متقی قاتل / حديث نمبر: 325

بسم اللہ الرحمن الرحیم

325:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

متقی قاتل

بتاریخ : 06/ محرم 1439 ھ، م  26/، ستمبر  2017 م

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَعَفُّ النَّاسِ قِتْلَةً أَهْلُ الْإِيمَانِ»

( سنن ابو داود :2666 ، الجهاد – سنن ابن ماجة : 2681 ، الديات – مسند أحمد: 1/393 )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : قتل کے معاملہ میں سب سے زیادہ  احتیاط سے کام  لینے  والے اہل  ایمان ہیں، [یا قتل میں سب سے زیادہ گناہوں سے بچنے والے اہل ایمان ہیں] ۔  {سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ  ، مسند احمد } ۔

تشریح : عصر حاضر  کا یہ   بہت بڑا المیہ  ہے کہ بہت  سے لوگ  جو امن  و سلام  کے دعویدار  بنے  ہوئے ہیں ان کی  یہ باتیں  صرف  دعوے  کے حد تک  رہتی  ہیں ، یا  پھر  اس صورت میں کہ جب  ان کے ذاتی  مفاد  سے یہ دعوی نہ  ٹکراتا  ہو ، لیکن  جب انکا   اپنا کوئی ذاتی  مفاد  ہوتا  ہے، خواہ اقتصادی  مفاد ہو یا سیاسی،  تو چنگزیت و بربریت  کی ساری داستانیں  دہرا دی جاتی  ہیں ، دیکھتے ہی  دیکھتے لاکھو  کی تعداد  میں مجبوروں ، نہتھوں  اور معصوموں  کو آگ  میں بھون  کر رکھ  دیا جاتا ہے ،  خاص کر  اگر وہ  مسئلہ  مسلمانوں سے متعلق  ہو،  جب کہ اسلام  اپنے پیروکاروں  کی اس کی  قطعا اجازت  نہیں دیتا،  بلکہ  وہ ہر میدان  میں ارہاب  ،تعدی اور حد سے  تجاوز  کرنے سے روکتا  ہے حتی کہ  میدان  جنگ  میں بھی وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (190)البقرۃ

اور تم  اللہ  کی راہ میں ان لوگوں  سے جنگ  کرو جو  تم سے  جنگ کرتے  ہیں ، مگر زیادتی  نہ کرنا ، کیونکہ  اللہ تعالی  زیادتی  کرنے والوں  کو قطعا پسند نہیں کرتا ۔

یعنی  وہ لوگ  جو  دین حق  کی راہ  میں مزاحم  نہیں ہوتے ان سے جنگ نہ کرو اور  لڑائی میں  جاہلی طریقے  استعمال  نہ کرو،  یعنی  عورتوں،  بوڑھوں  ، بچوں  ، زخمیوں  پر دست  درازی نہ کرو ،  دشمن  کی لاشوں  کا مثلہ  نہ کرو ،  خواہ  مخواہ  کھیتوں  ، مویشیوں  کو برباد نہ  کرو ،  وغیرہ وغیرہ ۔ {تیسیر القرآن  ،ج :1، ص:146}۔

زیر بحث  حدیث میں  اہل ایمان  کی اسی صفت  کا ذکر  ہے ، چنانچہ  نبی کریم ﷺ  نے ارشاد فرمایا  کہ اہل ایمان  کسی کو  قتل  کرنے کے بارے میں  سب سے زیادہ  محتاط  اور اصول  کے پابند  رہے ہیں، وہ جب بھی کسی کو قتل کرنا چاہتے ہیں یہ سوچتے ہیں کہ  اس قتل پر کوئی گناہ تو نہیں ہے،  چنانچہ اولا تو وہ کسی  کو اس وقت  تک نہیں قتل  کرتے جب   تک  کہ اس کا قتل کا مستحق  ہونا قطعی  طور  پر  ثابت  نہ ہوجائے  اور اس کے قتل  کرنے کی مصلحت  واضح  نہ ہوجائے ، اسی لئے  وہ جنگوں  میں بھی  بے گناہ عورتوں  ، معصوم   بچوں، لا ضرر  بوڑھوں  حتی کہ  مزدوروں  کو قتل نہیں کرتے  ، صرف اسے ہی قتل کرتے ہیں جو  ان سے قتال  کررہا ہو اور ان کے  قتل کردینے  کے درپے  ہو ، ثانیا  قتل  کا وہ طریقہ  نہیں اپناتے  جس  سے مقتول  کو اضافی تکلیف  دینا مقصود ہو ، چنانچہ  وہ کسی  کو   آگ  میں نہیں جلاتے  ،  کسی  کو باندھ کر  اس کو  اپنی  تیر اور  گولی کا نشانہ  نہیں بناتے  ، اپنے  دشمن  کے ہاتھ  پیر  کاٹ کر  اسے مرنے  کے لئے  تڑپتا  چھوڑ نہیں دیتے  ، مقتول  کی

