نماز استخارہ

موضوع:
نماز استخارہ
پہلا خطبہ:
إنالحمدلله،نحمدهونستعينهونستغفره،ونعوذباللهمنشُرورأنفسنا،ومِنسيئاتأعمالنا،مَنيهدهاللهفلامضلله،ومنيضْلِلفلاهاديله،وأشهدأنلاإلهإلااللهوحدهلاشريكله،وأشهدأنمحمدًاعبدهورسوله.
﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَحَقَّتُقَاتِهِوَلاَتَمُوتُنَّإِلاَّوَأَنْتُمْمُسْلِمُونَ ﴾ [آلعمران: 102]. ﴿ يَاأَيُّهَاالنَّاسُاتَّقُوارَبَّكُمُالَّذِيخَلَقَكُمْمِنْنَفْسٍوَاحِدَةٍوَخَلَقَمِنْهَازَوْجَهَاوَبَثَّمِنْهُمَارِجَالاًكَثِيرًاوَنِسَاءًوَاتَّقُوااللَّهَالَّذِيتَسَاءَلُونَبِهِوَالْأَرْحَامَإِنَّاللَّهَكَانَعَلَيْكُمْرَقِيبًا ﴾ [النساء: 1]. ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَقُولُواقَوْلاًسَدِيدًا * يُصْلِحْلَكُمْأَعْمَالَكُمْوَيَغْفِرْلَكُمْذُنُوبَكُمْوَمَنْيُطِعِاللَّهَوَرَسُولَهُفَقَدْفَازَفَوْزًاعَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70 – 71].
حمد وثنا کے بعد!
یہ ایک معلوم سی بات ہے کہ زندگی تغیرات اور حیرت انگیز واقعات سے عبارت ہے، بسا اوقات مختلف حالات کے پیچ وخم میں انسان الجھ کر حیران وششدر کھڑا رہتا ہے ، کبھی کبھار تو کئی کئی دن اور رات یوں ہی سوچ وفکر اور بے قراری کے عالم میں گزرجاتی ہے اور وہ فیصلہ نہیں لے پاتا کہ: کہاں جائے؟ اورکون سی راہ اختیار کرے؟
زمانہ جاہلیت کے لوگ (ایسے حالات میں) اپنے (ناقص) علم کے مطابق کچھ چیزوں کا سہارا لیا کرتے تھے جن سے ان کی حیرانگی اور ضلالت مزید بڑھ جاتی تھی ، کچھ لوگ قرعہ کے تیروں کے ذریعہ فال گیری کرتے تھے، اور کچھ لوگ پرندہ اڑا کر فال نکالتے تھے۔
لیکن جب اسلام کی آمد ہوئی –جس نے لوگوں کے تمام مسائل کا حل پیش کیا او ر ہر پریشانی دور کی- تو اس میں اس قسم کے تمام معاملات کا حل موجود تھا، کیوں کہ اللہ تعالی نے مومن کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب اسے کوئی پریشانی کا سامنا ہو اور وہ تردد کا شکار ہوجائے تو استخارہ کا سہارا لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو تمام معاملات میں استخارہ کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے،جس طرح قرآن کی سورۃ سکھاتے ، چنانچہ صحیح بخاری میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمںی تمام اہم معاملات کے لےی نماز استخارہ اس طرح سکھاتے تھے جسے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے:تم مںر سے کوئی جب کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے پھر کہے:
اللهمإنِّيأستخيركبعلمِك،وأستقدرُكبقدرتك،وأسألُكمِنفضلك؛فإنَّكتقْدِرولاأقْدِر،وتعْلمُولاأعلم،وأنتعلاَّمالغيوب،اللهمفَإنْكنتَتعْلمأن هذاالأمرَ – ثُمتسمِّيهبعَيْنِه؛كزواجأوشِراءأوغيرِه – خيرًاليفيعاجِلأمريوآجِلِه – أوقال: فيدِينيومَعاشيوعاقِبةِأمري – فاقْدُرْهليويسِّرْهلي،ثمبارِكْليفيه،اللهموإنْكنتَتعلمأنهشرٌّليفيدِينيومعاشيوعاقبةأمري – أوقال: فيعاجلأمريوآجله – فاصْرِفنيعنه،واقْدُرليالخيرَحيثكان،ثمرضِّنِيبه)).
ترجمہ:
،، اے اللہ! مںه ترصے علم کے ذریعے سے خر کا طالب ہوں، ترمی قدرت سے ہمت کا خواہاں ہوں، تراے عظمم فضل کا سوال کرتا ہوں، یناْ تو قادر ہے مںے قدرت والا نہں ، تو جانتا ہے مں نہںج جانتا، تو پوشد ہ اور غائب معاملات کو جانتا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ مراایہ کام مرےے دین، مر یمعیشت اور مر ے معاملے کے انجام کے اعتبار سے بہتر ہے تو اسے مر ے لے مقدر اور آسان کر دے، پھر اس مںر مرھے لےت برکت فرما۔ اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام مر ے دین، مرکی معشتں اور مر ے معاملے کے انجام کے اعتبار سے اچھا نہں تو اسے مجھ سے اور مجھے اس سے پھرے دے اور مراے لےس خرس کو مقدر کر دے وہ جہاں بھی ہو، پھر مجھے اس سے خوش کر دے،، ۔
ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ دعا جن امور کو شامل ہے وہ یہ ہیں: اللہ پا ک کے وجود کا اقرار ، اس کے کامل صفات کا اقرار، جیسے کمال علم، کمال قدرت او ر کمال ارادہ ، اس کی ربوبیت کا اقرار، تمام معاملات کو اس کے سپردکرنا، اسی سے مدد طلب کرنا،اپنی جان کی ذمہ داری سے اظہار برائت کرنا اور ہر طرح کی طاقت وقوت سے تبرا کرنا سوائے اس کے جو اللہ کی مدد سے حاصل ہو۔ بندہ کا اس بات سے اپنی عاجزی کا اعتراف کرنا کہ وہ اپنی ذات کی مصلحت ومفاد کا علم ، قدرت اور ارادہ رکھتا ہے، اور یہ اعتراف کرنا کہ یہ تمام امور اس کے کارساز ، خالق اور تمام مخلوق کے معبود (اللہ) کے ہاتھ میں ہیں”۔ انتہی
معزز حضرات! مشورہ طلب کرنے سے استخارہ کی تکمیل ہوتی ہے، بلکہ اسلام نے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق بتایا ہے کہ جب اس سے نصح وخیرخواہی طلب کی جائے تو وہ ضرور نصیحت کرے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: (ایک مسلمان کے دوسرے مسلما ن پر چھ حقوق ہیں)۔ان میں سے یہ بھی ذکر فرمایا: (جب تم سے نصیحت طلب کرے تو تم اسے نصیحت کرو) [مسلم]۔
کسی سلف کا قول ہے: ” عقلمند کا یہ حق (وطیرہ) ہے کہ وہ اپنی رائے میں علمائے کرام کی رائے شامل کرتا ہے، اپنی عقل میں حکیموں کی عقل جمع کرتا ہے، کیوں کہ انفرادی رائے اور انفرادی عقل بسا اوقات لغزش کھا جاتی اور گمرا ہ ہوجاتی ہے”۔
اسلامی بھائیو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح استخارہ کی تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے، یعنی اپنی عام ضرورتوں میں بھی وہ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔
اس سے یہ معنی بھی مراد ہو سکتا ہے کہ: نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے انہیں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف سکھا یا، اس معنی کی رو سے ہمیں اس دعا کا بالکل ہو بہو اسی طرح التزام کرنا چاہئے اور اس کے الفاظ یاد رکھنے چاہئے جس طرح وہ وارد ہوئے ہیں ۔
اس نماز کے بعض احکام:
انسان اپنی زندگی کے مباح اور مستحب معاملات کا آغاز کرنے یا اسے انجام دینے کے بارے میں متردد ہو تو استخارہ کی نماز پڑھے، ابن ابی جمرۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "استخارہ ان مباح اور مستحب امور میں پڑھنی چاہئے جن میں تصادم اور ٹکڑاؤ نظر آرہا ہو اور کس چیز سے آغاز کرے، اس میں انسان متردد ہو ، البتہ واجبات، یا حقیقی مستحبات، محرمات اور مکروہات میں استخارہ نہیں ہے”۔انتہی
بیان کیا جاتا ہے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب الجامع الصحیح جو صحیح بخاری کے نام سے موسوم ہے، میں ہر حدیث لکھنے سے پہلے استخارہ کیا ، یہ وہ کتاب ہے جسے پوری دنیا میں قبول عام حاصل ہے، اور وہ کتاب اللہ کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے، ممکن ہے کہ یہ استخارہ ہی کی برکت ہو۔
ہمیں چاہئے کہ ہم دعائے استخارہ یاد کریں، اپنے بیٹے اور بیٹیوں کو اس کی ترغیب دیں اور اپنے پروردگار سے اجر وثواب کی امید رکھیں۔
دعائے استخارہ کا افضل طریقہ یہ ہے کہ استخارہ کی دو خاص رکعتیں پڑھی جائے ، اس کے بعد دعا کی جائے، رہی بات سنن رواتب کی تو ابن حجر نے یہ راجح قرارد یا ہے کہ اس (نفل) نماز کے ساتھ استخارہ کی بھی نیت کرلے تو کافی ہوگا، مثال کے طور پر نماز پڑھتے وقت تحیۃ المسجداور نماز استخارہ دونوں کی نیت ایک ساتھ کرے۔
دائمی کمیٹی برائے فتاوی (سعودی عرب) سے یہ سوال کیا گیا: جس کو دعائے استخارہ یاد نہ ہو، وہ اگر دیکھ کر پڑھے تو اس کا کیا حکم ہے؟ تو اس نے اس کے جواز کا فتوی دیا ، اہم چیز یہ ہے کہ انسان حاضردماغی اور دلجمعی ، خشوع وخضوع اور صدق دل سے دعا کرے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمدللهاللطيفِالحميد،الفعَّالِلمايريد،وصلىاللهوسلمعلىمحمدبنعبدالله،وعلىآلهوصحبهومنوالاه.
حمد وصلاۃ کے بعد:
میرے ایمانی بھائیو! استخارہ سے متعلق کچھ مسائل آپ کے سامنے پیش کیے جار ہے ہیں:
پہلا مسئلہ: دعائے استخارہ کب پڑھی جائے؟ بعض علماء فرماتے ہیں: تشہد کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے دعائے استخارہ پڑھے، جبکہ بعض اہل علم کا کہنا ہے: سلام کے بعد دعا پڑھے، کیوں کہ حدیث میں ( ثم) کا لفظ آیا ہے جو تاخیر پر دلالت کرتا ہے، اور یہی لجنہ دائمہ کا بھی فتوی ہے۔
ایک مسئلہ یہ ہے: جو شخص مشورہ کرے اور استخارہ کی نماز بھی پڑھے، لیکن اسے شرح صدر حاصل نہ ہو تو ایسی صورت میں کیا کرے؟ بعض اہل علم فرماتے ہیں: دوبارہ استخارہ کی نماز پڑھے، یہاں تک شرح صدر حاصل ہوجائے، بار بار استخارہ کرنے سے متعلق ایک حدیث بھی آئی ہے لیکن وہ صحیح نہیں ہے، بعض علماء فرماتے ہیں: جو بن پڑے وہ کر بیٹھے ، جو بھی وہ کرے گا وہ خیر ہی ہوگا، کیوں کہ استخارہ کو دہرانے کی کوئی دلیل نہیں آئی ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہےکہ: ایک ہی نماز میں کئی ضرورت کے لیے استخارہ کی جا سکتی ہے، چنانچہ دعا میں مقدمہ کے بعد یہ کہے: اے اللہ! اگر فلاں فلاں ضرورت میرے لیے خیر ہے تو اسے میرے لئے آسان کردے …..الخ ، یہ ابن جبرین رحمہ اللہ کا فتوی ہے۔
ایک مسئلہ بھی ہے : اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ استخارہ کے بعد انسان کو خواب آتا ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ: استخارہ اس معاملہ میں پڑھی جائے جس میں انسان کو تردد ہو۔
میرے اسلامی بھائیو! نہایت نادر حالات اور بہت کم معاملات میں استخارہ کرنا غلط ہے، بلکہ مسلمان کی یہ شان اور پہنچان ہونی چاہئے کہ وہ ان تمام معاملات میں اللہ سے لولگائے اور استخارہ کی نماز پڑھے جن میں اس کو تردد ہو "آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تما م معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے”۔یہاں تک جب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی بات رکھی گئی تو انہوں نے اس پر بھی استخارہ کیا، نووی فرماتے ہیں: شاید انہوں نے اس لیے استخارہ کیا کہ ان کو خدشہ تھا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ان سے کوتاہی نہ ہو۔انتہی
معزز حضرات!
استخارہ کے بعد انسان کے حق میں جو مقدر ہوتا ہے وہ خیر پر مبنی ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کے بعد ہر حال میں آسانی وفراخی ہی حاصل ہو، بسا اوقات انسان کو نقصان کا سامنا بھی کرناپڑ سکتا ہے، لیکن مسلمان کو یہ یقین رکھنا چاہئے کہ یہی اس کے لیے خیر ہے:﴿ وَعَسَىأَنْتَكْرَهُواشَيْئًاوَهُوَخَيْرٌلَكُمْ ﴾ [البقرة: 216].
ترجمہ: ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو بری جانو اور در اصل وہی تمہارے لیے بھلی ہو۔
شاعر کہتا ہے:
رُبَّأَمْرٍتَتَّقِيهِ
جَرَّأَمْرًاتَرْتَضِيهِ
خَفِيَالْمَحْبُوبُمِنْهُ
وَبَدَاالْمَكْرُوهُفِيهِ

ترجمہ: ممكن ہے کہ تم کسی چیز سے بچو جبکہ اسی میں تمہاری خوشی اور رضامندی پوشیدہ ہو۔
اس کا پسندیدہ پہلو مخفی ہو اور ناپسندیدہ پہلو نمایاں ہو۔
اسختارہ عبودیت وبندگی اور عاجزی وانکساری کا نام ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ مومن کا دل تمام حالات میں اپنے پروردگار سے وابستہ ہوتا ہے۔
استخارہ سے انسان کی روح میں معنوی رفعت وبلندی آتی ہے، اور اس میں یہ یقین پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اسے اپنی توفیق سے ضرور سرفراز کرے گا۔
استخارہ اللہ کی تعظیم اور حمد وثنا سے عبارت ہے، استخارہ کے ذریعہ انسان حیرانگی اور شک وتردد سے باہر نکلتا ہے، اس سے اطمینا ن اور ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے، استخارہ توکل کی راہ ہے اور اپنے معاملہ کو اللہ کے سپرد کرنے کا نام ہے۔
میرے ایمانی بھائیو! آج کے دن ایک عمدہ ترین کام یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے، آپ سب درود وسلام پڑھیں۔
صلى اللہ علیہ وسلم

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین