بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :06
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ
بتاریخ :21/22/ ربیع الاول 1428 ھ، م 10/09،اپریل 2007م
منافق کی نشانیاں
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.
صحيح البخاري:340 الإيمان، صحيح مسلم:58 الإيمان.
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار خصلتیں ہیں ، جس شخص میں وہ پائی جائیں گی وہ خالص منافق ہوگا ، اور جس کے اندر ان میں سےکوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت پائی جائے گی حتی کہ اسے ترک کردے ، [ وہ خصلتیں یہ ہیں ] جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو ناحق چلے ۔
{ بخاری و مسلم } ۔
تشریح : مذہب اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو انسانی زندگی کے ہر پہلو پر مشتمل ہے ، اس میں عقائدبھی ہیں ، عبادات بھی ، معاملات بھی ہیں اور اخلاق و عادات بھی ، اسلام چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ایسے عمدہ اخلاق و کردار کے حامل ہوں جو انہیں انسانیت کے اعلی مقام تک پہنچائے اور ایسے ہر برے اخلاق سے دور رہیں جو انہیں جانوروں کی صف میں لاکھڑا کردے ، درج ذیل حدیث میں بعض ایسے ہی برے اور گندے اخلاق کی نشاندہی کی گئی ہے جو انسان کی عظمت اور اس کے خلیفۃ الارض ہونے کے منافی ہیں ۔
اصل میں زبان سے ایمان و اسلام کا اظہار اور دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد رکھنا نفاق کہلاتا ہے، یہ نفاق کفر بلکہ کفر سے بھی بڑھ کر ہے اسی لئے قرآن میں کہا گیا ہے کہ : إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (145)النساء۔
” منافق جہنم کےسب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور ان کے لئے آپ کسی کو مددگار نہ پائیں گے” ۔
علماء نے صراحت کی ہے کہ نفاق کی دو قسمیں ہیں ایک اعتقادی اور دوسرا عملی ، اعتقادی نفاق کا مطلب یہ ہے کہ منافق جو اپنے کفر کو چھپائے رکھے اور کسی دنیاوی مصلحت کی وجہ سے زبان سے اسلام و ایمان کا اظہار کرتا پھرے ، اور عملی نفاق یہ ہے کہ دل میں تو ایمان ہے لیکن منافقوں کی خصلتیں اور عادتیں اس میں پائی جائیں ، آج اعتقادی نفاق کی معرفت ایک مشکل بلکہ ناممکن کام ہے ،کیونکہ یہ ایک خالص باطنی معاملہ ہے جس کی معرفت کا ذریعہ صرف وحی الہی ہے جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد منقطع ہوچکی ہے، اس لئے کسی بھی شخص پر اعتقادی منافق ہونے کا حکم لگانا جائز نہیں ہے ، البتہ نفاق عملی کی معرفت ان اعمال و خصلتوں کے ذریعہ ہوسکتی ہے جنہیں قرآن و حدیث میں منافق کی نشانیاں قرار دیا گیا ہے ، مذکورہ حدیث میں ایسی ہی چار خصلتوں کا ذکر ہے :
[۱] جب بات کرے تو جھوٹ بولے : جھوٹ بولنا شریعت کی نظر میں گناہ کبیرہ اور بہت بری عادت ہے ، اس کے برے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ جھوٹا اللہ کے نزدیک مردود ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مبغوض اور تمام لوگوں کے نزدیک مشکوک اور ناپسندیدہ ہے ، جھوٹ جہنم میں لے جانے کا راستہ اور رحمت الہی سے دوری کا سبب ہے ، جھوٹ ایک سچے مومن کی عادت نہیں، بلکہ منافق کی عادت ہے ۔
[۲] جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے : یعنی جب اللہ کے بندے اس کے پاس اپنا مال رکھیں ، اسے اپنا راز دار بنائیں تو ان کا راز افشاء کردے ، اہل و عیال کے بارے میں بدچلنی سے کام لے ، یہ بھی ایک مومن کی نہیں بلکہ منافق کی خصلت ہے ۔
[۳] جب عہد کرے تو بد عہدی کرے : یعنی جب وہ کسی کو عہد دیتا ہے ، لوگوں سے وعدے کرتا ہے تو اسے پورا نہیں کرتا ، حاکم سے بیعت کرتا ہے تو اسے توڑدیتا ہے ۔ اللہ تعالی سے کئے عہد و پیمان بھی سب اسی ضمن میں آتے ہیں ، یہ خصلت بھی ایک حقیقی مومن کے شایان شان نہیں ہے ۔
[۴] اور جب جھگڑا کرے تو حق کے خلاف چلے : یعنی جب کسی بات پر خصومت کی نوبت آجائے تو حق کی پرواہ کئے بغیر وہ جھوٹے دعوے اور دوسروں کا حق لینے پر اتر آئے ، اہل علم کہتے ہیں کہ اس کی دو صورت ہوتی ہے ، ایک تو یہ کہ خصومت میں اپنے مخالف پر ایسی چیز کا دعویکرے جو اس کا اپنا حق نہیں ہے ، جیسے کسی کی زمین کا دعوی کردے یا کسی پر کچھ مالی حق کا دعوی کردے اور اس کے لئے جھوٹی قسمیں کھائے اور جھوٹے گواہ لاکر کھڑا کردے ، دوسری صورت یہ ہے کہ خصومت کے وقت مخالف کا حق ماننے اور اسے دینے سے انکار کردے اورمخالف کے پاس اگر دلیل و گواہ نہ ہوں تو وہ اس کے لئے جھوٹی قسم کھانے سے بھی گریز نہ کرے ۔۔۔۔ بدقسمتی سےآج مسلمانوں کی اکثریت اس عملی نفاق میں مبتلا ہے ، اس منافقانہ کردار اور اخلاق وعمل کی کوتاہیوں نے انہیں دنیا بھر میں ذلیل و رسوا کر رکھا ہے ، اللہ تعالی ہم سب کی اصلاح فرمادے ۔ آمین ۔
فوائد :
۱- جھوٹ ، خیانت اور بدعہدی و غیرہ ایسی بری خصلتیں ہیں جن سے پرہیز کئے بغیر کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔
2 – مسلمان کو چاہئے کہ اپنا ظاہر وباطن پاک و صاف رکھے۔
۳- یہ ممکن ہے کہ ایک شخص مومن ہو اور اس میں نفاق کی بعض خصلتیں بھی موجود ہوں۔
۴- جو شخص حدیث میں مذکورہ بری عادتوں کا عادی بن جائے اور انہیں چھوڑ نے کی کوشش نہ کرے ، اس کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ خالص منافق نہ ہوجائے ۔
ختم شدہ