بسم اللہ الرحمن الرحیم
259:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
مسائل ودیعت
بتاریخ : 24/ صفر 1436 ھ، م 16،ڈسمبر 2014م
عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أُودِعَ وَدِيعَةً فَلَا ضَمَانَ عَلَيْهِ».
( سنن ابن ماجة :2401، الصدقات – السنن الكبرى :6/289 – سنن الدار قطني:3/455-2961 )
ترجمہ : حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ شعیب سے اور ان کے باپ اپنے دادا حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس کوئی ودیعت [بطور امانت ] رکھی گئی تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہوگا ۔ { سنن ابن ماجہ ، سنن دارقطنی ، سنن بیہقی }۔
تشریح : اللہ تبارک وتعالی اپنے مومن بندوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے اور ان کی حاجتیں پوری کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس کی بڑی فضیلتیں بیان فرماتا ہے ، ارشاد ہے : وَأَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (البقرة :195)اور سلوک و احسان کرو نیز فرماتا ہے : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى (المائدة :2) نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ و ظلم و زیادتی کے کاموں میں مدد نہ کرو ۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے : وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ {صحیح مسلم و سنن ابو داود ، بروایت ابو ہریرہ } اور اللہ تعالی بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے ۔
یہ مدد اور تعاون کسی ایک امر کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ معنوی و مادی ہر قسم کی مدد کو شامل ہے ،حتی کہ اگر کوئی شخص اس امر کا محتاج ہے کہ اس کے مال کی حفاظت میں اس کی مدد کی جائے تو یہ بھی اس کے ساتھ تعاون اور خیر کے کام میں ایک قسم کی مدد ہے ، اسی کی ایک صورت ودیعت قبول کرنا بھی ہے ۔
ودیعت کی تعریف :
وہ مال ہوتا ہے جو کسی کے پاس بغیر کسی عوض کے حفاظت کی غرض سے رکھا جائے ، چونکہ بہت سے لوگوں کے پاس اپنے مال کی حفاظت کے مکمل ذرائع نہیں ہوتے اور اس کے ضائع ہوجانے کا خوف ہوتا ہے،ا س لئے وہ اپنا مال کسی امانت دار شخص کی حفاظت میں رکھنے کے محتاج ہوتے ہیں ، انسانوں کی اسی ضرورت کے پیش نظر اسلام نے اس امرکی اجازت دی ہے ، خود نبی کریم ﷺ کے پاس بھی لوگ اپنی ودیعتیں رکھتے تھے ۔ {سنن کبری للبیہقی } ۔
ودیعت کا حکم : اسی لئے علماء کہتے ہیں کہ ودیعت رکھنا جائز اور مشروع امر ہے ، بلکہ اگر مال کے ضائع ہونے کا خطرہ متحقق ہو اور حفاظت کی کوئی صورت بغیر ودیعت رکھے کے نہ ہوتی ہو تو یہی امر واجب ہوجائے گا ۔
البتہ جس کے پاس ودیعت رکھی جارہی ہے اس کا قبول کرنا اس کے لئے سنت و مستحب ہوگا کیونکہ اس میں اپنے بھائی کی مدد، امر خیر میں اس کے ساتھ تعاون اور اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنا ہے ، ارشاد نبوی ہے : میں اپنے کسی بھائی کے ساتھ جا کر اس کی کوئی حاجت پوری کردوں یہ میرے نزدیک میری اس مسجد میں ایک ماہ اعتکاف سے بہتر ہے ،نیز فرمایا : جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ جاکر اس کی حاجت پوری کرنے میں اس کی مددد کرتا ہے تو اللہ تعالی قیامت کے دن جب لوگوں کے قدم [پل صراط پر سے ] پھسل رہے ہوں گے اس کے قدم کو ثابت رکھے گا ۔ { الصحیحہ : 906 } ۔
ودیعت سے متعلق چند احکام کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے :
[۱] ودیعت قبول کرنا تو مستحب ہے لیکن اگر کوئی شخص مجبور ہو اس کے سامنے اپنے مال کی حفاظت کا کوئی اور ذریعہ نہ ہو بلکہ شدید خطرہ ہو کہ اگر اس کی ودیعت قبول نہ کی گئی تو وہ ضائع ہوجائے گی ایسی صورت میں ودیعت کا قبول کرنا واجب ہوگا۔
[۲] جس نے ودیعت کو قبول کیا ہے ، اس کے پاس یہ ودیعت امانت ہے، لہذا اس میں خیانت جائز نہ ہوگی یعنی اسے اپنے استعمال میں نہ لایا جائے گا، اگر نقد کی صورت میں ہے تو اسے بطور قرض لے کر استعمال نہ کیا جائے گا، الا یہ کہ صاحب ودیعت سے اجازت لے لی جائے یا اس کے ساتھ ایسے تعلقات ہوں کہ وہ قرض کا انکار نہ کرے گا ۔
[۳] ودیعت کی حفاظت اسی طرح واجب ہے جس طرح کہ اپنے مال کی حفاظت واجب ہے ، بلکہ ودیعت کی اپنے مال سے بھی زیادہ حفاظت کی جائے گی ، کیونکہ جس شخص نے ودیعت رکھی ہے اس کا اصل مقصد اپنے مال کی حفاظت ہے ۔
[۴] صاحب ودیعت جب بھی اپنی امانت طلب کرے اسے بلا کسی تردد کے واپس کرنا ضروری ہوگا ، اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء : 58) اللہ تعالی تمہیں حکم دے رہا ہے کہ امانت صاحب امانت تک واپس کردو ۔
ارشاد نبوی ہے : "أدِّ الأمانةَ إلى مَنِ ائْتمَنكَ، ولا تَخُن مَنْ خَانَك{سنن ابو داود }
جو تمہارے پاس امانت رکھے اس کی امانت اس کے حوالے کردو اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے تو اس کے عوض تم اس کے ساتھ خیانت نہ کرو۔
[۵] اگر کسی کے پاس سے ودیعت ضائع ہوجائے اور اس کی حفاظت میں اس نے کسی قسم کی کوتاہی سے کام نہیں لیا ہے تو اس پر اس کا تاوان نہیں جیسا کہ زیربحث حدیث میں اس کا بیان ہے ، امام ابن المنذر لکھتے ہیں کہ اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ اگر کسی نے ودیعت کو حفاظت سے رکھا پھر بھی وہ ضائع ہوگئی تو اس پر تاوان نہیں ہے ۔
[۶] البتہ اگر اس کی حفاظت نہ کی گئی خواہ اس کی مکمل حفاظت نہ کی گئی یا اسے بغیر اجازت کے استعمال میں لایا گیا جس سے وہ ضائع ہوگئی تو ایسی صورت میں تاوان ادا کرنا ہوگا ۔
[۷] اگر ودیعت بغیر کسی لاپرواہی اور کوتاہی کے ضائع ہوئی اور جس کے پاس ودیعت رکھی گئی تھی وہ اپنی طرف سے اس کا تاوان ادا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کے حسن نیت اور خوش خلقی کی دلیل ہے ۔