پیشین گوئی/حديث نمبر :81

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :81

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ : 01 / 02 جمادی الآخرہ1430ھ، م 26/25مئی 2009

پیشین گوئی

عن عائشة ـ رضي الله عنها ـ قالت: قال رسول الله ـ صلّى الله عليه وسلّم ـ: ” يكون في آخر هذه الأمّة خسف ومسخ وقذف "، قالت: قلت: يا رسول الله، أنهلك وفينا الصالحون؟ قال: ” نعم، إذا ظهر الخبث "،

( أخرجه الترمذي: 2185 ، الفتن ، وصحّحه الألبانيّ.)

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میری اس امت کے آخری دور میں زمین میں دھنسا دئے جانے ، صورتوں کو مسخ کئے جانے اور پتھروں سے مارے جانے کا عذاب آئے گا ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اندر ابھی نیک لوگ موجود ہونگے پھر بھی ہم ہلاک کردئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں جب فسق و فجور عام ہوجائے گا تو ایسا ہوگا ۔ [ سنن الترمذی ] ۔

تشریح : آج کئی سالوں سے دنیا کے گوشے گوشے میں زلزلے ، سیلاب اور طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے ، آئے دن کسی نہ کسی جگہ سے زمین کے دھنس جانے ، فلک بوس عمارتوں کے زمین بوس ہوجانے بڑے بڑے شہروں کا سیلابوں اور طوفانوں کے زد میں آجانے کے واقعات سنائی دیتے ہیں ، ان آفات و بلا کی طبعی و فطری وجہ کوئی بھی ہو لیکن جس چیز سے انکار کی گنجائش نہیں ہے وہ یہ کہ سب کچھ انسانوں کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے ، موجودہ دور میں انسانی زندگی کاکوئی گوشہ نہیں ہے جہاں خالق و مالک زندگی کی کھلی نافرمانی دیکھنے میں نہ آرہی ہے ، یہی وہ چیز ہے جس کی پیشین گوئی صادق و مصدوق نبی امین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث حدیث میں فرمائی ہے ۔

ایک دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اس امت میں خسف [ زمین میں دھنسا دیا جانا ، زلزلہ ] مسخ [ صورتوں کا بدل جانا ] اور قذف [ اوپر سے پتھروں وغیرہ کا عذاب کی شکل میں برسنا ] ہوگا ، یہ سن کر ایک صحابی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! ایسا کب ہوگا تو آپ نے فرمایا : جب گانے والیاں عام ہوجائیں گی ہر جگہ باجے بج رہے ہونگے اور شراب عام پی جائے گی ۔

[ سنن الترمذی ، بروایت عمران ]

ایک تیسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اس امت کے لوگ خسف ، مسخ اور قذف کے عذاب میں مبتلا ہونگے ، اور ایسا اس وقت ہوگا جب تقدیر کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ متزلزل ہوجائے گا ۔

[ سنن الترمذی و سنن ابن ماجہ ، بروایت ابن عمر ]

ان حدیثوں سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ اس امت پر ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب لوگ زلزلوں ، صورت وسیرت کے مسخ ہوجانے اور آسمانسے پتھروں کے بارش جیسے عذاب میں مبتلا ہوں گے ،

اور ایسا اللہ تعالی کی طرف سے بطور ظلم نہیں بلکہ ان کی بعض بد اعمالیوں کے پاداش میں ہوگا ، جیسےزنا اور امور زنا اس قدر عام ہوجائے کہ لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت جاتی رہے گی گانے و باجے اس قدر عام ہوجائیں گے کہ ایک فتنہ کی شکل اختیار کرلیں گے ، شراب و منشیات کا دور دورہ اس قدر ہوجائے کہ دنیا کی سب سے بڑی تجارت بن جائے گی اور لوگ ایمان کے ارکان و مسلمات میں شک کرنے لگیں گے تو ایسے عذاب سے لوگ دو چار ہوں گے ۔

اس لئے ایک مومن کے لئے باعث تعجب نہیں ہے کہ ایسے تباہ کن حالات و ظروف پیش آرہے ہیں بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ ان امور کے پیش آنے کا جو حقیقی سبب ہے اس پر توجہ نہیں دی جارہی ہے اور اس کی حکمت الہی پر غور نہیں کیا جارہا ہے ، جو ان امور کے ظاہر ہونے میں پوشیدہ ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :

وَمَا نُرْسِلُ بِالآيَاتِ إِلاَّ تَخْوِيفًا۔ { الاسراء : 59 } ۔

اور ہم جو نشانیاں بھیجا کرتے ہیں تو ڈرانے کو

معلوم ہوا کہ ان آفات و بلا ء کا سبب خالق و ارض و سما کی نافرمانی اور اس کی علت لوگوں کو متنبہ کرنا اور اپنے خالق و مالک کی طرف لوٹنے کی دعوت دینا ہے ۔ حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں اور میرے ساتھ ایک شخص ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے ، میرے ساتھی نے سوال کیا : اے ماں ! زلزلے [ اور اس کی حکمت و سبب ] سے متعلق کچھ بتلائیے ؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : جب دنیا والے زنا کو حلال سمجھ لیں گے ، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی ، گانے باجے کا عام رواج ہوجائے گا تو آسمان میں اللہ تعالی کو غیرت آئے گی اور وہ زمین کو حکم دیگا کہ تو کانپ اٹھ ، پھر اگر لوگ توبہ کرلئے اور اپنی بد اعمالیوں سے رک گئے تو ٹھیک ورنہ زمین کو ان پر ڈھا دیتا ہے ، حضرت انس کہتے ہیں کہ میرے ساتھی نے عرض کیا : اے ام المومنین ! کیا یہ لوگوں پر اللہ تعالی کا عذاب ہوتا ہے ؟ مائی عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : نہیں ! بلکہ مومنوں کےلئے نصحیت ، ان کے لئے باعث رحمت و برکت ہوتا اور کافروں کے لئے سزا ، عذاب اور اللہ کی ناراضگی ہوتی ہے ۔

[ العقوبات لابن ابی الدنیا ، ص : 29 ] ۔

فوائد :

1 زلزلوں کی کثرت قیامت کی نشانی ہے ۔

2گناہ عذاب الہی کا سبب ہیں ۔

3 دنیا میں جو مصیبت و بلا بھی آتی ہے وہ لوگوں کے اپنے اعمال کی پاداش ہے ۔

4 زلزلوں کی آمد ، سیلاب و طوفان کا اٹھنا لوگوں کو متنبہ کرنے اور اپنے مالک کے حضور توبہ کی دعوت دینے کے لئے ہے ۔

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں