بسم اللہ الرحمن الرحیم
واقعہٴ ہجرت اور ہم
از قلم : شیخ ندیم اختر سلفی مدنی حفظہ اللہ
ابتدائے کائنات سے مہینوں اور سالوں کا مسلسل آنا اللہ کے بندوں پر اس کی بیشمار نعمتوں میں سے ہے،اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: "وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَآتَاكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لا تُحْصُوهَا إِنَّ الْأِنْسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ”
(إبراهيم:33-34)
ترجمہ:اسی نے تمہارےلئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا ہےکہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے،اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے،اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے،یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
اللہ کےبندو! عظیم الخلقت اس سورج کو دیکھو،یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے،اس کے ہر روز طلوع اور غروب ہونےمیں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ دنیا دارِ فانی ہے،سورج کی طرح اسے بھی طلوع ہوکر پھر غروب ہوجانا ہے،ان سالوں پر غور کرو ،ہر سال کے بعد ایک نیاسال آتا ہے،اس وقت ہم سالِ رواں کو الوداع کہ کر ایک نئےسال کا سامنا کرنے والے ہیں ،ہم میں سے بہتیرے ایسے ہیں جو یہ تمنا کرتےہیں کہ سال کے ان مہینوں کو وہ پورا کرلے،حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس طرح ان کی عُمر کم ہوتی جارہی ہے،اور یہ ایک ایسا مرحلہ ہےجو انہیں طے کرنا ہے،اس طرح وہ قدم بقدم موت سے قریب ہوتے جارہےہیں ،زندگی کے یہ قیمتی ایام جن سے ہم گذرتے چلے جارہے ہیں،ان سے وہی خوش ہوگا جس نے اللہ سے ملاقات کی تیاری کی،اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کو اپنا نصب العین بنا لیا،
دوستو !سالِ رواں ہجری کے آخری ایام سےہم گذررہےہیں ،آئیےغور کریں کہ ہم نے اس سال کیا کھویا کیا پایا،کون کون سے کام کئے،کتنے گناہ کئے اور ہم نے توبہ کیا،کون سی مصیبتیں ہم پر آئیں اور ہم نےصبر کیا،کتنے قیمتی لمحات کو ہم نے بغیر نیک عمل ضائع کیا،ہم میں کا ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرے،اگر ہمارا یہ سال خیر وبھلائی میں گذرا ہے تو اللہ کی تعریف کریں اور اس کا شکریہ ادا کریں،اور اللہ سے مزید اس کے فضل کا سوال کریں ،اور اگر معصیت اور منکرات میں گذرا ہےتو توبہ کریں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں،اور نیک عمل کرنے میں جلدی کریں ، کیونکہ نیکیاں بُرائیوں کو مٹادیتی ہیں۔
دوستو!ہر شخص اپنا محاسبہ کرے کہ کتنے فرائض اور واجبات کی اس سے ادائیگی ہوئی ہے،بندوں کے حقوق ادا کئے یا نہیں،مال کہاں سے کمائے اور کیسے خرچ کئے،صحابی جلیل حضرت عُمر بن الخطابtکا قول ہے:”حاسبوا أنفسكم قبل أن تحاسبوا،وزنوها قبل أن توزنوا،وتأهبوا للعرض الأكبر على الله”يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ”
(الحاقة:18) ( سنن الترمذي )
(اس سے پہلے کہ (بروز قیامت)تمہارا حساب لیا جائے،اپنا محاسبہ کرلو،اور وزن کئے جانے سے پہلے اپنا وزن کرلو،اور قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہونے کےلئےاپنے آپ کو تیار کرلوکہ جس دن تم سب کے سامنے پیش کئے جاؤگے،تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا)
عاقل وہ ہےجو ہر اعتبار سے اپنے نفس کا محاسبہ کرے،اپنی رفتار کو درست سمت میں لے جائے،لغزشوں کا تدارک کرے،اپنے کسی عمل سے عُجب میں مُبتلا نہ ہو گرچہ وہ کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو،اور معمولی گناہ کو حقیر نہ جانے،جب کسی مجلس میں بیٹھے تو دل ودماغ اس کا حاضر ہو کیونکہ لوگ اس کے ظاہر پر نظر رکھتے ہیں اور اللہ اس کے باطن کو دیکھتا ہے۔
اللہ کی عظیم نعمتوں اور اس کے فضل واحسان پر غور کرو،کیاکماحقہ ہم اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ؟ کیا ہم اس کی اطاعت وبندگی کرتےہیں ؟اس کے باوجود وہ ہمیں رزق سے نواز رہا ہے،ایک انسان کےلئے سب سے زیادہ نقصان دہ چیز یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ نہ کرے اور خواہشات کے پیچھے پڑا رہے،یہ حال ان فریب خوردہ لوگوں کا ہےجو عفو ودرگذر پر اعتماد کرکے گناہ پر گناہ کئے جاتے ہیں،جب کہ اللہ تعالٰی کہتا ہے: "يَا أَيُّهَا الْأِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ”
(الانفطار:6-7)
ترجمہ:(اے انسان!تجھے اپنے رب کریم سے کس چیز نے بہکایا؟جس(رب نے)تجھے پیدا کیاپھر ٹھیک ٹھاک کیا،پھر(درست اور)برابر بنایا) یعنی کس چیز نےتجھے دھوکے اور فریب میں مبتلا کردیا کہ تونے اس رب کریم کے ساتھ کفر کیا جس نے تجھ پر احسان کیا، اور تجھے وجود بخشا،تجھے عقل وفہم عطا کی اور اسبابِ حیات تیرے لئے مہیا کئے۔
دوستو!سال کا تیزی سے گذرنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری عُمر ختم ہوتی جارہی ہے،اور ہم موت سے قریب ہوتے جارہے ہیں، اور حالات میں تغیر وتبدل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس دنیا کے لئے زوال ہے،غور کروکہ اس سال کتنے نومولود اس دنیا میں آئے اور کتنے رخصت ہوگئے،بہتیرے فقروفاقہ میں زندگی بسر کرنے والے عیش وعشرت سے کھیلنے لگے،اور کتنے دولت میں کھیلنے والے فقیر ومحتاج بن گئے،کتنے ذلت ورسوائی کا سامنا کرنے والےعزت وشان والے ہوگئے،اور باعزت لوگ ذلیل وخوار ہوئے۔اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
(آل عمران:26)
ترجمہ:(آپ کہ دیجئے اےاللہ!اے تمام جہان کے مالک!تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسےچاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے،تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں،بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے)
مسلمان بھائیو!عُمر کے جس حصہ کو آپ نے ضائع کردیا ہے آنے والے بقیہ زندگی میں اس کی تلافی کرلو،جانے والے کے احوال پر غور کرو، گذشتہ قوموں سے سبق سیکھو،ہوسکتا ہے یہ دلوں کی نرمی کا سبب بنے،جب تک مہلت کا زمانہ ہے توشئہ آخرت جمع کرلو، پیارے نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا : "اغتنم خمسا قبل خمس شبابك قبل هرمك وصحتك قبل سقمك وغناءك قبل فقرك وفراغك قبل شغلك وحياتك قبل موتك ”
الحاكم في المستدرك رقم ( 7846 ) 4 / 341 وابن أبي شيبة رقم ( 34319 ) 7 / 77 مسند الشهاب رقم ( 729 ) 1بروايت بن عباس رضي الله عنهما)۔
{ دیکھئے علامہ البانی کی صحیح الجامع :1077، اور صحیح الترغیب :3355 }
ترجمہ:(پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو،جوانی کو بُڑھاپے سے پہلے،صحت کو بیماری سے پہلے،مالداری کو محتاجی سے پہلے، فرصت کو مشغولیت سے پہلے،او ر زندگی کو موت سےپہلے)
ایک بدعت:
دورِ حاضر کی بدعتوں میں سے ایک بدعت جو تیزی سے پھیلتی جارہی ہے جس کی بعض لوگ مختلف ذرائع کا استعمال کر کے ایک دوسرے کو وصیت کرتے ہیں،وہ یہ ہے کہ ہجری سال کے آخری دن کو بعض عبادات جیسےروزہ،دعا اور استغفارکےلئے خاص کرتے ہیں یہ اعتقاد رکھتے ہوئےکہ سال کے آخری دن میں صحائف اعمال بند کردئے جاتے ہیں۔ظاہراًیہ عمل گرچہ خیر ہی ہے لیکن تاریخ کی تخصیص کے اعتبارسے یہ بدعت میں شمار کیا جائےگا، کیونکہ اس کا ثبوت نہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے،اور نہ یہ صحابہ،تابعین اور ائمۃ المسلمین سے ثابت ہے،حالانکہ وہ بھلائی کے کاموں میں ہم سے زیادہ حریص تھے،اور پھر اس کی دلیل کہاں ہے کہ اس دن اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتاہے، بلکہ علما٫ کے نزدیک جو بات ثابت شدہ ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی موت کے بعد ہی اس کے اعمال کا رجسٹر بند کیا جاتا ہے۔واللہ تعالٰی اعلم
نئے ہجری سال کی ابتدا:
جب جب ہجری کے نئے سال کی ابتدا ہوتی ہے لوگوں میں ہجرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا خوب چرچا ہوتا ہے ،شاید ہی کوئی مجلس اس سے خالی ہوتی ہے،جس میں رٹی رٹائی ہجرت کی تاریخ بیان کی جاتی ہے،جب کہ ہجرت کا حقیقی مفہوم اور تقاضائے ہجرت کیا ہے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی،غالباً اس قسم کی مجلس کا مقصد خانہ پُری ہوتا ہے،کیونکہ اس واقعہ کا جو اثر دلوں میں ہونا چاہئیے وہ نہیں ہوتا۔
ہجرت کا شرعی معنی:
بلاد کفر یابُرے لوگوں یا بُرے اعمال اور بُرے عادات کو چھوڑنا ہجرت کا شرعی معنی ہے، اور یہ ہمارے باپ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت میں سے ہے جب انہوں نے کہا تھا: "إِنِّي ذَاهِبٌ إِلَى رَبِّي سَيَهْدِينِ”(الصافات:99)
ترجمہ:(میں تو ہجرت کرکے اپنے پروردگار کی جانے والا ہوں،اور وہ ضرور میری رہنمائی کرے گا)
اور شریعت محمدیہ نے بھی قیامت تک کے لئے اسے باقی رکھا ہے ،چنانچہ مکہ میں جب صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جانے لگےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرجانے کا حکم دیا،پھر اللہ رب العزت کی طرف سے آپصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو حفاظتِ دین کی خاطر مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ملتا ہے،اللہ کے فضل اور اس کے رضا کی تلاش میں، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی خاطر ان ہجرت کرنے والوں نے اپنے اموال اور دیار تک کو خیر آباد کہہ دیا،کتاب اللہ میں اس ہجرت کو جہاد کے ہم مرتبہ قرار دیا گیا،ہجرت کرنے والے صحابہ سب سے افضل قرار دئیے گئے،کیونکہ انہوں نے رضائےالٰہی کے لئے اپنی سب سے عزیز شئے کو قربان کردیا،تو جو شخص بھی اپنے وطن یا شہر میں اظہارِ دین کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ کسی ایسے ملک یا شہر کی طرف منتقل ہوجائےجہاں وہ پوری آزادی کے ساتھ شعائر دین کا اظہار کرسکے،اس کی لوگوں کو دعوت دے،اور کفریہ وشرکیہ عقائد کا ابطال کرسکے۔
ہجرت کا یہ بھی معنی ہے کہ کفر،شرک ،نفاق اور دیگر سارے منکر اعمال کو ترک کردیا جائے،اللہ تعالٰی نے اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا:وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (المدثر:5)یعنی ناپاکی(بتوں کی عبادت) کو چھوڑ دے۔یہ دراصل لوگوں کو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے حکم دیا جارہاہے۔
اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله”(بخاري:10،مسلم:58)
یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان او رہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، اور مہاجر و ہ ہےجو ان کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔
ہجرت کی حقیقت:
پور ی توجہ اور اخلاص کے ساتھ ظاہر وباطن دونوں حالتوں میں اللہ کی عبادت کرنا،جس میں اللہ کی خوشنودی کے سوا او ر کوئی مقصد نہ ہو،اسی طرح اللہ کے رسول کی طرف بایں معنی کہ اس کی اطاعت کو ہر اطاعت پر مقدم کرنا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا ہجرت کے عظیم معانی میں سے ہے،اور یہی ہجرت کی حقیقت ہے۔
بعض لوگ ہجرت اور اس کی تاریخ کو بیان کرتے ہیں لیکن قبروں کی عبادت کو نہیں چھوڑتے،ہجرت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں لیکن کفار ومنافقین سے دست بردار نہیں ہوتے بلکہ مومنوں کو چھوڑ کر انہیں اپنا ولی اور دوست سمجھتے ہیں،ہجرت کا چرچا کرتے ہیں لیکن مذاہبِب باطلہ اور کفار کے عادات وتقالید سے باز نہیں آتے،ہجرت دین کے عظیم مقامات میں سے ہے،یہ مسلم اور کافر کے درمیان حد فاصل ہے،اس سے ایک مسلمان کی شخصیت اجاگر ہوتی ہے۔
ہجرت کے اس عظیم واقعہ سے صحابہ کرام نے اسلامی تاریخ کی ابتدا کی ،وہ لوگ اسی سے تاریخ لکھتے تھے،لہذا کسی مسلمان کےلئے جائز نہیں ہے کہ ہجری تاریخ کو ترک کرکے کفار کی تقلید میں میلادی یا کسی دوسری تاریخ کا استعمال کرے،اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے، ہم اسلام اور اس کی تاریخ سے عزت حاصل کریں۔
دوستو!آئیے ہم سال نو کی ابتدا پر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ توحید اور ایمان کو کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے،کفر وشرک اور بدعت کو چھوڑ دیں گے،فرائض کی حفاظت کریں گے،شرعی علوم کو سیکھنے اور اسے پھیلانے کی کوشس کریں گے،جھوٹ،غیبت،چغل خوری اور دوسرے محرمات سے پرہیز کریں گے،حلال رزق کمائیں گے،والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں گے، خیانت ،تکبر اور حسد سے اپنے آپ کو بچائیں گے،حقوق اللہ او رحقوق العباد کو اچھی طرح ادا کریں گے۔
اللہ اس نئے سال کو ہمارے لئے خیر وبھلائی اور برکت کا ذریعہ بنائے۔
{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
ختم شدہ