نبوت کے 23 سال23درس / درس نمبر : مقدمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

الحمد للہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ، امابعد ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا  سیکھنا و سکھانا بڑی اہم عبادت ہے ، سیرت نبوی کا علم ایمان کی تازگی اور اس میں اضافہ کا سبب ہے ، نبی ﷺ کی اطاعت میں معین اور آپ سے محبت کی نشانی ہے ، سیرت نبوی کا سیکھنا نصوص قرآن و سنت کی صحیح سمجھ کا ذریعہ اور ہر طبقہ کے مسلمانوں کیلئے درس وعبرت ہے ، انسانی زندگی کے وہ لمحات بڑے قیمتی اور رب کائنات کے نزدیک بڑے محبوب ہیں جو اس کے خلیل  وحبیب کے ذکر میں گزریں ، لیکن بدقسمتی سے آج کا مسلمان سیرت نبی ﷺ کے سیکھنے سکھانے سے دور اور آپ ﷺ کے اسوہ سے بیزار ہے ۔

لوگوں کی اس بے زاری کو سامنے رکھ کر سیرت حبیب ﷺ کا یہ مختصر سلسلہ شروع کیا جارہا ہے ، شاید یہ سبب بنے لوگوں کی نظروں پر سے بیزاری کا پردہ اٹھنے کا ، واللہ التوفیق ۔۔۔

خاندان نبوی : آپ  کا نام محمد اور احمد ہے ،آپ کے والد کا نام عبدا للہ اور آپ کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب ہے ۔ ہمارے نبی ﷺ قریش خاندان سے تھے اور قریش حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد ہیں ، اور حضرت اسماعیل حضرت ابراہیم خلیل الرحمن کے بڑے صاحبزادے ہیں ۔

نبی ﷺ کا خاندان دنیا کا افضل خاندان ہے جس طرح کہ نبی ﷺ دنیا کی افضل ترین شخصیت ہیں ۔

ولادت : ابھی نبی ﷺ ماں کی پیٹ ہی میں تھے کہ والد کا انتقال ہوچکا تھا ، نبی ﷺ کی ولادت پیر کے دن بھور میں ہوئی ، مشہور قول کے مطابق ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ اور صحیح قول کے مطابق 9 تاریخ تھی ۔ ۔۔۔۔  آپ کے دادا نے آپ کا نام محمد رکھا ، ایک روایت میں ہے کہ آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا ، اور آپ کے یہی دونوں نام قرآن میں مذکور ہیں ۔

رضاعت : سب  سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ پلایا ، پھر ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایا ۔  رضاعت کی باقی مدت آپ نے بادیہ بنی سعد حلیمہ سعدیہ کے یہاں گزاری ، بادیہ بنی سعد میں آپ ﷺ چار سال رہے اور یہیں پر پہلی بار آپ کے سینہ مبارک کے چاک کرنے کا واقعہ پیش آیا ۔

مکہ مکرمہ واپسی : اس واقعہ کے بعد حلیمہ سعدیہ  نبی ﷺ کو مکہ مکرمہ واپس لائیں ۔

والدہ اور دادا کا انتقال : نبی ﷺ کی عمر چھ سال تھی کہ والدہ کا انتقال ہوگیا ، والدہ کے بعد آپ ﷺ دادا کی کفالت میں تھے ، آپ کی عمر آٹھ سال سے کچھ زیادہ تھی کہ دادا کا بھی انتقال ہوگیا ، دادا کےبعد مشہور قول کے مطابق آپ اپنے چچا ابو طالب کی کفالت  میں آئے ، ابو طالب نبی ﷺ سے بے حدمحبت کرتے اور ہر طرح کی خدمت کرتے رہے ، نبی ﷺ کی عمر بارہ سال کی تھی جب آپ چچا کے ساتھ شام کے سفر کے لئے نکلے ، راستے میں بصری  کے مقام پر بحیرا نامی ایک راہب ملا ، اس نے آپ کو پہچان لیا ور ابو طالب سے اصرار کیا کہ انہیں مکہ واپس بھیج دیں ، کیونکہ خطرہ ہے کہ اہل کتاب انہیں قتل کردیں گے ۔

جفاکشی کی زندگی : نبی ﷺ نے کسی پر بوجھ بن کر رہنا پسند نہیں کیا ، چنانچہ جب آپ نے ہوش سنبھالا تو بکریاں چرائی ، کچھ اور بڑے ہوئے اور سمجھداری کی عمر کو پہنچے تو تجارت بھی کی ، اس کے لئے آپ نے لمبے لمبے سفر بھی کئے ۔

شادی : نبی ﷺ پچیس سال کے ہوئے اور تجارت وغیرہ کے ذریعہ خود کفیل ہوگئے تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی ، یہ آپ کی سب سے پہلی اور محبوب ترین بیوی تھیں ، آپ کی تمام اولاد انہیں کے بطن سے تھیں ۔

خانہ کعبہ کی تعمیر نو :

نبی ﷺ کی عمر 35 سال تھی کہ آپ کی قوم نے کعبہ مشرفہ کی تعمیر نو کا پروگرام بنایا ، اس عمل خیر میں نبی ﷺ بھی بنفس نفیس شریک رہے ، اپنے مبارک کندھوں  پر پتھر لاتے اور لوگوں کی مدد کرتے ۔ ۔۔ تعمیر کعبہ مشرفہ کے موقعہ پر حجر اسود کو اس کی جگہ رکھنے کیلئے جب قریش کا باہمی نزاع ہوا تو تمام لوگوں نے بالاتفاق  آپ کو حکم مانا اور سب آپ کے فیصلے پر راضی ہوئے ، چنانچہ نبی ﷺ نے ایک چادر  منگا کر بچھا دیا ، اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو چادر میں رکھ دیا اور ہر قبیلے کو اس کا ایک کونہ تھما دیا ، لوگوں نے چادر کو  اٹھایا اور جب حجر اسود اپنی جائے نصب کے برابر پہنچا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے اٹھا کر اسے اس کی جگہ رکھ دیا ۔

نبوت کے چند سال پہلے : نبی ﷺ کی پینتیس  سال کے بعد اور چالیس سال سے پہلے کی زندگی تجرد  اور تنہائی کی زندگی گزری ، آپ غار حرا چلے جاتے  اور کئی دن تک وہیں اللہ تعالی کی عبادت میں مشغول رہتے ، یہیں سے آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا ۔

نبی ﷺ کے اخلاق و عادات :

نبی ﷺ کی زندگی پر اعتبار سے کامل  اور صاف ستھری تھی ، آپ نے کبھی بت کو ہاتھ نہیں لگایا ، غیر اللہ کا ذبیحہ نہیں کھایا ، قریش کی بدعات اور ان کی بری رسومات میں شریک نہیں ہوئے ، ہر قسم کی بری عادت سے جو اس وقت رائج تھیں  پرہیز کیا ، آپ ﷺ اپنے قول کے سچے اور وعدہ کے پکے تھے ، امانت داری آپ کا نشان امتیاز تھا ، درماندوں کا بوجھ اٹھانا ، تہی دستوں کی مدد کرنا اور  مصائب حق میں لوگوں کا تعاون کرنا آپ کا شیوہ تھا ۔

یہ ایسی چیز تھی جس کا اقرار آپ کے جانی دشمن بھی کرتے تھے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں