بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*چوتھا پارہ(لن تنالوا البر)*
چوتھےپارے کے دو حصے ہیں،پہلا حصہ سورت آل عمران کی109 آیات ( آیت 92سے آیت 200 تک)پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ سورت نساء کی ابتدائی 23 آیات پر مشتمل ہے ۔
o تیسرے پارے میں اہل کتاب خصوصا یہود سے متعلق گفتگو چل رہی تھی، چوتھے پارے کی ابتداء میں بھی وہی سلسلہ کلام جاری ہے، چنانچہ اہل کتاب کے اعتراضات کے جوابات یا ان کے غلط نظریات کی تردید کے طور پر یہاں چند باتیں کہی گئی ہیں:
1) دیندار یا اللہ کا محبوب بننے کیلئے جان ومال کی قربانی پیش کرنا ضروری ہے۔اللہ تعالی نے فرمایا:”لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ”[آل عمران:92]” ’’تم نیکی کو اس وقت تک ہرگزنہیں پہنچ سکتے جب تک اس میں سے خرچ نہ کرو جس سے تم محبت کرتے ہو،اور تم جو چیز بھی خرچ کرو گے اللہ تعالی اس کے بارے میں خوب جاننے والا ہے‘‘۔
2) یہودیوں کا نبی ﷺ پر ایک اعتراض یہ تھا کہ آپ دعوی تو ملتِ ابراہیمی کی پیروی کا کرتے ہیں اور دوسری طرف اونٹ کا گوشت بھی کھاتے ہیں۔حالانکہ اونٹ کا گوشت تو ملتِ ابرہیمی میں حرام ہے۔
اس کے جواب میں اللہ تعالی نے فرمایا : تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ اونٹ کا گوشت تمہارے اوپر حرام کیا گیا ہے،وہ تو تورات نازل ہونے سے پہلے حضرت یعقوب علیہ السلام نے( کسی مصلحت یا بیماری کی وجہ سے)اپنے اوپر حرام خود ہی کر لیا تھا۔[آل عمران:93] ۔
3) قبلہ کی تبدیلی پر بھی انہوں نے اعتراض کیا کہ جب بیت المقدس پچھلی امتوں سے قبلہ چلا آ رہا ہے تو کعبہ کو قبلہ بنانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟
اس کا جواب انہیں یہ دیا گیا کہ کعبہ مشرفہ کی تعمیر بیت المقدس سے کافی عرصہ پہلے ہو چکی تھی ،اوریہ وہ پہلا گھر ہے جسے اللہ کی عبادت کیلئے تعمیر کیا گیا ،لہذا اگر مسلمان اسے اپناقبلہ بناتے ہیں تو تمہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔[آل عمران:96]
o پھر اس کے بعد حج کی فرضیت کا اعلان کیا اور ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا کفر ہے ۔[آل عمران:97]
o آیت 100 سے اس سورت کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے اوراب یہاں سے خطاب کا رخ عموما مسلمانوں کی طرف ہے۔ گویا اس دنیا کی قیادت اب انہیں سونپی جارہی ہے، اس لئے انہیں اس مقام پر بڑی اہم ہدایات دی گئی ہیں:
1) اہل کتاب کی مشابہت اور پیروی سے اجتناب کرنا ہے ، ان کے مکر ور چال سے ہوشیار رہنا ہے ۔ نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت کرنی ہے [آل عمران:101،100] ۔
2) اپنے اندر تقوی پیدا کرنا ہوگا [آل عمران:102] ۔
3)اسلام پر ثابت قدم رہنا ہوگا [آل عمران:102] ۔
4)باہمی اتفاق پر توجہ دینی ہو گی [آل عمران:103] ۔
5) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو اپنانا ہوگا [آل عمران:104] ۔
6) اہل کتاب سے خوف کھانے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ تھوڑا بہت ستانے کے سوا تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔[آل عمران:111]۔
7)انہیں ہرگز اپنا دلی دوست او رراز دار نہ بناؤ۔ کیونکہ وہ ہر طرح سے تمہیں ضرر پہنچانے کی کوشش کریں گے۔[آل عمران:118] ۔
o اسلام کی خوبی یہ ہے کہ یہ انصاف کا مذہب ہے، یہ عدل کا دامن کبھی نہیں چھوڑتا،چنانچہ پچھلے پارے میں یہود سے متعلق فرمایا تھا کہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں اگر ان کے پاس ایک بہت بڑا خزانہ بھی بطور امانت رکھ دو تو وہ اسے پوری دیانتداری کے ساتھ لوٹا دیں گے[آل عمران:75] ۔ اوراس پارے میں شاید نصاری سے متعلق یہ فرمایا کہ وہ سارے برابر نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے او رسجدے کرتے ہیں[آل عمران:113] ۔
یعنی تمام خرابیوں کے باوجود ان میں انصاف پسند اور حق گو لوگ بھی ہیں۔
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بالکل عام حکم نہیں لگانا چاہئے ، بلکہ امرِ واقعہ کے مطابق حکم لگانا چاہئے۔واللہ اعلم
آیت
o آیت نمبر 120لے کر آیت نمبر 175 تک غزوہ احد پر تبصرہ کیا گیا ہے اور اس کے بعض حادثات کا ذکر کیا گیا ہے۔عصر حاضر میں خصوصا اس مقام کو پڑھنے اور غور وفکر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
o اس ضمن میں متعدد ایسی باتوں پر زور دیا گیا ہے جو اسلامی معاشرے کیلئے ضروری ہیں :
1) مال کی محبت ،رسول ﷺ کی نافرمانی اور باہمی اختلاف اس امت کی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں[آل عمران:152]
بلکہ کسی قوم یا جماعت کاان تینوں خرابیوں میں مبتلا ہونا دشمن کے مقابلے میں شکست کے اہم اسباب میں سےہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے اس ضمن میں سود سےبھی اہل ایمان کو منع کیا ہے[آل عمران:130] اس لئے کہ سود خوری مال سے محبت کی انتہائی گھٹیا صورت ہے۔
2)تقوی اور صبر کامیابی کیلئے ضروری ہے[آل عمران:120] ۔
3) مسلم معاشرے یا اس کے افراد کے اندر مندرجہ ذیل اوصاف کا پایا جانا بہت ضروری ہے:*تقوی*خوشحالی و تنگدستی دونوں حالتوں میں اللہ کی راہ خرچ کرنا*غصے کو پی جانا*لوگوں سے درگزر کرنا*احسان یعنی نیک سلوک کرنا*گناہوں پر معافی مانگنا* اور نافرمانی پر اصرار نہ کرنا۔ [آل عمران:133-135] ۔
4)بشرط ایمان وکامل اطاعت بلندی اور غلبہ مسلمانوں کو حاصل رہے گا ۔
5)ہار جیت اس دنیا کا ایک نظام ہے”تِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ”. ’’ان دنوں کو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں‘‘ ۔
البتہ من حیث جماعت شکست میں بھی مسلمانوں کیلئے بہت سے فائدے ہیں، جیسے:*ایمان و اخلاص اور کفر ونفاق میں تمییز کرنا*بعض مسلمانوں کا شہادت کے مقام پر فائز ہونا*مومنوں کے گناہوں کا کفارہ بننا اور انہیں بلند مقام عطا کرنا۔ *کفار کی طاقت کا خاتمہ۔ کیونکہ جب مسلمان ایک مرتبہ شکست کھا جائیں گے تو اگلی مرتبہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ آئیں گے اور اس طرح کافروں کی قوت کا خاتمہ ہو جائے گا، جیسا کہ غزوہ احد کےبعد غزوہ خندق میں ہوا۔ (سورت آل عمران کی آیت 140 اور 141 میں ان تمام باتوں کاذکر ہے )۔
o اللہ کے راستے میں شجاعت اور شہادت پربھی کافی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس ضمن میں منافقین پر سخت تنقید کی گئی ہے جو مسلمانوں میں پست ہمتی پیدا کرنا چاہتے تھے۔ [آل عمران:157،156،154] ۔
o اس سورت کی آیت نمبر 172 تا 175 میں اللہ کے رسول ﷺ اور اہل ایمان کا وہ دلیرانہ موقف بھی بیان کیا گیا ہے جو غزوہ حمراء الاسد کے موقع پر پیش آیا ۔
o یہود کی بعض بدکرداریوں، بد عہدیوں اور متناقض عقائد وخیالات کا بھی ذکر ہے۔ مثلا:
o ان کا اللہ تعالی کوفقیر کہنا اور انبیاء کو نا حق قتل کرنا [آل عمران:181]
o نیز یہ کہنا کہ ہم صرف اسی رسول پر ایمان لائیں گےجو ایسی قربانی لائے جسے اللہ تعالی کے یہاں قبولیت کی نشانی کے طور پر آگ کھا لے ۔
o اللہ تعالی نے ان کی تردید میں فرمایا:حالانکہ اس سے پہلے کئی رسول ان کے مطالبے کے ساتھ مبعوث کئے گئے، لیکن انہوں نے پھر بھی انہیں جھٹلا دیا[آل عمران:183] ۔
o پھر اس کے بعد اہل ایمان کو پیشین گوئی کے طور پر تنبیہ کی گئی ہے کہ باطل گروہ کی طرف سے تمہیں تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ اپنے قول و فعل کے ذریعے تمہیں ایذا دینے سے باز نہیں آئیں گے۔ اس موقع پر تمہیں صبر اور تقوی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے [آل عمران:186] ۔ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ ایسے حالات سے نپٹنے کے لئے ذہنی طور پرتیار رہیں۔
o آیت ۱۸۷ تا 189 اہل کتاب کی اس قبیح حرکت کا ذکر ہے جو وہ کتاب الہی کے ساتھ کیا کرتے تھے۔چنانچہ اللہ تعالی نے ان سے یہ عہد لیا تھا کہ احکام الہی کو لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کریں گے اور ان میں سے کچھ نہ چھپائیں گے۔ لیکن انہوں نے اس عہد کی پرواہ کئے بغیر ایک طرف احکام الہیہ کو چھپاتے رہے اور دوسری انہیں دنیا کی معمولی پونجی کے عوض بیچ کھاتے رہے۔
o نیز ان کی ایک غلطی یہ بھی تھی کہ وہ خود نیک عمل کرتے نہ تھے لیکن یہ چاہتے تھے کہ لوگ انہیں نیک سمجھیں اور اس پر ان کی تعریف کریں۔
اس پر اللہ تعالی نے یہ وعید سنائی کہ ان کا یہ کام بہت ہی برا ہے اور یاد رکھیں کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب الہی سے بچ نکلنے کی کوئی راہ نہ بچے گی ۔
o اس سورتِ مبارکہ کا اختتام ان گیارہ آیات پر ہوا ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ان کی اہمیت کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب نبی ﷺ تہجد کیلئے اٹھتے تھے تو آسمان کی طرف منہ کرکے ان آیات کی تلاوت فرمایا کرتے تھے[بخاری(4570)بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہما]۔
اسی طرح ایک مرتبہ آپ ﷺ فجر کی سنتیں پڑھ کرپہلو پر لیٹے ہوئے تھے اور رو رہے تھے ،حضرت بلال جب آپ کو نماز کیلئے بلانے کیلئے آئے تو روتے ہوئے دیکھ کر وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا: میں کیوں نہ رؤوں جب کہ آج کی رات مجھ پر ایسی آیات نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص انہیں پڑھے اور ان پر غور وفکر نہ کرے، اس کیلئے ہلاکت و بربادی ہے۔[صحیح ابن حبان:620 براویت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا] دیکھئے الصحیحۃ:۶۸۔
o ان آیات میں اللہ کی پیدا کردہ اس کائنات میں غور وفکر کی دعوت ہے ۔ کیونکہ اللہ پر ایمان کا اہم ترین ذریعہ اس کائنات میں تفکر وتدبر ہے۔
o کسی بشرکا اللہ کی کائنات میں غور وفکر کرنا اس کے عقل وخرد سے مالا مال ہونے کی دلیل ہے۔
o وہ لوگ اہل خرد ہیں جو اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے اور سوتے جاگتے ہر حال میں اللہ کے ذکر اور اس کی لامحدود کائنات میں فکر کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
o وہ لوگ اہل خرد ہیں جو اللہ خالق کائنات سے خوف کھاتے ہوئے اس کی گرفت سے پناہ مانگتے رہتے ہیں اور اس کے داعی کی دعوت پر لبیک کہنے اور اس پر بلا جھجھک ایمان لانے کا وسیلہ پکڑ کر یہ دعا کرتے ہیں کہ "رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ هَٰذَا بَٰطِلاً سُبۡحَٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ ٱلنَّارِ (١٩١)” اے اللہ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔ ﵟرَبَّنَآ إِنَّكَ مَن تُدۡخِلِ ٱلنَّارَ فَقَدۡ أَخۡزَيۡتَهُۥۖ وَمَا لِلظَّٰلِمِينَ مِنۡ أَنصَارٍ (١٩٢)”ﵞ اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے یقیناً تو نے اسے رسوا کیا، اور ﻇالموں کا مددگار کوئی نہیں”۔
o اللہ تعالی ان کی اس مخلصانہ طلب کو قبول کرنے کا وعدہ بھی کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ تنبیہ بھی فرماتا ہے کہ ان اوصاف کے حقیقی مستحق وہ بندے ہیں جو اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کرتے اور اس کے دین کے لئے اپنے جان ومال کی بازی لگادیتے ہیں۔
o یہی وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے اعمالِ صالحہ ضائع نہ ہوں گے ، ان کے گناہ معاف کر دئے جائیں گے اور انہیں جنتوں میں داخلہ ملے گا۔
o آگے کی آیتوں میں مسلمانوں کو چند حقائق یاد دلائے گئے ہیں
1- ایک فقہی اصول کی تمام شرعی احکامات مرد وزن ہر ایک کے لئے برابر کا درجہ رکھتے ہیں، اور دونوں کے لئے جزا وسزاکا ایک ہی قانوں ہے ۔
2- کافروں کو اس دنیا میں جو مہلت ملی ہے اس سے مسلمانوں کو دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ انہیں چند دن کی مہلت ہے جو ڈھلتی چھاؤں کی طرح جلد ہی ختم ہوجانے والی ہے۔
3- حقیقی کامیابی ایمان اور تقوی کے حاملین کو ہے ، جنہیں جنت اور آخرت میں بے بہا نعمتیں ملنے والی ہیں ۔
4- اہل کتاب کے وہ لوگ جو تمہاری طرح اس نبی پرایمان لائےاور عام ہم مذہب لوگوں کی طرح اللہ کی آیات کو دنیا کی معمولی پونجی کے بدلےنہیں بیچا، اللہ کے پاس ان کے لئے اجر عظیم ہے ۔
o اس سورت کی آخری آیت میں کامیابی کے چار اصول بیان ہوئے ہیں: 1) صبر ۔2) ثابت قدمی ۔3) نیکی اور اطاعت کیلئے مکمل طور پر تیار رہنا۔ 4) تقوی۔
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (200)” اے ایمان والو! تم ﺛابت قدم رہو اور ایک دوسرے کو تھامے رکھو اور جہاد کے لئے تیار رہو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو”۔
سورت النساء:
یہ سورت مدنی ہے۔
یہ سورت ان سات سورتوں میں سے ایک ہے جنہیں السبع الطوال(سات لمبی سورتیں) ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
اس سورت کا بنیادی موضوع تین چیزوں کے اردگرد گھومتا ہے۔
1) خواتین کے حقوق اور وراثت کے مسائل ۔
2) یہود اور منافقین کے مکر و فریب کا ذکر اور اس پر کاری ضرب ۔
3) اسلامی معاشرہ سے متعلقہ مسائل جیسے قتل و قصاص وغیرہ کے احکام۔
اس سورت کو "سورت النساء الکبری” بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں خواتین سے متعلقہ تقریبا اکثر مسائل آ گئے ہیں ۔اور”سورت الطلاق” کو "سورت النساء الصغری” کہا جاتا ہے ۔
o سورت کی ابتداء میں اللہ تعالی کے تقوی اور صلہ رحمی کی وصیت کے بعد یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کا ذکر ہے۔
o یتیموں کےحقوق کی حفاظت کے ضمن میں تعدد ازواج (ایک سے زیادہ شادی)کی اجازت اور اس کے بعض شرطوں کا ذکر آیاہے۔
o عورتوں کے مہر کی ادائگی اور بخوشی ادائگی کی تاکید وارد ہے۔
o یتیموں کے مال کے نگراں کو تین بڑی اہم ہدایت دی گئی ہیں جس سے جہاں ایک طرف مال کے بارے اسلام کا نقطہ نظر سامنے آتا ہے کہ مال اور اور اس کی نگہداشت بڑی اہم چیز ہے، وہیں دوسری طرف کسی کے مال کی حفاظت ونگرانی کے اصول کیا ہیں ان کی طرف رہنمائی ہے۔
o یتیموں کے مال اور ان کی نگرانی سے متعلق یہاں چار بڑی اہم ہدایات ہیں۔
1- یتیموں کی صحیح تعلیم وتربیت کا اہتمام۔
2- اس بارے میں بنیادی اصول یہ کہ ان کے مال کی مکمل حفاظت اللہ کی رضا کے لئے کی جائے اور اس پر کوئی معاوضہ نہ لیا جائے، اور اگر مجبوری ہوتو دستور اور معروف کے مطابق اس مال سے فائدہ اٹھائے اور بے جا خرچ نہ کرے۔
3- جب یتیم بچوں میں دو صلاحیتیں پائی جائیں تو ان کے مال ان کے حوالے کردیا جائے، ایک بلوغت اور دوسرے احساس ذمہ داری۔
4- یتیموں کا مال جب ان کے حوالے کیا جائے تو قابل اعتماد اور نیک لوگوں کو گواہ بنا لیا جائے ۔
o آیت 11 تا 14 میں وراثت کے مسائل کا ذکر ہے۔
o اس مقام پر تمام قرابت داروں (جیسے ماں، باپ ،اولاد اوربیوی ) کے حصے متعین کرتے ہوئے بڑی جامعیت کے ساتھ وراثت کے تقریبا تمام بنیادی مسائل بیان کر دئیے گئے ہیں۔
o ان تمام احکام کے ساتھ دو باتوں پر خصوصی توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک تو یہ کہ وراثت کی تقسیم سے پہلے میت کے قرض کو ادا اور اس کی وصیت کو نافذ کیا جائے۔ دوم یہ تقسیم "اللہِ علیم وحکیم” کی طرف سے ہے، جس کا معنی یہ ہے کہ یہ تقسیم علم و حکمت کی بنیاد پرکی جا رہی ہے، لہذا کسی مسلمان کو اس بارے میں کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے ۔
o آیت ۱۲ میں کلالہ کی صورت میں اخیافی بھائی بہن کا حصہ بیان کیا گیا ہے۔البتہ دیگر بھائی بہنوں کا حکم اسی سورت کے آخری آیت میں بیان ہوا ہے۔
o اور ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ میراث کے اس نظام میں تبدیلی یا رد و بدل یا ان میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی رسوا کن عذاب کا باعث ہے۔النساء:14
o پھر زنا کی سزا کے ابتدائی مرحلے بیان ہوا ہے کہ ایسی عورتیں جن کے زنا کے مرتکب ہونے پر چار گواہ گواہی دے دیں تو انہیں اس وقت تک گھروں میں بند کرکے رکھو جب تک انہیں موت نہ آجائے یا اللہ تعالی ان کے بارے میں کوئی اور حکم نازل فرمادے[النساء:15]
o اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا جو مرد وعورت زنا کا ارتکاب کریں یا دومرد جو اغلام بازی کریں، انہیں سزا دو ، ہاں اگر وہ توبہ کر لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ [النساء:16] ۔
o اس کے بعد توبہ کی قبولیت کی بعض شرائط بیان ہو ئی ہیں:
1)خطا نادانی سے ہوئی ہو ۔ اللہ کے مقابلے میں دلیری سے نہیں ہونی چاہیے[النساء:17] ۔
2)توبہ کا وقت باقی ہو۔ یعنی توبہ موت سے پہلےپہلے ہونی چاہیے ۔[النساء:18] ۔
3) حالت کفر پر مرنے والے کی توبہ قبول نہیں ہے۔
o آیت 19 سےعورتوں سے متعلق مسائل شروع ہوئے ہیں او ران کے بعض بنیادی حقوق بھی ذکر کیے گیے ہیں، اور ان پر کسی بھی طریقے سے ظلم وستم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
o یہاں عورتوں کے ذمہ داروں کو چند اہم وصیتیں کی گئی ہیں:
1)عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو۔[النساء:19] .
2) عورت کی ٹیڑھ پن پر صبر کرو۔
3)انہیں وراثت کے حق سے محروم کرنا حرام ہے[النساء:19] ۔
4)(طلاق کے بعد ان سے کچھ ہتھیانے کیلئے) انہیں دوسری جگہ شادی سے روکنا جائز نہیں[النساء:19] ۔
5)مرد کی طرف سےطلاق کی صورت میں ان کاحق مہر پورا دیا جائے، خواہ وہ مہر بہت بڑی رقم ہی کیوں نہ ہو۔ [النساء:20]
۶) بیویوں کو دیا ہوا مال لینا ازداوجی تعلقات کے تقاضے کے خلاف ہے۔آیت:۲۱
o باپ کی منکوحہ (سوتیلی ماں) سے شادی کی حرمت کی تاکید کی ہے،کہ وہ کسی بھی صورت میں باپ کی اولاد کے لئےجائز نہیں ہے۔
o اس پارے کے آخر میں ان خواتین کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔وہ درجِ ذیل ہیں۔
1)باپ کی منکوحہ یعنی سوتیلی ماں۔
2)سات خواتین جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں؛ماں ،بہن،بیٹی،پھوپھی،خالہ،بھانجی اور بھتیجی۔
3)رضاعت کی وجہ سے دو خواتین حرام ہیں؛رضاعی ماں رضاعی بہن ۔
۔ 4)سسرالی تعلق کی وجہ سے ساس،بہو،ربیبہ(عورت کی وہ بیٹی جو اس کے سابقہ خاوند سے ہو) اور دو بہنوں کو بیک وقت ایک نکاح میں جمع کرنا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1] — اور یہ حکم صرف اہل کتاب کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں سب سے اس کا مطالبہ ہے۔اس لئے اس میں ہمارے لیے ایک عملی درس یہ ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں اپنی کوئی محبوب سے محبوب تر چیز اللہ کیلئے وقف کرنی چاہیے۔
[1] — یاد رہے کہ یہ کفر دون کفر ہے یعنی اس کی وجہ سے بندہ بہت بڑے گناہ کا مرتکب تو ہوگا لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔
[1] –بلکہ ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تین شکست کےبنیادی اسباب ہیں: ۱- اختلاف۔ ۲- اللہ ورسول کی نافرمانی۔ ۳-اور کسی ایک ہی ذات پر اعتماد۔
[1] –اس آیت میں یہ خصوصی ہدایت ہے کہ ایک بندہ اگر مومن ہواور متبع رسول ہو تو حالات وحوادث کے موقعے پر نہ اسے پست ہمت اور دل شکشتہ ہونا چاہئے اور نہ ہی اپنے دل میں غم وحزن کو جگہ دینی چاہئے۔
[1] — اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ احد سے پلٹ کر قریش جب چن منزل دور چلے گئے تو آپس میں کہنے لگے کہ ہم یہ کیا حماقت کی کہ مسلمانوں کا اچھی طرح خاتمہ کئے بغیر واپس چلے آئے، چنانچہ وہ لوگ مدینہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگے۔ ادھر جب آپﷺ نے بھی خطرہ محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو بھی مشرکین کے تعاقب کے تعاقب میں نکلنے کا حکم دیا، اس وقت احد میں شرک مسلمان اگر چہ سخت زخمی، غموں سے نڈھال اور تھکے ہوئے تھے لیکن اللہ اور رسولﷺ کے حکم کی تعمیل میں فورا نکل کھڑے ہوئے، اور نکل کر مدینہ منورہ دور آٹھ میل کے فاصلے پر حمراء الاسد نامی مقام پر قیام پذیر ہوئے۔ ابھی مسلمان وہیں پر ٹھہرے تھے کہ ایک تجارتی قافلے کے ذریعے ابو سفیان نے رسول اللہﷺ اور مسلمانوں کی طرف یہ افواہ پھیلائی کہ قریش نے ایک بہت بڑی فوج اکٹھا کرکے مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے جا رہا ہے۔یہ سن کر مسلمانوں میں خوف اور کمزوری کے بجائے مزید ایمانی قوت کا مظاہرہ کیا اور یہ کہتے ہوئے " حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ” مقابلہ کے لئے تیار ہوگئے۔ اس تفصیل کی روشنی میں ان دونوں آیتوں آیتوں کو غور سے پڑھئے۔ الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ (172) الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (173) فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ (174) إِنَّمَا ذلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ (175) ” جن لوگوں نے اللہ اور رسول کے حکم کو قبول کیا اس کے بعد کہ انہیں پورے زخم لگ چکے تھے، ان میں سے جنہوں نے نیکی کی اور پرہیزگاری برتی ان کے لئے بہت زیاده اجر ہے۔ وه لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لئے ہیں، تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وه بہت اچھا کارساز ہے۔ (نتیجہ یہ ہوا کہ) اللہ کی نعمت وفضل کے ساتھ یہ لوٹے، انہیں کوئی برائی نہ پہنچی، انہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی پیروی کی، اللہ بہت بڑے فضل واﻻ ہے۔ یہ خبر دینے واﻻ صرف شیطان ہی ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے تم ان کافروں سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو، اگر تم مومن ہو”۔
[1] –لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (186)” یقیناً تمہارے مالوں اور جانوں سے تمہاری آزمائش کی جائے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کر لو اور پرہیزگاری اختیار کرو تو یقیناً یہ بہت بڑی ہمت کا کام ہے”۔
[1] — ﵟلَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ يَفۡرَحُونَ بِمَآ أَتَواْ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحۡمَدُواْ بِمَا لَمۡ يَفۡعَلُواْ فَلَا تَحۡسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ ٱلۡعَذَابِۖ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ (١٨٨)”وه لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارا میں نہ سمجھئے ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے۔
یہ آیت اور اس سے پہلے کی دو آیتوں میں گویا ایک طرف اس امت کے علماء ودعاۃ اور مقررین وخطباء کو یہ تنبیہ ہے کہ کتاب وسنت سے ثابت حق بات کو چھپانے کا جرم نہ کریں۔ کیونکہ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے : جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی ہواور اس نے اسے چھپایا ہوتو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی ۔ سنن ترمذی:2649 بروایت ابو ہریرہ۔
دوسری طرف منافقوں اور کمزور ایمان والوں کو یہ تنبیہ ہے کہ لوگوں کو دکھانے کے لئے نیک عمل کرنا اور جس عمل خیر کو کیا ہی نہیں اس پر مدح وستائش کی امید رکھنا اپنے آپ کو اللہ تعالی کے عذاب کےحوالے کردینے کے ہم معنی ہے۔
[1] — یعنی اصل یہ ہے کہ اگر شریعت کسی کام کا حکم دیتی ہے تو اس کے مکلف جس طرح مرد ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں، الا یہ کہ کسی حکم کو مردوں یا عورتوں کے ساتھ خاص کر دیا جائے۔
[1] — لَا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فِي ٱلۡبِلَٰدِ (١٩٦) مَتَٰعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأۡوَىٰهُمۡ جَهَنَّمُۖ وَبِئۡسَ ٱلۡمِهَادُ (١٩٧)” تجھے کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا فریب میں نہ ڈال دے۔ یہ تو بہت ہی تھوڑا فائده ہے، اس کے بعد ان کا ٹھکانہ تو جہنم ہے اور وه بری جگہ ہے”۔
یعنی دنیا کے وسائل، آسائشیں اور سہولتیں کا فروں کو دنیا میں خواہ کتنی ہی حاصل ہوں ، ان سے ایک مسلمان کو دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ درحقیقت یہ متاعِ قلیل ہے۔ کیونکہ بالآخر انہیں فنا ہونا ہے اور ان کے فنا ہونے سے پہلے یہ لوگ خود بھی فنا ہو جائیں گے، جو ان کے حصول کی کوششوں میں اللہ کو بھی فرموش کئے رکھتے ہیں اور ہر قسم کی اخلاقی ضابطوں اور اس کی حدوں کو فراموش کرتے ہیں”۔
[1] — نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو دوگنا اجر ملنے والا ہے، پہلا وہ شخص جس کے پاس لونڈی تھی، اس نے لونڈی کی تعلیم وتربیت کا خوب خیال رکھا اور پھر آزاد کرکے اس سے شادی کرلی،اسے دوگنا اجر ہے۔ دوسرا وہ شخص جو پہلےاہل کتاب کا مومن تھا، پھر نبی کریمﷺ تشریف لائے تو ان پر بھی ایمان لایا، اسے بھی دوگنا اجر ہے۔ تیسرا وہ غلام جو اپنے رب کا حق ادا کرتا ہے اور اپنے دنیاوی مالک کے ساتھ بھی خیر خواہ ہے۔ صحیح البخاری:3011، صحیح مسلم:154 بروایت ابو موسی الاشعری
[1] — اس سے مراد ابردائے مصحف کی سات سورتیں ہیں، جنکے نام اور ان کی آیات کی تعداد درجِ ذیل ہے۔ ۱- البقرہ: ۲۸۶، ۲- آ عمران: ۲۰۰ ۔ ۳-النساء:۱۷۶۔ ۴- المائدہ:۱۲۰۔ ۵- الانعام:۱۶۵۔ ۶- الاعراف:۲۰۶۔ ۷- التوبۃ:۱۲۹۔
ان سات سورتوں کی شان میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:«مَنْ أَخَذَ السَّبْعَ الْأُوَلَ فَهُوَ حَبْرٌ» کہ جس نے پہلی سات سورتیں لے لیں یعنی انہیں سیکھ لیا وہ عالم (اور فقیہ ) ہے[1][مسند أحمد (24443) بروایت عائشہ رضی اللہ عنہا] ۔
[1] — کسی ہندو شاعرہ نے کیا خوب کہا ہے: حقوق عورت کے مردوں کے تئیں گر جاننا چاہو کلام پاک کی سورہ نساء کو یاد کرلینا
[1] — بلکہ اس سورت کا عام حصہ کمزوروں کے حقوق پر مشتمل ہے۔ جیسے عورت، یتیم بچے اور بچیاں، کم عقل اور نا سمجھ لوگ، کمزور وارث، مظلوم ، مریض، مسافر اور وہ شخص جسے تجارت کا خاص تجربہ نہ ہو۔ المجالس القرآنیہ ص:۹۵
[1] — مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَآ أَوۡ دَيۡنٍۗ ءَابَآؤُكُمۡ وَأَبۡنَآؤُكُمۡ لَا تَدۡرُونَ أَيُّهُمۡ أَقۡرَبُ لَكُمۡ نَفۡعاًۚ فَرِيضَةً مِّنَ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيماً (١١)”یہ حصے اس وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے واﻻ کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد، تمہارے باپ ہوں یا تمہارے بیٹے تمہیں نہیں معلوم کہ ان میں سے کون تمہیں نفع پہچانے میں زیاده قریب ہے، یہ حصے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کرده ہیں بے شک اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمتوں واﻻ ہے”۔
بلکہ وصیت و قرض کا ذکر ۱۱، ۱۲ نمبر آیتوں میں چار بار آیاہے۔ اور میراث کی ہر آیت کا خاتمہ اللہ تعالی کے اسمِ پاک”العلیم” پر ہے۔
[1] — اگر کوئی شخص فوت ہوجائے، اس کا نہ والد ہو اور نہ اولاد تو اسے شرعی اصلاح میں کلالہ کہا جاتا ہے، ایسی صورت میں اس کے ورثہ کو دینے کے بعد جو مال بچے گا وہ بھائی بہنوں یا سب سے قریب رشتہ داروں کو ملے گا ۔
[1]– یہ سزائیں اس وقت کی ہیں جب تک کوڑے اور رجم کی سزا نازل نہیں ہوئی تھی، پھر زنا کی سزا نازل ہوگئی تو یہ منسوخ ہوگئیں۔
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ. قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وَسَلَّمَ (خُذُوا عَنِّي. خُذُوا عَنِّي. قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا. الْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ وَنَفْيُ سَنَةٍ وَالثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ، جَلْدُ مِائَةٍ وَالرَّجْمُ). صحيح مسلم:1690،سنن ابي داود:4415 "حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو، مجھ سے سیکھ لو (جس طرح اللہ نے فرمایا تھا: "یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے۔” (النساء: 15: 4) اللہ نے ان کے لیے راہ نکالی ہے، کنوارا، کنواری سے (زنا کرے) تو (ہر ایک کے لیے) سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ سے زنا کرے تو (ہر ایک کے لیے) سو کوڑے اور رجم ہے"۔
[1] — ﵟإِنَّمَا ٱلتَّوۡبَةُ عَلَى ٱللَّهِ لِلَّذِينَ يَعۡمَلُونَ ٱلسُّوٓءَ بِجَهَٰلَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُوْلَٰٓئِكَ يَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَيۡهِمۡۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيماً (١٧)”اللہ تعالیٰ صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ نادانی کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے علم واﻻ حکمت واﻻ ہے”۔
"پھر جلد ” سے مراد موت کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے مراد ہے، جیسا کہ نبی کریمﷺ کی حدیث ہے"«إِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ تَوْبَةَ العَبْدِ مَا لَمْ يُغَرْغِرْ» اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک کہ غرغرے کی کیفیت نہ پیدا ہو جائے، یعنی روح حلق تک نہ پہنچ جائے۔ سنن الترمذی:۳۵۳۷
[1] —ﵟوَإِنۡ أَرَدتُّمُ ٱسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّكَانَ زَوۡجٍ وَءَاتَيۡتُمۡ إِحۡدَىٰهُنَّ قِنطَاراً فَلَا تَأۡخُذُواْ مِنۡهُ شَيۡـًٔاۚ أَتَأۡخُذُونَهُۥ بُهۡتَٰناً وَإِثۡماً مُّبِيناً (٢٠) وَكَيۡفَ تَأۡخُذُونَهُۥ وَقَدۡ أَفۡضَىٰ بَعۡضُكُمۡ إِلَىٰ بَعۡضٍ وَأَخَذۡنَ مِنكُم مِّيثَٰقًا غَلِيظاً (٢١)” اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی کرنا ہی چاہو اور ان میں سے کسی کو تم نے خزانہ کا خزانہ دے رکھا ہو، تو بھی اس میں سے کچھ نہ لو کیا تم اسے ناحق اور کھلا گناه ہوتے ہوئے بھی لے لو گے، تم اسے کیسے لے لو گے۔حاﻻنکہ تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے مضبوط عہد وپیمان لے رکھا ہے”۔
خود طلاق دینے کی صورت میںحقِ مہر لینے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے، " قِنطَار” سے مراد خزانہ یا بہت سارا مال ہوتا ہے۔ یعنی خواہ کتنا بھی حقِ مہر دیا ہو واپس نہیں لے سکتے۔ اگر ایسا کروگے تو یہ ظلم (بہتان)اور کھلا گناہ ہوگا۔ تفسیر احسن البیان
[1] — یہاں رضاعت سے متعلقہ صرف دو رشتوں کا ذکر ہے، مگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کی وجہ سے بھی وہ تمام خواتین حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ سے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی سے شادی کر لینے کے بارے میں کہا گیا ، تو آپﷺ نے فرمایا : لَا تَحِلُّ لِي، يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَبِ، هِيَ بِنْتُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ.» یہ میرے لئے حلال نہیں ہے، یہ میری رضاعی بھتیجی ہے، اور جس رشتے نسب سے حرام ہیں وہی رضاعت سے بھی حرام ہیں۔ صحیح بخاری:۲۶۴۵،صحیح مسلم : ۱۴۴۷
[1] — قرآن سے صرف دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت ہے، البتہ حدیثوں میں پھوپھی بھتیجی، اور خالہ بھانجی کو بھی ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت وارد ہے۔ صحیح بخاری:5109 بروایت ابو ہریرہ۔
اس کے بارے میں فقہاء رحمہم اللہ نے یہاں ایک قاعدہ ذکر کیا ہے کہ ہر ایسی دو عورتیں جن میں سے ایک کو اگر مرد فرض کر لیا جائے تو دوسری کا نکاح اس مردسے حرام ہو، تو اس طرح کی دو عورتیں ایک ساتھ کسی کے عقد میں بھی نہیں رہ سکتیں۔