لاش کا مثلہ  نہیں کرتے،  یعنی  لاش  کی ناک  ، کان  کاٹ کر اس کی  بے حرمتی  نہیں کرتے  ۔

اس سلسلے میں نبی ﷺ  نے کیا کیا تعلیم  دی تھی  اس کی ایک جھلک ملاحظہ  فرمائیے ۔

حضرت  بریدہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت  ہے کہ رسول  اللہ ﷺ جب کسی بڑے  لشکر  یا چھوٹے  دستے  پر کسی کو  امیر مقرر کرتے تو اسے  خاص  اس کی  اپنی ذات کے بارے میں  اللہ سے ڈرنے  کی اور ان تمام  مسلمانوں کے بارے میں جو اس کے ساتھ  ہیں  بھلائی   کی تلقین  کرتے ،  پھر فرماتے  اللہ کے نام سے اللہ  کی راہ میں جہاد کرو ، جو اللہ کے ساتھ  کفر کرتے ہیں  ان سے لڑو  ،نہ خیانت  کرو ،  نہ بدعہدی  کرو ، نہ مثلہ  کرو اور  نہ کسی  بچے  کو قتل کرو ۔ الحدیث  {صحیح مسلم  ، سنن ابوداود } ۔

حضرت  رباح بن ربیع  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ  ہم ایک  غزوے میں  رسول اللہ ﷺ کے ساتھ  تھے  ، آپ نے دیکھا کہ لوگ کسی چیز  پر اکٹھے  ہو رہے ہیں ، آپ ﷺ نے ایک  آد می  کو بھیجا  کہ  دیکھ کر  آئے  وہ کیوں  جمع ہیں ؟  وہ ہو کر آیا اور بتایا  : ایک عورت  قتل کی گئی  ہے  اور وہ اس  پر جمع  ہیں ، پس آپ نے فرمایا  : یہ تو لڑنے  والی نہ تھی،  راوی  کہتا ہے کہ فوج کے مقدمہ پر خالد بن ولید  تھے ، آپ ﷺ نے ایک شخص کو بھیجا کہ خالد سے کہہ دو کہ کسی عورت اور مزدور کو ہرگز قتل نہ  کرے ۔  {سنن  ابو داود ، سنن ابن ماجہ } ۔

حضرت  عمران بن حصین  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے  ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ  نے  ہمیں جب  بھی خطبہ  دیا  اس میں  ہمیں صدقہ کرنے   کا حکم دیا ور  مثلہ  کرنے سے منع کیا ۔ {مسند احمد } مثلہ  کا  معنی ہے مقتول  کے ناک و کان  وغیرہ  کاٹ کر اس کی صورت کو بگاڑ دینا ۔

اسی تعلیم  نبوی  کا  اثر  یہ تھا کہ مسلمانوں  نے  اسے اپنی زندگی  میں اسے  اپنایا  ،، چنانچہ  حضرت  عبیدبن  ابو یعلی  بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ  حضرت  عبد الرحمن  بن خالد  بن ولید  کے ساتھ ایک  جہاد  پر  نکلے  ، ان کے سامنے  دشمن  کے چار افراد لائے گئے  جو عجمی  تھے  اور بڑے طاقتور تھے ، بس انہوں نے  حکم دیا کہ  باندھ کر تیر سے  نشانہ لگا کر قتل کردیا  جائے  ، جب حضرت  ابو ایوب انصاری  کو یہ خبر  پہنچی  تو انہوں  نے کہا کہ  میں نے رسول اللہ ﷺ  سے سنا  ہے کہ آپ نے باندھ کر قتل  کرنے سے  منع  فرمایا ہے ، اللہ  کی قسم  اگر ایک مرغی  ہوتی تو بھی  میں اسے اس طرح  باندھ کر قتل  نہ کرتا  ، یہ سن کر   حضرت  عبد الرحمن بن خالد  رحمہ اللہ نے چار غلام آزاد کئے ۔ {سنن ابو داود ، مسند احمد }۔

فوائد :

  • اسلام میں اپنے دشمن  کی لاش  کا مثلہ  کرنا  ، اسے آگ  میں جلا دینا  منع ہے ، الا یہ کہ ایسا بدلے کے طور پر کیا جائے ، لیکن  اس سے  تجاوز  کرنا  ہی بہتر ہے ۔
  • اگر اسلامی تعلیمات  کی پابندی  نہ رہے  اور آخرت  کے  محاسبہ  کا ڈر نہ  ہو تو  انسان  درندوں سے  بھی بڑھ کر  درندہ  بن جاتا ہے ۔

اس  حدیث کی صحت    علماء  کے نزدیک  مختلف فیہ ہے  تاہم  روح  اسلام  کے موافق  ہے ، نیز  صحیح مسلم  میں  اسی مفہوم  کی ایک روایت  ہے : جب تم قتل  کرو تو  اچھے طریقے  سے قتل کرو  ذبح کرو ، الحدیث ،،،، {صحیح مسلم  : 1955 }

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں