بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلاصہ درس : شیخ ابو کلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 20 / رمضان المبارک 1429ھ م 20/ستمبر 2008م
پڑوسیوں کے حقوق
عن ابن عمرو عائشة رضي الله عنهما قالا : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ما زال جبريل يوصيني بالجار حتى ظننت أنه سيورثه .
( صحيح البخاري : 6014، 6105 ، الأدب /
صحيح مسلم : 2624، 2625 ، البر والصلة )
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے جبریل علیہ السلام پڑوسی [ کے ساتھ حسن سلوک اور اسکے حقوق کی ادئیگی ] کی برابر تاکید کرتے رہے ، یہاں تک میں گمان کرنے لگا کہ یہ اسے وارثت میں بھی شریک ٹھہرا دیں گے ۔
تشریح : ایک انصاری صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے یہاں سے نکلا ، میرا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنا تھا ، میں نے دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں اور کوئی شخص آپ سے متوجہ ہے ، میں نے سوچا کہ آپ دونوں کوئی ضروری گفتگو کررہے ہیں لہذا میں اپنی جگہ بیٹھ گیا ، اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے رہ گئے کہ اس طویل قیام کی وجہ سے مجھے آپ پر رحم آنے لگا ، پھر جب واپس ہوئے تو میں آپ کی طرف بڑھا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! اس شخص نے آپ کو اتنی دیر تک کھڑے رکھا کہ مجھے آپ پر رحم آنے لگا ، آپ نے فرمایا : تمہیں معلوم یہ کون تھا ؟ میں نے کہا :نہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ حضرت جبریل علیہ السلام تھے جو مجھے برابر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کررہے تھے حتی کہ میں نے سمجھا کہ اسے وارث قرار دیں گے ، ہاں ! اگر تم ان سے سلام کرتے تو وہ تمہارے سلام کا جواب دئے ہوتے ۔
[ مسند احمد : 5 /32، 365 ]
ہمسایہ یا پڑوسی وہ دو آدمی ہیں جو ایک دوسرے کے قریب رہتے اور بستے ہیں، یہ رہنا اور بسنا خواہ وقتی ہے یا دائمی ، سکونت کا ہو یا عمل کا ، دونوں مسلمان ہوں یا مسلم اور کافر ، دوست دوست ہوں یا دوست و دوشمن ، رشتہ دار ہوں یا غیر رشتہ ، غرض یہ کہ ہر ایک پر پڑوسی و ہمسایہ کا اطلاق ہوتا ہے ، شریعت نے انکے کچھ حقوق و واجبات رکھے ہیں ، جنکا ذکر نہایت ضروری ہے جیسا کہ اوپر مذکورہ دونوں حدیثوں سے واضح ہے ، بالاختصار پڑوسی کے اہم حقوق درج ذیل ہیں :
[1 ] حسن سلوک : اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ” وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ”
اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں ساتھ احسان کرو
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت ابو شریح ]
[ 2 ] امن و امان دینا : ارشاد نبوی ہے : اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، عرض کیا گیا کون ؟ آپ نے فرمایا : وہ شخص جسکی شرارتوں سے اسکا پڑوسی محفوظ نہ رہے ۔ [ بخاری و مسلم ، بروایت ابو ہریرہ ] ،
ایک اور جگہ ارشاد ہے :کسی آدمی کا دس عورتوں سے زنا کرنا اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنے سے آسان ہے ،کسی آدمی کا دس گھروں سے چوری کرنا اپنے پڑوسی کے گھر سے چوری کرنے کے مقابلہ میں ہلکا ہے ۔۔۔ [ مسند احمد ، بروایت المقداد ]
[ 3 ] محبت اور خیرخواہی کا جذبہ : ارشاد نبوی ہے : اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، کوئی بھی بندہ حقیقی مومن بن نہیں سکتا جب تک کہ اپنے پڑوسی کیلئے وہی کچھ نہ پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے ۔ [ صحیح مسلم ، بروایت انس ]
[ 4 ] خبر گیری کرنا : ارشاد نبوی ہے : جو شخص آسودہ ہوکر رات گزارے جبکہ اسکا پڑوسی بھوکا ہے اور اسے اسکا علم بھی ہے تو اسکا مجھ پر ایمان نہیں ہے ۔ [ الطبرانی ،بروایت انس ]
اسی حکم میں ہدیہ و تحفہ پیش کرنا بھی داخل ہے ، ارشاد نبوی ہے : اے مسلمان عورتو ! ہر گز کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کیلئے [ معمولی ہدیہ کو بھی ] حقیر نہ سمجھے ، خواہ بکری کے کھر ہی کا کیوں نہ ہو ۔
[ صحیح البخاری ، بروایت ابو ہریرہ ]
[ 5 ] تکلیف پر صبر : ایک شخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر اپنے پڑوسی کی شکایت کرنے لگا تو آپ نے فرمایا : صبر سے کام لو ۔۔۔۔۔ الحدیث [ ابو داود ، الترمذی ، بروایت ابو ہریرہ ]
ایک اور حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے محبوب لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا : وہ شخص جسکا پڑوسی برا ہو ، اسے تنگ کررہا ہو اور وہ اسکی تکلیف پر صبر سے کام لے رہا ہو ۔
[ مسند احمد ، بروایت ابو داود ]
[ 6 ] تعلیم : پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اور خیر خواہی میں یہ بھی داخل ہیکہ اسکی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا جائے ۔
ختم شدہ