بسم اللہ الرحمن الرحیم
332:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
نبوی خطبہ کی تین باتیں
بتاریخ : 10/ ربیع الاول 1439 ھ، م 28/، نومبر 2017 م
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْمُخَضْرَمَةِ بِعَرَفَاتٍ فَقَالَ: «أَتَدْرُونَ أَيُّ يَوْمٍ هَذَا، وَأَيُّ شَهْرٍ هَذَا، وَأَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟» قَالُوا: هَذَا بَلَدٌ حَرَامٌ، وَشَهْرٌ حَرَامٌ، وَيَوْمٌ حَرَامٌ قَالَ: ” أَلَا وَإِنَّ أَمْوَالَكُمْ، وَدِمَاءَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ، كَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، أَلَا وَإِنِّي فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، وَأُكَاثِرُ بِكُمُ الْأُمَمَ، فَلَا تُسَوِّدُوا وَجْهِي، أَلَا وَإِنِّي مُسْتَنْقِذٌ أُنَاسًا، وَمُسْتَنْقَذٌ مِنِّي أُنَاسٌ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُصَيْحَابِي؟ فَيَقُولُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ "
( سنن ابن ماجة :3057 ، المناسك)
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کہ میدان عرفات میں اپنی کان کٹی [عضباء] اونٹنی پر سوار تھے تو لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کونسا دن ہے ، یہ کونسا مہینہ ہے اور کونسا شہر ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : یہ حرمت والا شہر ہے ، حرمت والا مہینہ ہے اور حرمت والا دن ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : دھیان رہے ! تمہارے مال اور تمہارے خون تمہارے لئے اسی طرح قابل احترام ہیں جس طرح کہ تمہارا یہ مہینہ ، تمہارا یہ شہر اور تمہارا یہ دن حرمت والا ہے ، نیز سنو میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور تمہاری کثرت تعداد سے دوسری قوموں پر فخر کروں گا تو میرا منھ کالا نہ کرنا [یعنی رسوا نہ کرنا ] سنو ! کچھ افراد کو تو میں [جہنم سے نجات دلاوں گا ] لیکن اس کے برخلاف کچھ لوگ ہم سے چھین لئے جائیں گے ، میں کہوں گا کہ اے اللہ یہ تو میرے ساتھی [امتی ] ہیں ، تو اللہ تعالی جواب میں فرمائے گا : آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا نئے کام کئے ۔ {سنن ابن ماجہ } ۔
تشریح : یہ نبی کریم ﷺ کا ایک مختصر سا خطبہ ہے جسے آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر میدان عرفات میں اپنی زندگی کے سب سے بڑے اجتماع میں دیا تھا ، اس مختصر اور مبارک خطبے میں نبی ﷺ نے دین کی کئی بنیادی باتوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے ، اس میں آپ نے اللہ تعالی کے بعض حقوق ذکر فرمائے ، اپنے یعنی رسول اللہ کے بعض حقوق ذکر فرمائے اور مسلمانوں کے باہمی بعض حقوق کا ذکر کیا ہے ، چنانچہ اولا تو آپ ﷺ نے اس مبارک شہر جس میں اللہ تعالی کا گھر ہے اور اللہ تعالی نے اس کے ارد گرد کے علاقے کو برکتوں سے نوازا ہے کی حرمت کا ذکر فرمایا اور لوگوں کی توجہ اس کے اہتمام کی طرف دلائی ، اسی طرح ذی الحجہ کے مبارک مہینے کی حرمت کا حوالہ دیا ،پھر مشاعر مقدسہ کی حرمت کا حوالہ دیا اور یہ اشارہ فرمایا کہ ان چیزوں کی حرمت ایک مسلمہ چیز ہے لہذا اس کا دھیان رکھو ۔
