بسم اللہ الرحمن الرحیم
289:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
مغالطہ بشریت
بتاریخ : 30/ ربیع الآخر 1437 ھ، م 09، فروری2016 م
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سُئِلْتُ مَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: ” كَانَ بَشَرًا مِنَ الْبَشَرِ يَفْلِي ثَوْبَهُ، وَيَحْلُبُ شَاتَهُ، وَيَخْدُمُ نَفْسَهُ”. مسند احمد6/256، الأدب المفرد للبخاري:541، صحيح ابن حبان:5646.
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ان سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ ﷺ اپنے گھر میں کیا کرتے تھے ؟ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تھا : آپ بھی انسانوں میں سے ایک انسان تھے ، اپنے کپڑے سے جووں کو صاف کرلیتے ، اپنی بکری کا دودھ نکال لیتے اور اپنا کام خود کرلیتے تھے ۔ {مسند احمد ، الادب المفرد ، صحیح ابن حبان } ۔
تشریح : ہمارے نبی ﷺ کی بشریت ایک ایسا مسئلہ ہے جوا مت کے درمیان متفق علیہ چلا آرہا ہے ، تمام صحابہ اور تابعین اور ان کے بعد کے ادوار میں جتنے اہل حق گزرے ہیں سبھی کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ نبی ﷺ بھی عام نبیوں کی طرح ایک بشر اور آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے ، نہ آپ کوئی فرشتہ تھے ، اور نہ ہی آپ کی پیدائش نور سے ہوئی تھی، قرآن و حدیث اور اقوال صحابہ میں اس کے بے شمار دلائل موجود ہیں :
قرآن سے دلائل : قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ۔ الآیۃ، الکہفآپ کہہ دیجئے کہ میں تم ہی جیسا ایک انسان ہوں ، ہاں میری جانب وحی کی جاتی ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ۔ چونکہ رسولوں کے مخالفین کو ہمیشہ یہ شبہ اوران کا یہ اعتراض رہا ہے کہ جو بشر ہوگا وہ رسول نہیں ہوسکتا اور جو رسول ہوگا وہ بشر نہیں ہوسکتا ،کیونکہ ان کے نزدیک رسالت و بشریت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے ، اس لئے اس آیت میں اور اس طرح کی متعدد آیتوں میں ان کے اس غلط نظریہ کی تردید کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ انسانوں کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے رسول بشر ہی ہوتا ہے اور وہی اس امر کے لئے مناسب بھی ہے ، البتہ اللہ تعالی اسے بعض ایسی فضیلتوں و خصوصیتوں سے نوازتا ہے جو عام انسانوں کا حاصل نہیں ہوتیں، انہیں خصوصیات میں سے ایک خصوصیت وحی بھی ہے، چنانچہ سورہ ابراہیم میں جہاں رسولوں کے مخالفین کا یہ اعتراض ہے کہ تم تو ہماری طرح بشر ہو اس کے جواب میں ارشاد ہے : قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ۔ الآیۃ سورۃ ابراہیم۔ان کے رسولوں نے کہا کہ یہ تو سچ ہے کہ ہم تم جیسے ہی بشر ہیں لیکن اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔ یعنی اسے وحی و رسالت سے نوازتا ہے ۔
حدیث سے دلائل : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے نماز پڑھائی ، جب آپ نے سلام پھیرا تو عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا نماز سے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ آپ نے پوچھا : وہ کیا ؟ لوگوں نے کہا کہ آپ نے ایسی ایسی نماز پڑھائی ہے ، یہ سن کر آپ ﷺ نے اپنے دونوں پیر موڑے اور قبلہ رو ہوکر دو سجدے کئے ، پھر سلام پھیرا اور ہم سے مخاطب ہوکر فرمایا : اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آتا تو میں تمہیں ضرور مطلع کرتا لیکن اصل بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح ایک بشر ہوں ، جس طرح تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول کا شکار ہوتا ہوں ، اس لئے جب میں بھول جاوں تو مجھے یاد دلایا کرو ۔ الحدیث ۔ { صحیح بخاری : 403 – صحیح مسلم : 572 – سنن ابو داود : 1020 – سنن النسائی : 1259 } ۔
اس حدیث میں صریح لفظوں میں آپ نے فرمایا کہ "میں بھی تمہارے جیسا ایک بشر ہوں”۔ اس قسم کی متعدد حدیثوں میں یہ صراحت موجود ہے علی سبیل المثال : صحیح بخاری :7169 ، کتاب الاحکام بروایت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ۔
صحابہ کے قول سے دلیل : اوپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول مذکور ہوا ہے کہ جب ان سے رسول اللہ ﷺ کی خاندگی زندگی سے متعلق پوچھا گیا کہ آپ جب گھر میں ہوتے ہیں تو آپ کا معمول کیا ہوتا ، مائی عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تھا کہ آپ بھی آدم کی اولاد میں سے ایک آدمی تھے اور آپ کو بھی وہی ضروریات پیش آتی تھیں جو ایک آدمی کو پیش آتی ہیں جیسے کھانے و پینے کی ضرورت ، بازار آنے جانے کی ضرورت ، ضروریات زندگی مہیا کرنے کی ضرورت ،اپنے اہل خانہ کی مدد اور ان کا ساتھ دینے کی ضرورت ، لہذا جب آپ گھر میں آتے تو انہیں کاموں میں مشغول ہوجاتے اپنے اہل خانہ کی مدد میں لگ جاتے، دودھ نکالنا ہے ، اپنے جوتے گوتھ لینا ہے ، اپنے کپڑے صاف کرلینا اور اسی میں پیوند لگا لینا ہے وغیرہ ۔ قرآن و حدیث اورصحابہ کی ان تصریحا ت کے باوجود ہمارے بعض بھائیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ بشر نہیں بلکہ نور تھے یعنی آپ کی پیدائش عام انسانوں کی طرح مٹی کے مادے سے نہیں بلکہ اللہ تعالی کے نور سے ہوئی ہے اور جو شخص نبی ﷺ کو بشر مانتا ہے وہ ان کے نزدیک گستاخ رسول بلکہ کافر متصور ہوتا ہے۔ اپنے اس عقیدہ کے لئے وہ قرآ مجید کی یہ آیت پیش کرتے ہیں :قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (15)المائدۃیقینا تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور [ روشنی ] اور واضح کتاب آچکی ہے ۔ کہا جاتا ہےکہ اس آیت میں نور [ روشنی ] سے مراد اللہ کے رسول ﷺ۔ جس کا جواب یہ ہے کہ : اولا : راجح قول یہ ہے کہ یہاں نور سے مراد قرآن مجید ہے جیسا کہ اس کے بعد والی آیت ” یھدی بہ اللہ ” [ اس کے ذریعہ اللہ تعالی ہدایت دیتا ہے ] سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ نور و کتاب دونوں اگر الگ الگ ہوتے تو بعد والی آیت میں ” یھدی بھما اللہ ” ان دونوں کے ذریعہ اللہ تعالی ان لوگوں کو ہدایت دیتا ” آنا چاہئے تھا ۔ثانیا : قرآن مجید میں ایک سے زائد جگہ قرآن مجید کو ” نور ” کہا گیا ہے ، جیسے : وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا (174)النساءاور ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا ہے ۔ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (8)تو تم ایمان لاو اللہ تعالی اور اس کے رسول پر اور اس نور پر بھی جسے ہم نے اتارا ہے ۔ نیز دیکھئے سورۃ الاعراف : 157 ۔ ثالثا : اگر اس آیت میں نور سے مراد رسول اللہ ﷺ ہی مراد ہوں جیسا کہ بعض مفسرین کا خیال ہے تو اس سے مراد نور نبوت اور نور ہدایت ہوگا بعینہ اس معنی میں جس معنی میں قرآن مجید اور دیگر آسمانی کتابوں کو نور کہا گیا ہے ۔ ملاحظہ : ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کو اپنے جیسا بشر کہتے ہیں ، لہذا دیکھنا یہ ہے کہ فرمان رسولﷺ” میں تمہار ے جیسا بشر ہوں ” اس جملے کا معنی کیا ہے ، اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کے رسول ﷺ کو ہر چیز میں اپنے جیسا بشر مانتے ہیں، بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح ایک انسان ضروریات زندگی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے نبی ور سول بھی اس کے محتاج ہوتے ہیں ، وہ بھی شادی کرتے ہیں ، انہیں بھی بھوک و پیاس لگتی ہے ، وہ بھی کھانے اور پانی کے محتاج ہوتے ہیں ، جس طرح ایک عام انسان پیدا ہوتا ہے ، بڑا ہوتا پھر بڑھاپے کے بعد اس پر موت طاری ہوتی ہے ، اسی طرح رسول و نبی کے ساتھ بھی یہ مراحل پیش آتے ہیں ، جس طرح عام انسان عالم الغیب نہیں ہوتا ویسے ہی رسول ونبی کو بھی غیب پر اطلاع نہیں ہے، ہماری طرح رسول ہونے کا یہ معنی قطعا نہیں ہے کہ ان کا مقام و مرتبہ عام انسانوں کاہے ، جس طرح کسی بھی انسان کی بات حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتی ہے، اسی طرح رسولوں کی باتوں میں حق و باطل کا احتمال ہوتا ہے بلکہ یہ تو کفر اور فسق ہے ۔