بسم الله الرحمان الرحيم
مسجد اقصی سے متعلق ایک اہم حدیث
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
ناشر : www.islamidawah.com
عنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا وَنَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مَسْجِدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ مَسْجِدُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ فِيهِ، وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى، وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ لَا يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا – أَوْ قَالَ: خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا –
مستدرک الحاکم؛4/509،المعجم الاوسط؛8226، 9/8226،شعب الایمان؛3849، 6/42
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے یہ گفتگو کررہے تھے مسجد نبوی افضل ہے کہ مسجد بیت المقدس؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا؛میری اس مسجد میں ایک نماز بیت المقدس میں پڑھی گئی چار نمازوں کے برابر ہے،ویسے وہ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے اور وہ وقت قریب ہے کہ ایک مؤمن کے لئے اتنی جگہ بھی ملنا مشکل ہوگا کہ وہ وہاں سے بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر صرف اتنی جگہ بھی مل گئی تو وہ اسکے نزدیک دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہوگا۔
نبی کریم ﷺ کی یہ مبارک حدیث بیت المقدس سے متعلق کئی امور پر روشنی ڈالتی ہے،بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ حدیث مبارک بیت المقدس کی موجودہ تاریخ سے متعلق نبی ﷺ کا ایک معجزہ ہے۔
لہذا ہمیں اس حدیث پر غور کرناچاہئے اور موجودہ دور میں بیت المقدس کی کیا صورت حال ہے اس پر توجہ دینی چاہئے۔
1۔اس وقت بیت المقدس مسلمانوں کی پہنچ سے بہت دور تھا اور اس پر دنیا کی ایک بہت بڑی طاقت یعنی روم کا قبضہ تھا،ایسے حالات میں نبی ﷺ کا بیت المقدس میں نماز کی اہمیت اور مسلمانوں کے دل میں اسکی محبت کی یہ خبر دینا گویا بیت المقدس کے فتح کی خوشخبری سنانا تھا اور یہ واضح کرنا ہے کہ بیت المقدس پر مسلمانوں کا حق ہے،یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات کے بعد صدیق وفاروق رضوان اللہ علیھما کی پہلی کوششوں میں بیت المقدس کو فتح کرنا تھا،چنانچہ بیت المقدس سن 15ھ عہد فاروقی میں فتح ہوا۔
2۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا بیت المقدس سے متعلق معلومات کا اہتما کرنا۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام کے سامنے اسکی اہمیت بیان فرماتے تھے ،اسکی عظمت کا ذکر کرتے تھے ،تبھی تو صحابہ کو یہ شبہہ ہوا کہ شاید بیت المقدس کی اہمیت مسجد نبوی سے بھی زیادہ ہے۔
3۔اس حدیث سے مسجد اقصی کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ شریعت میں اسکا ایک بڑا مقام ہے اور یہ مقام مسلمانوں کے دل میں باقی رہے گا۔
4۔ مسجد اقصی کی فضیلت اور اسمیں نماز کے اجر کا زیادہ ہونا،چنانچہ نبی ﷺ نےفرمایا:”ولنعم المصلی ھو” وہ نماز پڑہنے کی بہترین جگہ ہے۔
نیز آپ نے فرمایا کہ اس مسجد میں نماز دیگر مسجدوں کے مقابلے ڈھائی سو گنا زیادہ ہے۔
5۔ابتدا میں مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس رہا ہے،اب اگر چہ اسکا قبلہ ہونا منسوخ ہوگیا ہے لیکن اسکی اہمیت باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی۔
6۔بہت ممکن ہے ایک وقت آئے کہ یہ مقدس زمین مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے حتی کہ اسکے اردگرد بھی انہیں رہائش نصیب نہ ہوگی۔
7۔ لیکن اس وقت بھی مسلمانوں کے دلوں میں اسکی ایسی محبت ہوگی کہ ایک مسلمان کے لئے کچھ دور پر صرف اتنی زمین کامل جانا کہوہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکے ، یہ اسکے لئے دنیا اور دنیا کی ہر چیز سے عزیز ہوگا۔
8۔نیز مسلمانوں خصوصا بیت المقدس کے اردگرد رہنے والوں کو یہ متنبہ کیا جارہا ہے کہ بیت المقدس کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے،اسکی خدمت اور اسکا دفاع تمہارے لئےباعث شرف ہے۔
9– سن 1948ھ میں یہودیوں نےفلسطین میں اسرائیلی حکومت کی بنیاد ڈالا اور سن 1967ھ میں قدس پر حملہ کرکے یہود نے اپنا قبضہ فلسطین اور خاصکر قدس پر مستحکم کرلیا ہے، پھر اس کے بعد ہی سے بیت المقدس کو مکمل اپنی تحویل میں لینے کے لئے درج ذیل چالیں چلیں اور چل رہے ہیں۔
1۔مسجد اقصی کے ارد گرد چاروں طرف سے نئی یہود آبادیاں بنا رہے ہیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہیں ،اگر چہ ساری دنیا کی حکومتیں اسکی مخالفت کررہی ہیں۔
2۔قدس کا وہ علاقہ جہاں مسلمان آبادی ہے وہاں کی زمینون کی قیمت غیر معمولی طور پر بڑھا رہے ہیں ،تاکہ کوئی مسلمان وہاں زمین یا گھر نہ خرید سکے اور خریدے تو کوئی اسرائیلی ہی خریدے ،جسے دنیا کی دیگر یہودی تنظیمیں مدد دے رہی ہیں۔
اور اگر کوئی مسلمان جو اس زمین کا مالک ہے اور وہ کسی یہودی کے ہاتھ نہیں بیچنا چاہتا تو فلسطین کے اندر یا باہر کے کسی مسلمان کو تیار کیا جاتا ہے چنانچہ وہ مسلمان سے اس زمین کو خرید کر پھر کسی یہودی کے ہاتھ بیچ دیتا ہے۔
3۔قدس کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مسلمان اسے چھوڑ کر نکل جائیں ،اسکی صورت یہ ہے کہ قدس میں داخل ہونے کے لئے ہر طرف سے چیک پوسٹ بنا ئی گئی ہے اور کسی بھی ایسے شخص کو باہر سے نہیں آنے دیاتا جو قدس کا رہنے والا نہیں ہے حتی کہ پاس پڑوس کے شہروں سے اگر کوئی اپنے رشتے داروں سے ملنے آنا چاہتا ہے تو اسے اجازت نہیں ملتی اور ملتی بھی ہے تو مشکل سے اور محدود وقت کے لئے۔
4۔اسی طرح قدس کے اردگرد امن کے قیام کے نام پر پولیسوں اورفوجوں کو متعین کررکھا ہے جسکی وجہ سے مسلمانوں کی نقل وحرکت کم ہے جبکہ یہود کو مکمل آزادی حاصل ہے وہ جسطرح چاہیں آئیں اور جائیں، یہی وجہ ہے کہ اب قدس میں یہود کی آبادی بڑھ گئی ہے اور مسلمانوں کی آبادی انکے مقابل میں کم ہوگئی ہے اور وہ بھی صرف بیت المقدس کے مشرقی جانب۔
5– قدس کے جو اصلی باشندے ہیں یعنی مسلمان، یہودی حکومت انکا مستقل وجود تسلیم نہیں کرتی، بلکہ یہ واضح کردیا ہے کہ تم لوگ یہاں کے اصلی باشندے نہیں ہو، لہذا تمہاری حیثیت یہاں پر وقتی طور پر اقامت پذیر لوگوں کی ہے ،اسی لئے اگر کوئی شخص قدس سے باہر سات سال رہ جاتا ہے تو اسکا حق شہریت چھین لیا جاتا ہے اور اسکی املاک پر قبضہ کرلیا جاتا ہے۔
6۔ایک مسلمان کے لئے اب مسجد اقصی کے قریب رہائش بڑی خطرناک صورت اختیار کرگئی ہے ،عموما ایسا ہوتا ہے کہ رات کی تاریکی میں جب وہ نماز کے لئے یا کسی اور مقصد کے ئے نکلتے ہیں تو کوئی چھپا ہوا شخص ان پر کسی دھار دار چیز سے حملہ کردیتا ہے۔
اسطرح یہود کی یہ پلاننگ ہے کہ مستقبل قریب میں قدس اور مسجد اقصی کے قریب کوئی مسلمان نہ رہ جائے تاکہ بیت المقدس سے متعلق انہیں اپنی من مانی کرنے اور اسے ڈھاکر وہاں پر ہیکل سلیمانی تیار کرنے کا موقع ہاتھ آجائے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ان کی یہ ناپاک کوشش کامیاب نہ ہو۔