بسم اللہ الرحمن الرحیم
4:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
نواں سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
نبوت کا نواں سال :
مکمل بائیکاٹ :
جب قریش ہر طرف سے عاجز آگئے تو نبی ﷺ ، مسلمانوں اور بنوہاشم و بنو عبد المطلب کے مکمل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جس میں طے ہوا کہ محمد [ﷺ] مسلمانوں اور ا ن کاساتھ دینے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھا جائے ، ان سے لین دین توڑ لیا جائے ، اور ان کے ساتھ شادی ور شتہ کیا جائے حتی کہ وہ محمد [ﷺ] کو ہمارے حوالے کردیں ، پھر یہ ساری باتیں لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دی گئیں ۔
اس صورت حا سے نپٹنے کیلئے ابو طالب بنوہاشم ، بنو مطلب اور تمام مسلمانوں کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے ۔ یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا ، مسلمان سخت پریشانی کا شکار ہوئے ، حتی کہ درخت کے پتّے کھا کر گزارہ کرنا پڑا ، معصوم بچے جب بھوک سے روتے تو ان کے رونے کی آواز وادی سے باہر تک سنائی دیتی ، اگر کوئی شخص ترس کھا کر چھپ چھپا کر کچھ سامان خورد ونوش پہنچانا چاہتا تو قریش کے سردار راستے میں چھین لیتے اور اسے سخت تکلیفیں دیتے ۔
حاجیوں سے ملاقات : اس دوران بھی نبی ﷺ حج کے دوران منی میں ٹھہرے ہوئے حاجیوں کے پاس جاتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے ، اور ان سے مطالبہ کرتے کہ کون ہے جو مجھے پناہ دے تاکہ میں اللہ کا پیغام اللہ کے بندوں تک پہنچا سکوں ۔
چاند کا دو ٹکڑے ہونا :
یہی ایام تھے ، حج کا موسم تھا کہ ایک بار نبی ﷺ کفار قریش اور دوسرے لوگوں کے سامنے دین اسلام کی حقانیت بیان فرمارہے تھے کہ قریش نبی ﷺ سے مطالبہ کیا کہ اگر آپ چاند کو دو ٹکڑے کرکے دکھادیں تو آپ کو نبی ماننے کے لئے تیار ہیں کیونکہ کسی جادو گر کا جادو آسمان پر نہیں چلتا ، نبی ﷺ نے ان سے عہد لیا اور چاند کی طرف اپنی انگشت مبارک سے اشارہ فرمایا ، اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا ، لیکن واضح نشانی کے بعد بھی لوگ اسلام لانے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ کہا کہ یہ تو کھلا ہو جادو ہے ، اس پر سورۃ القمر نازل ہوئی ۔
پریشانی ہی پریشانی :
نبوت کا نواں سال اسلام اور مسلمانوں کے لئے سخت پریشان کن تھا ، ان کا شوشل بائیکاٹ کردیا گیا تھا اور اہل مکہ کسی بھی قیمت پر مسلمانوں کے اوپر سے اس پابندی کو اٹھانے کے لئے تیار نہیں تھے اور مسلمان تھے کہ ان حالات سے صبر وشکر کے ساتھ نپٹ رہے تھے ، حج و عمرہ کے موسم میں اہل مکہ کو غافل پاکر باہر سے آنے والوں سے اگر کوئی چیز خرید لیتے تو خرید لیتے ورنہ قیمت دیکر بھی انہیں کوئی چیز نہ ملتی ، انہیں حالات سے متعلق آپ ﷺ کا ایک ارشاد ہے ، اللہ تعالی کے راستے پر جس قدر اذیت مجھے پہنچائی گئی کسی اور کو نہ پہنچائی گئی اور جس قدر مجھے خوف زدہ کیا گیا کسی اور کو خوف زدہ نہ کیا گیا ، میرے اوپر تیس دن و رات ایسے گزرے ہیں کہ مجھے کوئی ایسی چیز کھانے کو نہ ملی جسے کوئی جاندار کھاتا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ بلال اپنے پہلو میں کچھ چھپا کر لاتے تھے ۔ { سنن الترمذی و ابن ماجہ } ۔
ظالمانہ تحریر مٹا دی گئی :
دوسال یا تین سال کے بعد قریش کے بعض اہل خیر کی کوشش سے یہ صحیفہ چاک کیا گیا ، جس کا سہرا ہشام بن عمرو کے سر ہے ، اس عمل خیر میں ان کی مدد زبیر ابن ابی امیہ نے کی ، نیز مطعم بن عدی اور ابو لبختری بھی اس ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے اور زمعہ بن اسود کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور سب نے مل کر اس ظالمانہ نوشتہ کو چاک کردیا ۔ اس طرح مسلمانوں کے اوپر سے یہ بلا ٹل گئی اور انہوں نے آرام کا سانس لیا ۔
غم ہی غم : ابھی نبی ﷺ اور مسلمانوں پر سے یہ پابندی اٹھائی ہی گئی تھی کہ نبی ﷺ کودو اور مصیبتوں نے آگھیرا :
[۱] چچا کا انتقال : اس بائیکاٹ کے خاتمہ کو ابھی بہت معمولی وقت گزرا تھا کہ ابو طالب بیمار پڑے اور اس دار فانی سے کوچ کرگئے ، بدقسمتی یہ کہ ابو طالب کا انتقال حالت کفر میں ہوا ، حالانکہ نبی ﷺ آخری دم تک ان کے سراہنے کھڑے ہوکر یہ گزارش کرتے رہے کہ اے چچا جان آپ لا الہ الا اللہ کہہ دیجئے تاکہ اللہ تعالی کے پاس حجت پیش کرسکوں ، لیکن دوسری طرف ابوجہل اور عبد اللہ بن امیہ ابو طالب کے پاس بیٹھ کر بار بار یہ کہتے رہے کہ ابو طالب ! کیا عبد المطلب کی ملت سے رخ پھیرلوگے ؟ ۔ بالآخر ابوطالب کے زبان سے آخری الفاظ یہ ادا ہوئے :” عبد المطلب کی ملت پر ” ۔
[۲] حضرت خدیجہ کی وفات :
ابھی ابو طالب کی وفات پر چند دن ہی گزرے تھے کہ نبی ﷺ کی شریک حیات اور زندگی کی غمگسار حضرت خدیجہ بھی اس دنیا سے رحلت فرماگئیں ۔ ان دونوں کا انتقال نبی ﷺ پر بڑا گراں گزرا اسی لئے مورخین اس سال کو ” غم کا سال ” کہتے ہیں ۔
سیرت درس :05 |