موت

موضوع:
موت
پہلا خطبہ:
الحمدللهالقائل: ﴿ إِنَّاللَّهَيُسْمِعُمَنْيَشَاءُوَمَاأَنْتَبِمُسْمِعٍمَنْفِيالْقُبُورِ ﴾ [فاطر: 22]،أحمدهسبحانهوأشكره،يعلمخائنةالأعينوماتخفيالصدور،وأشهدأنلاإلهإلااللهوحدهلاشريكله،خلَقالموتوالحياةوإليهالنشور،وأشهدأننبيَّنامحمدًاعبدُهورسوله،أرسلهاللهبالهدىوالنور،صلىاللهعليهوعلىآلهوصحبهوسلمتسليمًاكثيرًا.
حمد وثنا کے بعد!
معزز حضرات! اللہ کی بندگی ايك مہتم بالشان مقصد ومراد ہے، دنیا وآخرت میں اس کے بیش بہا فوائد وثمرات حاصل ہوتے ہیں، کثرت سے اطاعت کے کام کرنا اور محرمات سے گریز کرنا دنیا وآخرت میں سعادت وتوفیق سے بہرہ ور ہونے کا ایک عظیم ترین سبب ہے ، مسلمان کو چاہئے کہ ایسی راہ اختیار کرے جس پر چل کر دل کی اصلاح ہو اور اطاعت میں اضافہ ہو۔
ایمانی بھائیو! ایک ایسا امر جس کا ذکر قرآن ومجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی وفعلی حدیث میں آیا ہے، ایک ایسا امر جو دلوں کو عبادتوں پر آمادہ کرتا اور اطاعت کے کام آسان کردیتا ہے، ایسا امر جو حرام شہوت کی آگ بجھا دیتا ہے ، وہ ایسی حقیقت ہے کہ ہم جس قدر بھی اس سے غافل رہیں ، اپنے متعین وقت پر وہ ہم سے مل کر رہے گی، یقینا وہ خاموش واعظ وناصح ہے جو امیر وغریب اور تندرست وبیمار کسی کو بھی نہیں چھوڑتا ۔
وَكُلُّأُنَاسٍسَوْفَتَدْخُلُبَيْنَهُمْ♦♦♦دُوَيْهِيَّةٌتَصْفَرُّمِنْهَاالأَنَامِلُ
ترجمہ: ہر انسان کو ایک ایسے مرض (موت) کا شکار ہونا ہے جس سے انگلیاں زرد پڑ جاتی ہیں۔
اے معزز مومنو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ آپ گاہے بگاہے اپنے صحابہ کرام کو نصیحت کیا کرتے تھے، تاکہ وہ ملول نہ ہوں، ہم وقتا فوقتاً اللہ کی طرف کوچ کر جانے والے انسان کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں، جو اپنی زندگی گزار کر زمین کے اندر اپنا مسکن لیتا ہے، اس کے احباب اسے چھوڑ جاتے ہیں اور وہ حساب وکتاب کے روبرو ہوتا ہے۔
اللہ کے بندو! موت بعض لوگوں کے لیے ابدی سعادت اور ہمیشگی کی نعمت کی طرف نقطہ انتقال ہوتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں کے لیے شقاوت اور عذا ب کی طرف نقطہ انتقال ہوتی ہے، یہ مدت لمبی بھی ہوسکتی ہے اور مختصر بھی۔
اے نمازیو! بعض لوگوں کے لیے موت آسان ہوتی ہے ، مومن کی روح قبض ہونے کی کیفیت کا بیان یوں وارد ہوا ہے: (ایسے آسانی سے روح جسم سے پرواز کرجاتی ہے جیسے مشکیزہ سے پانی کا قطرہ بہہ جاتا ہے) ۔ہم نے کتنے لوگوں کے بارے میں سنا کہ وہ مجلس میں یا نماز میں تھے کہ ان کی وفات ہوگئی۔
موت بسا اوقات سخت دشوار ہوتی ہے جس سے مومن کا گناہ معاف ہوتا اور اس کا تصفیہ ہوتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو” ۔ اسے احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ امام قرطبی فرماتے ہیں : "ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں: نبی علیہ الصلاۃ والسلام کا فرمان : "لذتوں کو توڑنے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو” ایک مختصر کلام ہے جو وعظ ونصیحت کو شامل ہے اور بلیغ ترین موعظت ہے”۔
میرے مبارک بھائی! موت بذات خود مقصود ومراد نہیں ہے ، بلکہ اسے ذکر کرنے کا مقصد اس پر مترتب ہونے والے امور ہیں، کیوں کہ موت کو یاد کرنے کے کچھ فوائد اور ثمرات ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
یہ موت کی تیاری پر ابھارتی ہے، نفس کامحاسبہ کرنے پر آمادہ کرتی ہے، محاسبہ کا فائدہ یہ ہے کہ انسان کثرت سے خیر کے کام کرتا ہے اور محرمات سے باز رہتا ہے اور ندامت کا اظہار کرتا ہے، موت کی یاد اطاعت کی دعوت دیتی ہے ، اس کی یاد سے دنیا کی مصیبتیں آسان ہوجاتیں، توبہ کا جذبہ پیدا ہوتا اور انسان تلافی ما فات کی کوشش کرتا ہے۔
موت کی یاد دلوں کو نرم کرتی ، آنکھوں کو اشک بار کرتی، دین کا جذبہ پیدا کرتی اور خواہش نفس کو کچلتی ہے۔
موت کی یاد انسان کو یہ دعوت دیتی ہے کہ دل سے کینہ کپٹ دور کرے، بھائیوں کو درگزر کرے اوران کی مجبوریوں کو سمجھتے ہوئے ان کا عذر قبول کرے۔
موت کی یاد گناہوں سے باز رکھتی اور سخت دل کو بھی موم بنادیتی ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: ہم ایک جنازے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ ایک قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ مٹی تر ہوگئی، پھر فرمایا: "بھائیو! ایسی چیز (قبر) کے لیے تیاری کرو” اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
دقاق کا قول ہے: "جو شخص کثرت سے موت کو یاد کرتا ہے ، اللہ تعالی اسے تین چیزوں سے نوازتا ہے: توبہ میں جلدی، دل کی قناعت، عبادت میں نشاط ۔ اور جو شخص موت کو فراموش کردیتا ہے وہ تین مشکلات میں گھر جاتا ہے: توبہ میں ٹال مٹول کرنا، بقدر کفاف رزق پر قناعت نہ کرنا اور عبادت میں سستی کرنا”۔
اے اللہ کے بندے! کب تک غفلت کی چادر اوڑھ کر ہم ٹال مٹول کرتے رہیں، جب کہ ہماری آنکھوں کے سامنے کثرت سے اچانک کی موت ہو رہی ہے۔
تَزَوَّدْمِنَالتَّقْوَىفَإِنَّكَلاَتَدْرِي
إِذَاجَنَّلَيْلٌهَلْتَعِيشُإِلَىالفَجْرِ
فَكَمْمِنْصَحِيحٍمَاتَمِنْغَيْرِعِلَّةٍ
وَكَمْمِنْسَقِيمٍعَاشَحِينًامِنَالدَّهْرِ
وَكَمْمِنْصَبِيٍّيُرْتَجَىطُولُعُمْرِهِ
وَقَدْنُسِجَتْأَكْفَانُهُوَهْوُلاَيَدْرِي
ترجمہ: تقوی کا توشہ اختیار کرو کہ تم نہیں جانتے ، جب رات آئے گی تو تم فجر تک زندہ رہوگے یانہیں۔کتنے تندرست لوگ بغیر کسی بیماری کے فوت ہوگئے اور کتنے ہی بیمار لوگ لمبے عرصے تک باحیات رہے۔ کتنے بچے ایسے ہیں جن کی لمبی زندگی کی امید کی جاتی ہے لیکن ان کے کفن بُنے جا چکے ہیں اور وہ اس سے بے خبر ہیں۔
اللهماغفرللمسلمينوالمسلمات،الأحياءمنهموالأموات،اللهمإنانسألكحسنالختام،وفردوسالجنان،واستغفروااللهإنهكانغفارًا.
دوسرا خطبہ:
الحمدللهالذيتفرَّدبالحياةوالبقاء،وكتبعلىعبادهالموتوالفناء،والصلاةوالسلامعلىمنخُتمتبهالرسلوالأنبياء .
حمد وصلاۃ کے بعد:
اسلامی بھائیو!
موت کا دستک آتے ہیں عمل کا سلسلہ ختم اور توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالی اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک نزع کا عالم طاری نہ ہو”۔
موت کے وقت انسان کی اچھائی اور برائی ظاہر ہوتی ہے، اس کا انجام واضح ہوجاتا ہے، موت کے وقت مومنوں کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے ) نازل ہوتے ہیں:
﴿ أَلَّاتَخَافُواوَلَاتَحْزَنُواوَأَبْشِرُوابِالْجَنَّةِالَّتِيكُنْتُمْتُوعَدُونَ * نَحْنُأَوْلِيَاؤُكُمْفِيالْحَيَاةِالدُّنْيَاوَفِيالْآَخِرَةِوَلَكُمْفِيهَامَاتَشْتَهِيأَنْفُسُكُمْوَلَكُمْفِيهَامَاتَدَّعُونَ * نُزُلًامِنْغَفُورٍرَحِيمٍ ﴾ [فصلت: 30 – 32].
