ماہ شعبان ؟

بسم الله الرحمن الرحيم

ماہ شعبان ؟

عن أسامة بن زيد قال : كان رسول الله r يصوم الأيام يسرد حتى يقال : لا يفطر و يفطر الأيام حتى يقال لا يكاد أن يصوم ، إلا يومين من الجمعة إن كان في صيامه وإلا صامها ، ولم يكن يصوم من شهر من الشهور ما يصوم من شعبان فقلت : يا رسول الله ! إنك تصوم لا تكاد و إن تفطر وتفطر حتى لا تكاد إن تصوم إلا يومين إن دخلا في صيامك وإلا صمتها ، قال : أي يومين ؟ قال : قلت : يوم الاثنين ويوم الخميس ، قال : ذانك يومان تعرض فيهما الأعمال على رب العالمين وأحب أن يعرض عملي و أنا صائم ، قال : قلت : ولم أرك تصوم من شهر من الشهور ما تصوم من شعبان قال ذاك شهر يغفل الناس عنه بين رجب و شعبان وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين فأحب أن ترفع عملي وأنا صائم . ( مسند أحمد ، ج : 5 ، ص : 201 / سنن النسائي ، ج : 4 ، ص: 201 )

ترجمہ : حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول r جب روزہ رکھنا شروع کرتے تو پے درپے روزہ رکھتے جاتے تھے کہ کہنے والا یہ کہتا کہ اب آپ افطار ہی نہ کریں گے ، اور جب آپ افطار کردیتے تو پے درپے افطار ہی کرتے رہتے حتی کہ کہنے والا یہ کہتا کہ اب آپ روزہ ہی نہ رکھیں گے ، البتہ ہفتہ میں دو دن ایسے تھے کہ اگر وہ دن آپ کے روزہ رکھنے کے درمیان پڑتے تو ٹھیک ورنہ جن دنوں میں افطار کئے رہتے ان دنوں میں بھی دونوں دنوں کا روزہ رکھتے ، جس کثرت سے آپ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے کسی اور مہینہ میں اس کثرت سے روزہ نہ رکھتے تھے ، میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ روزہ رکھنا شروع کردیتے ہیں تو افطاری نہیں کرتے اور جب افطار کردیتے ہیں تو روزہ ہی نہیں رکھتے سوا دو دنوں کے وہ اگر آپ کے روزہ رکھنے کے دنوں میں پڑے تو ٹھیک ورنہ آپ ان دنوں کا روزہ ضرور رکھتے ہیں آپ نے سوال فرمایا کہ وہ دو دن کون سے ہیں ؟ حضرت اسامہ کہتے ہیں میں نے کہا کہ پیر اور جمعرات کے دن ، آپ نے r نے فرمایا : یہ دو دن ایسے ہیں جن میں بندوں کے نامہء اعمال اللہ رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال جب پیش کئے جائیں تو میں روزہ سے رہوں ، حضرت اسامہ نے مزید عرض کیا کہ جس کثرت سے ماہ شعبان کا روزہ رکھتے آپ کو دیکھتا ہوں کسی اور مہینہ میں نہیں دیکھتا ؟ آپ r نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایسا مہینہ ہے کہ رجب اور رمضان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے لوگ اس سے غفلت برتتے ہیں اور یہ وہ مہینہ ہے جس میں بندوں کے نامہ اعمال اللہ رب العالمین کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرے اعمال جب پیش ہوں تو اس وقت میں روزہ کی حالت میں ہوں ۔

۔۔۔۔۔ اس پیاری حدیث میں بہت سے جواہر پارے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جاتا ہے :

  1. اللہ کے رسول r کے روزہ رکھنے کی کیفیت کا بیان کہ پورے سال آپ کے روزہ رکھنے کی کیفیت کیا تھی ہفتہ میں آپ کے روزہ رکھنے کی کیفیت کیا تھی اور سال کے مہینوں میں آپ کس طرح روزہ رکھتے تھے ۔
  2. سال میں آپ r کے روزہ رکھنے کی کیفیت یہ تھی کہ آپ روزہ بھی رکھتے تھے اور افطار بھی کرتے تھے نہ تو آپ نے کبھی پورے سال کا روزہ رکھا ہے اور نہ ہی آپ نے پورے سال افطار ہی کیا ہے ، بلکہ آپ r نے پورے سال روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ، لہذا جو شخص برابر روزہ رکھتا ہے وہ بھی نبی r کے اسوہ کے خلاف کررہا ہے اور جو رمضان کے علاوہ کبھی روزہ رکھتا ہی نہیں وہ بھی آپ کی پیروی میں کوتاہ ہے ۔ { ب } ہفتہ کے دنوں میں آپ r پیر اور جمعرات کے دن کا روزہ رکھتے تھے نیز سنن ابو داود میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ r ہر ماہ کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو بھی روزہ رکھتے تھے [ سنن ابو داود : 2334 ] اور اسکی بڑی فضیلت بھی بیان کرتے تھے ۔ { ج } مہینوں میں آپ r سب سے زیادہ ماہ شعبان میں روزہ رکھتے تھے بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ آپ پورے مہینہ کا روزہ رکھتے تھے ۔ [ صحیح بخاری ]
  3. ماہ شعبان اور اس میں روزوں کی فضیلت ۔
  4. پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت ۔
  5. بندوں کے یومیہ اعمال اللہ رب العالمین کے حضور ، صبح وشام یعنی نماز عصر اور نماز فجر کے بعد پیش کئے جاتے ہیں ہفتہ واری اعمال پیر اور جمعرات کو پیش کئے جاتے ہیں اور سالانہ اعمال ماہ شعبان میں اللہ تعالی کے حضور پیش ہوتے ہیں ۔
  6. ایسے وقت میں نیک اعمال جب لوگ یاد الہی سے غافل ہوں اللہ تعالی کو بہت پسند ہے ، یہی وجہ ہے قیام اللیل تمام نفل نمازوں سے افضل ہے ، کیونکہ اس وقت لوگ نیند میں ہونے کی وجہ سے ذکر الہی سے غافل ہوتے ہیں ، عصر و فجر کی نمازیں بڑی فضیلت کی حامل ہیں ، کیونکہ اس وقت لوگ دنیا کے کام میں مشغول ہوتے ہیں وغیرہ ۔۔
  7. روزہ گناہوں کا کفارہ اور اللہ رب العالمیں کی رضا مندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں