پندرہواں سال /15:درس نمبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

15:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

پندرہواں سال

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

ہجرت کا دوسرا سال :

عاشوراء کا روزہ  : اس سال محرم میں عاشوراء کا روزہ فرض کیا گیا ، نبی ﷺ نے عاشوراء کی صبح اعلان فرمایا کہ جو روزے سے ہے اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ دن کا باقی حصہ روزے سے گزارے ۔

غزوہ ابو اء یا ودان ، صفر سن 2 ہجری : تاریخ اسلام کا یہ پہلا غزوہ ہے جس میں نبی ﷺ بنفس نفیس  شریک ہوئے ، اس کا مقصد قریش کے ایک قافلہ سے چھیڑخوانی تھی لیکن کوئی لڑائی  درپیش نہیں آئی ۔

غزوہ بواط ، ربیع الاول سن 2 ہجری : اس کا مقصد بھی قریش کے ایک قافلہ سے تعرض کرنا تھا  ، لیکن قافلہ بچ کر نکل گیا اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی ۔

غزوہ سنوان ، ربیع الاول سن 2 ہجری : جابر بن  کرز القہری  نے مسلمانوں کو غافل پاکر ان کی چراہ گاہ پر حملہ  کیا اور کچھ مویشی لوٹ کر بھاگا جس کے تعاقب  میں نبی ﷺ  ستر صحابہ کی ایک مختصر فوج لے کر نکلے اور بدر تک تعاقب کیا  لیکن جابر جاچکا تھا ۔

غزوہ  عشیرہ  ، جمادی الاول سن ۲ ہجری : اس کا مقصد بھی قریش  کے ایک قافلے  سے تعرض تھا جو شام جارہا ہے ، نبی ﷺ  نے ڈیر سو صحابہ کی ایک  جماعت لے کر اسے روکنا چاہا  لیکن قافلہ بچ کر نکل گیا ، آئندہ رمضان میں یہی قافلہ واپس آرہا تھا تو معرکہ بدر پیش آیا ۔

سریہ عبد اللہ بن مجش ، رجب سن 2 ہجری : یمن کی طرف سے آتے ہوئے قریش کے ایک  تجارتی قافلہ سے متعلق معلومات فراہم کرنے  کے لئے  نبی ﷺ نے حضرت  عبد اللہ بن الجش کو ۸ آدمیوں  کے ساتھ وادی نخلہ روانہ فرمایا ، جہان معمولی جھڑپ  ہوئی جس میں ایک کافر مارا گیا اور مال غنیمت  ہاتھ آیا ۔

تحویل قبلہ : اسی سال رجب یا شعبان میں نبی ﷺ کو اپنی نماز میں بیت المقدس کے بجائے کعبہ مشرفہ کی طرف  رخ کرنے کا حکم ہوا ور سورۃ بقرہ دوسرے پارہ کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں ۔

رمضان کے روزے کی فرضیت : اسی سال شعبان میں رمضان المبارک کے روزے فرض کئے گئے  اور عاشوراء کے روزے  کی فرضیت  منسوخ  کردی گئی ، اسی سال صدقہ فطر  بھی واجب کیا گیا ۔

غزوہ بد الکبری ، رمضان سن 2 ہجری : اسی سال رمضان میں غزوہ بدر پیش آیا جسے قرآن میں  یوم الفرقان کہا گیا ہے ، نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ وہ قافلہ جو جمادی الاول  میں بچ  کر نکل گیا تھا شام سے واپس آرہا ہے  ، اسی سے تعرض کے لئے نبی ﷺ نے صحابہ کو جلد از جلد تیار ہونے کا حکم دیا اور آٹھ  رمضان  کو اپنے تین سو پندرہ ، یا سترہ یا تیرہ  ساتھیوں  کو لے کر  ساحل سمندر  کی طرف روانہ ہوئے  ادھر ابو سفیان  کو جب خطرہ لاحق ہوا تو  اسے  اہل مکہ کو خطرے کی اطلاع  دی ، لہذا اپنے قافلہ کو بچانے کے لئے   تقریبا ایک ہزار کی تعداد میں قریش نکلے ، نبی ﷺ  مدینہ منورہ سے سو کیلو میڑ کی دور وادی ذقران میں تھے  کہ قریش کے نکلنے کی  اطلاع ملی ، ادھر ابو سفیان  ہشیاری سے قافلہ  کو بچا کر نکل گیا ، لیکن مشرکین کا لشکر  ابوجہل  کی قیادت میں بدر  کے

جنوبی  جانب آکر خیمہ زن ہوگیا ، نبی ﷺ  نے صحابہ  سے مشورہ کیا ، تمام صحابہ نے اسے آپ کی رائے  پر چھوڑ دیا ، چنانچہ  آپ بدر کی شمالی جانب آکر رک گئے ، سترہ رمضان  کو دونوں  فوجیں  آمنے سامنے  ہوئیں ، ابتداء میں  انفرادی مقابلہ کا دور چلا جس میں کافروں  کے تین بڑے بڑے  سردار عقبہ ، شیبہ اور  عتبہ  کا بیٹا  ولید مارے گئے  ، پھر دونوں فوجیں ایک دوسرے  سے بھڑ گئیں  ، اللہ تعالی نے  مسلمانوں  کی مدد کے لئے فرشتوں  کی ایک بڑی جماعت  نازل فرمائی  ، ادھر  نبی ﷺ نے  بحکم الہی ایک مٹھی مٹی لے کر کافروں  کی طرف پھینکا  جو کافروں  کی آنکھ  میں پڑی  اور تھوڑی ہی دیر  میں  کافروں کی فوج میں بھگدڑ مچ گئی ، اس لڑائی  میں کافروں کے ستر آدمی مارے گئے  اور  ستر آدمی قیدی بنائے گئے  ، جب کہ مسلمانوں سے  صرف چودہ مسلمان شہید  ہوئے ، چھ مہاجرین  اور  ۸ انصار  ، اور بہت سا مال غنیمت  مسلمانوں کے ہاتھ آیا ۔

نفاق کا ظہور : یہی ایام ہیں کہ مدینہ منورہ میں نفاق  کا ظہور  ہوا کیونکہ اس جنگ کے اثر سے جب بہت  سے لوگ مسلمان ہوئے  تو عبد اللہ ابن ابی  اور اس کے ساتھیوں  نے بھی  کلمہ پڑھ لینا ہی مناسب سمجھا ۔

بعض دشمنان رسول کا قتل : مسلمانون  کی غزوہ بدر میں کامیابی  کی وجہ سے یہود  حسد کرنے لگے  حتی کہ ان کے بعض شعراء نے نبی  ﷺ  اور مسلمانوں کی ہجو کرنا شروع کردی ، جس سے مدینہ منورہ میں فتنے  کا خطرہ تھا  ، انہیں میں سے  عصماء بنت مروان  اور ابو عقل  بھی تھے ، نبی ﷺ  نے صحابہ کرام کی ایک جماعت بھیج کر انہیں قتل کروادیا ۔

غزوہ بنو قینقاع  ، شوال سن ۲ ہجری : یہود  کا یہ قبیلہ  مدینہ منورہ کے وسطی علاقے میں تھا  ، یہ جنگجو اور مالدار لوگ تھے  ، معرکہ بدر میں  مسلمانوں کی کامیابی  کے بعد ان کے دل میں حسد کی آگ بھڑک  رہی تھی اور ان کی شرارتوں میں اضافہ  ہوگیا ، چنانچہ  معاہدہ  کے خلاف انہوں   نے قریش کو پناہ دی ، مسلمانوں کو باہم لڑانا چاہا  اور مسلمان عورتوں سے تعرض  کرنے لگا ، لہذا نبی کریم ﷺ   نے ان کا محاصرہ کیا  اور انہیں مدینہ منورہ سے جلا وطن کردیا

غزوہ کدر یا بنی سلیم : نبی ﷺ کو معلوم  ہوا کہ بنو سلیم  کے لوگ  ” کدر ”  نامی ایک کنویں  پر اپنی فوج جمع کرکے مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کررہے ہیں ، قبل اس کے کہ وہ قوت پکڑیں  آپ نے ان پر حملہ کرکے تتر بتر کردیا اور کافی مال غنیمت  ہاتھ آیا ۔

غزوہ سویق ،ذی الحجہ سن ۲ہجری : اسی سال ذی الحجہ  کے مہینے میں ابو سفیان  بدر میں ناکامی  کا بدلہ لینے کے لئے  دو سو سوار وں کے ساتھ  مدینہ منورہ کے اطراف میں مسلمانوں  پر  حملہ آور ہوا ، کھیت میں کام کرنے والے دو مسلمانوں کو قتل کرکے  فرار کی راہ اختیار کی ، نبی ﷺ نے اس کا تعاقب کیا لیکن وہ بھاگ نکلا ، جلدی میں اور ہلکے پن کے لئے اپنا زاد راہ جو ستو  کی شکل میں تھا چھوڑ کر گیا ، اس لئے اس غزوہ کا نام غزوہ سویق ہے ۔

حضرت رقیہ بنت رسول ﷺ کی وفات : اسی سال رمضان  کے مہینے  میں آپ  کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا   کاا نتقال ہوا ، جس دن مسلمان ان کے دفن سے فارغ ہوکر  واپس آرہے تھے اسی دن معرکہ بدر میں  کامیابی کی خبر مدینہ منورہ پہنچی ۔

حضرت فاطمہ کی شادی : اسی سال ذی القعدہ میں یا شوال میں حضرت علی اور  حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کی شادی ہوئی ۔

 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں