بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :240
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :17/ جمادی الاولی 1435 ھ، م 18،مارچ 2014م
مشتبہ ذبیحہ
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ قَوْمًا قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ قَوْمًا يَأْتُونَا بِاللَّحْمِ لَا نَدْرِي أَذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَمْ لَا فَقَالَ سَمُّوا عَلَيْهِ أَنْتُمْ وَكُلُوهُ قَالَتْ وَكَانُوا حَدِيثِي عَهْدٍ بِالْكُفْرِ۔
( صحيح البخاري : 5507، الذبائح والصيد – سنن أبي داؤد : 2829 ، الضحايا ) .
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں ، ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس پر اللہ کا نام پڑھو اور کھالو ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وہ کفر سے ابھی ابھی نکلے تھے ۔
{ صحیح بخاری و سنن ابو داود } ۔
تشریح : کسی بھی حلال جانور– شکار ہو یا ذبیحہ — کے حلال ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اسے ذبح کرتے یا شکار کرتے وقت ” بسم اللہ ” پڑھی جائے ، اور اگر بسم اللہ کے ساتھ اللہ اکبر کا اضافہ کردیا جائے تو بہتر ہے ، اگر کسی جانور کو اللہ کانام لے کر یعنی ” بسم اللہ و اللہ اکبر ” پڑھ کر ذبح نہیں کیا جاتا تو وہ مردہ کے حکم میں ہے اس کا کھانا جائز نہیں ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے : وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۔الانعام:121 ۔ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاو جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ [ اس کا کھانا ] گناہ ہے ۔ اور شکار سے متعلق فرمایا : فَكُلُوا مِمَّا أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ۔المائدہ :4 [ اور شکار کرنے والے جانور ] جس شکار کو تمہارے لئے پکڑ کر روک رکھیں تو اسے کھالو اور اس اللہ کا نام ذکر کرلیا کرو ۔ لیکن چونکہ زمانہ جاہلیت میں ذبیحہ یا شکار کو جہاں اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جاتا تھا وہیں بغیر اللہ کا نام لئے بھی اور کبھی کبھار بتوں کا نام لے کر ذبح کیا جاتا تھا ، اس لئے اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بتوں کے نام سے ذبح کرنے سے سخت منع کیا اور صرف اللہ تعالی کا نام لے کر ذبح کرنے کا تاکیدی حکم دیا ، لیکن چونکہ وہ لوگ خصوصا صحرا نشین حضرات اہل مدینہ کی طرح دینی سوجھ بوجھ کم رکھتے تھے اور ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اس لئے ان سے متعلق صحابہ کو اس بات کا شبہ ہوتا تھا کہ یہ لوگ جو جانور ذبح کرکے یا شکار کرکے مدینہ کے بازار میں بیچنے کے لئے لاتے ہیں ، نہ معلوم اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں ، لہذا صحابہ کو وہ گوشت کھانے میں تردد ہو ا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سے متعلق سوال کیا ، اس کےجواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت دی کہ مسلمانوں کے احوال اصولی طور پر حسن ظن اور خیر و صلاح پر محمول کرنا چاہئے،بلاکسی واضح دلیل یا صریح بات کے کسی مسلمان سے متعلق بلاوجہشبہ میں نہیں پڑنا چاہئے ، لہذا اگر گوشت لانے والے مسلمان ہیں تو اس کے بارے میں تفتیش و تحقیق کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تم اللہ کا نام لے کر کھالو تمہارے لئے وہ حلال اور طیب ہے۔ اس حدیث سے دو بنیادی باتیں سامنے آتی ہیں ۔
[۱] صحابہ کے اندر یہ بات مسلم تھی کہ ذبح کرنے کے لئے ” بسم اللہ "پڑھنا شرط اور نہایت ہی ضروری ہے ، جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد احادیث میں یہ حکم بیان ہوا ہے ،” جو خون بہائے اور اس پر اللہ کا نام لیا جائے تو اسے کھاو”
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
اس بارے میں اگر کوئی گنجائش نکل سکتی ہے تو یہ کہ اگر کوئی مسلمان ذبح کرتے وقت یا شکار کرتے وقت محض گھبراہٹ میں بسم اللہ کہنا بھول جائے تو اس کا ذبیحہ جائز ہے ۔
[۲] جو لوگ اصلا مسلمان نہیں ہیں ، یا جو ملک دہریت اور لادینیت میں پیش پیش ہیں، یا جن ملکوں میں دین صرف نام کا رہ گیا ہے اور عموما لوگ بے دین یا دہریہ ہیں، ان کے یہاں سے در آمد شدہ گوشت کے بارے میں تحقیق ضروری ہے ، صرف یہ کہہ دینا کافی نہ ہوگا کہ وہ لوگ اہل کتاب ہیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ حلال ہے ، کیونکہ آج کل اپنے کو اہل کتاب کہلانے والے علاقے دہریت اور لادینی کی رو میں بہہ رہے ہیں اور ان کے یہاں ذبح کے ایسے نت نئے طریقے ایجاد ہیں جو شرعی طریقہ ذبح سے قطعا مختلف ہیں ، بلکہ عمومی طور پر آج کل یہ کام مشینوں سے ہوتا ہے اور مشینوں میں ذبح کے لئے پیش کرنے سے قبل ان کے سرپر زور کی ٹھوکر ماری جاتی ہے جس سے جانور ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں ، نیز ان کا خون بہنے بھی نہیں دیا جاتا کہ انہیں کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے ، وغیرہ ۔ نیز یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ آج کے زمانے میں صدق و امانت شبہ معدوم ہے ، کمپنیوں کو سب سے زیادہ فکر اپنے سامان کے ترویج کی رہتی ہے اور اس میں شرعی نقطہ نظر کو نہیں دیکھا جاتا ، بلکہ تعجب ہوگا کہ بعض ایسے مکمل کارٹون ملے ہیں جن کے اوپر تو یہ لکھا ہوا ہے کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق ذبح کیا گیا ہے لیکن اس میں موجود تمام مرغیاں گردن سمیت ہیں ، اور اس سے بھی تعجب کی بات یہ عبارت : شریعت اسلامیہ کے مطابق ” مچھلی کے ڈبوں پر بھی لکھی جاتی ہے ۔ لہذا خصوصا غیر اسلامی ممالک کا سفر کرتے ہوئے، ان کے ہوٹلوں میں کھانا کھانے کے لئے اور جہازوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے ہوئے احتیاط ضروری ہے، اگر کوئی علامت ایسی ہے کہ وہ گوشت شرعی طور پر ذبح شدہ جانور کا ہے تو اسے کھائیں ورنہ دیگر طیب اور پاک چیزوں پر اکتفا کریں ۔ اس احتیاط کی سب سے واضح دلیل حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہ وہ حدیث ہے جس میں یہ ارشاد نبوی ہے کہ : جب اپنے کتے کو اللہ کا نام لے کر شکار پر چھوڑ و تو اگر تمہارا کتا شکار کو تمہارے لئے پکڑ رکھتا ہے اور وہ زندہ ہے تو اسے ذبح کرو اور اگر کتے نے شکار کو مار ڈالا ہے اور خود اس میں سے کھایا نہیں ہے تو اسے کھاو ، اور اگر اپنے کتے کے ساتھ کسی اور کتے کو پاو اور شکار مرچکا ہے تو اسے مت کھاو کیونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس کتے نہیں اسے مارا ہے ، اسی طرح اگر تم نے اللہ کا نام لے کر شکار پر تیر چلایا اور شکار تمہیں ایک دن کے بعدملا جس میں صرف تمہارے تیر کا اثر ہے تو اسے کھانا چاہو تو کھاو اگر اسے پانی میں ڈوبا ہوا پاو [ اگرچہ اس میں تمہاری تیر کا اثر ہے ] اسے نہ کھاو ۔
{ بخاری و مسلم } ۔
غیر ملکوں سے درآمد گوشت کے بارے میں تحقیق سے متعلق یہ حدیث کس قدر واضح ہے کہ اگر ذبیحہ اور شکار میں کسی بھی قسم کا شبہ ہوا تو اسے چھوڑ دیا جائے اور اسے کھایا نہ جائے ، سچ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے” جس امر میں تمہیں شبہ ہو اسے چھوڑ کر وہ کام کرو جس میں شبہ نہ ہو”۔
{ سنن الترمذی و سنن النسائی } ۔
فوائد :
1) جانور ذبح کرنے کے لئے بسم اللہ کہنا بنیادی شرط ہے ۔
2) بلا کسی وجہ حق کے کسی مسلمان کے بارے میں بد ظنی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔
3) کسی مسلمان کا ذبح کیا ہوا جانور اس پر محمول ہوگا کہ وہ شریعت کے مطابق ذبح کیا گیا ہے ۔
4) کسی غیر مسلم ملک سے آئے ہوئے گوشت سے متعلق احتیاط ضروری ہے ۔
ختم شدہ