بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلسلہ خلاصہ معانی قرآن مجید
از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
*چھبیسواں پارہ(حم)*
چھبیسویں پارے میں چھ سورتیں ہیں؛ الاحقاف، محمد، الفتح، الحجرات اور ق، یہ سورتیں مکمل ہیں، اور سورہ الذاریات کا ابتدائی حصہ ۔
سورت الاحقاف
یہ سورت مکی ہے۔
مکی سورتوں کی طرح یہ سورت بھی اسلام کے تین بنیادی عقائد کا بیان ہے۔ یعنی عقیدہ توحید، رسالت اور موت کے بعد کی زندگی سے متعلق ۔
o ابتدائی آیات میں قرآن کی فضیلت و اہمیت کے بعد کائنات کی پیدائش پر اللہ کے کمالِ قدرت کو اس کی الوہیت(اللہ کے معبودِ برحق ہونے) پر دلیل بنایا ہے۔
o فرمایا کہ اس واضح دلیل کے باوجود وہ لوگ جنہیں یہ کتاب خبر دار کر رہی ہے اور توحید کی دعوت دے رہی ہے اس سے منی موڑ رہے ہیں۔
o آیت نمبر 4تا6میں مشرکین کو چیلنج اور پھر ان کی گمراہی کی وضاحت کی گئی ہےکہ اللہ کو چھوڑ کر جن باطل معبودوں کو تم پکا ر رہے ہو اس کی تائید میں تمہارے پاس کوئی عقلی دلیل تو ہے نہیں،پھر کیا اس پر کوئی نقلی دلیل ہی پیش کر سکتے ہو؟یعنی وہ دلیل کسی آسمانی کتاب میں موجود ہو، یا اس علمِ منقول میں پائی جاتی ہو جوکسی نبی کی تعلیمات کی صورت میں ہو۔ اگر اپنے دعوی میں سچے ہو تولاکر پیش کرو ۔
o آیت 7تا12میں قرآن کی صداقت کا بیان ہے اور اس کتاب پر ایمان نہ لانے کے جو بہانے مشرکین پیش کرتے ہیں ان کا ذکر کر کے ان کی تردید کی گئی ہے۔چنانچہ مشرکین کبھی کہتے ہیں :یہ جادو ہے، او رکبھی کہتے ہیں کہ یہ تو محمد(ﷺ) کا من گھڑت کلام ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ توتو ہمارے جیسا ایک بشر ہو۔
اس کے جواب میں صرف یہ کہا گیا کہ تمہارا یہ الگ الگ اعتراض اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ تم خود اپنے کو جھٹلا رہے ہو۔اور اگر میں نے یہ کلام گھڑا ہے تو اللہ کے عذاب سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ اور جہاں تک میرے بشر ہونے کا تعلق ہے تو میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں، بلکہ مجھ سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں(جو سارے ہی بشر تھے)۔
o آیت نمبر 10میں مشرکین کی ڈانٹ ڈپٹ کی گئی ہے کہ تم میرے رسول پر ایمان نہیں لاتے حالانکہ بنی اسرائیل کے بعض لوگ جن کے پاس پرانی کتابوں کا علم ہے وہ تو اس پیغمبر پر ایمان لا چکے ہیں ۔
o آیت نمبر 12میں ان ایمان والوں کے لئے تسلی ہے جن سے متعلق کافر کہتے تھے کہ اگر یہ باتیں حق ہوتیں تو ہم پہلے پہل ایمان لے آتے۔ ان سے کہا گیا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، بلکہ تم سے پہلے حضرت موسی علیہ السلام کو بھی کتاب دی گئی اور ان کی کتاب میں بھی یہی تعلیمات تھیں جو تمہارے لئے نازل کی گئی ہیں۔
o پھر آیت نمبر 13اور 14میں ان مسلمانوں کی فضیلت بیان کرکے انہیں تسلی دی گئی ہے جو نبی ﷺ پر ایمان لائے تھے اور اس پر استقامت اختیار کی ،کہ ان پر کوئی خوف او رغم نہ ہو گا اور وہ جنت میں داخل ہوں گے۔
o آیت 15تا19میں اللہ تعالی نے انسان کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں؛ایک جو ہدایت یافتہ او روالدین کا مطیع و فرمانبردار ہے،اور دوسرا کافر و فاسق اور والدین کا ناشکرا ۔
o حقیقی مومن وہ ہے جو والدین کی زندگی میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے اور ان کی وفات کے بعد ان کے لئے دعائیں کرتا ہے۔ایسے لوگوں کا بدلہ اللہ کی طرف سے جنت او رمغفرت ہے۔اور اس کے برعکس جو بے ایمان او ر والدین کا نافرمان ہے اس کا ٹھکانا جہنم او رابدی خسارہ ہے۔
اس ضمن میں چند فقہی مسائل بھی بیان ہوئے ہیں:
1) والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا واجب و فرض ہے۔
2) اللہ تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے بعد والدہ کا خصوصی ذکر فرمایا اور اس کی تین تکلیفوں حمل،وضع حمل اور رضاعت کا ذکر کرکے اس کی فضیلت کا ذکر فرمایا۔
3) ا س آیت میں حمل اور رضاعت کی مدت بیان ہوئی ہے۔ یعنی حمل کی مدت کم از کم چھ مہینے ہے اور رضاعت یعنی دودھ پلائی کی مدت دو سال ہے۔
4) اس دعا کی مشروعیت خاص کر چالیس سال کی عمر کو پہنچ جانے کے بعد(رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ)” اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے اور تو میری اولاد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔
o آیت نمبر ۱۷- ۱۸ میں کافر اور نالائق اولاد اور اس کے مسلمان والدین کے مابین جس مذاکرے کا ذکر ہیں اور مسلمان والدین کا جو دخ بیان ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان ماں باپ جہاں اپنی نالائق اولاد کے لئے فکر مند ہوتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لئے دعا گو رہتے ہیں ،وہیں اس کے شر سے پناہ مانگنے کے لئے اللہ تعالی سے فریاد کرتے ہیں کہ یا اللہ! ہمیں اس کے شر سے بچا اور اسے ہدایت دے۔ تفسیر القرآن الکریم ازحافظ عبد السلام بن محمد
o آیت نمبر 20میں کافروں اور دنیا کی لذت اٹھانےمیں مشغول او رآخرت کو بھولے ہوئے شخص کی ذلت و رسوائی کا منظر پیش کیا گیا ہے کہ جب انہیں جہنم کے پاس لا کر کھڑا کردیا جائے گا توان سے کہا جائے گا کہ تم نے دنیا میں خوب لذت اٹھائی اور اپنے حصے کی اچھی اچھی چیزیں لے چکے ہو،اب تمہارے تکبر و فسق کے بدلے میں تمہارے لئےذلت کے عذاب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
o آیت 21تا28میں قوم عاد کا مختصر قصہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت توحید کا جواب انہوں نے انہیں جھٹلانے سےاور عذاب کے مطالبے سے دیا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بڑی سنجیدگی وبردباری سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ میں تمہاری خیرخواہی میں یہ کہہ رہا ہوں، لہذا خیر اسی میں ہے کہ عذاب کا مطالبہ نہ کرو ۔ عذاب کب آئے گا اور کس طرح آئے گا؟ اس کا علم اللہ کے پاس ہے، میرا کام تمہیں سمجھانا اور خبر دار کرنا اور اللہ کا پیغام پہنچانا ہے۔ لہذا جہالت سے کام نہ لو اور ایمان لے آو۔
o اس کے باوجود ان کی غفلت میں سرمستیوں کا یہ عالم تھا کہ عذاب ان کی وادیوں کی طرف بادل کی شکل میں ظاہر ہوا تو ان لوگوں نے اسے پانی برسانے والے بادل سمجھااور کہنے کہ یہ تو بادل ہے جو ہم پر مینہ برسائے گا۔ حالانکہ وہ ایک تیز و تند ہوا تھی جو ان کی تباہی کا عذاب لے کر اٹھی تھی ۔
o آیت نمبر26– 28میں روئے سخن مکہ کے مشرکین کی طرف ہے کہ عاد اور ان سے پہلے قومیں جنہیں ہم نے ہلاک کیا ،قوت و شوکت [اوردنیاوی ترقی کے اسباب میں تم سے زیادہ ] تھیں۔ لیکن جب انہوں نے اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں (آنکھ ، کان ، اور دل ) کو حق کے سننے ، دیکھنے اور سمجھنے کے لئے استعمال نہ کیا تو بالآخر ہم نے انہیں تباہ کردیا اور یہ چیزیں ان کے کسی کام نہ آسکیں۔ پھر جس عذاب کو وہ انہونا سمجھ کر بطور استہزاء کہا کرتے تھے کہ لے آ اپنا عذاب جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے،وہ عذاب آیا اور اس نے انہیں ایسا گھیرا کہ پھر اس سے نکل نہ سکے۔ تفسیر احسن البیان ص:۱۴۰۷
o اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے اہلِ مکہ کو دو اہم باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے۔
1- تمہارے ارد گرد جو بستیاں ہلاک ہوئیں ہیں اور ان کے آثار کا تم مشاہدہ کر رہے ہو، اللہ تعالی نے انہیں بلا سبب اوران حجت قائم کئے بغیرہلاک نہیں کیا ، بلکہ مختلف انداز سے اور متعدد قسم کے دلائل ان کے سامنے پیش کئے گئے تاکہ وہ توبہ کرلیں ، لیکن جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئے تو ان پر عذاب آگیا۔
2- ان قوموں نے اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے جن باطل معبودوں کو اپنا مشکل کشا بنا رکھا تھا جب اللہ کا عذاب آیا تو وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے۔بلکہ جب اللہ کا عذاب آیا تو وہ ایسے غائب ہوئے کہ ان کا سراغ تک نہ مل سکا۔
o آیت 29تا32میں جنوں کے ایک گروپ کے مسلمان ہونے کا ذکر ہے کہ ایک موقع پر جب جنوں کی ایک جماعت نے نبیِ کریمﷺ کی تلاوت سنی تو اولا باادب قرآن سننے میں مشغول ہوئے، اورجب سن کر مسلمان ہوگئے تو ا پنی قوم کی طرف داعی بن کر چلے گئے۔
o جنوں نےاولا- اپنی قوم کے سامنے یہ واضح کیا کہ یہ کتاب کوئی نرالی کتاب نہیں ہے، بلکہ یہ کتاب موسی علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب کی طرح انہیں تعلیمات کی طرف دعوت دی رہی ہے جن کا تعلق عقیدہ وعمل سے ہے ۔
o ثانیا- اپنی قوم کو اس بات کی دعوت دی کہ اس کتاب پر ایمان لائیں، جس کے دو بڑے فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ گناہوں کو معاف کیا جائے گا۔ دوم یہ کہ اس سے وہ ایک نا قابلِ تلافی خسارے یعنی دردناک عذاب سے بچ جائیں گے ۔
o ثالثا- اگر اس کتاب پر نہ لائے تو نہ اپنے آپ کو دنیا وآخرت میں اللہ کے عذاب سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی مدد کو پہنچ سکتا ہے ۔
اس طرح گویا قریش کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اگر تم اس کتاب کی قدر نہیں کرتے تو اس کتاب کی قدر کرنے والے اور لوگ موجود ہیں۔یاد رکھو اگر تم ایمان نہ لائے تو اللہ کا عذاب تمہارے انتظار میں ہے اور اس وقت تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
o آیت33اور 34میں آخرت پر ایمان کے بارے میں زور دیا گیا ہے کہ جس اللہ قادر کو زمین و آسمان پیدا کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی وہ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز نہیں ہے۔لہذا کفر چھوڑ کر ایمان لے آؤ یہی سلامتی کی راہ ہے، ورنہ اس عذاب کے لئے تیار ہوجاوس جو کافروں کے لئے تیار ہے۔
o آخری آیت میں کفار کے رویے کے مقابلہ کرنے کے لئےنبی ﷺ کوتسلی دی جارہی ہے، دیگر انبیاء کی طرح صبر کی تلقین بھی ہے اور کفار پر عذاب کی درخواست میں جلدبازی سے روکا گیا ہے۔ او ر آخر میں کفار کے لئے دھمکی اور وعید بھی ہے کہ ان کے لئےجس عذاب کا وعدہ ہے وہ پورا ہو کر رہے گا ۔
o
سورت محمد
یہ سورت مدنی ہے ۔
مدینہ کے ابتدائی دور میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔اس سورت کا بنیادی موضوع قتال او ر رسولﷺ کی پیروی سے متعلقہ بعض احکام بیان ہوئے ہیں۔
o ابتدائی تین آیتوں میں کفر کی تباہ کاریاں بیان ہوئی ہیں۔ اس سے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور ایمان و عمل صالح کا فائدہ یہ ہےکہ اس سےاللہ تعالی کی مغفرت حاصل ہوتی ہے اوران کے حالات درست ہو جاتے ہیں اور ان کی اصلاح ہو جاتی ہے ۔
o جس کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ کافر باطل کے پیچھے پڑے ہیں، شرک اور اللہ کی نافرنی کے کاموں مشغول رہتے ہیں۔ جبکہ ان کے برخلاف اہل ایمان اپنے رب کی طرف سے نازل شدہ احکام پر عمل پیرا ہو کر اجر کی تلاش میں رہتے ہیں۔
o آیت 3تا6میں اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لئے دین کے مخالفین کے ساتھ قتال او راس بارے میں ان پر سختی کا حکم ہے۔ اور قتال اس وقت تک جاری رہے جب تک کہ دین کا راستہ صاف نہ ہو جائے۔
پھرجنگ میں دشمن کی طاقت توڑ دینے کے بعد جو لوگ قیدی بنائے جائیں، ان کےاحکام بیان ہوئے ہیں کہ جو لوگ قیدی بنائے جائیں انہیں قتل نہیں کرنا ہے، بلکہ مصلحت کا تقاضا ہو تو ان پر احسان کرکے چھوڑ دیا جائے ، یاکچھ معاوضہ لے کر آزاد کر دیا جائے ، یا پھر ان سے مسلمان قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے۔
انہیں آیتوں میں اللہ تعالی نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کا ذمہ دار بنائے بغیر ہی کافروں سے خود ہی نپٹ لے ،لیکن اس کی سنت یہ رہی ہے کہ وہ اس طرح ایک فریق کو دوسرے سے لڑا کر آزمانا چاہتا ہے کہ کون حق کا حامی و مددگار ہے اور کون باطل کا ساتھ دے رہا ہے؟ نیز اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جولوگ شہید ہوں ان کے درجات بلند ہوں گے اور جو لوگ بچ جائیں انہیں ہدایت پر ثابت قدمی حاصل ہوگی اور ان کے معاملات کو بھی اللہ درست کر دے گا او رانہیں جنت میں داخل کردے گا۔
o آیت 7تا۹ میں مسلمانوں کو دین کی مدد کی تاکید کی ہے اور اس کا فائدہ بیان ہوا ہے، کہ اگر تم دین کی مدد کے لئے تیار رہو گے تو اولا اس طرح تم اللہ کی مدد کے حقدار بنو گے، ثانیا تمہیں ثابت قدمی او ر استقامت عطا فرمائے گا، ثالثا پل صراط پر سے تمہارے قدم پھسلنے نہ پائیں گے۔
o دوسری طرف کافروں کو خبر دار کیا ہے کہ اللہ کے رسول وقرآن پر ایمان نہ لانے اور ان سے بغض ونفرت رکھنےکے سبب اولا اللہ کی رحمت سے دوری کی شکل میں ہلاک ہو گے،ثانیا ان کو تمام اعمال کی بربادی ملنے والی ہے ۔
o آیت ۱۰- ۱۱ میں پچھلی قوموں میں سے رسولوں کے مخالفین کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کا حکم ہے کہ تم زمین میں چل کر دیکھ لو کہ اللہ تعالی نے ان کو کس طرح تباہ و برباد کیا،لہذا تمہیں بھی اس سے دو چار ہونا پڑ سکتا ہے۔
o آیت ۱۲تا15میں مومنوں اور کافروں کے مابین ایک موازنہ پیش کیا گیا ہے کہ مومنوں کےلئے جنت ہے کیونکہ وہ خواہشات کی پیروی نہیں کرتے اور ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح کا بھی اہتمام کرتے ہیں لہذا ان کیلئے نعمتوں بھری جنتیں ہیں ۔