ترجمہ: تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعدہ دیئے گئے ہو۔تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب تمہارے لیے (جنت میں موجود ) ہے۔غفور ورحیم (معبود) کی طرف سے یہ سب کچھ بطور مہمانی کے ہے۔
اے مبارک بھائی! قبرستان کی زیارت کریں اور اس وقت کا تصور کریں جب آپ کو کندھے دیے جائیں گے، اس لیے نہیں یاد کریں کہ آپ کی زندگی مکدر ہوجائے اور آپ مغموم بیٹھ جائیں، بلکہ اللہ کی قسم! اس لیے یاد کریں کہ آپ کی زندگی خوش گوار ہو اور آپ کی حالت بہتر ہوجائے ، کیوں کہ جس نبی نے یہ فرمایا کہ: "لذتوں کو توڑنے والی (موت ) کو کثرت سے یاد کیا کرو” اسی نبی نے یہ بھی فرمایا: "دنیوی چیزوں میں سے بیوی اور خوشبو مجھے بہت پسند ہیں” ۔اور اسی نبی نے یہ بھی فرمایا: ” (بیوی سے مباشرت کرتے ہوئے ) تمہارے عضو میں صدقہ ہے، صحابہ کرام نے پوچھا: ہم میں سے کوئی اپنی خواہش پوری کرتا ہے تو کیا اس میں بھی اجر ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا: بتاؤ اگر یہ (خواہش) حرام جگہ پوری کرتا تو کیا اس سے اسے گناہ نہیں ہوتا؟ اسی طرح جب وہ اسے حلال جگہ پوری کرتا ہے تواس کے لیے اجر ہے”۔ موت کو یاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی کوتاہیوں کی تلافی کرلے، اور اپنی اچھائیوں پر قائم ودائم رہے اور خوب سے خوب نیکیاں کرے، جب تک کہ زندگی کی رمق باقی ہے، کیوں کہ آج ہمارے پاس عمل کا موقع ہے اور حساب وکتاب نہیں ، اور کل حساب ہوگا لیکن عمل کی مہلت نہیں، عقلمند وہ ہے جو اپنے پروردگار سے ملنے کی تیاری کرتا ہے اوراپنے لیے ذخیرہ بھیجتا ہے،میں اور آپ یا تو نفع کا سودا کرر ہے ہیں یا گھاٹے کی تجارت۔
لاَدَارَلِلْمَرْءِبَعْدَالمَوْتِيَسْكُنُهُا
إِلاَّالَّتِيكَانَقَبْلَالمَوْتِيَبْنِيهَا
فَإِنْبَنَاهَابِخَيْرٍطَابَمَسْكَنُهَا
وَإِنْبَنَاهَابَشَرٍّخَابَبَانِيهَا
ترجمہ: موت کے بعد انسان کا کوئی گھر نہیں ہوتا سوائے اس گھر کے جسے وہ موت سے قبل (اپنے عمل سے) تعمیر کرتا ہے، اگر نیک عمل کی بنیاد پر اس نےوہ گھر تعمیر کی ہو تو اس کا مسکن بھی اچھا ہوتا ہے اور بدعملی سے اگر اسے تعمیر کیا ہو تو اس کو تعمیر کرنے والا خائب وخاسر ہوتا ہے۔
أعوذباللهمنالشيطانالرجيم:
﴿ كُلُّنَفْسٍذَائِقَةُالْمَوْتِوَإِنَّمَاتُوَفَّوْنَأُجُورَكُمْيَوْمَالْقِيَامَةِفَمَنْزُحْزِحَعَنِالنَّارِوَأُدْخِلَالْجَنَّةَفَقَدْفَازَوَمَاالْحَيَاةُالدُّنْيَاإِلَّامَتَاعُالْغُرُورِ ﴾ [آلعمران: 185].
ترجمہ: ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤگے، پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کردیا جائے بے شک وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے۔
اللهمإنانسألكحسنالختام،وأعاليالجنان،اللهماجعلآخركلامنامنالدنيالاإلهإلاالله،اللهمارزقناعيشالسعداء،وموتالشهداء،اللهماجعلقبورناروضةمنرياضالجنة.

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں