نمازی کی توجہ / حديث نمبر: 290

بسم اللہ الرحمن الرحیم

290:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

نمازی کی توجہ

بتاریخ : 07/ جمادی الاول 1437 ھ، م  16، فروری2016 م

 عَنْ أبي ذر رضي الله عنه  يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَزَالُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مُقْبِلًا عَلَى الْعَبْدِ فِي صَلَاتِهِ مَا لَمْ يَلْتَفِتْ، فَإِذَا صَرَفَ وَجْهَهُ انْصَرَفَ عَنْهُ» ( سنن أبوداؤد : 909 ، الصلاة – سنن النسائي : 1195، السهو– صحيح ابن خزيمه : 418 ، الصلاة )

 ترجمہ :حضرت  ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : بندہ جب نماز پڑھتا ہوتا ہے تو اللہ تبارک وتعالی برابر  اس کی طرف متوجہ رہتا ہے ، جب تک وہ ادھر ادھر نہ دیکھے  ، بندہ جب ادھر ادھر  دیکھنے  لگتا ہے تو اللہ تعالی  بھی اس سے اپنا منھ موڑ لیتا ہے ۔

{سنن ابو داود ، سنن النسائی ، صحیح ابن خزیمہ}۔

تشریح : خشوع و خضوع  نماز کی روح اور اس کا کمال ہے ، ایک مومن بندے کی کامیابی  کی علامت  یہ ہے کہ وہ اپنی  نماز میں خشوع  اختیار کرے : قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (المؤمنون :1-2)یقینا  وہ مومن کامیاب ہوگئے  جو اپنی  نماز میں  خشوع اختیار  کرتے ہیں ۔

اور ظاہری اعمال کی پابندی  کے ساتھ  اسی خشوع و خضوع میں کمی وزیادتی  ہی سے بندے  کو اس کی نماز کا اجر کامل یا ناقص ملتا ہے ، ارشاد نبوی ہے : آدمی  نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے اس کی نماز کا صرف دسواں ، نواں  ،آٹھواں  ، ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا، تیسرا اور آدھا حصہ ہی لکھا جاتا ہے ۔ {سنن ابو داود ، مسند احمد ، بروایت عمار } ۔ نماز کے اجر میں اس کمی  کا بنیادی  سبب اس  میں خشوع  وخضوع کی کمی ہے ، لیکن  اگر کوئی  اللہ کا بندہ  اس کا اہتمام  کرے تو  اس کے لئے یہ خوشخبری  ہے کہ جو شخص  وضو کرے اور اچھی  طرح سے  وضو کرے پھر دو یا چاررکعت  نماز پڑھنے  کے لئے  کھڑا ہو  جس میں ذکر  اور خشوع  کا  خاص اہتمام  کرلے تو اس کے تمام گناہ بخش دیئے گئے ۔ {مسند احمد ، بروایت  ابو درداء } ۔

یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے مسلمانوں کو ہر ایسے  عمل سے روکا ہے جو نماز  سے اس کی  توجہ ہٹا  دیں، انہیں میں سے ایک عمل حالت نماز  میں اپنی توجہ  دوسری طرف مبذول کرنا اور ادھر ادھر  دیکھنا بھی ہے ، کیونکہ  ادھر ادھر  دیکھنے  اور نظر  گھمانے  کا معنی  یہ ہے کہ  بندے کا دل خالص نماز  میں نہیں ہے بلکہ  اس کی توجہ  کسی اور امر کی طرف بھی ہے  جب کہ چاہئے  یہ کہ  نماز میں بندہ  قلب  و قالب کے ساتھ  اللہ کی طرف  متوجہ رہے ۔

اوپر  مذکور  حدیث میں  اسی امر کی  اہمیت  ترغیب و ترہیب  کی  صورت میں بیان ہوئی ہے ، چنانچہ  نبی ﷺ نے بیان فرمایا کہ جب تک  بندہ  نماز میں اپنا رخ  قبلہ کی طرف رکھتا ہے ، اپنی نظر  سامنے جمائے  رکھتا ہے اور ادھر ادھر نہیں دیکھتا  تو اللہ تعالی  بھی اپنی رحمت و مغفرت  کا سایہ  اس پر کئے رہتا ہے ،  اس کی رحمتوں  کی بارشیں اس پر ہوتی رہتی ہیں ، لیکن  جب  بغیر  کسی شرعی  عذر کے ادھر ادھر  اپنی نظر  گھمانا شروع کردیتا ہے یا اپنی  گردن  کو قبلہ  کی طرف  سے موڑ کر  دوسری طرف کرتا رہتا ہے تو اللہ تعالی بھی  اپنی رحمتوں  اور مغفرتوں  کا سایہ  اس پر سے ہٹا لیتا ہے ۔

اس حدیث  میں ایک  طرف  ان لوگوں  کے لئے  خوشخبری  ہے جو  اپنی نماز  میں قلب  و قالب  سے حاضر  رہتے  ہیں اور دوسری طرف ان لوگوں کے لئے  وعید  ہے جو بلا کسی  شرعی  عذر  کے ادھر ادھر  نظریں  پھیرتے  رہتے ہیں  ،کیونکہ  ایسے  لوگ اللہ تعالی  کی توجہ اور اس کی رحمت  سے محروم  ٹھہرتے  ہیں، اس لئے نبی  ﷺ  نے اس عمل کو شیطان  کی طرف  منسوب کیا ہے ، چنانچہ  ام المومنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے  ایک بار  نبی ﷺ سے سوال کیا کہ  نماز میں  ادھر ادھر  متوجہ ہونا کیسا ہے ؟ آپﷺ نے جواب دیا  کہ یہ اچکنا ہے ، اس طرح شیطان  بندے کی نماز کو اچکا لیتا  ہے ۔ {صحیح بخاری } ۔

یعنی  جس طرح  سے کوئی  چور صاحب سامان کو غافل  پاکر  اس کا سامان اچک لیتا ہے اسی طرح شیطان جب انسان کو نماز میں غافل پاتا ہے تو اس کی  نماز کے  خشوع  کو برباد کردیتا ہے ۔ ،جس کی وجہ سے گویا اس کے ثواب  میں کمی واقع ہوتی ہے ۔

علماء  کہتے ہیں کہ نماز میں بندے  کو ادھر ادھر  متوجہ ہونے کی دو صورت ہے : [۱] معنوی توجہ : یعنی انسان کا دل و تصور  نماز میں نہ رہے بلکہ  وسوسوں  اور خیالات  کی  دنیا میں گم رہے ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ  اگر  بندہ نماز  کے ظاہری  اعمال کو ادا کررہا ہے تو اس سے  نماز تو باطل نہیں ہوتی  البتہ  نماز  کے اجر و ثواب  میں خاطر خواہ  کمی واقع ہوتی ہے  اور اس طرح  بندے کی نماز  کا مقصد  پورا نہیں ہوتا  ہے ، یہ ایسا مسئلہ  ہے جس سے  کسی بھی  نمازی کو چھٹکارا نہیں ہے  اور یہی وہ  چیز ہے جس کے ذریعہ شیطان  بندے کی نماز  میں خلل ڈالتا ہے ، جیسا کہ حدیث میں  ہے کہ  ۔۔۔ پھر  جب نما ز  کے لئے  اقامت  ہوجاتی ہے تو شیطان  لوٹ آتا ہے اور نمازی  کے دل میں طرح طرح  کے خیالات  ڈالتا ہے اور کہتا ہے  : یہ  یاد کرو یہ یاد کرو  ایسی ایسی باتیں یاد دلاتا ہے  جو اسے یاد نہ آتی ہوں  حتی  کہ آدمی  کو خیال  ہی نہیں رہتا کہ کتنی  رکعتیں  پڑھی ہیں ۔ { صحیح بخاری  وصحیح مسلم  بروایت ابو ہریرہ } ۔ ۔۔اس کا  علاج یہ ہے کہ  انسان اپنی توجہ  نماز اور جو کچھ پڑھ رہا ہے اس پر مرکوز رکھے  اور اگر بہت ہی مجبور ہوجائے تو بائیں جانب  تین بار تھو تھو کرے اور اعوذ باللہ من الشیطان  الرجیم  پڑھے ۔ {صحیح مسلم : 2203 } ۔ [۲] جسمانی توجہ :  یعنی بندہ نماز میں اپنے جسم سے ادھر ادھر مڑے ، اس کی کئی صورتیں  ہیں : {۱} پورے جسم  سے دائیں یا بائیں  متوجہ  ہو یا پھر جائے ، اس سے نماز باطل ہوجاتی ہے ، کیونکہ  قبلہ رخ ہونا نما ز کے لئے شرط ہے اور جب بھی کوئی نمازی قبلہ  سےاپنا   رخ پھرے  گا  نماز فاسد ہوجائے گی ۔ {۲} چہرے  کو ادھر ادھر  پھیرنا : ایسان کرنا ناجائز ہے  کیونکہ  نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا  اور اسے  اللہ تعالی  سے اعراض  کرنا قرار دیا  ہے ، نیز اس  میں اللہ تعالی کے ساتھ  سوء ادب بھی ہے کیونکہ  جب بندہ  نماز پڑھتا   ہوتا ہے تو گویا  اللہ تعالی  اس کے سامنے  ہوتا ہے ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم } ۔  ہاں  اگر  گردن  گھما  کر دائیں  بائیں دیکھنے کی حاجت و ضرورت  ہے تو اس میں  کوئی حرج نہیں ہے  جیسا کہ  بعض حالات میں  نبی ﷺ  سے ثابت   ہے ، اسی طرح  اگر کسی عورت  کا بچہ  اس کے پاس  ہے اور خطرہ  ہے کہ کہیں  ادھر ادھر  نہ چلا جائے اور  وہ نماز میں اپنی  گردن  گھما  کر ادھر ادھر دیکھتی  ہے تو یہ بھی جائز ہے ۔

{۳} نظر کا ادھر ادھر گھمانا :  ایسا کرنا مکروہ  و نا پسندیدہ  عمل ہے اگر چہ اس سے نما زباطل نہیں ہوتی  ،سالبتہ  اگر یہ حرکت  بکثرت  رہی تو  بہت ممکن ہے یہ  بھی ناجائز  کے زمرے میں داخل ہوجائے  کیونکہ  یہ نماز  کے خشوع  وخضوع میں کمی  کا سبب ہے ، الا یہ کہ کوئی حاجت ہے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔

فوائد :

  • جوا نسان جس طرح  کی غلطی کرتا ہے اسے سزا بھی اسی طرح کی دی جاتی ہے ۔
  • اگر نماز میں دائیں  بائیں  دیکھنے  کی حاجت ہو تو اس کی اجازت ہے ۔
  • نماز میں خشوع وخضوع  اس کی روح  اور  ریڑھ  کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