موضوع:
وصیت الہی
پہلا خطبہ:
إنالحمدللهنحمدهونستعينهونستغفرهونعوذباللهمنشرورأنفسناومنسيئاتأعمالنامنيهدهاللهفلامضللهومنيضللفلاهاديلهوأشهدأنلاإلهإلااللهوحدهلاشريكلهوأشهدأنمحمداعبدهورسوله. ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَحَقَّتُقَاتِهِوَلَاتَمُوتُنَّإِلَّاوَأَنْتُمْمُسْلِمُونَ ﴾ [آلعمران: 102]. ﴿ يَاأَيُّهَاالنَّاسُاتَّقُوارَبَّكُمُالَّذِيخَلَقَكُمْمِنْنَفْسٍوَاحِدَةٍوَخَلَقَمِنْهَازَوْجَهَاوَبَثَّمِنْهُمَارِجَالًاكَثِيرًاوَنِسَاءًوَاتَّقُوااللَّهَالَّذِيتَسَاءَلُونَبِهِوَالْأَرْحَامَإِنَّاللَّهَكَانَعَلَيْكُمْرَقِيبًا ﴾ [النساء: 1]. ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااتَّقُوااللَّهَوَقُولُواقَوْلًاسَدِيدًا * يُصْلِحْلَكُمْأَعْمَالَكُمْوَيَغْفِرْلَكُمْذُنُوبَكُمْوَمَنْيُطِعِاللَّهَوَرَسُولَهُفَقَدْفَازَفَوْزًاعَظِيمًا ﴾ [الأحزاب: 70، 71].
حمد وثنا کے بعد!
سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے، سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، سب سے بد تر ین چیز دین میں ایجاد کردہ بدعتیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
اگر فرض کریں کہ ہم میں سے کسی ایک کی ملاقات ایسے حکیم ودانا شخص سے ہو جس کے پاس برسوں کے تجربات ہوں اور تجربات نے اسے صیقل کردیا ہو،تو حکمت کا تقاضہ ہوگا کہ وہ تجربات سے بھری اس انسان کی زندگی سے استفادہ کرے اور اس کی نصیحتوں کو خوب اہمیت دے، ہمارا اور آ پ کا رویہ اس عظیم ترین وصیت کے ساتھ کیسا ہے جو علم وحکمت والے پروردگار نے ہمیں کی ہے، جو غنی وبے نیاز اور اپنے فقیر ومسکین بندوں پر مہربان ہے، یہ وہ وصیت ہے جو اللہ نے ہمیں بھی کی اور ہم سے ماقبل کی تمام قوموں کو بھی کی:
﴿ وَلَقَدْوَصَّيْنَاالَّذِينَأُوتُواالْكِتَابَمِنْقَبْلِكُمْوَإِيَّاكُمْأَنِاتَّقُوااللَّهَ ﴾ [النساء: 131].
ترجمہ: اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہےکہ اللہ سے ڈرتے رہو۔
میرے ایمانی بھائیو! اللہ پاک کا تقوی دو بنیادوں پر قائم ہے: اوامر کو بجا لانا اور نواہی کو ترک کرنا، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی مختلف النوع عبادتوں کا حکم دیا ہے، جیسے اللہ کے ساتھ اخلاص، محبت ،خوف، امید اور حسن ظن جیسی دیگر ایسی عبادتیں جن کا تعلق دل سے ہے، اور اعضاء وجوارح سے انجام دی جانے والی عبادتوں کا بھی حکم دیا جیسے نماز، زکوۃ، روزہ، ذکر ، والدین کی فرمانبرداری، صلہ رحمی، داڑھی چھوڑنا، صدق گوئی، امانت داری، مسکرا کر اور ہنستے چہرہ کے ساتھ ملنا، ضرورت مند کی مدد کرنا ، حسن ظن رکھنا ، تنگ دست کو مہلت دینا اور اطاعت وعبادت کی لمبی فہرست ہے جس کا ہمیں حکم دیا گیا ہے: ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُوااسْتَجِيبُوالِلَّهِوَلِلرَّسُولِإِذَادَعَاكُمْلِمَايُحْيِيكُمْوَاعْلَمُواأَنَّاللَّهَيَحُولُبَيْنَالْمَرْءِوَقَلْبِهِوَأَنَّهُإِلَيْهِتُحْشَرُونَ ﴾ [الأنفال: 24].
