محترم بھائیو : ماہ محرم عظیم الشان اور مبارک مہینہ ہے شھراللہ یعنی اللہ کا مہینہ کہکر اس کے شرف کو بیان کیا گیا ہے یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ اور حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے فرمان الہی ہے :بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے ہاں لوح محفوظ میں بارہ ہے اور یہ اس دن سے ہے جب سے اللہ نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ہے ان میں سے چار مہینے حرمت اور ادب کے ہیں یہی مضبوط دین ہے لہذاتم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو(التوبة ٣٦)
محرم الحرام کا مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے حرمت والے مہینوں میں اللہ تعالی نے اپنی جان پر ظلم کرنے سے( یعنی نافرمانی کرنے سے ) منع فرمایا ہے لہذا ہمیں اللہ کی نافرمانی سے اجتناب کے ساتھ ساتھ اس ماہ کے دوران نیک اعمال زیادہ سے زیادہ کرنے چاہییں خاص طور پر نفلی روزے زیادہ رکھنے چاہییں کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (افضل الصیام بعد رمضان شہر اللہ المحرم وافضل الصلاة بعد الفریضة صلاةاللیل )رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ اللہ کا مہینہ ہے اور فرض نمازوں کے بعدسب سے افضل نماز رات کی نماز ہے.
( مسلم کتاب الصوم باب فضل صوم المحرم : ١١٣٦)
خاص طو ر پر یوم عاشورا ء دسویں محرم کا روزہ رکھنا چاہیے عن ابن عباس رضی اللہ عنہماقال:(ماریت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یتحری صیام یوم فضلہ علی غیرہ الا ہذا الیوم یوم عاشوراء و ہذا الشہر یعنی رمضان )حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ کسی دن کو دوسرے دنوں پر فوقیت دیتے ہوئے اسکے روزے کا قصد کرتے ہوں سوائے یوم عاشوراء کے اور سوائے ماہ رمضان کے
(بخاری ٢٠٠٦)
یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے علاوہ باقی دنوں میں سے یوم عاشوراء کے روزہ کا جس قدر اہتمام فرماتے اتنا کسی اور دن کا نہیں فرماتے تھے
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں آپ نے ان سے پوچھا تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو توانہوں نے کہا:یہ ایک عظیم دن ہے اس میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کونجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں اس پر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :فنحن حق وولی بموسی منکم تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسی علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا
(بخاری ٢٠٠٤ مسلم ١١٣٠)
ایک سال کے گناہ معاف
حضرت ابوقتادة رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم عاشوراء کے روزے کا سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یکفر السنة الماضیة
مسلم ( ١١٦٢)
یعنی پچھلے ایک سال کے گناہ مٹا دیتا ہے
اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یوم عاشوراء کے روزہ کااہتمام کرنا چاہیے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تواسے ضائع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ جب آپ کو بتلایا گیا کہ یہود ونصاری بھی دس محرم کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ان کی مخالفت کرنے کا عزم کرلیا
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اسکا حکم دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہود ونصاری بھی دس محرم کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فاذا کان العام المقبل ان شا اللہ صمنا الیوم التاسع) جب آئندہ سال آئے گا تو ن شاء اللہ ہم نو محرم کا روزہ بھی رکھیںگے اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ صوم عاشوراء میں یہود ونصاری کی مخالفت کرنے کے لیے دس محرم کے روزے کے ساتھ نومحرم کا روزہ بھی رکھنا چاہیے اسی کے قائل حضرت ابن عباس تھے (خالفو الیہود وصوموا التاسع والعاشر)
مصنف عبدالرزاق( ٧٨٣٩)
یہود کی مخالفت کرو اور نو دس کا روزہ رکھو اور بعض اہل علم کاکہنا ہے اگر کو ئی نو کا روزہ نہ رکھ سکے تو دس محرم کے ساتھ گیارہ کا روزہ رکھ کر یہود ونصاری کی مخالفت کرے .ختم شدہ
از : شیخ عبد الماجد مدنی حفظہ اللہ ، داعیہ جالیات عنیزہ