مشعل نبوت (۱)

موضوع الخطبة        :       من مشكاة النبوة (1)

الخطيب       : حسام بن عبد العزيز/ حفظه الله

لغة الترجمة    : الأردو

موضوع:

مشعل نبوت (۱)

پہلا خطبہ:

الحمد لله شرع الشرائع وما جعل علينا في الدين من حرج، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، قامت على وحدانيته البراهين والحجج، وأشهد أن نبينا محمدًا عبد الله ورسوله المفدى بالقلوب والمهج، صلى الله وسلم وبارك عليه وعلى آله وأصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.

حمد وثنا کے بعد!

میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں‘ تاکہ ہمارے دلوں کا تزکیہ ہو‘ انہیں اطمینان حاصل ہو اور رحیم وکریم پروردگار کی اجازت سے دائمی نعمت سے سرفراز ہوسکیں اور دردناک عذاب سے نجات پاسکیں: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ﴾ [التحريم: 6]

ترجمہ: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر‘ جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں‘ جنہیں جو حکم اللہ تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں۔

ایک نوجوان نے بیعت عقبہ میں رسول اللہ ﷐ کے ہاتھ پر بیعت کی‘ پھر ایمان کے نور سے منور دل اور روشن دماغ کے ساتھ رسول اللہ ﷐ کی صحبت میں رہے‘ رسول اللہ ﷐ کی صحبت کو لازم پکڑا‘ قرآن حفظ کیا‘ علم کی فقہ وفہم حاصل کی ‘ اور دیکھتے دیکھتے امت میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ جانکار ہوگیا ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت سے سرفراز ہوا کہ جس کی قسم خود رسول گرامی ﷐ نے کھائی‘ اور آپ کی ایسی نگرانی  سے بہرہ ور ہوا جو قربت اور خصوصیت  سے متصف تھی…وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی شخصیت تھی…آپ کے سامنے میں ان کا واقعہ  پیش کرنے جا رہا ہوں…

وہ کہتے ہیں: ” (میں سواری کے ایک جانور پر) رسول اللہ ﷐ کے پیچھے سوار تھا‘ میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی (جتنی جگہ) کے سوا کچھ نہ تھا‘ چنانچہ (اس موقع پر) آپ ﷐ نے فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول! زہے نصیب۔(اس کے بعد) آپ ﷐ پھر گھڑی بھر چلتے رہے‘ اس کے بعد فرمایا: اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں‘ اللہ کے رسول! زہے نصیب۔آپ ﷐ نے فرمایا: کیا جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ عزوجل کا کیا حق ہے؟ کہا : میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ ارشاد فرمایا: بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا:اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کی: میں حاضر ہوں اللہ کے رسول! زہے نصیب۔ آپ ﷐ نے فرمایا: کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے  اللہ کا حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا حق کیا ہے؟ میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔آپ ﷐ نے فرمایا: یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے”۔

صحیحین کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷐! کیا میں لوگوں کو اس کی بشارت نہ دے دوں؟ آپ  ﷐ نے فرمایا: ” لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ (خالی) توکل کرکے بیٹھ رہیں گے”۔

معزز حضرات! آئیے ہم اس  حدیث پرذرا  ٹھہر کربات کریں:

پہلی بات: اللہ جل جلالہ کی توحید۔توحید تمام تر عبادتوں کی بنیاد اور سب سے عظیم اطاعت ہے‘ اسی طرح اس میں شرک کی سنگینی کا بھی ذکر ہے خواہ شرک اصغر ہو یا اکبر:”بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں”۔یہی وجہ ہے کہ  نبی ﷐ کو اپنی امت کے تئیں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف اور اندیشہ تھا وہ ہے شرکِ خَفی‘ حدیث میں آیا ہے کہ: "مجھے تمہارے تئیں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ ہے: شرکِ اصغر‘ آپ سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ریا ” (اس حدیث کو ابن باز نے صحیح کہا ہے اور البانی نے کہاکہ: اس کی سند جَیّد ہے)۔

دوسری بات: بندوں پر اللہ کی رحمت اور ان کے تئیں اس کی نرمی ومہربانی۔کیوں کہ وہ عظیم ترین عبادت جس کے ذریعہ  اللہ کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے‘ وہ توفیق یافتہ بندہ کے لئے آسان ہے‘ اسے ہر انسان کرسکتاہے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ مضبوط  ہویا تونگر‘  ضعیف ہو یا ناتواں‘ مالدار ہویا فقیر ومحتاج۔

تیسری بات: تعلیم  دینے اور ذہن کو آمادہ کرنے کے لئے  نبی ﷐ کی مہارت۔معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷐ کی جانب سے خاص توجہ اور قربت حاصل ہوئی‘ وہ تنہا آپ کے ساتھ تھے‘ پھر بھی آپ ان کو ان  کے اور ان کے والد کے نام کے ساتھ پکارتے‘  اور جب معاذ آپ کی آواز پر لبیک کہتے اور فرماتے : زہے نصیب۔تو آپ خاموش ہوجاتے‘ ہمارا گمان یہی کہتاہے کہ تین دفعہ ان کو ندا لگانے کے درمیان جب آپ نے خاموشی اختیار کی تو اس خاموشی کے لمحات میں معاذ کا ذہن ہر سو گھوم گیاہوگا!   کیوں کہ یہ ندا توجہ مبذول کرانے والی ندا تھی! اور خاموشی بھی توجہ طلب تھی!اگرچہ ذہن نہایت بیداری کی حالت میں تھا‘ پھر بھی آپ نے جو تعلیم دینی چاہی وہ سوال کی شکل میں ہی آئی:”کیا جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ عزوجل کا کیا حق ہے؟ کہا : میں نے عرض کی: اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں۔ ارشاد فرمایا: بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں”۔

چوتھی بات: معاذ رضی اللہ عنہ کی عمر بیس سے کچھ ہی زائد تھی‘ اس کے باوجود بھی آپ ﷐ نے ان کو ایسے علم سے آگاہ کرنے کے لئے منتخب فرمایا جو صرف ان کے لئے خاص تھا‘ اور آپ نےان کو یہ اجازت نہ دی کہ لوگوں کو اس کی خبر دیں‘ اس ڈر سے کہ کہیں وہ ان کی طرح اس بات کو نہیں سمجھ سکیں‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر طالب علم کو وہی علم سکھانا چاہئے جو اس کی قوت ادراک‘ فقہ وفہم اور حاجت وضرورت کے مطابق ہو۔

پانچویں بات: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا تقوی وخشیت کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت اس علم کی خبر دے دی اس ڈر سے کہیں کتمانِ علم کا گناہ ان کے سر نہ پر نہ آئے‘ راوی کہتے ہیں کہ: "پھر حضرت معاذ نے (اپنی وفات کے قریب‘ کتمان علم کے ) گناہ سے بچنے کے لئے یہ حدیث لوگوں کو بیان کی”۔

اللہ تعالی معاذ اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ  سے راضی ہوجائے اور ان کے ساتھ ہم سے  بھی  ہوجائے‘ یقیناً اللہ تعالی نہایت سخی وفیاض اور کرم فرما ہے‘ اللہ سے آپ مغفرت طلب کریں‘ وہ بڑا بخشنے والا ہے‘ والحمد للہ…

دوسرا خطبہ:

الحمد لله وكفى، وسلام على عباده الذين اصطفى.

حمد وصلاۃ کے بعد:

چھٹی بات: وہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جن کو نبی ﷐ نے اس  عظیم بشارت  کی خبر دی تھی‘ وہ عبادت وریاضت کے حددرجہ اہتمام اور التزام میں مشہور تھے‘  ان کے تعلق سے مروی ہے کہ انہوں نے اپنی موت کے وقت کہا: "اے اللہ! میں تجھ سے ڈرتا تھا‘ لیکن آج  تجھ سے امید کرتا ہوں‘ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ  میں دنیا اور اس  کی لمبی زندگی کو اس لئے پسند نہیں کرتاتھا کہ نہریں جاری کروں اور درخت لگاؤں‘ بلکہ  سخت چلچلاتی دو پہر میں  پیاس کی شدت ‘ (سخت جان) اوقات میں جد وجہد اور ذکر کے حلقات میں علماء  کی ہم نشینی کی وجہ سے (مجھے یہ دنیا اور اس کی زندگی محبوب تھی)”۔

اس لئے وہ نبوی بشارت جس سے آپ  ﷐ نے   صرف معاذ رضی اللہ عنہ کو ہی باخیر کیا‘ اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ اس پر بھروسہ کرکے بیٹھ گئے‘ عمل کرنا چھوڑ دیا اور معاصی کا ارتکا ب کرنے لگے‘ بلکہ  اس بشارت سے آپ نے وہ فقہ وفہم حاصل کی جس نے آپ کے اندر مزید عبادت ‘ اطاعت گزاری‘  لمبی شب بیداری اور سخت گرمی کے دنوں میں  روزہ رکھنے کی لذت (سے شاد کام ہونے کا ) جذبہپیدا کردیا۔

ساتویں بات: حضرت معاذ رضی اللہ عنہ جب اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہے تھے‘ اس وقت بھی آپ نے اپنی وہ ذمہ داری فراموش نہیں کی جو آپ نے رسول اللہ ﷐ سے لی تھی‘ وہ دعوت وتعلیم کی ذمہ داری ہے! شاید آپ کو یاد ہوگا کہ رسو ل اللہ ﷐ نے ان کو اس مشن کے لئے خود منتخب فرمایا تھا جب آپ نے ان کو اہل یمن کی طرف داعی بناکر بھیجا تھا:”تم ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جواہل کتاب ہے‘ اس لئے تم انہیں سب سے پہلے اس شہادت  کی دعوت دینا کہ  اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں…” الحدیث (مسلم)

آخری بات: ہمارے نبی ﷐ ایک گدہے پر سوار ہیں‘ اور اسی پرآپ نے ایک انصاری صحابی کو بھی سوار کر رکھا ہے‘ جو کہ تواضع کا عظیم منظر پیش کرتا ہے‘  یقیناً آپ اللہ کے رسول ﷐ تھے جن کو اللہ نے بندہ  کی شکل میں نبی کے طور پر منتخب فرمایا ‘ نہ کہ بادشا ہ بناکر نبی بنایا…

صلّى عليك الله يا رمز الهدى *** ما لحظة مرّت مدى الأيام

اے ہدایت کے علمبردار! الله تعالی آپ پر  اس وقت تک درود وسلام نازل کرتا رہے   جب تک کہ یہ دنیا قائم ودائم ہے۔

از قلم:

فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں