بسم اللہ الرحمن الرحیم
3:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
ابتدائی تین سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
پانچوں اور چھٹا سال :
ابو طالب پر دباؤ : انہیں ایام کا واقعہ ہے جب قریش ہر تدبیر استعمال کرچکے اور کوئی بس نہ چلا تو ابو طالب پر دباؤ ڈالنے لگے کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیے وہ ہمیں جاہل کہتا ہے ، ہمارے بتوں کی توہین کرتا ہے اور ہمارے باپ و دادا کو بے عقل ٹھہراتا ہے ، یا تو وہ اس سے باز آجائے یا پھر آپ ہمارے اور اس کے درمیان سے ہٹ جائیں ۔ اس پر ابو طالب نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ بھتیجے ! تیری قوم کے لوگ شکایت کررہے ہیں کہ تو انہیں ان کی محفلوں میں ان کی مسجد میں اور ان کے اجتماعات میں تنگ کرنا ہے ، اور انہیں ایذا پہنچانا ہے لہذا میری گزارش ہے کہ اب میرے ناتواں کندھوں پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ، تم انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو اور انہیں تنگ کرنے سے باز آجاؤ ، لیکن نبی ﷺ بڑے صاف الفاظ میں جواب دیا کہ اے چچا جان ! جس طرح وہ لوگ میرے لئےاس سورج سے ایک شعلہ توڑ کر نہیں لا سکتے اسی طرح میں اپنے اس کام سے نہیں رک سکتا ، اس کا م میں مجھے کسی کے مدد کی ضرورت نہیں ہے ، یہ سننے کے بعد ابو طالب نے کہا کہ میرے بھتیجے نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ، جاؤ واپس جاؤ میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتا ۔
دار ارقم میں پناہ گزینی : یہی ایام تھے کہ جب نبی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں پر کفار قریش کا گھراو سخت ہوگیا تو نبی ﷺ نے اپنے ساتھیوں سے ملنے اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے دار ارقم کا انتخاب کیا ، یہ گھر صفا پہاڑی کے دامن میں واقع تھا ، چونکہ اس جگہ حاجیوں اور سعی کرنے والوں کی آمد و رفت بکثرت رہتی تھی لہذا کسی کو شبہ نہیں ہوسکتا تھا ۔ اسلام میں سب سے پہلی شہیدہ : بعض مورخین کے قول کے مطابق اسی سال یعنی سن 5 نبوت میں حضرت سمیہ بن خطاب ام عمار شہید ہوئیں ، حضرت سمیہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں میں تھیں ، بنومخزوم کے لوگ انہیں سخت تکلیفیں دیتے ، ایک دن ابو جہل نے ان کے ناف کے نیچے اتنے زور کا نیزہ مارا کہ اس کے اثر سے وہ انتقال کرگئیں تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہیدہ تھیں ، اور ابھی ان کی وفات کے چند ہی دن گزرے تھے کہ کافروں کے عذاب کی تاب نہ لا کر ان کے شوہر بھی چل بسے ، رضی اللہ عنہم ۔
تاریخ اسلام کا اہم موڑ : ابھی تک مسلمان کمزور و کسمپرسی کے عالم میں تھے ، جو مسلمان ہوتا وہ اپنے دین کو چھپاتا اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو مسلمان ہونا چاہتے لیکن کافروں کے ڈر سے مسلمان نہ ہوتے لیکن تقریبا نبوت کے چھٹے سال دو بہادروں نے اسلام قبول کیا جس سے مسلمانوں کو بڑی قوت ملی اور مسلمان خانہ کعبہ کے قریب نماز پڑھنے لگے ۔
حضرت حمزہ کا قبول اسلام : ایک دن نبی کریم ﷺ صفا پہاڑی کے پا س موجود تھے اور لوگوں کو دین کی دعوت دے رہے تھے کہ لعین ابوجہل نے آپ ﷺ کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور تما م لوگوں کے سامنے آپ کو بہت زیادہ بے عزت کیا ، ابو جہل کے اس ظالمانہ اسلوب سے آپ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور رنجیدہ ہوکر گھر واپس ہوگئے ، اسی دن شام کو حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ جب اپنے شکار سے واپس ہوئے تو کسی عورت نے ان کو ماجرا سنایا ، وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور مسجد حرام تشریف لے گئے جہاں ابو جہل لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، حضرت حمزہ نے کمان سے اس کے سر پر اتنی زور کی چوٹ لگائی کہ خون بہہ نکلا ، پھر کہا : کیا تو سمجھتا ہے کہ میرا بھتیجا اکیلا ہے ، ہرگز نہیں ، میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اورا ن کی لائی ہوئی باتیں برحق اور اللہ تعالی کی طرف سے نازل شدہ ہیں ۔ اس طرح حضرت حمزہ مسلمان ہوگئے اور مسلمانوں کو عموما اور رسول اللہ ﷺ کو خصوصا ایک گونہ طاقت ملی ۔ حضرت عمر کا قبول اسلام : نبی ﷺ کی بڑی خواہش تھی کہ کاشکہ اگر خطاب کا بیٹا عمر مسلمان ہوجاتا ، چنانچہ ایک دن آپ نے دعا فرمائی ” اللھم اعز الاسلام بعمر بن الخطاب ” اے اللہ عمر بن الخطاب کے ذریعہ اسلام کو قوب بخش ، چنانچہ نبی ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے صرف تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مسلمان ہوگئے ۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر آپ ﷺ کو قتل کے ارادے سے نکلے تھے لیکن اللہ تعالی نے ان کے دل کو اسلام سے منور کردیا ۔ مسلمان خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے لگے : حضرت عمر جب مسلمان ہوئے تو سیدھے مسجد حرام تشریف لائے ، تمام لوگوں کے سامنے بلند آواز اعلان فرمایا :” اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد ان محمدا رسول اللہ ” ۔ یہ کہنا تھا کہ چاروں طرف سے کافر ان کے اوپر ٹوٹ پڑے ، حضرت عمر شام ہونے تک ان کے ساتھ اکیلے لڑتے رہے بالآخر ان کے ماموں عاص بن وائل نے آکر انہیں بچایا ۔ اب مسلمان حضرت عمر کی قیادت میں مسجد حرام آنے اور قریش کے علی الرغم مسجد حرام میں نماز پڑھتے ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مسجد حرام میں نماز نہ پڑھ سکتے تھے حتی کہ جب عمر مسلمان ہوئے تو قریش سے لڑائی کی اور ہم کعبہ کے پاس نماز پڑھنے لگے ۔ حضرت ضمام کا قبول اسلام : نبی ﷺ اور کفار کے درمیان مخالفت اپنے شباب کو پہنچی ہوئی تھی ، عمومی طور پر مشرکین آپ کو جنون یا جادو سے متہم کرتے تھے ، یہ خبر مکہ مکرمہ سے باہر بھی پہنچ رہی تھی ، ضمام بن ثعلبہ الازدی نے بھی یہ خبر سنی یہ ازد شنوءہ کے رہنے والے تھے ، یہ ایک دانشور آدمی اور جنون و غیرہ کی بعض بیماریوں کا علاج کرتے تھے ، چنانچہ وہ مکہ مکرمہ تشریف لائے اور آپ ﷺسے آپ کے علاج کی پیش کش کی ، آپ نے ان کا کوئی جواب نہیں دیا بلکہ صرف یہ فرمایا : ان الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ، من یھدی اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ واشہد ان لاالہ ا لا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشہد ان محمداً عبدہ ورسولہ وبعد! ضمام نے مطالبہ کی کہ ان کلمات کو دوبارہ پڑھئے ، اسی طرح تیسری بار بھی مطالبہ کیا ، پھر کہنے لگے ، میں نے جادو گروں کی بات بھی سنی ہے ، مجنونوں کی بڑ بھی سنی ہے ، کاہنوں کا تمتمانا بھی سنا ہے اور شاعروں کا شعر بھی سنا ہے لیکن ایسے کلمات آج تک کبھی نہیں سنا ، اپنا ہاتھ لائیے میں آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوتا ہوں ، اور مسلمان ہوگئے ۔
سیرت درس :03 |
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہجرت کا ارادہ : یہی ایام تھے کہ حالات سے تنگ آکر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی حبشہ کی طرف ہجرت کا ارادہ کیا اور اس کی نیت سے برک غمادہ تک پہنچ بھی گئے ، وہاں ان کی ملاقات ابن الدغنہ سے ہوئی جو انہیں سمجھا بجھا کر واپس لایا اور اپنی ضمانت پر انہیں مکہ مکرمہ میں چھوڑ کر گیا ۔