے اور فسق وفجور کی تاریکیاں چھائی ہوئی ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیمات اور یوم عاشورہ کو کئے جانے والے شرمناک مظاہرے کا تقابلی جائزہ لینے سے دل شق ہو جاتا ہے؟ آنکھیں پرنم ہوجاتی ہیں، اور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے، تعزیہ کے نام پر فحاشی، کبڈی کے کھیل، بے حجاب عورتوں کا ہجوم اور غیر شرعی حرکات کا سماں بندھا ہوا ہے۔

کہیں تعزیہ بنائے جاتے ہیں کہیں علم، کہیں سیاہ جھنڈے لہرائے جاتے ہیں تو کہیں حسین کے نام کی سبیلیں بنائی جاتی ہیں، کہیں نوحہ خوانی ہے تو کہیں سینہ کوبی، کہیں یا علی کی صدا ہے تو کہیں یا حسین کی۔ الغرض بانس اور کاغذ کا ٹھاٹھ تقدس و عظمت کا محور بنا ہوا ہے، حضرت حسین کی شخصیت جو خاک کے ذرّوں میں پنہاں ہے ، حاجت روا اور مشکل کشا مانی جاتی ہے؟

بنا بانس کا ٹھاٹھ کاغذ چڑھا ہے ++ یہ بے جان ہے پھر بھی بابا بنا ہے

اللہ تعالیٰ ہمیں تمام بدعات وخرافات سے بچائے اور صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وصلی اللّٰہ علی نبینا محمد و علی آلہ و صحابہ وسلم۔

{ پیشکش : مکتب توعیۃ الجالیات الغاط، www.islamdawah.com/urdu }

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں