پہلا پارہ (الم)

سلسلہ خلاصہ قرآن مجید 

از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

*پہلا پارہ(الم)*

پہلا پارہ سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ  کی ۱۴۱ آیات  پر مشتمل ہے۔

سورت فاتحہ:

اس  سورت کی بعض امتیازی خصوصیات۔

× ترتیب ے لحاظ سے قرآن مجید کی سب سے پہلی سورت ہے۔

× مکمل نازل ہونے والی یہ سب سے پہلی سورت ہے۔

× مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سورتوں سے افضل ہے۔

× اور معانی و مفاہیم کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے جامع سورت ہے

[1]

۔

اس سورت کے فضائل میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی  ہیں وہ شاید ہی کسی دوسری سورت کی فضیلت میں وارد نہ ہوئی  ہوں[2]۔

اس سورت  سے قرآن کی ابتداء  کرکے گویا اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ کتاب واقعۃاللہ کی کتاب ہے۔

نیز اس میں  ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ ہم بھی اپنے ہر کام کی ابتداء  اللہ کے نام  سےاور اس کی حمد و ثناء سے کریں۔

اس عظیم سورت میں چند اہم امور پر توجہ دلائی گئی ہے:

اللہ تعالی کی حمد و ثنا۔

وہی ذات حمد و ثناء  کی حقدار ہے۔ہمیں بھی اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اسی کی طرف توجہ دینی چاہئے،اور بطور تبرک و وسیلہ کے اپنے ہر کام کی ابتداء   اللہ  کی حمد وثنا  سے کرنی چاہئے۔

وہی ذات عبادت کے لائق ہے۔ لہذا اس کی عبادت اخلاص سے کرنی چاہئے۔ نیز اس کی عبادت میں  تین قلبی  جذبات کو شامل رہنا چاہئے۔ عظیم ترین محبت،خوف او رامید۔[3]
بندہ اپنے ہر عمل خصوصا عبادات میں اللہ تعالی کی نصرت و مدد کا محتاج ہے[4]۔
ہدایت دینے کا اختیار صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ لہذا صرف اسی سے ہدایت کا سوال کرنا چاہئے۔
اس  بات کی وضاحت کہ ہدایت  کسی کہتے کہتے ہیں؟ اور ضلالت کیا ہے؟۔

انبیاء  و صالحین کا راستہ و طریقہ سیدھا اور ہدایت والا ہے۔لہذا اسی پر چلنے والا کامیاب  ہے۔ اور اس کے خلاف جو بھی طریقہ و راستہ ہے وہ ضلالت وگمراہی کا راستہ  ہے۔ اس کو اپنانے والا گمراہ اور اللہ کے غضب و ناراضگی کا مستحق ہے۔

اس کتاب پر ایمان لانے والے کو قطعا یہ زیب نہیں دیتا کہ ایک طرف تو وہ دن اور رات میں کم از کم سترہ(17) مرتبہ یہ آیات پڑھتا ہے:اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ * صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ” ہمیں سیدھی (اور سچی) راه دکھا۔ان لوگوں کی راه جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا (یعنی وه لوگ جنہوں نے حق کو پہچانا، مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوئے) اور نہ گمراہوں کی (یعنی وه لوگ جو جہالت کے سبب راه حق سے برگشتہ ہوگئے)۔اور دوسری طرف  عملی زندگی میں انعام یافتہ لوگوں کے طریقے کو چھوڑ کر  ان لوگوں کے طریقے کو اپنائے اور ان کی مشابہت اختیار کرے جن پر اللہ کا غضب  نازل ہوا او روہ لوگ  جو گمراہ ہو ئے۔

سورہ بقرہ

سورۃ البقرہ مدنی سورت ہے اورپہلے پارے کی دوسری سورت  ہے۔

پہلے پارے میں سورہ بقرہ کی 141 آیات ہیں۔سورہ بقرہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی سب سے پہلی سورت ہے۔

اس سورت کا ایک نام "فسطاط القرآن” بیان  کیا جاتا ہے۔فسطاط اس اونچے خیمے کو کہا جاتا ہے جو دور سے نظر آتا ہو ۔چونکہ اس سورت نے بہت سے احکام کا احاطہ کر رکھا ہے، شاید اس سورت کو یہ نام دینے کی  وجہ یہی  ہو۔

اس سورت کو چند خصوصیات حاصل ہیں:

یہ قرآن مجید کی سب سے طویل سورت ہے اور اس میں 286 آیات ہیں۔
اس سورت میں سب سے زیادہ فقہی احکام و مسائل بیان ہوئے  ہیں۔
اس سورت میں قرآن مجید کی سب سے طویل آیت ہے، جسے آیت دین یا آیت مداینہ کہا جاتا ہے۔
اس سورت میں ایک ایسی آیت  ہے(یعنی آیت الکرسی) جو قرآن کریم کی سب سے عظیم آیت ہے ۔
اس سورت میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن مجید کی سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت ہے۔(وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ)
اس سورت کی آخری دو آیتیں وہ نور ہیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں ہوئے۔
یہ وہ تنہا سورت ہے جس میں اسلام کے پانچوں ارکان (توحید،نماز،زکاۃ،روزہ اور حج) بیان ہوئے ہیں۔

اس سورت کے فضائل میں بہت سی صحیح احادیث وارد ہیں۔ایک حدیث کے مطابق جو شخص اس سورت کو(یاد کرنے،سمجھنے اور عمل کرنے کے لحاظ سے )ضبط کر لے تو وہ فقیہ اور عالم ہے[5]۔گویا کہ اس کو سند مل گئی۔

موضوع ومضامین۔

 اس سورت کا بنیادی موضوع ایمانیات،رسالت،رسالت پر ایمان نہ لانے والوں کا انجام، اور بہت سے وہ فقہی مسائل ہیں جن کی ضرورت مسلمانوں کو مدینہ میں  در پیش تھی۔

اس سورت کے آغاز میں قرآن مجید کی حقانیت پر زور دیا گیا ہے،اور پھر مقدمے کے طور پر انسانوں کی تین قسمیں ذکر کی گئی ہیں:

(1)مومنین و متقین۔                                           ان کا تذکرہ پانچ آیتوں میں کیا گیا ہے۔ جن میں ان کی پانچ صفات کا ذکر ہے۔

۱-       ایمان بالغیب۔

۲-     نماز قائم کرنا۔

۳-       اللہ کے دئے ہوئے مال سے خرچ کرنا۔

۴        – اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا۔

۵-    آخرت پر ایمان لانا۔

گویا جن لوگوں میں یہ پانچ صفات پائی جاتی ہیں وہی لوگ اس کتاب سے مستفید ہونے کے اہل  ہیں۔

(2)کفار اورجانتے بوجھتے  حق سے رو گردانی کرنے والے۔                                                    ان کے بارے میں دو آیتیں ہیں۔

(3)منافقین۔                                                    اور ان کے بارے میں تیرہ آیات ہیں۔

ان کے بارے میں اس قدر زیادہ آیات نازل ہونے کی بظاہر  وجہ یہ ہے کہ امت پر  ان کا خطرہ سب سے  زیادہ  ہوتا ہے ،اور ان کے غلط  عزائم اورناپاک منصوبے بھی لوگوں سے پوشیدہ  ہوتے ہیں ۔

اس مقام پر منافقین کی کچھ صفات اس لئے  بیان کر دی گئی ہیں تاکہ اہلِ ایمان ان سے چوکنا  رہیں۔

منافقین    کی بعض صفات یہ ہیں:                                                       (1) جھوٹ بولنا۔                                                                                     (2) اصلاح کا دعوی کرنا ،مگر مقصد  میں فساد پھیلانا۔       (3)اہل ایمان کا مذاق اڑانا۔                                                                                                                                                          (4)  خود کو عقل مند اور اہل ایمان کو بے وقوف سمجھنا۔

آیت ۱۷—۲۰ میں منافقین کے حال کی دو مثالیں دے کر ان کے حالات کی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔

پہلی مثال ان منافقین کی ہے جو اپنے کفر میں پختہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جب نبیِ کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہ لوگ مسلمان ہو گئے، لیکن پھر جلد منافق بن گئے۔ ان کی مثال اس شخص کی ہے جو اندھیرے میں تھآ، اس نے روشنی جلائی جس سے اس کا ماحول روشن ہوگیا، اور مفید اورنقصان وہ چیزیں اس پر واضح ہوگئیں،پھر دفعتا وہ روشنی بجھ گئی اور وہ حسبِ سابق تاریکیوں میں گھر گیا۔ یہی حام منافقین کا تھا۔ پہلے وہ شرک کی تاریکی میں تھے، مسلمان ہوئے تو روشنی میں آگئے۔ حلال وحرام اور خیر وشر کو پہچان گئے ، پھر دوبارہ کفر ونفاق کی طرف لوٹ گئے تو ساری روشنی جاتی رہی۔

دوسری مثال ان منافقین کی ہے جن پے کبھی حق واضح ہوتا ہے اور کبھی اس کی بابت وہ ریب وشرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔پس ان کے دل ریب وتردد کی وجہ سے اس بارش جیسے ہیں جو اندھیروں (شکوک، کفر ونفاق) میں اترتی ہے، گرج وچمک سے ان کے دل ڈر ڈر جاتے ہیں، حتی کہ خوف کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیتے ہیں۔ لیکن یہ خوف ودہشت انہیں اللہ کیگرفت سے نہیں بچا سکے گا، کیونکہ وہ اللہ کے گھیرے سے نہیں نکل سکتے کبھی حق کی کرنیں ان پر پڑتی ہیں تو وہ حق کی طرف جھک پڑتے ہیں، لیکن پھر جب اسلام یا مسلمانوں پر مشکلات کا دور آتا ہے تو پھر حیران وسرگرداں کھڑے ہو جاتے ہیں[6]۔ تفسیر احسن البیان ص:۱۲

اس کے بعد تمام انسانوں کو اللہِ واحدکی دعوت دی گئی ہے۔  نیزکی ربوبیت پر عقلی و نقلی دلائل پیش کرکے  توحید الوہیت کو اپناے کی دعوت دی گئی ہے۔[7]
قرآن کی حقانیت کا ذکر کرتے ہوئے اس پر چیلنج بھی کیا گیا ہے کہ بھلے اس جیسی ایک سورت ہی بنا کر لاؤ۔
قرآن اور رسالت پر ایمان نہ لانےوالوں کی جہنم کی دھمکی اور ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو جنت اور اس کی گونا گوں نعمتوں کی بشارت دی گئی ہے۔
قرآن کی حقانیت پر چیلنج کے بعد قرآن میں دی گئی مثالوں پرکافروں کے ایک اعتراض کا جواب دیا گیاہے کہ اس کتاب میں مکڑی ،مچھر اور مکھیوں کی مثالیں دی گئی ہیں، حالانکہ آسمانی کتاب کے لئے یہ مناسب نہیں ہے ۔

اس کا جواب  قرآن نے یہ دیا ہے کہ  چھوٹی اور حقیر اشیاء کی مثال اگر کسی حقتقت پر مبنی ہو تو  قرآن  کی فصاحت اور  حقانیت  میں حائل نہیں ہے ۔کیونکہ مخلوق ہونے میں سب برابر ہیں۔ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ  مثال اور ممثل لہ یعنی جس کے لئے مثال دی گئی ہے اس  میں موافقت کس قدر پائی جاتی ہے۔

انسان کی اور ساتوں آسمان اور زمین کی ایجاد وتخلیق سے متعلق اللہ کی کمال قدرت کا ذکر ۔ کہ اس کے بعد انسان کے پاس انکار کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہ جاتی۔
حضرت آدم علیہ السلام  کی تخلیق کا ذکر اورزمین میں ان کی خلافت کا بیان ہے۔ نیز حضرت آدم  کے ساتھ اور ان کی بیوی حضرت حوا کے ساتھ شیطان کی عداوت کا ذکر۔

یہ قرآن مجید  میں بیان ہونے والا  سب سے پہلا قصہ ہے۔  اس قصے کو ذکر کرنے  کا مقصد شاید اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کے اوصاف کیا ہوتے ہیں اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اور جو شخص الہی تعلیمات سے روگردانی کرتا ہے اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ ۔[8]

اس پارے کے پہلے چوتھائی حصے کے بعد سے بنو اسرائیل کا تذکرہ شروع ہورہا ہے اوراس پارے کے بڑے حصے ، آیت ۱۴۷ تک چلا گیا ہے۔ جن میں بنو اسرائیل پر اللہ کے انعام، ان بدسلوکیوں اور پھر ان کی بد سلوکیوں کے عوض  ان پر اللہ تعالی کی سزاوں کا ذکر ہے[9]۔

آیات 40 تا 48 تک پہلے تو بنی اسرائیل کونبیﷺ پر ایمان کی دعوت دی گئی  ہے۔  پھر اسی ضمن میں انہیں توحید کی بھی                     دعوت دی گئی ہے۔

حق وباطل کولاباہم گڈ مڈ کرنے سے روکا گیا ہے، نمازکی پابندی اور زکاۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ جڑے رہنے کی تاکیدکی گئی ہے[10]۔

پھر ان کی گمراہی کی أصل بنیاد کیا ہے؟  اس پر انہیں تنبیہ کی گئی ہے۔ جیسے لوگوں کو تو نیکی کا حکم دینا اور خود عمل نہ کرنا۔ آخرت سے غفلت برتنا۔ اور صبر ونماز سے لا پرواہی اختیار کرنا۔

اس کے فورا بعد بنی اسرائیل پر اللہ کی گونا گوں نعمتوں  اور اس کے بالمقابل  بنو اسرائیل کی ناشکری اور ان کے کفران نعمت  کی تفصیل مذکور ہے۔
جیسے فرعون اور اس کی جماعت سے نجات،  جو ان کے لڑکوں کو پیدائش کے وقت ہی قتل کردیتے اور ان کی لڑکیوں کو گھروں میں خدمت کے لئے زندہ رہنے دیتے۔ مزید ان کے باقی ماندہ زندہ مردوں کو غلام بناکر بلا معاوضہ خدمت لیتے تھے۔
سمندر میں ان کے لئے راستہ بنا دینا اور ان کے دشمن یعنی فرعون اور اس کے لشکر کو ان کی نظروں کے سامنےاسی سمندر میں دبو دینا۔
ان کی ہدایت کے لئے موسی علیہ السلام کو کتاب وفرقان عطا کرنا۔
میدان سینا میں ان کے لئے  بادلوں کا سایہ  مہیا کرنا۔
اور  غذا کے لئے من وسلوی کی نعمت سے نوازنا۔
حضرت ہارون علیہ السلام کے منع کرنے کے باوجود بچھڑے کی پوجا میں مبتلا ہوجانا۔ لیکن اس ظلمِ عظیم کے باوجوداللہ تعالی کی ان کی توبہ  قبول کر لینا۔
انہیں دوبارہ زندگی بخشنا۔  اس وقت جبکہ ان لوگوں نے موسی علیہ السلام  سے کہا کہ "یہ کتاب اللہ نے آپ کو دی ہے” ہم آپ کی تصدیق اس وقت تک نہیں کرتے  جب تک کہ ہم اللہ تعالی کو اپمی نظرں سے دیکھ نہ لیں۔ اللہ تعالی ان کے اس مطالبہ پر سزا کے طور پر ان پر ایک زوردار بجلی کی کڑک سے ان کو ہلاک کر دیا۔ لیکن پھر موسی علیہ السلام کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کردیا۔
میدان سینا ہی میں ان کے لئےایک پتھر سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا، وغیرہ)  ۔
تورات کے احکام پر عمل سے انکار جیسی سخت نافرمانی کے باوجود اللہ تعالی انہیں توبہ کی توفیق بخشی اور استغفار کا موقع عنایت فرمایا[11]۔ آیت ۶۳، ۶۴
یہیں پر آیت نمبر۵۸، ۵۹ میں ان کی شرارت اور حکم شرعی کے ساتھ بدسلوکی کا بھی ذکر ہے جو انہوں نے بیت المقدس میں داخلے کے وقت کیا تھا [12]۔

نیز قرآن اور نبی کریم ﷺ کے بارے میںبنی اسرائیل   کا کیا موقف تھا اسے بھی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔

اسی ضمن میں  ہفتے کے دن کے احترام سے متعلق ان کے آبا واجداد  کی اس بد عہدی کا ذکر ہے جو انہوں نے انجام دیا تھا،  پھر اس کی پاداش میں اللہ تعالی نے  انہیں سور اور بندربنا دیا تھا ، تا کہ  لوگوں کے لئے عبرت لا سامان ہو[13]۔
نیز اسی ضمن میں بنی اسرائیل کی طرف سے گائے ذبح کرنے کے قصے کا بھی ذکر ہے،  جس کی مناسبت سے اس سورت کا نام سورۃ البقرۃ ہے .یعنی ایسی سورت جس میں گائے کا ذکر ہے۔

اس قصے کا خلاصہ یہ ہے کہ  بنی اسرائیل میں ایک مالدار لیکن بے اولاد شخص تھا ، اس کا ایک بھتیجا  یا اس کے بھتیجے اس کے وارث بن رہے تھے ، چنانچہ مال کی لالچ میں  بھتیجوں نے  چچا قتل کردیا اور رات کی تاریکی میں اس کی لاش کسی دوسرے گاوں میں ایک شخص کے مکان کے سامنے پھینک دیا  اور دعوی کردیا کہ اسی نے اسے قتل کیا ہے ۔ قریب تھا کہ دونوں خاندانوں میں لڑائی ہوجاتی۔  لیکن  ان میں سے کچھ عقلمند لوگوں نے پوچھا کہ تم آپس میں کیوں لڑرہے ہو؟ یہ اللہ کا رسول تمہارے درمیان موجود ہے، ان سے فیصلہ کرا لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ لوگ حضرت موسی علیہ السلام  کے پاس  گئے،تو  موسی علیہ السلام  نے کہا کہ اللہ تعالی  کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو اور اس کے گوشت کا ایک ٹکڑا  مقتول کی لاش پر مارو تو مقتول خود بتا دے گا کہ اس کا قاتل  کون ہے۔ پہلے پہل تو ان لوگوں نے اللہ کے نبی سے کہا کہ کیا آپ ہم سے مذاق کر رہے ہیں؟ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسی بات سے اللہ کی پناہ کہ میں کوئی جہالت کا کام کروں۔ پھر جب ان لوگوں  کو یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو کہنے لگے کہ وہ گائے کیسی ہونی چاہئے؟ موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ  کا فرمان ہے کہ وہ گائے نہ چھوٹی بچی نہ بڑی بوڑھی، بلکہ جوان عمر کی ہو۔ پھر قوم نے سوال کیا کہ اس کا رنگ کیسا ہونا چاہئے ؟ موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ  وہ گائے ایسے شوخ زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والے خوش ہوجائیں۔ انہوں نے اس کے آگے سوال کیا کہ ابھی بھی گائے کا مسئلہ واضح نہیں ہے ۔لہذا  اس کی مزید وضاحت کی جائے کہ اس گائے کی صفات کیا ہوں؟ اس کے جواب میں موسی علیہ السلام نے فرمایا: اللہ کا فرمان ہے کہ وہ گائے ایسی ہونی چاہئے جس سے  خدمت نہ لی جاتی ہو، جو نہ تو زمین جوتتی ہو اور نہ ہی کھیتی میں پانی دینے  کے کام میں استعمال ہوتی ہو، نیز بالکل صحیح سالم اور بےداغ جانور ہو۔

اس قصے کو یہاں پر بیان کرنے  میں بڑی حکمت ہے اور اس میں اس امت کیلئے بہت سے دورس و اسباق ہیں،جن میں کچھ اہم دروس یہ ہیں:

1) احکام الہی کے قبول میں تردد  اور ٹال مٹول سے کام نہیں لینا چاہئے۔

2)دین کے معاملے میں تشدد اور سختی برتنا، خود کو مشکل اور تنگی میں ڈالنے کا باعث ہے۔

3) دین کے بارے میں تشدد اور احکام الہی کے معاملے میں پس وپیش سے کام  لینا دلوں کی سختی کا سبب ہے۔جیسا کہ اس واقعے کے بعد اللہ نے فرمایا:”ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً”’’پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھروں کی طرح یااس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے‘‘۔

اس ضمن میں بنی اسرائیل کی ان بد کرداریوں کا بھی ذکر ہے جن کا ارتکاب وہ اللہ کے نبیوں کے اور مقرب فرشتوں  کے بارے میں کرتے تھے۔جیسے:اللہ کے نبیوں کو بے یار ومددگار چھوڑ دینا اور انہیں قتل کرنا[البقرہ:91]۔نبیوں اور  ان کے سچے پیروکاروں کی دعوت کے بارے میں یہ کہنا کہ ہمارے دل بھرے ہوئے ہیں[البقرہ:88]۔نبیوں اور ان کے سچے پیروکاروں کی اصلاحی باتوں کے جواب میں سمعنا و عصینا کہنا کہ ہم نے سن تو لیا لیکن ہم نافرمانی کریں گے[البقرہ:93]۔ حضرت جبریلِ امین اور مقدس فرشتوں سے عداوت اور بغض رکھنا[البقرہ:97-98]۔حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادو کرنے  کا الزام لگانا۔[البقرہ:102]
اور پھر یہیں پر اسی کے ساتھ ساتھ جادوکرنے کا حکم اور اس کی خرابی کو بھی بیان کر دیا گیا ہے۔ یعنی جادو کرنا کرانا کفر اور آخرت کے بدلے دنیا کاسودا کرنا ہے۔
یہود کے علماء کی بہت سی بری حرکتوں سے بھی پردہ اٹھایا، اور ان کی تین بری خصلتوں کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے:

 1)  کلام الہی میں تحریف کرنا [البقرہ:75]۔

2)من گھڑت مسائل بیان کرنا اور اس کی نسبت اللہ کی طرف کرنا[البقرہ:79]۔

 3)لوگوں کو جھوٹی امیدیں دلانا اور انہیں مغفرت کے دھوکے میں رکھنا؛ مثلا یہ کہنا کہ ہم تو صرف چند دن کیلئے جہنم میں جائیں گے[البقرہ:80] ۔

پھر اس پر اللہ تعالی کا تبصرہ بڑا باعث عبرت ہے،فرمایا: ” بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ * وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ”  [البقرة:81، 82]ترجمہ:’’یقینا جس نے بھی برے کام کئے اور اس کی نافرمانیوں نے اسے گھیر لیا،وہ ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے،اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں ،وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے‘‘۔

یہود کی خرابیوں کے ذکر کرنے کے دوران جگہ جگہ مسلمانوں کو کچھ اہم نصیحتیں کی گئی ہیں، مثلا

فرمایا:”يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوا وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ أَلِيمٌ”ترجمہ:’’اے ایمان والو! تم(نبی ﷺ کو)’’راعنا‘‘کا لفظ نہ کہا کرو،بلکہ’’ انظرنا‘‘ کا لفظ کہا کرو(یعنی ہماری طرف دیکھیے)اور سنتے رہا کرو اور کافروں کیلئے دردناک عذاب ہے‘‘

اسی آیت  میں  اہل ایمان کو یہود کے طرز عمل سے بچنے کا حکم ہے۔

مسلمانوں کو یہود کی طرح پیغمبر سے بے مقصد  اور غیر ضروری سوال کرنے سے منع کردیا ہے[البقرہ:108]

نماز اور زکاۃ کا خصوصی حکم دیا گیا ہے [البقرہ:110]۔

اسی ضمن میں بعض ان پختہ وعدوں اور معاہدوں کا ذکر بھی کیا گیا ہےجو بنو اسرائیل سے لئے گئے تھے، لیکن جب  انہوں نے اس کی قدر نہ کی تو انہیں اس دنیا میں بھی ذلیل ہونا پڑا اور آخرت میں دردناک عذاب بھی ان کا انتظار کر رہا ہے۔

1—ایک صالح معاشرہ کے قیام کے لئے آٹھ اہم  کام۔

ا- اللہ کی عبادت کرنااور شرک سے بچنا۔                           ب- والدین کے ساتھ حسن سلوککرنا۔                   ج- قرابتداروں کا خیال رکھنا۔      د- یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا۔               ہ- اورمسکینوں  کے حقوق کا پاس ولحاظرکھنا۔      و- لوگوں کے ساتھ قول حسن کا اہتمام رکھنا۔               ز- نماز قائم کرنا،                  ح- زکاۃ کی ادا کرنا۔ البقرۃ:83

2—اپنے ہم مذہب  لوگوں کو نہ قتل کرنا۔ نہ ان کے قتل وبے دخلی سے متعلق ان کے خلاف کسی ظالم کی مدد کرنا۔ اور نہ ہی انہیں ان کی جائداد سے بے دخل کرنا ۔ البقرۃ:84

گویا امت مسلمہ کو یہ تنبیہ کی گئی  ہے کہ اگر تم نے بھی یہود کی  اس روش کو اپنایا تو تمہارا انجام بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (85) البقرة  "بھلا جو لوگ ایسا کام کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا میں ذلیل وخوار ہوں اور قیامت کے دن وہ سخت عذاب کی طرف دھکیل دئے جائیں؟ اور جص کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔

3— نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ پر ایمان لانےکا عہد کرنا۔ البقرہ:89

4– کتاب الہی کی تعلیم وتعلم اور اس کی مکمل پیروی کا عہدکرنا۔    البقرہ:63

آیات 111 تا 113۔

یہود ونصاری  کی خام خیالی کہ جنت  ان کی وراثت اور جاگیرہے، ان کے علاوہ کسی دوسری جماعت کا اس میں داخلہ ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح  ان کے باہمی اختلافات اور ایک دوسرے کی تردید کا ذکر ہے ۔

یہ بیان کرکے اللہ تعالی نے فرمایا کہ” بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (112)البقرة "سنو! جو بھی اپنے آپ کو  اللہ کے سپرد کردے اور ہو بھی وہ محسن( نیک عمل کرنے والا) تو اسے اس کا رب پورا پورا  بدلہ دےگا ، اس پر نہ خوف وہگا ، نہ غم اور اداسی”۔

اس آیت میں اللہ تعالی یہود کو متنبہ کیا اور مسلمانوں کو بھی اس سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت دی گئی  کہ کسی جماعت سے  منسلک ہونے اور اس کی طرف نسبت کرنے  پر نجات کا دار وندار نہیں ہے ، بلکہ اصل جنات کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں۔

1—اسلام ۔ یعنی  بندے میں اسلام اور اللہ کے احکام ( عقائد واعمال)کے سامنے کامل سپردگی ہونی چاہئے۔

2—احسان ۔  یعنی یہ اسلام صرف دعوی کی حد تک نہ ہو بلکہ اسے مکمل عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔

آیات 114 تا 119 میں یہود ونصاری اور مشرکین کی  مسلمانوں کےبارےمیں اور اس سے پہلے  اللہ رب ذو الجلال کے بارے میں بعض   ظالمانہ حرکتوں  کا ذکر کر کے ان کی تردید کی گئی ہے، جیسے:

1—  لوگوں کو مسجدوں میں عبادت کرنےسے لوگوں کو روکنا اور  مسجدوں کو ویران بے آباد کرنے کے لئے کوشاں رہنا۔

"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ”. ’’اس شخص سے بڑھ  کر  ظالم کو ن ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر کیے جانے کو روکے اوران کی ویرانی کی کوشش کرے،ایسے   لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں داخل ہونا چاہئے،ان کیلئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔

اس آیت میں نصاری یا مشرکین مکہ کو سرزنش کی گئی ہے  جو اللہ کے گھر میں داخل ہونے  سے روکتے رہے ہیں ۔              [14]

2—اللہ کے لئے اولاد ٹھہرانا، 116، 118

اس کی تردید اللہ تعالی نے  پانچ عقلی دلیلوں سے کی ہے جو ان دو آیتوں میں مذکور ہیں۔ غور کریں۔2

3–  کفار مکہ کا یہودیوں کی طرح مطالبہ  کرنا کہ  اگر آپ سچے نبی ہیں تو کیوں نہیں اللہ تعالی نے ہم  سے گفتگو کرکے بتلایا ؟ ،یا  آپ کی نبوت ورسالت پر کوئی دلیل نازل کیوں نہ کی؟

اس کے جواب میں اللہ تعالی نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا کہ  اگر یہ لوگ یقین و ایمان کی دولت سے سرفراز ہوتے تو ان کے لئے  یہ قرآن بطور  دلیل کے کافی ہوتا۔

آیت120 میں  یہود ونصاری اور اسی طرح دیگر کافر قوموں کی  مسلمانوں کے ساتھ عداوت و دشمنی کا ذکر  کرکے مسلمانوں کو  خبردار  کیا گیا ہے کہ  ان کی دشمنی تمہارے ساتھ   ابدی اور شرعی ہے ، تم انہیں راضی کرنے کے لئے اپنے دین کے بارے میں خواہ کتنا ہی حق سے برطرفی سے کام لو  وہ تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ان جیسے نہ بن جاؤ۔  لہذا تمہیں ان سے ہوشیار رہنا چاہئے۔
آیات 124تا 126 میں یہ بیان ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر کس نے ؟ اور اس کی تعمیر کیسے ہوئی؟ اور کس مقصد کےلئے ہوئی؟۔

بیت اللہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔

اور اس تعمیر میں  حضرت اسماعیل علیہ السلام   بھی شریک رہے ۔

اور بیت اللہ  کی تعمیر کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:”وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ’’اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے یہ وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں،اعتکاف کرنے والوں اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کیلئے پاک کرو‘‘.

پھر ان دعاؤں کا ذکر بھی کیا ہے جو ابراہیم اور اسماعیل  علیہما السلام نے مسجد حرام  کو تعمیر کرتے ہوئے کی تھیں، جیسے

1– نیک اعمال کی قبولیت کی دعا:”رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ”اے ہمارے رب ! ہم سے قبول فرما، نے شک تو ہی نہایت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔[15]

2– اللہ تعالی سے عبادت کی تعلیم و توفیق کی دعا:”رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”. اے ہمارے رب! اور ہمیں اپنے لئے فرما بردار بنا، اور ہماری ذریت سے بھی ایک امت اپنے لئے فرما بردار بنا، اوہ ہمیں ہمارے عبادت کے طریقے سکھلا اور ہماری توبہ قبول فرما، بے شک تو ہی نہایت توبہ قبول کرنے والا اور نہایت ہی رحم کرنے والا ہے۔

3–نبی آخرالزماں کی بعثت کی دعا اور ان کی آمد کے مقاصد کا ذکر :”رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ” "اے ہمارے رب! ان میں نہی میں سے  ایک رسول بھیج جو ان پر تیرہ آیتیں پڑھے ، اور انہیں کتاب وحکمت سکھائے، اور انہیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر  غالب ، کلام حکمت والا ہے”۔

انہیں آیات میں اللہ تعالے کے ایک فیصلے کا ذکر بھی ہے کہ ” لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ ۔124″میرا عہد ظالموں کو نہیں ملتا۔ یعنی اللہ تعالی کے نزدیک  کسی کا نبی ورسول کے خاندان کا ہونا  یہ کافی نہین ہے ، بلکہ اللہ کا مقرب بننے کے لئے نبیوں کا سچا پیروکار ہونا ضروری ہے۔
” وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ” ’دین ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بے وقوف ہو‘‘اس آیت میں ملت ابراہیمی کی حقانیت اور اس کی اتباع کے وجوب کا ذکر ہے۔
توحید کی اہمیت کا بیان  ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی وصیت  حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام نے اپنی أولاد کو  کی تھی اور اس کی تعلیم دی [16]۔  [البقرہ:132]۔

اس سے ہمیں ایک بہت بڑا سبق ملتا ہے کہ وفات کے وقت وصیت کرنا انبیاء کی سنت ہے،  اوریہ کہ سب سے اہم وصیت توحیدو ایمان لانے  کی وصیت ہے۔

آیت 135 ، 136 میں یہود و نصاری کے اس باطل زعم کو غلط ٹھہرا تے ہوئے کہ وہ یہودی یا نصرانی ہیں لہذا اب انہیں کسی نئے مذہب کی اتباع کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر تنبیہ کرتے ہوئے انہیں  ملت ابراہیمی کے اتباع او رتوحید کی پابندی کی دعوت  دی گئی ہے ۔[البقرہ:135]
اور ساتھ ساتھ یہود ونصاری کے اس باطل نظریے کی تردید بھی کی گئی ہے کہ حق صرف ہمارے پاس ہے اور ہم ہی حق کے ٹھیکیدار ہیں۔ [البقرہ:136] ۔
آیت 137، 138 میں چند اصولی باتیں بیان ہوئی ہیں۔

1—صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم ہی معیار حق ہیں[17]۔ گویا ہر میدان( عقیدہ، عبادت، اخلاق اور معاملات) میں حق پر وہی جماعت ہے جو صحابہ کے منہج پر ہو۔{ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا} [البقرة: 137]

2–  جو شخص اس منہج کی پیروی کرے گا ، لازما اسے اللہ تعالی کی طرف سے کفایت حاصل رہے گی۔

3—اللہ تعالی کے نزدیک  ان خود ساختہ  لال، پیلے اور ہرے رنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، بلکہ اللہ کے رنگ میں رنگنے یعنی اس کے دین فطرت  کوقبول کرنے کی ضرورت ہے [18]۔

"تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ”’’یہ امت ہے جو گزر چکی جو انہوں نے کیا ان کیلئے ہے اور جو تم نے کیا تمہارے لئے،تم سے ان کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا ‘‘۔

یہ اس پارے کی آخری آیت ہے جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک نام ونسب کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور نہ اللہ تعالی کے ہاں کسی کی نسبت و تعلق یا اس کے رنگ و نسل کو دیکھا جاتا ہے، بلکہ اصل چیز ایمان اور عمل صالح ہے۔جیسا کہ اس سے پہلے آیت نمبر 124 میں اللہ تعالی نے اپنا ایک أصول اس طرح سے بیان فرمایا :”قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِين” ” اللہ تعالی نے فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں‘‘۔اس سے معلوم ہوا اگر ایمان اور عمل صالح نہیں تو پیغمبر کی أولاد یا ان کی نسل سے ہونا بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا [19] ۔

[1] —               دینِ حق کا تمام تر ماحصل جن چار باتوں میں محصور ہے ، ان تمام کو اس سورت میں جمع جر دیا گیا :

ا-        اللہ کی صفات کا جامع تصور اور ذاتِ با برکات کا جامع تعارف۔

ب—   جزا وسزا کت قانون کی یاد دہانی۔

ج—    معبودِ حقیقی سے تعلقات کی استواری اور استحکام کے ساتھ ساتھ اسے عقیدہ وعمل میں اختیار کرنے کا قرار وعہد وپیمان۔

د—     فلاح وسعادت کی راہ اور اس کی پہچان، کامیاب اور ناکام اقوام کے حوالوں سے۔               متاعِ قرآن ص:۱۷

[2] –حدیثوں میں اس سورت کوبڑی  اہمیت وفضیلت حاصل ہے۔ جن میں سے بعض درجِ ذیل ہیں۔

۱—     قرآن مجید کی سب سے عظیم سورت ہے۔

عظیم کا معنی ہے کہ یہ سورت دیگر سورتوں کے مقابلے میں اللہ تعالی کے نزدیک زیادہ اونچے مقام و مرتبہ کی حامل ہے اور اس کے پڑھنے کا اجر بھی دیگر سورتوں سے  زیادہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ یہ سورت دوسری سورتوں کا بدل  ہو جاتی ہے لیکن کوئی دوسری  سورت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔

حضرت ابوسعید بن معلی رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسی حالت میں بلایا۔ چونکہ میں نماز میں تھا اس لئے میں نے کوئی جواب نہیں دیا،پھر بعد میں، میں نے حاضر ہو کرعرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا ، اس لئے میں جواب نہ دے سکا۔ اس پر آپﷺنے فرمایا : ” أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: {اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ} [الأنفال: 24]. ثُمَّ قَالَ لِي: «لَأُعَلِّمَنَّكَ سُورَةً هِيَ أَعْظَمُ السُّوَرِ فِي القُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنَ المَسْجِدِ».” کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا ہے «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم‏» ”اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں بلائیں تو ہاں میں جواب دو۔“پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک ایسی سورت کی تعلیم دوں گا جو قرآن کی سب سے بڑی سورت ہے۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جب آپ باہر نکلنے لگے تو میں نے یاد دلایا کہ آپ نے مجھے قرآن کی سب سے عظیم سورت بتانے کا وعدہ کیا تھا۔(وہ بتلا دی جئے )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” {الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ} [الفاتحة: 2] «هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي، وَالقُرْآنُ العَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ» "الحمد لله رب العالمين‏» یہی وہ سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے”۔

صحيح البخاری؛4474،سنن ابوداود؛1458،سنن ابن ماجہ؛3785

۲–      کسی بھی آسمانی کتاب میں اس جیسی کوئی دوسری سورت  نازل نہیں ہوئی۔

یعنی معنی میں جامعیت کے لحاظ سے، اللہ تعالی کے نزدیک اہمیت کے لحاظ سے اور پڑھنے والے کےلئے اجر و ثواب کے لحاظ سے کوئی دوسری سورت کسی بھی آسمانی کتاب میں موجود نہیں ہے جو سورہ فاتحہ کا مقابلہ کر سکے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہایک باررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے۔ اس وقت ابی بن کعب نماز پڑھ رہے تھے۔ آپﷺنے فرمایا: ”اے ابی سنو! وہ آواز سن کرمتوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا۔ادھرانہوں نے جلدی جلدی اپنی نمازپوری کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: السلام علیک یا رسول اللہ! (اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک السلام (تم پر بھی سلامتی ہو) ، پھر آپ نے فرمایا:ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا:  جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی «استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم» ”اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں”)انفال ۲۴)،  انہوں نے کہا: جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی ،نہ انجیل میں، اور نہ زبور میں، اور نہ ہی قرآن میں؟“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ضرور سکھائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں تم (قرآن) کیسے پڑھتے ہو؟“ تو ابی بن کعب نے ام القرآن پڑھ کر سنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا ‌فِي ‌الْفُرْقَانِ ‌مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنِ الْعَظِيمِ الَّذِي أُعْطِيتُهُ. قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ تورات میں، انجیل میں، زبور میں (حتیٰ کہ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی (سات آیتیں) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے“۔

سنن الترمذي: 2875، مسند أحمد:9385، مستدرك الحاكم 1/557                                                                  دیکھئے صحیح سنن الترمذی:۲۳۰۷

۳–     سورہ فاتحہ ایک نور ہے جو نبیِ کریمﷺ کے علاوہ کسی اور نبی کو نہیں ملا ہے۔

اس سورت کو "نور” کہنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے پڑھنے اور اس کا اہتمام کرنے والے کو قیامت کے دن پل صراط پر سے گزرنے کے لئے نور دیا جائے گا۔  دوسرا مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ اس سورت کو پڑھنے  والے اور اس کا اہتمام کرنے والے کو اس دنیا میں ہدایت کا راستہ ملے گا۔ واللہ اعلم

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ اس درمیان کہ  جبرائیل علیہ السلام نبیِ کریمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک حضرت جبریل علیہ السلام نے اپنے اوپر کی جانب دروازہ کھلنے کی آواز سنی، تو اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا:  ” هَذَا بَابٌ مِنَ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ، فَقَالَ: هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ، فَسَلَّمَ، وَقَالَ: أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ: فَاتِحَةُ الْكِتَابِ، وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ ” یہ آسمان کا ایک دروازہ کھلا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ اترا ہے۔ پھر فرمایا کہ یہ ایسافرشتہ زمین پر آیا ہےجو آج سے قبل کبھی نہیں آیا ہے۔اس فرشتے نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کیا اور کہا: مبارک ہو! آپ کو دو نور دیا گیا ہے جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا، سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں، ان  میں سے جس ایک حرف  کی بھی آپ تلاوت کریں  گے تو (مضمون کی مناسبت سے وہ چیز آپ کو عطا کی جائے گی۔

مسلم:806  صلاۃ ،سنن النسائی؛913

۴–     ام القرآن ہونے کا شرف حاصل ہے۔

"ام” کے  معنی  اصل کے ہوتے ہیں، گویا یہ سورت قرآن  کی اصل یعنی جڑ یا بنیاد ہے۔ کیونکہ پورے  قرآن کے مضامین   اس میں جمع  کردئے گئے  ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ رضِ اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: «أُمُّ القُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي وَالقُرْآنُ العَظِيمُ» ” ام القرآن یعنی سورۃ الفاتحہ یہی سبعِ مثانی اور قرآنِ عظیم ہے”۔

البخاری؛4704

[3] — اصل میں یہ تینوں جذبات اسی سورت کی پہلی تین آیات سے واضح ہوئے ہیں۔ پہلی آیت سے محبت، دوسری آیت سے امید ورجا اور تیسری آیت سے خوف۔

[4] — اگر غور کریں توکلمہ "لاحول ولا قوة الا بالله” میں یہی مفہوم ادا ہوا ہے ۔

[5] — حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: وَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا قَرَأَ: الْبَقَرَةَ، وَآلَ عِمْرَانَ، ‌جَدَّ ‌فِينَا – يَعْنِي عَظُمَ – مسند أحمد:12215 یعنی ہم میں کا کوئی شخص اگر سور ہ بقرہ اور سورہ آ ل عمران  پڑھ لیتا تو اس کا مقام بڑا سمجھا جاتا۔

[6] — منافقین کے ذکر کے آخر میں فرمایا: ﵟوَلَوۡ شَآءَ ٱللَّهُ لَذَهَبَ بِسَمۡعِهِمۡ وَأَبۡصَٰرِهِمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيۡءٖ قَدِيرٞ ٢٠ ﵞ”اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کے کانوں اور آنکھوں کو بیکار کردے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھنے واﻻ ہے”۔ اس میں منافقوں کو یہ تنبیہ ہے کہ تم لوگ اللہِ قادر وقدیر کے احاطہ قدرت سے باہر نہیں ہو، وہ ذات ہر حال میں تمہیں ہلاک برباد کرسکتی ہے  اور تمہاری قوتِ بصارت وسماعت کو تم سے چھین سکتی ہے۔

[7] –قرآنِ مجید کا یہ عام اسلوب ہے کہ توحید ربوبیت سے توحید الوہیت ہر استدلال کرتا ہے،اسی مناسبت سے یہاں اپنی ربوبیت کے چار مظاہر ،جس میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے لوگوں کو یہ دعوت دی گئی ہے کہ اللہِ واحد کی عبادت بجا لائیں اور شرک سے پرہیز کریں۔

وہ مظاہر یہ ہیں۔

زمین کو فرش بنایا۔ یعنی اسے نرم اور رہنے کے قابل بنایا۔
آسمان کو چھت کی حیثیت دی۔
بارش کو نازل کیا۔ جو اس دنیا میں رہنے والی مخلوق کے رزق کا سب سے بڑا سبب ہے۔
بارش سے غلہ اور سبزہ وغیرہ کا اگنا۔

[8] —  چنانچہ آپ دیکھیں کہ آیت نمبر ۳۶ میں آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے اور دنیا میں اترنے کا ذکر آچکا ہے، جس کا انداز بطور سزا کے اتارے جانے کا ہے۔ لیکن آیت نمبر ۳۸ ، ۳۹ میں دوبارہ یہ بیان ہوا کہ”ﵟقُلۡنَا ٱهۡبِطُواْ مِنۡهَا جَمِيعٗاۖ فَإِمَّا يَأۡتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدٗى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ (٣٨) وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔايَٰتِنَآ أُوْلَٰٓئِكَ أَصۡحَٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمۡ فِيهَا خَٰلِدُونَ (٣٩) "ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف وغم نہیں”۔ یہ حکم بطور تکرار یا تاکید کے نہیں ہے، بلکہ یہاں اس مقصد کی تکمیل کا بیان ہے جس کے لئے حضرت آدم کی تخلیق ہوئی تھَ، یعنی خافتِ ارض۔ اسی لئے یہاں  اس کے ساتھ ساتھ یہاں ہدایت کے بھی نازل کرنے کا ذکر ہے۔

[9] — مفسرین کہتے ہیں کہ اس پارے میں بنی اسرائیل پر اللہ کی دس انعامات، ان کی دس بد سلوکیوں اور ان پر اللہ تعالی طرف سے نازل کردہ دس سزاوں کا ذکر ہے۔ تفسیر القرآن الکریم از حافظ عبد السلام  بن محمد ۱/۶۶

[10] — وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٰةَ وَٱرۡكَعُواْ مَعَ ٱلرَّٰكِعِينَ (٤٣)” اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔  اس آیت میں فرمانِ الہی” رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو” اس سے بہت سے علماء نے نماز باجماعت کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر

[11] — ﵟوَإِذۡ أَخَذۡنَا مِيثَٰقَكُمۡ وَرَفَعۡنَا فَوۡقَكُمُ ٱلطُّورَ خُذُواْ مَآ ءَاتَيۡنَٰكُم بِقُوَّةٍ وَٱذۡكُرُواْ مَا فِيهِ لَعَلَّكُمۡ تَتَّقُونَ (٦٣) ثُمَّ تَوَلَّيۡتُم مِّنۢ بَعۡدِ ذَٰلِكَۖ فَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ لَكُنتُم مِّنَ ٱلۡخَٰسِرِينَ (٦٤)” اور جب ہم نے تم سے وعده لیا اور تم پر طور پہاڑ ﻻکھڑا کردیا (اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہوجاتے”۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب تورات کے احکام کے متعلق یہود نے از راہِ شرارت کہا کہ ہم سے ان احکام پر عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالی نے طور پہاڑ کو سائبان کی طرح ان کے اوپر کر دیا ، جس سے ڈر کر انہوں نے تورات پر عمل کا عہد کیا۔  احسن التفاسیر ص:۲۸

[12] — ﵟوَإِذۡ قُلۡنَا ٱدۡخُلُواْ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةَ فَكُلُواْ مِنۡهَا حَيۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَداً وَٱدۡخُلُواْ ٱلۡبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغۡفِرۡ لَكُمۡ خَطَٰيَٰكُمۡۚ وَسَنَزِيدُ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (٥٨) فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوۡلًا غَيۡرَ ٱلَّذِي قِيلَ لَهُمۡ فَأَنزَلۡنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجۡزاً مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفۡسُقُونَ (٥٩)” اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو اور زبان سے حِطّہ کہو ہم تمہاری خطائیں معاف فرمادیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیاده دیں گے۔پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ﻇالموں پر ان کے فسق ونافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔

یعنی ان سے کہا تو یہ گیا کہ اس شہر میں  عاجزی کے ساتھ کرتے ہوئے اور "حطہ” یعنی اے اللہ ہمارے گناہوں کو معاف کردے کی دعا کرتے ہوئے داخل ہو تو انہوں نے کبر وجبروت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور کلمہ استغفار کا مذاق اڑاتے ہوئے "حطہ "کی جگہ "حنطہ” کا کلمہ کہتے ہوئے داخ ہوئے۔ ان کے اس جرم میں اللہ تعالی نے ان پر سختعذاب بھیجا، جس سے ان کی بڑی جماعت ہلاک ہوگئی۔

[13] — سبت یعنی ہفتے کا دن یہودیوں کو مچھلی کے شکار ، بلکہ کوئی بھی دنیاوی کام کرنے سے منع کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے ایک حیلہ  اختیارکر کے اس دن کی حرمت کو پامال کیاتھا۔ اس کی تفصیل سورہ اعراف میں مذکور ہے۔

[14] — گویا اگر مسجدوں سے منع کرنے کا مقصد اللہ کے ذکر سے روکنا نہ ہو، اور نہ ہی مسجد کو ویران کرنا  مقصودہو تو جائز ہے۔، جیسے موجودہ حالت میں کورونا بیماری کی وجہ سے مسجدوں کو  بند کرنا، اصلاح وتعمیر کے لئے مسجدوں کو بند کرنا، نماز کے علاوہ دیگر  اوقات میں چوری وغیرہ سے حفاظت کے لئے مسجدوں کو بند کرنا، یا کسی شخص کی وجہ سے فتنہ اور لڑائی کا ڈر ہو تو اسے مسجد سے روکنا وغیرہ، یہ تمام صورتیں مسجد  اور اہل مسجد کی مصلحت کے لئے ہیں ،نہ کہ مسجدوں میں اللہ کے ذکر کو روکنے اور مسجدوں کو ویران کرنے کے لئے ہے۔ تفسیر ابن عثیمین 2/8

2- ﵟوَقَالُواْ ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ وَلَداًۗ سُبۡحَٰنَهُۥۖ بَل لَّهُۥ مَا فِي ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ كُلٌّ لَّهُۥ قَٰنِتُونَ (١١٦) بَدِيعُ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلۡأَرۡضِۖ وَإِذَا قَضَىٰٓ أَمۡراً فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُۥ كُن فَيَكُونُ (١١٧)”یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اوﻻد ہے، (نہیں بلکہ) وه پاک ہے زمین و آسمان کی تمام مخلوق اس کی ملکیت میں ہے اور ہر ایک اس کافرمانبردار ہے۔ﵞ وه زمین اور آسمانوں کا ابتداءً پیدا کرنے واﻻ ہے، وه جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہوجا، بس وه وہیں ہوجاتا ہے”۔

۱–      وہ  پاک ہے۔جب وہ پاک  ہر عیب ونقص اور حاجت سے پاک ٹھہرا تو اسے اولاد کی ضرورت کیا؟       ۲- وہ آسمان وزمین کا مالک ۔ جب وہ آسمان اور زمین اور ان میں موجود مخلوق کا مالک ہے تو ہر چیز اس کی ملکیت ٹھہری ، اور مالک ومملوک باپ بیٹے نہیں ہوتے۔         ۳- سب اس کے تابعِ فرمان۔ جب کہ بیٹا سر کشی بھی کرسکتا ہے۔     ۴- آسمان اور زمین کو بلانمونہ پیدا کرنے والا ہے۔  جب کہ بیٹا باپ کا نمونہ ہوتا ہے۔ 5- جب اس کے کن کہنے سے سب کچھ ہو جاتا ہے  تو اسے اولاد کی کیا ضرورت۔  دیکھئے  تفسیر سورۃ البقرہ لابن عثیمین 2/16، تفسیر القرآن الکریم  از حافظ عبد السلام بن محمد

[15] — اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالی  اپنے اعمال کی قبولیت  کی  دعا کرتے رہنا چاہئے۔

[16] —

–[17] تفصیل کے لئے تفسیرمعارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر دیکھی جائے۔

[18] — حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متعدد سندوں سے مروی ہے کہ اللہ کے رنگ سے مراد اللہ تعالی کا دین ہے کیونکہ جس طرح  کپڑے پر رنگ چھایا رہتا ہے ویسے ہی دین کا اثر دیندار پر نمایاں رہتا ہے۔

[19] –نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:”مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ”کہ ’’جس کے عمل نے اسے پیچھے کردیا اس کا نسب اسے آگے نہیں کرے گا‘‘[مسلم(2699)]