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالی آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلا شبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔
وہ سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہئے: ہم اللہ اور رسول کے اوامر پر کہاں تک عمل کرتے ہیں؟!
ہم شریعت کے بعض اوامر پر عمل کرتے ہیں او ر بعض کو کیوں چھوڑ دیتے ہیں، کیا ہمیں اللہ نے اپنی کتاب میں شریعت پر مکمل طور سے عمل کرنے کا حکم نہیں دیا:
﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواادْخُلُوافِيالسِّلْمِكَافَّةًوَلَاتَتَّبِعُواخُطُوَاتِالشَّيْطَانِإِنَّهُلَكُمْعَدُوٌّمُبِينٌ ﴾ [البقرة: 208]
ترجمہ: ایمان والو! اسلام میں پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو ، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
مجاہد فرماتے ہیں: یعنی تمام اعمال کو انجام دو اور ہر قسم کی نیکیاں بجا لاؤ۔
نمازیو! آئیے ہم تقوی کے دوسرے حصہ پر غور کرتے ہیں: منہیات کو ترک کرنا، اس کی مختلف اور متعدد قسمیں ہیں جیسے شرک، ریا ونمود ، خود پسندی ، بد گمانی، کبر وغرور، غیبت، والدین کی نافرمانی، رشتہ توڑنا، زناکاری، لواطت، دروغ گوئی، چغلخوری، سود ، گانابجانا اور ان جیسے دیگر ایسے محرمات جن کا تعلق دل سے یا عمل (اعضاء وجوارح ) سے ہے۔
وہ سوال جو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے آپ سے کرنا چاہئے: ہم ان منہیات اور گناہ کے کاموں سے کس قدر بچتے ہیں؟! اللہ پاک نے ایسے شخص کو وعید سنائی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے:
﴿ لَاتَجْعَلُوادُعَاءَالرَّسُولِبَيْنَكُمْكَدُعَاءِبَعْضِكُمْبَعْضًاقَدْيَعْلَمُاللَّهُالَّذِينَيَتَسَلَّلُونَمِنْكُمْلِوَاذًافَلْيَحْذَرِالَّذِينَيُخَالِفُونَعَنْأَمْرِهِأَنْتُصِيبَهُمْفِتْنَةٌأَوْيُصِيبَهُمْعَذَابٌأَلِيمٌ ﴾ [النور: 63]
ترجمہ: تم اللہ تعالی کے نبی کے بلانے کو ایسا بلاوا نہ کرلو جیسا کہ آپس میں ایک دوسرے کو ہوتا ہے ، تم میں سے انہیں اللہ خوب جانتا ہے جو نظر بچا کر چپکے سے سرک جاتے ہیں، سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں دردنا ک عذاب نہ پہنچے۔
ایک دوسری آیت میں فرمان باری تعالی ہے:
﴿ وَذَرُواظَاهِرَالْإِثْمِوَبَاطِنَهُإِنَّالَّذِينَيَكْسِبُونَالْإِثْمَسَيُجْزَوْنَبِمَاكَانُوايَقْتَرِفُونَ ﴾ [الأنعام: 120].
ترجمہ: اور تم ظاہری گناہ کو بھی چھوڑ دو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑ دو ۔ بلا شبہ جو لوگ گناہ کر رہے ہیں ان کو ان کے کئے کی عنقریب سزا ملے گی۔
ہماری عجیب حالت ہوچکی ہے کہ ہم عظیم پروردگار کی حکم عدولی بھی کرتے ہیں اور اس پر مصر بھی رہتے ہیں؟! ہاں ہم انسان ہیں اور ہماری سرشت میں کوتاہی اور غلطی کرنا داخل ہے، لیکن کیا ہم خلاف ورزی کے وقت نادم ہوتے ہیں؟ کیا ہم توبہ کرنے میں جلدی کرتے ہیں؟ کیا ہم برائی کے بعد نیکی کرتے ہیں؟!
بے شک اللہ کا تقوی جس کے بارے میں ہم بارہا سنا کرتے ہیں، اس میں اوامر کو بجا لانا اورنواہی کو ترک کرنا یکساں طور پر شامل ہے، اللہ کے بندے! کیا ان فلک بو س پہاڑوں کے سلسلہ دراز سے تمہاری آنکھیں خیرہ ہوئیں؟ کیا تم نے کبھی اس وسیع وعریض اور بے پناہ زمین پر غور کیا؟ کیا آسمان کی عظمت وکشادگی پر غور کرتے ہوئے اور اس بات پر تامل کرتے ہوئے کہ اللہ نے اسے بغیر ستون کے کھڑا کردیا ہے، کبھی تمہار ے ایمان میں اضافہ ہوا؟! پہاڑوں ، زمین اور آسمان پر جب امانت پیش کی گئی تو ان سب نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا:
﴿ إِنَّاعَرَضْنَاالْأَمَانَةَعَلَىالسَّمَاوَاتِوَالْأَرْضِوَالْجِبَالِفَأَبَيْنَأَنيَحْمِلْنَهَاوَأَشْفَقْنَمِنْهَاوَحَمَلَهَاالْإِنسَانُإِنَّهُكَانَظَلُوماًجَهُولاً ﴾
ترجمہ: ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈرگئے (مگر) انسان نے اسے اٹھالیا، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔
عوفی ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ: امانت کا مطلب ہے: اطاعت، جبکہ علی بن ابی طلحہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: امانت سے مراد: فرائض ہیں۔
اللهمإنانسألكالهدىوالتقىوالعفافوالغنى،الهمحببإليناالإيمانوزينهفيقلوبناوكرهإليناالكفروالفسوقالعصيانواجعلنامنالراشدين،ربناظلمناأنفسناوإنلمتغفرلناوترحمنالنكوننمنالخاسرين.
دوسرا خطبہ:
الحمدللهغافرالذنبقابلالتوبشديدالعقابلاإلهإلاهوإليهالمصير،وصلىاللهوسلمعلىنبيهوعبدهوعلىآلهوصحبه .
حمد وصلاۃ کے بعد:
ابو عمرو سفيان بن عبد الله الثقفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اسلام کے بارے مںن اییا پکی بات بتائےی کہ آپ کے بعد کسی سے اس کے بارے مں سوال کرنے کی ضرورت نہ رہے ۔ آپ (ﷺ) نے ارشاد فرمایا: "کہو: آمنت باللہ ( مںک اللہ پر ایمان لایا ) ، پھر اس پر پکے ہو جاؤ”۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:” صراط مستقیم پر قائم رہنا ہی در اصل سیدھا دین ہے جس میں دائیں بائیں کوئی کجی نہیں ہوتی ہے، اس میں تمام ظاہری وباطنی عبادتوں کو انجام دینا اور ہر قسم کی منہیات سے باز رہنا شامل ہے”۔
اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ فَاسْتَقِمْكَمَاأُمِرْتَوَمَنْتَابَمَعَكَوَلَاتَطْغَوْاإِنَّهُبِمَاتَعْمَلُونَبَصِيرٌ ﴾ [هود: 112]
ترجمہ: پس آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جوآپ کے ساتھ توبہ کر چکے ہیں ، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا ۔ اللہ تمہارے تمام اعمال کا دیکھنے والا ہے۔
مشکل اس وقت ہوتی ہے جب ہم اللہ ورسول کے اوامر ونواہی کے ساتھ اپنی خواہشات کے مطابق برتاؤ کرتے ہیں، آپ غور کریں : (آپ جمے رہیئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے) یہ نہیں کہا کہ جمے رہیئے جیسا آپ چاہیں اور جس طرح آپ کی خواہش ہو، کیوں کہ بندہ خواہ جس قدر بھی خیر کا حریص ہو ، اس سے گناہ ہو ہی جاتا ہے، اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ فَاسْتَقِيمُواإِلَيْهِوَاسْتَغْفِرُوهُ ﴾ [فصلت: 6]
ترجمہ: تم اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور اس سے گناہوں کی معافی چاہو۔
سعدی فرماتے ہیں: چونکہ بندہ –خواہ وہ استقامت کا حریص ہی کیوں نہ ہو-اس سے اوامر کے تئیں کوتاہی ہوہی جاتی ہے یا منہیات کا وہ مرتکب ہوجاتا ہے، اس لیے اس کا علاج کرنے کے لیے استغفار کا حکم دیا جس میں توبہ بھی شامل ہے، چنانچہ فرمایا: (اس سے گناہوں کی معافی چاہو)۔” انتہی
حدیث میں آیا ہے: "تم سب اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ اور (اپنی نیکیوں کو) شمار نہ کرو”۔ اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
اللہ کے بندے! کیا پیدا کرنے والا اور انعامات سے نوازنے والا اللہ نہیں ہے؟ کیا حساب وکتاب لینے والا اور جزا وسزا دینے والا اللہ نہیں ہے؟ کیا اطاعت وعبادت اللہ کی رحمت اور جنت کا راستہ نہیں ہے؟ کیا گناہ اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سبب نہیں ہے؟ کیا دنیا گزر گاہ اور آخرت جائے قرار نہیں ہے؟ ہم اللہ عزیز وبرتر کے مقصد ومراد کو کب پورا کریں گے؟ کیا ہم فقیر ونادار اور کمزور وناتواں نہیں ہیں؟ اور اللہ بے نیاز، قوت اور رحمت والا اور ہر ایک چیز کا مالک ہے۔
کیا اللہ نے ہمیں توبہ واستغفار کا اور گناہ کے بعد نیکی کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ اللہ نے اپنی رحمت ومہربانی اور فضل وکرم سے یہ وعدہ کیا ہے کہ و ہ ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا، کیا ہم نے ہدایت واستقامت کے اسباب اختیار کیے؟ ! کیا جب ہم اللہ سے ہدایت کی دعا کرتے ہیں تو کیا الحاح وزاری اور تواضع وانکساری کے ساتھ دعا کرتے ہیں؟ اللہ کے بندے! تقوی کے منازل طے کرنے کے لیے آپ کے سامنے ترقی کا ماہ مبارک آرہا ہے:
﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواكُتِبَعَلَيْكُمُالصِّيَامُكَمَاكُتِبَعَلَىالَّذِينَمِنْقَبْلِكُمْلَعَلَّكُمْتَتَّقُونَ ﴾ [البقرة: 183].
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
اللہ کے بندو! خیر وبھلائی کے کاموں کی طرف بڑھو اور خوش خبری قبول کرو اور گناہوں سے دامن کش ہوجاؤ اور صبر سے کام لو:.﴿ وَجَزَاهُمبِمَاصَبَرُواجَنَّةًوَحَرِيراً ﴾
ترجمہ: اور انہیں ان کے صبر کے بدلے جنت اور ریشمی لباس عطا فرمائے۔
یہ رحمت ، احسان، مغفرت اور رضوان کا مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے:.﴿ وَآخَرُونَاعْتَرَفُوابِذُنُوبِهِمْخَلَطُواعَمَلًاصَالِحًاوَآخَرَسَيِّئًاعَسَىاللَّهُأَنْيَتُوبَعَلَيْهِمْإِنَّاللَّهَغَفُورٌرَحِيمٌ ﴾ [التوبة: 102]
ترجمہ: اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔بلا شبہ اللہ تعالی بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔
اللهمياربإنيقدوعظتبأمرأنامقصرفيهاللهمإنيأعترفبذنوبيفاغفرلياللهماغفرلناماقدمناوماأخرناوماأسررناوماأعلناوماأسرفناوماأنتأعلمبهمنا،ربناظلمناأنفسناوإنلمتغفرلناوترحمنالنكونمنالخاسرين.
صلى اللہ علیہ وسلم
از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین