بسم اللہ الرحمن الرحیم
مولود مروج کی شرعی حیثیت
از قلم : مولانا محمد داود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ
ماہ ربیع الاول میں تشریف لانے والے مقدس انسان کی یاد گار کو تازہ رکھنے کے لئے اس میں ہر جگہ عید میلاد کا جشن منایا جائے گا ، اور اس صادق و مصدوق خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین کی یاد گار منانے اور اس کے عشق و محبت کا ثبوت بہم پہنچانے کے
لئے کافوری شمعوں کی قندیلوں اور بجلی کے قمقموں اور پھولوں کے گلدستوں سے مجالس میلاد کو زیب وزینت دی جائے گی ، غنا و سرور کے نغموں میں قصائد مدحیہ پڑھے جائیں گے اور گلاب کے چھینٹوں سے مشام روح کو معطر کیا جائے گا ۔
لیکن اے کاش کہ جس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے یہ مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں اور جس عشق ومحبت کا ثبوت بہم پہنچانے کے لئے ہم اپنے مکانوں کو زیب و زینت بخشتے ہیں ، اس کی جگہ ہم اپنی کائنات ایمان کو اتباع سنت نبویہ سے زینت بخشے ، کافوری شمعوں اور روشن قندیلوں کی بجائے ہم اپنے قلب کے ظلمات کو چراغ سنت مصطفوی سے روشن کرنے کے لئے اپنی کوششوں کو وقف کرتے ، نعتیہ اشعار اور مدحیہ قصائد کی جگہ ہمارے خصائل اور اعمال کے اندر سے ” اسوہ حسنہ نبوی ” کی مدح و ثنا کے ترانے اٹھتے تو یقینا ہماری کوششیں ضائع نہ ہوتیں ، اور ہماری محنتیں اکارت نہ جاتیں ۔
لیکن افسوس کہ دنیا کی عالمگیر بے راہ روی جو ہر عمل میں حقیقت اور مقصد کو فنا کرتی اور ظواہر و رسوم کی پوجا کراتی ہے ، یہاں بھی اپنا اثر دکھائے بغیر نہ رہی ، انبیاء کرام اور دوسرے بزرگان سلف کی یادگاروں کا جو اصل مقصد تھا یعنی اسوہ حسنہ کی اتباع اور نیکی و صداقت کے عملی نمونوں کی پیروی اور اعمال صالحہ کی حقیقی عملی یاد ، اس کو تو ہٹا دیا اور اس کی جگہ محض رسموں کی عظمت اور تہواروں کی رونق اور میلوں کی چہل پہل چھوڑ دی اور اصل روح ضائع کردی ، اور یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اعمال کی جگہ محض رسوم نے اور حقائق کی جگہ محض الفاظ اور اسماء کی پرستش نے لے لی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عشق اور محبت کے پاکیزہ جذبات آپ کی ولادت اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا ذکر اور اس ذوق وشوق کے مخلصانہ ولولے ایک مومن قانت اور مسلم صادق کی زندگی کے سب سے زیادہ قیمتی متاع اور محبوب جنس ہے ، اور یہ بھی صحیح ہے کہ یہ محبت اور شیفتگی انسانی سعادت کا سرچشمہ ہے ،کیونکہ یہ محبت و عقیدت اس مقدس و مطہر وجود کے ساتھ ہے ، جس کو خدا نے تمام کا ئنات ارضی و سماوی میں ہر طرح کی محبوبیت اور محمودیت کے لئے چن لیا ہے ، جس کی نبوت و رسالت کا اعلان عالم ملکوتی میں اس وقت ہوا جب کہ نسل انسانی کے باپ حضرت آدم علیہ السلام کا وجود مایہ خمیر سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا ، جس کا وجود ساری دنیا کے لئے ابر رحمت بن کر آیا اور اس سے زیادہ کیا کہا جاسکتا ہے کہ اس کائنات میں بڑی سے بڑی بات جو کسی انسان کے لئے کہی جاسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ عشق اور اعلی سےا علی مدح و ثنا جو کسی انسان کےلئے کہی جاسکتی ہے ، غرض کہ انسان کی زبان انسان کے لئے جو کچھ کہہ سکتی ہے اور کرسکتی ہے ، وہ سب کا سب اس کامل انسان اور اکمل عبد کے لئے سزاوار ہے ، جس کو خدا نے اپنی غلامی کے لئے مخصوص کرلیا ، اور جس کو خدا نے عبودیت کے عز وشرف سے سب سے زیادہ بہرہ اندوز کیا ۔
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ
وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہٴ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا
اور جس کو کبھی تو ” یا ایھا الرسول ” کے خطاب سے پکارا گیا ، اور کبھی ” یا ایھا المدثر ” کے خطاب شفقت سے سرفرازا ، اور جس آبادی میں وہ بسا اور جس شہر کی گلی کوچوں میں وہ چلا پھرا ، کبھی اس کی عزت و عظمت کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے فرمایا :
لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ ** وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ [ سورہ بلد : 1-2 ]
ہمیں اس شہر (مکہ) کی قسم ** اور تم اسی شہر میں تو رہتے ہو
اور کبھی اس کی عزت و عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے یوں فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورة الأحزاب : 56 )
خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں۔ مومنو تم بھی ان پر دُرود اور سلام بھیجا کرو
پس جس کی محبوبیت اور محمودیت کا یہ مرتبہ ہو اس پر درود و سلام بھیجنے کے لئے اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے جتنی گھڑیاں کٹ جائیں اور اس کی محبت و عشق میں جتنی بھی راتیں آنکھوں میں بسر ہوجائیں اور اس کی مدح و ثنا میں جتنی بھی زبانیں نغمہ سنج اور زمزمہ پیراہوں اسی قدر کم ہیں کیونکہ یہ فی الحقیقت روح کی مسرت ، قلب کی طہارت اور انسانی سعادت کے حصول کے بہت بڑا ذریعہ ہے ، جس کو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آپ کی ولادت یا حیات طیبہ کا ذکر اور اس کے لئے مجالس کا انعقاد اسی وقت ذریعہ ارشاد وہدایت ہوسکتا ہے ، جب کہ اسوہ حسنہ کی اتباع اور اعمال صالحہ کی حقیقی عملی یاد ان میں موجود ہو ، نہ یہ کہ ان کی حیثیت محض ایک رسم یا تہوار کی رہ جائے اور حقیقت یا اصلی روح ضائع کردی جائے ، کیونکہ بڑے بڑے اولو العزم انسانوں کی بڑائیوں اور عظمتوں کی یادگار کو زندہ اور تازہ رکھنے کے لئے جس روح کی ضرورت ہے اس کا تعلق محض تذکرہ یا مجلس آرائی سے نہیں ہوتا بلکہ اس سے اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ جو اعمال حسنہ اور اخلاق کریمہ ان کی زندگیوں میں پائے جاتے ہیں اور جن کی یاد اور تذکرہ میں بنی نوع انسان کے لئے سب سے زیادہ موثر دعوت عمل موجود ہے ، ان کو اس طرح زندہ رکھا جائے کہ آنے والی نسلیں ان اعمال صالحہ کے نمونوں کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں ۔
قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ وَالَّذِينَ مَعَهُ ( سورة الممتحنة : 4 )
تمہیں ابراہیم اور ان کے رفقاء کی نیک چال چلنی (ضرور) ہے۔
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورة الأحزاب : 21)
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے
ان آیات میں بتایا گیا کہ ان بزرگوں کے نام زندہ رکھنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اسوہ حسنہ کی اتباع کی جائے ، ان کے اخلاق کریمہ ، خصائل حمیدہ اور اعمال صالحہ کی اقتداء کی جائے ، نہ یہ کہ اس حقیقت کو رسموں ، تہواروں اور انسانی مجموعوں اور میلوں کی بھول بھلیوں میں گم کردیا جائے ۔
موجودہ مروجہ مجالس افسوس موضوع اور ضعیف روایات و حکایات اور قصص پر مشتمل ہوتی ہیں تو دوسری طرف یہ کئی ایک بدعات اور شرکیہ رسوم کو اپنے اندر لئے ہوتی ہیں ، جن کی بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان مجلسوں اور میلوں میں نہ صرف یہ کہ حقیقت اور مقصد فوت ہوگیا اور اصلی روح ضائع کردی بلکہ عشق و محبت رسول میں جس راستہ پر گامزن ہوئے ناکامی اور نامرادی نے ان لوگوں کا ساتھ دیا ، اور ان کی مثال اس وقت اس جماعت کی سی ہوتی ہے جو حق و صداقت کی تلاش میں اٹھتی ہے اور ایک راستہ تلاش کرکے اس پر گامزن بھی ہوجاتی ہے ، لیکن اس کی بدبختی اور نامرادی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اٹھنے اور اقدام کے بعد بھی اپنا راستہ گم کردیتی ہے ، اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح اس راستہ کی طرف نہ چل کر اس سے محروم تھی ٹھیک اسی طرح اس کی طرف چل کر بھی محروم رہتی ہے ، اور یہی وجہ ہے جس کی کوشش اور محنتوں کے ضائع ہونے کو قرآن کریم نے ” تحبط اعمال ” سے جا بجا مختلف پیرایوں میں ظاہر کیا ہے ۔
اور اسی بناء پر میں کہتا ہوں اور باربار یہی کہوں گا کہ ماہ ربیع الاول میں آنے والے اس مقدس انسان کی یاد اور محبت میں ہم اگر اپنے گھروں کو زیب و زینت نہ دیتے بلکہ اس کی جگہ دل کی اجڑی ہوئی بستیوں کو آباد کرتے ہماری مجلسوں اور محفلوں کو پھولوں کے گلدستے نہ نصیب ہوتے بلکہ ان کی جگہ ہم اپنے اعمال حسنہ کے مرجھائے ہوئے پھولوں کو تازہ کرتے ، کافوری شمعوں اور روشن قندیلوں سے ہم اپنے گلی کوچوں ، مجلسوں اور محفلوں کو بقعہ ء نور نہ بناتے بلکہ اس کی جگہ سنت مصطفوی کی مشعل ہاتھ میں لے کر دنیا کے ظلمت کدہ میں اجالا کرتے تو دنیا بہ یک آہنگ یہ پکار اٹھتی کہ بیشک یہ نبی کے متوالے اور رسول کے عاشق ہیں ، لیکن افسوس کہ جس کی یاد میں مجلسیں منعقد کررہے ہیں ، اس کی عزت کے لئے آج ان مسلمانوں کا وجود بٹہ ہے ، جس کے لئے نعتیہ اشعار اور مدحیہ قصائد پڑھتے اور جس کی یادگاری کا زبانی دعوی کرتے ہیں ، اس کی فراموشی کے لئے تقریبا ہمارا عمل گواہ ہے ، اس نے خدا کی طرف سے یہ بشارت ہم کو سنائی :
” الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا”
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :
خير الهدى هدى محمد صلى الله عليه وسلم وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة . ( مشكوة باب الإعتصام بالسنة )
تمام طریقوں سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے اور سب سے برا وہ نیا کام ہے جو شریعت محمد میں از خود ایجاد کرلیا جائے ، اور ہر ایسا نیا کام شریعت کی بولی میں بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
لیکن ہم نے دین کے ہر حصہ کو ناقص سمجھ کر ایسی ایسی بدعات اسلام میں مذہب کے نام سے رائج کردیں کہ بدعات ورسوم سے پاک اسلام کا پتہ چلانا مشکل ہوگیا ہے ، اور اصل حقیقت بدعات و رسوم پرستی میں مستور و محجوب ہوکر رہ گئی جس کا نتیجہ وہی ہوا جو اس صادق و مصدق نے فرمایا :
ما ابتدع قوم بدعة إلا نزع الله عنهم من السنة مثلها .
جو قوم جس قدر بھی بدعات میں مبتلا ہوتی ہے ، اسی قدر اللہ تعالی ان میں سے اتباع سنت کو اٹھا دیتا ہے ۔
اس حدیث کا ترجمہ کرتے ہوئے شیخ عبد الحق محدث دہلوی ترجمہ مشکوۃ میں کیا خوب فرماتے ہیں :
” {ترجمہ} سنت اگر چہ چھوٹی سی ہو لیکن اس کا زندہ رکھنا بدعت کی ایجاد سے بہتر ہے اگر چہ بدعت حسنہ ہی ہو ، اس لئے کہ اتباع سنت سے نور پیدا ہوتا ہے اور بدعت میں مبتلا ہونے سے ظلمت پیدا ہوتی ہے اور اس کی مثال میں کہتا ہوں کہ اگر آداب استنجا سنت کے مطابق ملحوظ رکھے جائیں تو یہ مسافر خانہ اور مدرسہ کے بنانے سے بہتر ہوگا ” ۔
اور اسی مضمون کو مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات میں ان الفاظ کے ساتھ ادا کیا ہے ۔
{ ترجمہ } ” بعض بدعات جن کو علماء و مشائخ نے بدعت حسنہ کہہ کر جائز قرار دیا ہے ، جب بغور مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ سنت کو مٹانے والی ہیں ، مثلا میت کے کفن کے کپڑوں میں عمامہ کو بھی شامل کرنا بدعت حسنہ کہتے ہیں ، لیکن یہ براہ راست سنت کو اڑادینے والی ہے ،کیونکہ مسنون عدد جو تین کپڑے ہیں اس پر زیادتی کرنا فی الحقیقت اس سنت کو منسوخ کرنا ہے ، اور نسخ کا معنی ہے مٹا دینا ، علی ہذا القیاس تمام بدعات و محدثات فی الحقیقت ” سنت ” پر زیادتی ہے ، اگر چہ کسی وجہ سے بھی ہو اور زیادہ نسخ ہے اور نسخ کا معنی ہے مٹادینا پس تم کو چاہئے کہ صرف سنت نبویہ کی اتباع اور اسوہ صحابہ کرام کی اقتدا پر کفایت کرو ”
یہ ہیں سچے عاشقان مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم اور یہ ہیں شیدایان سنت مصطفویہ ، جنہوں نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو ہر قسم کی خارجی گمراہیوں اور غیر دینی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کمربستہ ہوگئے ، اور ہر قسم کی بدعات و رسوم کی آمیزش سے اسلام کو پاک و صاف رکھنے کے لئے ہمہ تن مصروف رہے ، اور اسی جذبہ کے ماتحت مجدد الف ثانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات میں اپنے ایک دوست حسام الدین کے خط کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے جو یہ لکھا ہے کہ :
” مولود سننے سے منع کرنا اور اس کی ممانعت میں مبالغہ کرنا ہمارے بعض دوستوں کو گراں گذرتا ہے کیونکہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی مجالس میلاد میں زیارت کی ہے ، اس لئے وہ مجالس میلاد پر فریفتہ ہو رہے ہیں اور ان کے لئے مجالس میلاد چھوڑنا بہت مشکل ہے ” ۔
اس کے جواب میں مجدد صاحب فرماتے ہیں :
” اگر اس قسم کے وقائع اور خوابوں کو معتبر سمجھ لیا جائے ، اور مریدوں کو رہنمائی کی کوئی حاجت نہ رہے تب تو ہر مرید اپنے لئے اپنی خوابوں اور وقائع کی بناء پر زندگی ڈھال لے گا ، اس صورت میں پیری مریدی کا سلسلہ درہم برہم ہوجائے گا اور ہر بو الہوس اپنے لئے ایک مستقل وضع تیار کرے گا ”
پس ایسی حالت میں جب کہ اسلام کے صدر اول میں یعنی تاریخ امت مسلمہ کے زرین عہد میں جو یمن و برکت اور ہدایت و سعادت کی دولت سے مالا مال اور ہر قسم کی بدعات و رسوم سے پاک و صاف تھی اس قسم کی مجالس کا کوئی ثبوت بہم نہیں پہنچتا بلکہ اسلام کی چھ صدیاں گذر گئیں ، ان میں صحابہ کرام ، تابعین ، ائمہ دین ، محدثین ، فقہا صوفیا اور صلحاء امت ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں ہوئے ، لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی موجودہ مروجہ مجالس میلاد کو عشق نبی اور محبت رسول کے اظہار کا ذریعہ نہ سمجھا ، تو پھر مجھے امام مالک کے اس ارشاد کو دہرانے میں کوئی تامل نہیں کہ :
ولن يصلح آخر هذا الأمة إلا بما صلح به أولها .
اس امت کے آخری عہد کی اصلاح اس سے ہوگی جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی ۔
{ مأخوذ از : مقالات مولانا داود غزنوی /
مرتب : عبد السلام عمری ، ایم ،اے / ناشر : مکتب الدعوہ الغاط ،www.islamidawah.com/ }