بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*پانچواں پارہ(و المحصنات)*
پانچواں پارہ سورت نساء کی 124 آیات (24 تا 147) پر مشتمل ہے۔
چوتھے پارے کی آخری آیات میں محرمات کا ذکر تھا، اس پارے کی ابتداء میں اسی کی تکمیل ہے۔
البتہ پہلے جن محرمات کا ذکر ہوا ان سے مراد وہ عورتیں ہیں جوابدی طور پر حرام ہیں۔ یعنی ان کے ساتھ نکاح ہمیشہ ہمیشہ کیلئے حرام ہے۔ اوراس پارے کے آغاز میں ان محرمات کا ذکر ہورہا ہے جو ہمیشہ کیلئے تو نہیں، البتہ کسی سبب کی وجہ سے وقتی طور پر ان کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔
پہلی آیت میں بتایا گیا کہ جو عورتیں کسی کے نکاح میں ہوں ان کے ساتھ نکاح نہیں کیا جا سکتا ۔
o ان حرمت والے رشتوں کے علاوہ کسی بھی عورت سے شادی کرنے کو چند شرطوں کے ساتھ جائز قرار دیا گیا ہے:
1)عورت کیلئے ولی یعنی سر پرست کا ہونا۔ 2) دونوں طرف سےایجاب و قبول کا پایا جانا۔ 3)حق مہر کا متعین ہونا۔ 4) نکاح سے دائمی رشتہ مقصود ہو۔ 5)وقتِ نکاح دوگواہ بھی ہوں ،چوری چھپے نکاح نہیں ہونا چاہیے۔
یہ ساری شرطیں آیت نمبر 24 میں مذکور ہیں۔
o پھر ایک دوسرا حکم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی کے پاس اتنی مالی استعداد نہ ہو کہ وہ کسی آزاد پاکدامن عورت سے شادی کر سکے تو چند شرطوں کے ساتھ اسے کسی پاکیزہ مسلمان لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت ہے۔
1)لونڈی کے مالک کی اجازت ہو۔ 2) لونڈی پاکباز اور شریف ہو۔ خفیہ یارانہ کرنے والی نہ ہو ۔3)مرد کے زنا میں پڑنے کا خوف ہو۔ 4) لونڈی ، جس شادی کر رہے ہیں اس کا حق مہر مقرر ہو۔
o نکاح کے بعض احکام کے بیان کے بعد آیات: ۲۶، ۲۷، ۲۸ میں شریعت کی خوبی کا بیان ہے، تاکہ اس پر عمل کرنے والوں کا دل مطمئن ہو ۔
o ان آیات میں پانچ اہم فائدے بیان ہوئے ہیں ، جو ایک مومن کے اطمینانِ قلب کے لئے کافی ہیں۔
1- اللہ کا فضل بہت وسیع ہے، اور اسی کا ایک مظہر دینی امور یعنیحلا وحرام کا بیان کرنا بھی ہے۔
2- استقامت کا راستہ ایک ہے، اور یہی اللہ کے نیک بندوں کا طریقہ رہا ہے۔
3- اللہ کا فضل کہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرتا اور ان کے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔
4- ہمارے معاملات میں اللہ تعالی سہولت کو مدِ نظر رکھا ہے اور ہمارے دین میں سختی نہیں رکھی۔ اسی کا ایک مظہر ہے کہ جس کے پاس آزاد اور شریف عورتوں سے شادی کی طاقت نہ ہو وہ شریف لونڈیوں سے شادی کر سکتا ہے۔
5- اس حقیقت کا بیان کہ انسان ضعیف ہے ۔ اپنی قوتِ ارادہ کے لحاظ سے بھی اور اپنی قوت ِ فیصلہ کے لحاظ سے بھی۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اس کے اس کے دین کو آسان کیا ہے۔
o آیت نمبر 29 میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے روکا گیا ہے، اس پر سخت دھمکی دی گئی ہے اور اس کے متبادل کے طور پر تجارت کی ترغیب دی گئی ہے۔
o اور مسلمانوں پر ایک دوسرے کے خون کے حرمت اور خوداپنا خون کرنے یعنی خود کشی کی حرمت کا بیان ہے، چنانچہ فرمایا: وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ۔ اور تم اپنے آپ کو قتل مت کرو۔
o اس کے بعد فرمایا: "إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا”اللہ تمہارے ساتھ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
گویا احکام الہیہ بندوں کے ساتھ رحمت پر مبنی ہیں۔
o آیت نمبر 29 میں صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ احکام بیان کیے گئے ہیں۔
اشارۃً کبیرہ گناہوں سے بچنے کی دعوت ہے اور صراةًاس سے بچنے کا فائدہ بیان ہوا ہے، یعنی عبادات سےصغیرہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔
o آیت نمبر 32– مالی،خاندانی اور جسمانی فوقیت یہ سب اللہ تعالی کی دین(اللہ کا عطیہ) ہیں ،اس کی وجہ سے کسی پر ظلم او راس کے ساتھ حسد کرنے کی بجائے ان چیزوں کا اللہ سے سوال کرنا چاہیے وہی سب کچھ عطا کرنے والا ہے۔
o آیت نمبر 34 میں مرد کے گھر کا سربراہ اور عورت کے محافظ اور نگران ہونے کا ذکر ہے اور اس کے اسباب بھی بیان ہوئے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے اللہ تعالی نے جسمانی و عقلی لحاظ سے مرد کو عورت پر فوقیت دی ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ گھر کے تمام اخراجات اسی کے ذمے ہوتے ہیں۔
لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ اس نگران ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ ظالم و جابر بن جائے اور اپنی ماتحت عورت کے ساتھ قیدی و باندی والا سلوک کرے ، اس کی حق تلفی کرے اور اسے مارتا پیٹتا رہے۔بلکہ اسے چاہیے کہ غلطیوں پر عورت کی کی اصلاح کی کوشش کرے اور صلح او رمصالحت سے باہمی جھگڑے کا حل نکالے۔
قرآن نے میاں بیوں کے اختلاف کے ابتداءً تین حل رکھے ہیں۔
1- وعظ ونصیحت، یعنی سمجھان بجھانا۔
2- قطع تعلق۔ اور یہ گھر ہی میں رہکر، جیسے بستر الگ کر لینا۔
3- ہلکی مار۔ یعنی بطور تنبیہ کے ہلکی ضرب لگائی جائے اور چہرے پر مارنے سے بچا جائے۔
پھر اگر معاملہ نہ سدھرے تو درمیان میں لوگوں کو ڈالا جائے کہ وہ صلح کرا دیں۔
o آیت نمبر 36 میں اللہ تعالی کے حقِ اول کے بیان( کہ صرف اسی کے عبادت کرو اوراس کے ساتھ کسی دوسرےکو شریک نہ ٹھہراؤ) کےبعد دس لوگوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔والدین،قریبی رشتے دار،یتیم ،مسکین،رشتہ دار پڑوسی،پہلو رہنے والا پڑوسی ،پہلو میں رہنے والا ساتھی،مسافر اور ماتحت لوگ۔ یہ وہ دس حقوق ہیں،جن کاہر مسلمان سے مطالبہ کیا گیا ہے۔
اب ہم میں سےہر ایک کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان حقوق کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔
o پھر اس کے بعد بتایا گیا کہ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب تم بخل سے بچو گے،ریاء و نمود سے دور رہو گے، شیطان کی چالوں سے ہوشیار رہو گے۔ اور سب سے اہم بات یہ آخرت پر تمہارا ایمان ہوگا۔
اگر ایسا ہوا تو تمہارے لیے ان حقوق کو ادا کرنا آسان ہو جائے گا۔
o آیت۳۹—۴۲ ترغیب وترہیب کے اسلوب سے اللہ اورآخرت پرایمان ، اللہ کی راہ خرچ کی دعوت ہے، نیکوں کو اللہ کے فضل کی یاد دہانی اور رسولﷺ کے مخالفین کو آخرت کی رسوائی سے ڈرایا گیا ہے۔
o آیت نمبر 43 میں نماز اور طہارت کے بعض مسائل بیان کیے گئے ہیں۔جیسے:
1- نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے کی ممانعت۔ شراب کی حرمت کے بارے میں یہ پہلی آیت تھی۔
2- حالت جنابت میں نماز پڑھنےاور مسجد میں داخلہ کی ممانعت۔
3- نہانے اور وضو کے لئے اگرپانی موجود نہ ہو ، یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے پانی کے استعمال پر قدرت نہ ہو تو تیمم کی اجازت۔
o آیت نمبر 44 تا 56میں یہودیوں کی چالبازیوں اور ان کی ان ناپاک حرکتوں کا ذکر ہے جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کیا کرتے تھے،
o جیسے ہدایت کا راستہ اچھی طرح پہچان لینے کے با وجود گمراہی کو اختیار کیا۔ آیت:۴۴
o تورات کے صریح احکام کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے۔
o رسولﷺ کے سامنے آتے تو تابعداری کا اقرار کرتے اور جب دور ہوتے تو اس کا انکار کردیتے۔
o رسول اللہ ﷺ سے بات کرتے وقت ذو معنی الفاظ استعمال کر کے آپ کو بد دعا دیتے۔آیت:۴۶
o اللہ پر ایمان کے دعوے کے باوجود ان کا ایمان جادو او ر طاغوت پر زیادہ تھا۔آیت:۵۱
بلکہ ان کی گمراہی کا عالم یہ تھا کہ اہل کتاب ہونے کے باوجود وہ مشرکین اور بت پرستوں کو مسلمانوں پر فوقیت دیا کرتے تھے ۔
اور آج اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔
o بڑے زور دار اور ڈانٹ کے انداز میں یہود کو اسلام کی دعوت، کہ قبل اس کے کہ قیامت کے دن ان کے چہروں کو الٹ کر پیچھے کی طرف کردیا جائے ، یا دنیا ہی میں ان کے پرکھوں کی طرح ان پر لعنت کر دی جائے۔آیت:۴۷
o اسی دوران یہود اور مسلمانوں کے سامنے شرک قباحت بھی بیان کردی گئی کہ اللہ تعالی کے یہاں شرک کی معافی نہیں ہے اس کے علاوہ ہر قسم کے گناہوں کے معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے۔ [النساء:48]
o اسی سلسلہ کلام کے ضمن میں عائلی،انفرادی و اجتماعی معاملات سے متعلق مسلمانوں کو بہت ساری نصیحتیں کی گئی ہیں:
o 1) امانت کی ادائیگی اور عدل و انصاف کا نظام قائم کرو۔[النساء:58]۔
o 2)اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت اور اسی کے دائرے میں رہ کرحاکم وقت اور عالموں کی اطاعت کرو۔ [النساء:59]۔
o آیت نمبر 60 اور کے بعدسے منافقین ،ان کی صفات،ان کی چالیں اور ان کی بدکرداریوں کے بارے میں طویل گفتگو کی گئی ہے۔ بلکہ چند ایک صفحات کو چھوڑ کر اس پارے کے آخر تک ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہوا ہے اور ان کی چند اہم صفات بیان کی گئی ہیں(تاکہ اہل ایمان اس سے اپنے ایمان کو بچا سکیں):
o 1) طاغوت کو فیصل ماننا[النساء:60]۔ یہاں طاغوت سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو اللہ کے قانون کے خلاف فیصلہ کرتے ہیں۔
o 2) (جھوٹی)قسمیں کھا کھا کر اپنی صفائی پیش کرنا۔[النساء:62]
o 3) سچے ایمان والوں کی ہمت و عزم کو پست کرنا۔[النساء:83]
o 4) قرآن پر غور وفکر سے کام نہ لینا۔[النساء:82]
o 5) غیر قوموں سے ساز باز رکھنا۔یعنی اپنے مفاد کے لئے مسلمانوں کے خلاف ان کی مدد کرنا اور انہیں مسلمانوں کے رازوں سے آگاہ کرنا۔[النساء:141]
o 6) اورمسلمانوں کو چھوڑ کر ان سے دوستیاں لگاناز[النساء:139]
o 7) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت سے پیچھا چھڑانا۔[النساء:61]
o 8) لوگوں میں تو پرہیز گار بننا، لیکن تنہائی میں بے دھڑک اللہ کی نافرمانی کرنا[النساء:108]۔
o منافقین کے اس تفصیلی تذکرے کے دوران جگہ جگہ مسلمانوں کو اطاعت الہی اور اطاعت رسول ﷺ اور جنگ وجہاد وغیرہ سے متعلق بڑی قیمتی نصیحتیں کی گئی ہیں:
o 1) احکام الہی کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے۔[النساء:65]
o 2) مسلمانوں کو چاہیے کہ دین کی خدمت کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور مخالفین کی چالوں سے غافل نہ رہیں۔[النساء:71]
o 3) اچھی (اور جائز)سفارش کرنےکا حکم اور اس کی ترغیب اور بری سفارش کرنےپرہیز کرنے کا حکم۔[النساء:85]
o 4)ایک دوسرے سےسلام کے بعض آداب۔[النساء:86] جیسےکہ جو شخص سلام کرنے میں جتنے کلمات استعمال کرے اتنے کلمات سے جواب دینا واجب ہے اور اس سے بہتر اور زیادہ کلمات سے جواب دینا مستحب ہے ۔
o 5) جنگ او رامن اور فتنوں کے دور میں افواہوں سے مکمل طور پر دور رہیں اوراس بارے میں شیطان او راس کے چیلوں کی چالوں سے ہوشیار رہیں۔[النساء:83]۔
o 6) کسی مومن کا ناحق قتل کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے ۔[النساء:93]
o حتی کہ اگر کسی مومن کا قتل غلطی سے بھی ہوجائے تو وہ بھی کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے کہ اسے نظر انداز کردیا جائے ۔بلکہ اس پر بھی سخت مواخذہ اور اس کا کفارہ مغلظہ رکھا گیاہے، یعنی ایک غلام آزاد کرنا اور مکمل دیت یعنی سو اونٹ دینا (اور آج کے حساب سے اس کی قیمت تین لاکھ ریا ل بنتی ہے)اور اگر کوئی غلام نہ ملےتو اس کے ذمے لگاتار ساٹھ دن کے روزے رکھنا لازم ہو گا۔[النساء:92]
o جو شخص بظاہر مسلمان معلوم ہورہا ہے اور وہ کلمہ اسلام کا اقرار بھی کر رہا ہے تو بلا کسی قوی دلیل کے اس پر کفر کا حکم نہیں لگ سکتا۔ (النساء:94)
o جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور مجاہد کے درجات کا بیان کہ بلا عذر جہاد سے پیچھے رہ جانے والے اپنے اعمال خیر کے عوض اگر چہ اجر کے مستحق ہیں لیکن مجاہدین کا جو مقام اللہ تعالی نے رکھا ہے اس کو ہرگزنہیں پاسکتے ۔النساء:95
o اسی ضمن میں مسلمانوں کو کسی ایسی جگہ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے جہاں ان کے دین،ان کی جان او رمال کو خطرہ لاحق ہو۔ بلکہ جو لوگ بلا عذر ایسی جگہ سے ہجرت نہ کرنے والوں کو جہنم کی دھمکی دی گئی ہے۔[النساء:97، 98]۔
o اسی کے ساتھ ترغیب کے لئے ہجرت کے فضائل کا بیان ہے اور مہاجر کے لئے اللہ کی طرف سے رزق وسکن کی آسانی کا وعدہ ہے۔
o اس سورت کی آیت نمبر 101 میں نماز قصر کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے فورا بعد اگلی آیت میں نماز خوف اور اس کا طریقہ بھی بیان کیا گیا ہے ۔
o نماز خوف کا طریقہ اس آیت میں مبہم ہے البتہ احادیث میں اس کے مختلف صورتیں مذکور ہیں۔ دیکھئے تفسیراحسن البیان ص: ۲۴۱
o نماز خوف میں ارکان وغیرہ کی ادائیگی میں جو کمی رہ گئی ہے اسے بکثرت ذکر سے پورا کیا جائے ۔
o حالت خوف دور ہوجانے کے بعد ہر نماز کو اس کے وقت پر پابندی سے پڑھا جائے، کیونکہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔ النساء 103
o اللہ تعالی کی طرف سےمسلمانوں کی ہمت افزائی کی گئی کہ کسی بھی معاملے میں پست ہمتی نہ دکھائیں۔ کیونکہ اگر جہاد میں تم کو درد والم لاحق ہورہا ہے تو تمہارے مخالف کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ البتہ اللہ تعالی سے اجر کی امید رکھنے میں تمہارا ان کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے۔النساء:104
o جگہ جگہ مسلمانوں کو عمل صالح کے اہتمام ،استغفار اور منافقین کے طرز عمل سے پرہیز کی دعوت ہے۔ خود گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد کسی بے قصور کو اس میں ملوث کردینے کی کوشش کرنا بہتان طرازی اور بہت بڑا گناہ ہے۔ آیت 1۰۵ تا 112
o آیت ۱۱۳ بھی اسی سلسے کی ایک کڑی ہے جو بہت ہی معنی خیز ہے۔وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكَ وَرَحۡمَتُهُۥ لَهَمَّت طَّآئِفَةٌ مِّنۡهُمۡ أَن يُضِلُّوكَ وَمَا يُضِلُّونَ إِلَّآ أَنفُسَهُمۡۖ وَمَا يَضُرُّونَكَ مِن شَيۡءٍۚ وَأَنزَلَ ٱللَّهُ عَلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمۡ تَكُن تَعۡلَمُۚ وَكَانَ فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكَ عَظِيماً (١١٣)” اگر اللہ تعالیٰ کا فضل ورحم تجھ پر نہ ہوتا تو ان کی ایک جماعت نے تو تجھے بہکانے کا قصد کر ہی لیا تھا، مگر دراصل یہ اپنے آپ کو ہی گمراه کرتے ہیں، یہ تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب وحکمت اتاری ہے اور تجھے وه سکھایا ہے جسے تو نہیں جانتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے”۔