دوسری اہم بات اس خطبے میں آپ ﷺ نے یہ بیان فرمایا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق ہے کہ ان کی جان اور ان کے مال کا احترام کیا جائے اور اس سے چھیڑ خوانی کرنا اس قدر قبیح اور برا ہے جس طرح کہ اللہ تعالی کے گھر ، اس کے مبارک شہر اور مشاعر مقدسہ کے حرمت کی پامالی بری چیز ہے ،جن سے متعلق ارشاد باری تعالی ہے : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحَادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ (25)الحج
جو کوئی از راہ ظلم مسجد حرام میں کج روی اختیار کرے گا اسے ہم دردناک عذاب چکھائیں گے ۔
تیسری اہم چیز اس خطبے میں نبی ﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ اللہ تعالی نے مجھے جس حوض سے نوازا ہے قیامت کے دن میں اس حوض پر پہلے پہنچ کر میں تم لوگوں کا انتظار کروں گا ، میرا حوض بہت بڑا ہے اور اس پر وارد ہونے والے لوگ بھی سب سے زیادہ ہوں گے اور میرے لئے دیگر انبیاء کے مقابلے میں یہ چیز باعث فخر ہوگی ، لیکن یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ میری خواہش کے باوجود کچھ لوگوں کو اس حوض تک پہنچنے سے روک دیا جائے گا جس سے مجھے تکلیف ہوگی، لہذا دھیان رکھنا کہیں تمہاری وجہ سے ہمیں حشر کے میدان میں دوسرے نبیوں اور فرشتوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے ،لہذا اس کے لئے تمہیں چاہئے کہ دو امر پر خصوصی توجہ دد۔
[۱] امت کے افراد کی کثرت پر توجہ دینا ، وہ اس طرح کہ ایک تو اولادکی کثرت پر توجہ رہے ، کثرت اولاد سے پریشان نہ ہونا ، ثانیا : اولاد کی تربیت صحیح منہج پر کرنا تاکہ وہ بے دینی اور دین سے ارتداد کے شکار نہ ہوجائیں ، کیونکہ یہ دونوں قسم کے لوگ حوض تک نہ پہنچ پائیں گے ۔
[۲] ہر ایسے عمل سے پرہیز کرنا جوتمہیں حوض تک پہنچانے میں رکاوٹ بنیں ، جیسے بدعات کا ارتکاب ، کبائر اور بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب ،ظلم و زیادتی سے کام لینا ، مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوجانا ،صحابہ کرام کے منہج سے روگردانی کرنا وغیرہ ۔
آج بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امت مسلمہ نے نبی کریم ﷺ کے ان جذبات کی قدر نہ کی بلکہ ہر میدان میں آپ ﷺ کی سنتوں کی مخالفت کی اور نئی نئی بدعات ایجاد کیا ،باہم لڑائیاں کیں اور مسلمانوں کی جان ومال سے کھیل کیا ، علی سبیل المثال :
یہ ربیع الاول کا مہینہ ہے بلکہ نبی ﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ اس مہینے میں ہر اس عمل خیر کی طرف توجہ دی جاتی جس سے نبی ﷺ راضی ہوتے اور ہر اس کام سے پرہیز کیا جاتا جو آپ ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہوتا ،خصوصا وہ کام جن سے متعلق آپ نے فرمایا : "میرے منھ کو کالا نہ کرنا” یعنی گناہ نہ کرنا ، بدعتیں ایجاد مت کرنا ، لوگوں پر ظلم نہ کرنا ، اپنے بھائیوں کے حقوق کو پامال مت کرنا ،کیونکہ اگرتم نے ایسا کیا تو میدان حشر میں حوض تک میرے پاس پہنچنے سے تمہیں روک دیا جائے گا، جس کی وجہ سے مجھے فرشتوں کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا ۔
آج نبی ﷺ سے محبت کےنام پر عید میلاد کی جو بدعت ایجاد کی گئی ہے اور اسے جو شکل دے دی گئی ہے وہ یقینا نبی ﷺ کی لائی شریعت کے خلاف اور اللہ و رسول کی ناراضگی کا سبب ہے ۔
فوائد:
* نبی کریم ﷺ کی اپنی امت کے ساتھ خیرخواہی کہ نصیحت کا کوئی موقعہ جانے نہیں دیا ۔
* کچھ لوگوں کو حوض نبوی سے دور کیا جائے گا اور ان میں سر فہرست وہ لوگ ہیں جو بدعات کو رواج دیتے ہیں ۔
* قیامت کے دن نبی ﷺ شفاعت برحق ہے ، البتہ بعض گناہ ایسے ہیں کہ ان کے مرتکبین کے لئے شفاعت کی اجازت نہ ہوگی ۔
* مسلمانوں کو قتل کرنا انہیں گناہوں میں سے ہے۔