مسائل لقطہ / حديث نمبر: 260

بسم اللہ الرحمن الرحیم

260:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

مسائل لقطہ

بتاریخ : 1/ ربیع الاول  1436 ھ، م  23،ڈسمبر  2014م

  عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الجُهَنِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنْ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: «اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا» قَالَ: فَضَالَّةُ الغَنَمِ؟ قَالَ: «هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ»، قَالَ: فَضَالَّةُ الإِبِلِ؟ قَالَ: «مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، تَرِدُ المَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا»( صحيح البخاري : 2327, المساقاة – صحيح مسلم :1722 ، اللقطة   )

ترجمہ  : حضرت زید بن خالد الجہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص  نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور  لقطہ  [ گری پڑی چیز ] کے بارے میں  سوال کیا ، تو نبی ﷺ نے فرمایا : اس کی تھیلی  اور بندھن کی پہچان کرلو ، پھر سال بھر اس کا اعلان کرو ، اگر اس کا مالک آجائے [ مل جائے ] تو اسے دے دو، ورنہ تم اس پر تصرف کا حق رکھتے ہو ، پھر اس نے کہا :گم شدہ بکری  ملے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : [ اسے لے لو ] یہ تمہارے لئے ہے یا تمہارے  بھائی کے لئے  ہے یا بھیڑیئے کے لئے ، اس نے مزید پوچھا کہ گم شدہ اونٹ [ کے بارے میں کیا  کیا جائے ] آپ ﷺ نے فرمایا : تمہیں  اس سے کیا غرض،  اس  کے ساتھ اس کا مشکیزہ  اور اس کا جوتا  ہے ، وہ گھاٹ  پر جاکر  پانی پیتا رہے گا اور درختوں سے کھاتا  رہے گا ،یہاں تک  اس کا مالک اسے پالے ۔ { صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔

تشریح : بندوں کے مال اورفائدہ کی چیزوں  کی حفاظت  سے متعلق شریعت  نے جو ہدایات دی ہیں ، ان میں سے ایک لقطہ  کا مسئلہ بھی  ہے ، زیر بحث حدیث اور اس سے متعلقہ  دیگر حدیثوں سے لقطہ کے بارے میں شریعت سے جو رہنمائی  ملتی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :

لقطہ کی قسمیں : ہر وہ چیز جو پڑی ہوئی ملتی ہے اصطلاح شرع میں اسے لقطہ کہتے ہیں ، یہ پائی ہوئی چیز ماحول اور افراد کے لحاظ سے اس کی حیثیت مختلف ہوتی ہے

  • وہ کوئی معمولی چیز ہو کہ لوگوں کے نزدیک اس کی ایسی اہمیت نہیں ہوتی کہ اس کے  گم ہوجانے سے پریشان ہوں اور اسے تلاش کرتے پھریں  ، جیسے معمولی رقم ، روٹی ، رسی ، یا عام قلمیں وغیرہ ۔
  • وہ جانور جو عام شکاری جانوروں سے اپنی حفاظت خود کرلیتے ہیں جیسے اونٹ ، بیل ، بھینس وغیرہ ، یا ایسی بھاری  اور  وزنی چیزیں جسے ہر کس وناکس  اٹھا کر نہیں  لے جاسکتا  اور نہ ہی پڑے رہنے سے خراب  ہوجانے کا ڈر ہے، جیسے بڑی لکڑیاں وغیرہ ۔
  • ان دونوں قسموں کے علاوہ باقی چیزیں  خواہ  نقد کی صورت میں  ، یا استعمال کی جانے  والی اشیاء اور چھوٹے جانوروں کی صورت میں ہوتی ہیں ۔

لقطہ کا حکم :

  • یہ چیزیں اگر مکہ مکرمہ  میں ملیں ، یا حاجیوں  کی ہوں تو ان کا اٹھا نا جائز نہیں ہے ،مگر صرف اسی شخص  کے لئے  جو ہمیشہ  ہمیش  اس کے اعلان کرنے کی ذمہ داری لے لے ۔ حدیث شریف  میں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حاجیوں کی پڑی چیز کو اٹھانے  سے منع فرمایا ۔ { صحیح مسلم ،  بروایت  عبد الرحمن  بن عثمان } ۔

نیز فرمایا  مکہ میں گری پڑی چیز  اٹھانا  جائز نہیں ہے مگر اس شخص کے لئے  جو اس کے اعلان کرنے کی ذمہ داری لے ۔ { صحیح بخاری ، صحیح مسلم بروایت  ابن عباس } ۔

  • عام جگہوں پر پڑی ہوئی چیز، اگر پہلی قسم سے ہے تو اسے لینے  اور اس سے فائدہ  اٹھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، یعنی کھانے کی چیز  ہے تو اسے کھا سکتے ہیں اور استعمال کی چیز ہے تو اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے ،لیکن دو شرطوں کے ساتھ، ایک یہ کہ اس کا  مالک  نا معلوم ہو ، دوم یہ کہ جب بھی اس کا مالک  اسے طلب کرے گا اسے یا اس کی قیمت اسے واپس  کی جائے گی ۔۔ { سنن ابو داود : 1714 ، 1715 } ۔3- پڑی ہوئی چیز اگر  دوسری قسم سے ہے تو اس سے تعرض  کرنا جائز نہیں ہے  ،بلکہ انہیں  اپنی حالت  پر چھوڑ دیا جائے  گا،  الا یہ کہ خطرہ ہوکہ وہ کسی  ایسی جگہ  نکل جائیں  گے  جہاں سے دوبارہ  اپنے مالک کو نہ ملیں گے تو اس  کا انتظام کیا جائے گا ، جیسے  اگر حیوان  ہیں تو انہیں  کانجی ہاوس پہنچایا جائے ، یا ان اشیاء  سے متعلق ذمہ دار  اداروں  کو اس کی خیر دی جائے ۔

4- باقی رہی  تیسری قسم  تو اس کا اٹھانا کبھی  واجب  ہوگا ، کبھی حرام  ہوگا اور کبھی جائز ہوگا ۔ اگر کسی  شخص  کو اپنی امانت پر  اعتماد  نہیں ہے  اور  یہ امید ہے کہ میرے  علاوہ کوئی  ذمہ دار شخص  اسے اٹھالے گا  اور اس کا حق ادا کرے گا، توا یسی صورت میں اس کا  اٹھانا  جائز  نہ ہوگا ، اور اگر اپنے اوپر  اعتماد  ہے اور یہ بھی امید ہے کہ کوئی دوسرا شخص بھی  یہ کام  کرے گا ،تو ایسی صورت میں  اس کا لینا جائز ہوگا،  بلکہ اگر اپنے  بھائی کے ساتھ  تعاون کی نیت ہو تو مستحب ہوگا ، اور اگر اپنے اوپر اعتماد  ہے اور یہ خطرہ ہے کہ اگر ہم  نے  نہیں اٹھایا  تو یہ   مال ضائع ہوجائے گا ، یا  کسی ایسے شخص کے ہاتھ لگ جائے گی جو اسے ہٹرپ کر لے گا تو ایس صورت میں اس کا اٹھانا واجب ہوگا ، واللہ اعلم

لقطہ کے احکام :

  • کوئی بھی شخص اگر گری ہوئی  چیز اٹھا  لیتا ہے جس کا اٹھانا جائز ہے تو بہتر یہ ہے کہ کسی کو گواہ بنالے ، تاکہ  نیت بدلنے کا خطرہ نہ رہے ، اچانک  موت کی شکل میں  ورثہ  کا اسے  ہٹرپ کرلینے  کا خوف  نہ رہے  اور اس چیز کا مالک  چوری  یا خیانت کا الزام  نہ لگا سکے ۔ارشاد نبوی ہے : جسے کوئی  گری پڑی چیز ملے تو اسے چاہئے کہ  ایک یا دو عادل گواہ بنالے  اور  چھپائے نہیں  اور نہ ہی اسے غائب کرے ۔ { سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ  بروایت  عیاض بن حمار } ۔
  • لقطہ امانت کے حکم میں ہے،  لہذا  اولا اس کی حفاظت واجب ہے،  ثانیا  اگر بغیر  لاپرواہی  اور کوتاہی کے  وہ چیز خراب  ہوجائے تو اس پر تاوان نہیں ہے ۔
  • لقطہ کے بارے میں ضروری ہے کہ سال بھر بازاروں  ، عام جگہوں ، مسجدوں کے دروازوں پر اعلان کیا جائے  ، صرف چند ساتھیوں میں ایک یا دو بار اعلان کافی  نہ ہوگا، اگر سال گزر نے  کے بعد بھی  کوئی طلب کرنے والا نہ آئے تو اسے  اختیار ہے کہ اسے صدقہ کردے یا اپنے استعمال میں لائے ۔
  • اگر سال بھر اعلان کے بعد جب وہ چیز استعمال کرلی گئی ، یا بیچ دی گئی ، پھر اس کا مالک آیا تو وہ چیز  یا اس کی قیمت   واپس کرنی ضروری ہوگی۔حدیث میں ہے:  اسے خرچ کرو ، لیکن  یہ تمہارے پاس ودیعت کے حکم میں ہے  لہذا  جب بھی  اس کا طالب  آئے تو اسے واپس کردینا ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
  • جب بھی کسی کو کوئی پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کی خاص  علامات جیسے عدد  ، بندھن ،  یا وزن  و ناپ کو اچھی طرح سے ضبط کرلے  اور اسے لوگوں سے  پوشیدہ  رکھے  ، تاکہ  کوئی دوسرا شخص  جسے علامات کا علم نہ ہو اس کا دعوی نہ کرسکے  اور نہ کوئی دوسرا  آدمی  اس کی علامات  بتا سکے ۔
  • اگر پڑی ہوئی چیز کوئی  ایسی چیز  ہے جس کے خراب ہونے کا ڈر ہے توسال  سے قبل بھی اس کا  استعمال کرسکتا ہے ، البتہ  مالک  کے طلب پر اسے  واپس کرنا ہوگا
  • اگر یہی چیز انسان  کے بچے  کی شکل میں ہوتو  اس کا اٹھانا  فرض کفایہ ہوگا  کیونکہ  انسان کی حرمت  سونے وچاندی  اور جانوروں کی حرمت سے بڑھ کرہے ۔
  • چونکہ لقطہ امانت ہے لہذا اس کی حفاظت اور اس کے لوٹا نے پر عوض لینا مناسب نہیں ہے ، البتہ  اگر صاحب مال اپنی خوشی سے بغیر  کسی شرط کے ہدیہ  و تحفہ  کے طور پر  کچھ دے دے تو اس کا لینا جائز ہوگا  بہتر نہ ہوگا ۔