اس آیت میں جہاں ایک جانب اللہ تعالی کی طرف نبیِ کریمﷺ کی خصوصی رعایت اور فضلِ خاص کا ذکر ہے کہ لوگ آپ کو راہۃ حق سے اور حق کے مطابق فیصلہ کرنے نہیں بھٹکا سکتے، وہیں دوسری منکرین حدیث کی واضح لفظوں میں تردید ہے کہ نبیِ کریمﷺ کو اللہ تعالی نے سب کچھ قرآنِ مجید ہی کی شکل میں نہیں دیا تھا ، بلکہ بہت کچھ حکمت وحدیث کی شکل میں بھی عطا فرمایا تھا۔
o پھر آیت114 تا 126 تک کلام کا رخ مسلمانوں کی طرف ہے جس میں انہیں آپس میں صلح و آشتی سے رہنے کی دعوت ہے ،شرک سے پرہیز ،رسول کی مخالفت سے دوری اور شیطان کی پیروی سے خود کو بچانے پر زور دیا گیا ہے۔
o اور اس سلسلے میں تین کاموں کی فضیلت : صدقہ وخیرات کی ترغیب دینا، بھلائی کا حکم دینا اور باہمی اصلاح کی کوشش کرنا۔یہ تین کام اللہ تعالی کے نزدیک بہت بڑے اجر کا سبب ہیں۔
o نیز رسولﷺ اور مسلمانوں سے جدا راستہ اختیار کرنے کی وعید سنائی گئی ہے کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم میں دائمی داخلہ ہے ۔
o آگے کی آیات ۱۱۶-۱۲۱ میں شرک کی قباحت کے ساتھ اس کے اصل مصدر یعنی شیطان کی پیروی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ یہ مشرکین اصل میں شیطان کے پیرو کار ہیں اور اسی کی وھی واشارے پر یہ کام کر رہے ہیں۔
o ایسے لوگوں کو ہشیار رہنے کی ضرورت ہے ، کیونکہ شیطانانہیں جھوٹے وعدے اور صرف امیدیں دلا رہا ہے، جس کا نتیجہ دنیا وآخرت میں خسارے اور آخر میں جہنم کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔
o پھر اہلِ ایمان اور نیک عمل کرنے والوں کا انجامِ خیر دائمی جنت بتاتے ہوئے اس طرف توجہ مبذول کی گئی ہے کہ جو لوگ اپنے خاندان، اپنے پیروں اور من گڑھت رشتوں کی وجہ سے جھوٹی امیدوں پر جی رہے ہیں، انہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالی کے یہاں یہ قانونِ جزا ہے کہ جو برا عمل کرے اسے اس کا بدلہ ملے گا اور جو مرد وعورت مومن ہونے کے ساتھ ساتھ نیک عمل کریں گے انہیں ان کا بدلہ مل گا۔
o لہذا اگر کوئی شخص کامیابی چاہتا ہے تو اسے اسلام کی صورت میں ملتِ ابراہیمی کی پیروی ضاروری ہے۔
o آیت 127 سے عائلی زندگی اور عورتوں سے متعلقہ امور کا ذکر ہے، جہاں کچھ اہم باتیں بیان ہوئی ہیں:
1)عورتوں کو ان کا حق ادا کرنے،یتیم بچیوں کو ان کے حقوق پورے دینے اور یتیم اور کمزور بچوں کے حقوق کی پاسداری کی دعوت ہے۔النساء :127
2)میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں صلح صفائی کے ساتھ آپس میں معاملے کو سلجھانے کی دعوت دی گئی ہے۔النساء:128
3)ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو انسان اپنی استطاعت و طاقت کے مطابق ان کے ساتھ عدل کرے اورحسن سلوک کرے ۔النساء:129
۴) میاں بیوی، خصوصا بیوی کو دلاسا دلایا گیا اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ اگر اصلاح کی پوری کوشش کے با وجود دونوں فریقین میں بات نہ بن سکے تو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ رزاق اللہ تعالی ہے اور اس کا فضل بہت وسیع ہے۔
ان تمام باتوں کا ذکر کرتے ہوئے دو چیزوں کو مدنظر رکھنے کی خاص ہدایت دی گئی ہے: تقوی اور عدل و انصاف ،بلکہ یہ دونوں چیزیں بطور ایک اصول اور ضابطہ کے بیان ہوئی ہیں ۔آیت نمبر 131 اور 135 خصوصی طور پر قابل توجہ ہیں ۔
o آخر میں ایمانیات کی دعوت دے کر کلام کا رخ ایک بار پھر منافقین کی طرف پھیر دیا گیا ہے ۔
o اس پارے کے آخر تک منافقین کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔
1- وہ منافقین جو بظاہر ایمان لے آئے، لیکن بعد میں اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ ان کا نجام یہ بیان ہوا کہ اب ان کی توبہ قبول نہیں اور نہ ہی اللہ تعالی انہیں معاف کرے گا۔
2- وہ گروہ جو اپنے نفاق پر اڑا رہا اور اسلام کا اظہار کر کے اپنے کو مسلمانوں میں شامل تو کرتا ہے لیکن اس کی سار خیرخواہی کافروں کے ساتھ ہے۔ ان کا ٹھکانا جہنم کا سب سے نچلا طبقہ ہے۔
o نیزان آیات میں مسلمانوں کو منافقین سے متعلق چند اہم امور سے آگاہ کیا گیا ہے۔
o 1)دنیاوی فائدے اور ظاہری عزت کیلئے مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے تعلقات قائم کرنا اور وفا داری نبھانا بہت ہی خطرناک معاملہ ہے۔[النساء:139]۔
o 2) منافقوں اور کافروں کی کسی ایسی مجلس میں شریک ہونا کفر و نفاق کا درجہ رکھتاہے جس میں دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہو۔[النساء:140]۔
o 3)منافقین کی ایک صفت ہےدھوکہ دینا۔ لہذاانہیں(مسلمانوں کو) ان کی اس مذموم صفت سے پرہیز کرنا چاہئے[النساء:142]۔
o 4)اسی طرح سستی اور کاہلی سے بھی بچنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اس سلسلے میں بالخصوص نماز کا ذکر کیا گیا ہے، کہ منافق لوگ نماز میں ا س طرح کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کی توجہ کسی اور طرف ہوتی ہے او روہ جلداز جلد اس سے فرصت حاصل کرنا چاہتے ہیں،اور وہ نماز میں اللہ کا ذکر بہت ہی کم کرتے ہیں[النساء:142]۔
o آخر میں منافقین کو ان کے انجام بدکی سخت دھمکی دی گئی۔ [النساء:145]۔
o اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں توبہ اور اصلاح کی بھی دعوت دی گئی ہے۔[النساء:146]۔
o ساتھ ہی ساتھ اس مقام پر توبہ کی كچھ شرائط بھی ذکر کردی گئی ہیں:
1- سابقہ گناہوں سے توبہ۔
2- صرف زبان سے توبہ قبول نہیں ہوگی بلکہ عملی طور پر اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔
3- صرف عمل کی اصلاح کا فی نہیں بلکہ اس پر ثابت قدمی بھی ضروری ہے۔
4- اور ضروری ہے کہ یہ سب کچھ اخلاص او ر للہیت کے ساتھ ہو۔
توجہ سےپڑھیں یہ دونوں آیتیں: إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (145) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا (146) ” منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے، ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے۔ ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں، اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا”۔
o اس پارے کا اختتام اس عجیب معنی خیز آیت پر ہوتا ہے جس میں ہم سب کیلئے اور اس پر فتن دور میں باعث عبرت ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا:”مَا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِنْ شَكَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا”.’’اللہ تعالی تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ اگر تم شکر گذاری کرتے رہو اور ایمان لے آؤ،اور اللہ تعالی بڑا قدر کرنے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘۔
گویا ان دو چیزوں کی موجودگی میں اللہ کا عذاب نہیں آ سکتا: 1)شکر ۔ 2)ایمان۔
شکر گزاری کا مطلب ہے اللہ تعالی حکم کے مطابق برائیں سے اجتناب اور عملِ صالح کا اہتمام کرنا۔یہ گویا اللہ تعالی کی نعمتوں کا عملی شکر ، اور ایمان سے مراد اللہ کی توحید وربوبیت پر اور نبیِ آخر الزماں حضرت محمد مصطفیﷺ کی رسالت پر ایمان ہے۔
لہذا جو شخص اس کا شکر ادا کرے گا، وہ قدر کرے گا، جو دل سے ایمان لائَ گا وہ اس کو جان لے گا اور اس کے مطابق وہ بہترین جزا سے نوازے گا۔ تفسیر احسن البیان ص:۲۵۸
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] — محرمات سے وہ عورتیں ہیں جو نسب، رضاعت ، یا سسرالی رشتے کی وجہ سے کسی انسان پر ان سے نکاح حرام ہوتا ہے،
[1] — اس پارے کے شروع میں لفظ ” محصنات” مستعمل ہوا ہے، اور یہ لفظ اسی صفحہ میں ایک سے زائد بار آیا ہے اور مختلب معنوں پر اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے، بلکہ بالضبط تین معنوں کے لئے اس کا استعمال ہوا ہے: 1)شادی شدہ عورتیں۔ 2)غیر شادی شدہ آزاد عورتیں۔ 3)شریف اور پاکباز لونڈیاں۔
اس آیت میں ایک بڑا اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان لوگوں کو جواب بھی مل گیاجو یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک مرد کو چار عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت ہے تو ایک عورت کے لئے ایک سے زائد مردوں سے نکاح کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی جو علیم وحکیم ہے اس نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اسی طرح اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بسا اوقات جوبعض شادی شدہ عورتیں کا جاکر عدالت میں نکاح کر لیتی ہیں وہ نکاح کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوگا۔
[1] — اللہ تعالی نے فرمایا:"يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيَكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَيَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ”(26)’’اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے لئے (شرعی احکام کو)خوب کھول کر بیان کردےاور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک )لوگوں کی نیک راہ پر چلائے او رتمہاری توبہ قبول کرے اور جاننے والا اور حکمت والا ہے‘‘۔
یہ آیت علماء نزدیک بڑی اہمیت کہ حامل رہی ہے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: سورت نساء کی آٹھ آیتیں ایسی ہیں جواس امت کیلئے اس سب سے بہتر ہیں جس پر سورج طلوع اور غروب ہوتا ہے۔وہ آٹھ آیتیں بالترتیب یہ ہیں۔152،110،48،40،31،28،27،26 تفسیر طبری،شعب الایمان للبیہقی(6744)]،
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : سورت نساء میں پانچ ایسی آیتیں کہ مجھے ان کے بدلے دنیا اور جو کچھ اس میں وہ سب مل جائے تو بھی مجھے یہ چیز خوش نہیں کرے گی۔اور وہ پانچ آیتیں بالترتیب یہ ہیں ۔ ۳۱، ۴۰، ۴۸، ۶۴، ۱۱۰ ۔[ شعب الایمان للبیہقی(2202)]۔
[1] — یاد رہے کہ کبیرہ گناہ اعتراف،ندامت،معافی مانگنے، حقدار کا حق ادا کرنے او رگناہ کو چھوڑے بغیر معاف نہیں ہوں گے، جبکہ صغیرہ گناہوں کو اللہ تعالی اپنی رحمت سےبندے کی نیکیوں کی وجہ سے بھی معاف کر دیتا ہے۔ کبیرہ گناہ ہر وہ گناہ ہے جس کے ارتکاب پر اللہ کے عذاب، اس کے غضب، اس کی لعنت اور جہنم کی دھمکی وارد ہو۔
[1] — ﵟفَإِنۡ أَطَعۡنَكُمۡ فَلَا تَبۡغُواْ عَلَيۡهِنَّ سَبِيلًاۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً (٣٤)” پھر اگر وه تابعداری کریں تو ان پر کوئی راستہ تلاش نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی واﻻ ہے۔
اس آیت کا خاتمہ اللہ تعالی کے دو نام پر ہوا ہے۔ علی اور کبیر ، جس سے شوہر کو تنبیہ ہے کہ بیوی کو سزامارے اور سزا دینے کا اختیار اگر اللہ تعالی نے تمہیں دیا ہے تو اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے، ورنہ یاد رکھو کہ اللہ تعالی تمہارے اوپراس سے کہیں زیادہ فوقیت وقوت رکھتا ہے جتنا تم کو اس کمزور عورت پر حاصل ہے۔
[1] — ﵟوَإِنۡ خِفۡتُمۡ شِقَاقَ بَيۡنِهِمَا فَٱبۡعَثُواْ حَكَماً مِّنۡ أَهۡلِهِۦ وَحَكَماً مِّنۡ أَهۡلِهَآ إِن يُرِيدَآ إِصۡلَٰحاً يُوَفِّقِ ٱللَّهُ بَيۡنَهُمَآۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيراً (٣٥)” اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں میں ملاپ کرا دے گا، یقیناً اللہ تعالیٰ پورے علم واﻻ پوری خبر واﻻ ہے”۔
اس مقام پر بیان کی گئی تعلیمات کو چھوڑ دینے کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کے گھریلو جھگڑوں کی کثرت ہے اور ان کے یہ اختلافات حل ہونے کا نام نہیں لیتے ۔
[1] — یہ تفصیلات آیت نمبر 37 سے 39میں بیان ہوئی ہیں۔
[1] — بلکہ درجِ ذیل دو آیتوں میں سےایک آیت مومن کے لئے بہت بڑی خوشخبری اور دوسری آیت کافروں کے لئے بہت ہی خوفناک ہے۔
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَظۡلِمُ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَٰعِفۡهَا وَيُؤۡتِ مِن لَّدُنۡهُ أَجۡرًا عَظِيماً (٤٠)” بے شک اللہ تعالیٰ ایک ذره برابر ﻇلم نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنی کر دیتا ہے اور خاص اپنے پاس سے بہت بڑا ﺛواب دیتا ہے”۔
يَوۡمَئِذٍ يَوَدُّ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَعَصَوُاْ ٱلرَّسُولَ لَوۡ تُسَوَّىٰ بِهِمُ ٱلۡأَرۡضُ وَلَا يَكۡتُمُونَ ٱللَّهَ حَدِيثاً (٤٢)" جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکیں گے”۔
[1] — اللہ کی نافرمانی میں حد سے تجاوز کرنے والا طاغوت ہے، نیز ہر وہ چیز کہ اللہ کو چھڑ کر اس کی عبادت کی جائے وہ طاغوت کہلاتا ہے۔
[1] – أَلَمۡ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ أُوتُواْ نَصِيباً مِّنَ ٱلۡكِتَٰبِ يُؤۡمِنُونَ بِٱلۡجِبۡتِ وَٱلطَّٰغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُواْ هَٰٓؤُلَآءِ أَهۡدَىٰ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ سَبِيلًا (٥١)” کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ ملا؟ جو بت کا اور باطل معبود کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیاده راه راست پر ہیں”۔
[1] — وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحۡسَنَ مِنۡهَآ أَوۡ رُدُّوهَآۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٍ حَسِيبًا (٨٦)” اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو، بے شبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے واﻻ ہے”۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یہودی، عیسائی اور مجوسی ہر ایک کو سلام کا جواب دو کیونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّواْ بِأَحۡسَنَ مِنۡهَآ أَوۡ رُدُّوهَآۗ "جب تمہیں تحفۂ سلام پیش کیا جائے تو اس کا اچھے اور بہتر طریقے سے جواب دو یا اتنا ہی لوٹا دو۔“ الادب المفرد:۱۱۰۷۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ صاف اور صریح الفاظ سے سلام کریں۔ دیکھئے الصحیحہ ۲/۳۲۰، ۳۲۱
– وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (93)” اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وه ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں کسی مومن کے ناحق قتل پر پانچ وعیدیں وارد ہیں۔ 1- قاتل کا ٹھکانا جہنم، 2- جہنم میں ہمیشہ کا عذاب ہے۔ 3- اس پر اللہ کا غضب ، 4- اللہ کی لعنت ہے، 5- مزید یہ کہ بہت بڑا عذاب اس کے انتظار میں ہے۔
[1] — ﵟلَّا يَسۡتَوِي ٱلۡقَٰعِدُونَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ غَيۡرُ أُوْلِي ٱلضَّرَرِ وَٱلۡمُجَٰهِدُونَ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ وَأَنفُسِهِمۡۚ فَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلۡمُجَٰهِدِينَ بِأَمۡوَٰلِهِمۡ وَأَنفُسِهِمۡ عَلَى ٱلۡقَٰعِدِينَ دَرَجَةًۚ وَكُلّاً وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلۡحُسۡنَىٰۚ وَفَضَّلَ ٱللَّهُ ٱلۡمُجَٰهِدِينَ عَلَى ٱلۡقَٰعِدِينَ أَجۡرًا عَظِيماً (٩٥)” اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راه میں جہاد کرنے والے مومن اور بغیر عذر کے بیٹھ رہنے والے مومن برابر نہیں، اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجوں میں بہت فضیلت دے رکھی ہے اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو خوبی اور اچھائی کا وعده دیا ہے لیکن مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں پر بہت بڑے اجر کی فضیلت دے رکھی ہے۔
رسول اللہﷺ سے سوال کیا گیا کہ وہ کون سا عمل ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کا متبادل بن سکے؟آپﷺ نے فرمایا: تم لوگ اس کی استطاعت نہ رکھو سکوگے۔ لوگوں نے یہی سوال دو یا تین بار کیا ، اور آپﷺ ہر بار یہی جواب دیتے رہے کہ تم لوگوں کے کے بس کا وہ کام نہیں ہے۔ پھر آپﷺنے فرمایا: مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ الصَّائِمِ الْقَائِمِ الْقَانِتِ بِآيَاتِ اللهِ، لَا يَفْتُرُ مِنْ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ، حَتَّى يَرْجِعَ الْمُجَاهِدُ فِي سَبِيلِ اللهِ تَعَالَى .» اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مثال اس شخص کی دن میں برابر روزہ رکھتا رہے، رات میں اللہ کی آیات کو تلاوت کرتے ہوئےبرابر قیام کرتا رہے اور اس سے اکتائے نہیں، یہاں تک کہ مجاہد اپنے گھر واپس آجائے۔ صحیح بخاری:۲۷۸۷، صحیح مسلم:۱۸۸۷ الفاظ مسلم کے ہیں
[1] — ﵟوَمَن يُهَاجِرۡ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ يَجِدۡ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُرَٰغَماً كَثِيراً وَسَعَةًۚ وَمَن يَخۡرُجۡ مِنۢ بَيۡتِهِۦ مُهَاجِرًا إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ ثُمَّ يُدۡرِكۡهُ ٱلۡمَوۡتُ فَقَدۡ وَقَعَ أَجۡرُهُۥ عَلَى ٱللَّهِۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُوراً رَّحِيماً (١٠٠)” جو کوئی اللہ کی راه میں وطن کو چھوڑے گا، وه زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نکل کھڑا ہوا، پھر اسے موت نے آ پکڑا تو بھی یقیناً اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ﺛابت ہو گیا، اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے واﻻ مہربان ہے۔
اس آیت کا ایک شانِ نزول حدیثوں میں وارد ہے ، جسے سامنے رکھ کر اس آیت کا مفہوم مزید واضح ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضمرہ بن جندب نامی ایک نابینا اور ایک حد تک معذورصحابی تھے، یہ مکہ میں مسلمان تو ہوچکے تھے لیکن ہجرت نہ کر سکے، پھر جب ہجرت کا تاکیدی حکم نازل ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ میں ہجرت کر سکتا ہوں ، لہذا مجھے چار پائی پر لادو اور مکہ سے رسول اللہﷺ کی طرف ل چلو۔ چنانچہ انہیں لاد کر جب مدینہ کے لئے لے جایا جارہا تھا اور ابھی تنعیم پہنچے تھے کہ ان کو موت آگئی اور وہیں راستے میں ان کا انتقال ہوگیا، جس وہ بھی افسوس کئے اور مسلمانوں کو بھی افسوس رہا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ اسباب النزول للواحدی ص:۱۴۵، تفسیر ابن کثیر۔ دیکھئے الصحیحۃ ۷/۶۶۶، ۶۶۷
[1] — نماز خوف یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو دشمنوں کے حملہ کردینے کا خطرہ ہوتو کس طرح میں نماز ادا کریں؟۔ اس حالت میں مسلمانوں کو نماز کا حکم دینا اور باجماعت نماز کا حکم دینا کئی اعتبار سے قابل توجہ ہے ، خصوصا ان لوگوں کے لئے جو نماز کو اہمیت نہیں دیتے۔ 1- نماز کی اہمیت کہ نماز ایسی عبادت ہے کہ جنگ کے خطرات کے اندر بھی اسے نظر انداز نہیں کیاجاسکتا، 2- نماز باجماعت کی اہمیت کہ لڑائی کے دوران بھی نماز باجماعت ادا کی جائے گی۔ تدبر قرآن 2/366
[1] — ﵟإِنَّآ أَنزَلۡنَآ إِلَيۡكَ ٱلۡكِتَٰبَ بِٱلۡحَقِّ لِتَحۡكُمَ بَيۡنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَىٰكَ ٱللَّهُۚ وَلَا تَكُن لِّلۡخَآئِنِينَ خَصِيماً (١٠٥)ﵞوَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا (110) وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَى نَفْسِهِ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا (111) وَمَنْ يَكْسِبْ خَطِيئَةً أَوْ إِثْمًا ثُمَّ يَرْمِ بِهِ بَرِيئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا (112)” یقیناً ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے تم کو شناسا کیا ہے اور خیانت کرنے والوں کے حمایتی نہ بنو۔جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پرظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو وه اللہ کو بخشنے واﻻ، مہربانی کرنے واﻻ پائے گا۔ اور جو گناه کرتا ہے اس کا بوجھ اسی پر ہے اور اللہ بخوبی جاننے واﻻ اور پوری حکمت واﻻ ہے۔ اور جو شخص کوئی گناه یا خطا کر کے کسی بے گناه کے ذمے تھوپ دے، اس نے بہت بڑا بہتان اٹھایا اور کھلا گناه کیا”۔
یہ آیات اور ان کے بعد کی چند آیتوں کا ایک شانِ نزول ہے، جس ان آیتوں کے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔شانِ نزول کا خلاصہ یہ ہے۔ انصار کے قبیلے بنی ظفر میں ایک شخص طعمہ یا بشیر بن ابیرق نے ایک انصاری کی زرہ چرا لی، جب اس کا چرچا ہوا اور اس کو اپنی چوری کے بے نقاب ہونے کا خطرہ محسوس ہوا تو اس نے وہ زرہ ایک یہودی کے گھر پھینک دی اور بنی ظفر کے کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کرنبیﷺ کی خدمت میں پہنچ گیا، ان سب نے کہا کہ زرہ چوری کرنے والا فلان یہودی ہے۔ یہودی نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ بنی ابیرق نے زرہ چوری کرکےمیرے گھر پھینک دی ہے۔ بنی ظفر اور بنی ابیرق (طعمہ یا بشیر وغیرہ) ہشیار تھےاور نبیﷺ کو باور کراتے رہے کہ چور یہودی ہی ہے اور طعمہ پر الزام لگا رہا ہے۔ نبیﷺ بھی ان کی چکنی چپٹی باتوں سے متاثر ہوگئے اور قریب تھاکہ اس انصاری کو چوری کے الزام سے بری کر کے یہودی پر فردِ جرم عائد کر دیتے، کہ اللہ تعالی نے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ سنن الترمذی:۳۰۳۶ ۔ دیکھئے تفسیر احسن البیان ص:۲۴۲، ۲۴۳
[1] — وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلۡهُدَىٰ وَيَتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيلِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصۡلِهِۦ جَهَنَّمَۖ وَسَآءَتۡ مَصِيرًا (١١٥)” جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے”۔
یہ آیت اس ناحیے سے بڑی معنی خیز ہے کہ اس میں رسولﷺ کے ساتھ مومنین یعنی صحابہ کی مخالفت کو جہنم کا راستہ بتایا گیا ہے ، جو ایک طرف صحابہ کی عظمت کی دلیل ہے ، دوسری اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کے اجماع کی مخالفت کفر ہے، تیسری طرف اجماعِ امت کی بھی دلیل ہے۔ نیز اس میں یہ بھی دلیل موجود ہے رسول ﷺ عالم الغیب نہیں ہیں۔
[1] — ﵟوَلَن تَسۡتَطِيعُوٓاْ أَن تَعۡدِلُواْ بَيۡنَ ٱلنِّسَآءِ وَلَوۡ حَرَصۡتُمۡۖ فَلَا تَمِيلُواْ كُلَّ ٱلۡمَيۡلِ فَتَذَرُوهَا كَٱلۡمُعَلَّقَةِۚ وَإِن تُصۡلِحُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ غَفُوراً رَّحِيماً (١٢٩)” تم سے یہ تو کبھی نہ ہو سکے گا کہ اپنی تمام بیویوں میں ہر طرح عدل کرو، گو تم اس کی کتنی ہی خواہش وکوشش کر لو، اس لئے بالکل ہی ایک کی طرف مائل ہو کر دوسری کو ادھڑ لٹکتی ہوئی نہ چھوڑو اور اگر تم اصلاح کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو، بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت واﻻ ہے”۔
یہاں ایک بڑی اہم حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں کسی بھی مرد کے لئے یہ مشکل ترین کام ہے وہ ہر اعتبار سے عدل کر سکے، لہذاایسے موقعے پر یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جس سے دل نہ لگے اسے بالکل ہی کنارے نہ کردے ، بلکہ ظاہری امور جیسے نفقہ، مبیت اور لین دین میں برابری کا معاملہ رکھے۔
[1] — درجِ ذیل دو آیتوں کو بغور پڑھیں، اور آیات کا خاتمہ اللہ تعالی جن پاک ناموں پر ہوا ہے اس پر توجہ دیں کہ اگر کوئِ شخص تقوی اور عدل سے منی موڑتا ہے تو اسے کس طرح دھمکی دی گئی ہے۔
وَلِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ وَإِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ غَنِيًّا حَمِيدًا (131) زمین اور آسمانوں کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت میں ہے اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر تم کفر کرو تو یاد رکھو کہ اللہ کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بہت بے نیاز اور تعریف کیا گیا ہے۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ إِنْ يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَى بِهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَى أَنْ تَعْدِلُوا وَإِنْ تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (135) اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[1] — يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا (136) اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ پر، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتاری ہے اور ان کتابوں پر جو اس سے پہلے اس نے نازل فرمائی ہیں، ایمان لاؤ! جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے فرشتوں سے اور اس کی کتابوں سے اور اس کے رسولوں سے اور قیامت کے دن سے کفر کرے وه تو بہت بڑی دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
یہ آیت ان معدودِ چند آیتوں میں سے ایک ہے جس میں تقریباایمان کے تمام ارکان بیان ہوئے ہیں۔ شاید اس سے مقصد منافقین کو دعوتِ ایمان دینا ہے۔