o جبکہ کافر چونکہ خواہش نفس کا پیروکار ہوتا ہے اور کھانے پینے میں حلال و حرام کی پابندی نہیں کرتا، اس طرح اس کی زندگی اور چوپایوں کی زندگی میں کوئی فرق نہیں ہوتالہذا اس کا ٹھکانا جہنم ہے جس میں مختلف قسم کے عذاب کے ساتھ انہیں سخت کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا جو ان کی انتڑیوں کو پگھلا کر رکھ دے گا۔
o آیت 16سے 32تک کلام کا رخ منافقین کی طرف ہے اور ان کے متعدد تاریک پہلووں کو اجاگر کیا گیا ہےاور درمیان میں بعض امور پر انہیں ڈانٹ پلائی گئی ہے۔
o ان کی بعض خصلتیں یہ ہیں۔ جیسے:
1) رسول کی باتیں سنتے تو ہیں، لیکن جب وہاں سے اٹھتے ہیں تو صحابہ یا اپنے ساتھیوں کے سامنے ان کا مذاق اڑاتے ہیں، یا یہ کہ انہیں وہ بات یاد نہیں رہتی۔آیت:۱۶
جبکہ یہی باتیں اہل ایمان کے لئے ہدیت کا باعث بنتی ہیں ، ان سے مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور انہیں تقوی یعنی مزید ایسے عمل کی توفیق ملتی ہے جس سے وہ جہنم کی آگ سے بچنے کا سامان کرلیتے ہیں۔
2) کسی حکم پر عمل کرنے کا جوش تو رہتا ہے لیکن جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو بہانے تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔خاص طور پران امور میں جن کی ادائیگی میں مشقت پیش آتی ہے، جیسے جہاد فی سبیل اللہ۔آیت نمبر:۲۰
3) منافقین او ر یہود کا رابطہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ آیت نمبر:۲۶
4) قرآن پر غور و فکر سے کام نہیں لیتے۔آیت نمبر:۲۴
5) مسلمانوں کے خلاف کینہ اور عداوت۔ آیت نمبر:۲۹
جن امور پر تنبیہ کی گئی ہے وہ یہ ہیں۔
1- نبیِ آخر الزماں کی آمد کے بعداب کسی اور نبی کے آمد کی امید نہیں، لہذا اب قیامت آنا باقی رہ گئی ہے۔ اس لئے اس سے قبل ایمان لے آو اور علم حاصل کرو ۔ آیت:۱۸
2- تمہارے لئے یہی بہتر تھا کہ تم طاعت شعاری سے کام لیتے اور اچھی باتیں کرتے۔ آیت نمبر:۲۱
3- رسول کی اطاعت سے منہ موڑنے کا نتیجہ یہی ہوگا کہ اگر تم لوگوں کواختیارات کا موقع ملا بھی تو زمین میں فساد مچاو گے اور رشتے داریوں کو توڑو گے۔ آیت نمبر:۲۳
4- اللہ کے رسولﷺ اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ جس راستے پر چل رہے ہیں اس پر جمے رہیں ، استغفار کو لازم پکڑیں اور اللہ کی نگرانی کو دھیان میں رکھیں۔ آیت نمبر: ۱۹
5- منافقین اس دنیا میں اپنے آپ کو اللہ ورسول کی اطاعت اورجہاد وقتال کی مشقتوں سے بچا لیتے ہیں لیکن انہیں یہ یاد رہے کہ جان نکلتے وقت ان کے چہروں اور پیٹھوں پر جب فرشتوں کی مار پڑے گی تو انہیں کون بچائے گا؟۔ آیت نمبر:۲۷
6- منافق یہ نہ سمجھیں کہ ان کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو کینہ وبغض ہے وہ ہمیشہ چھپا رہے گا۔ ایسا نہیں ہے ، بلکہ اللہ عالم الغیب الشہادہ کو اس کا پورپورا علم ہر، اور جب چاہے گا ظاہر کر دے گا۔ آیت نمبر:۳۰
o آیت 32 میں منافقین یا یہود کے قبیلہ بنو قریضہ کو جو حق کو پہچان لینے کے بعد بھی ایمان لانے کو تیار نہ تھے، خبردار کیا جا رہا ہےکہ اللہ کے ساتھ کفر کرنے، رسولﷺ کی مخالفت کرنے اور راہِ حق سے روکنے کا جو راستہ تم لوگوں نے اختیار کیا ہے اس سے تم اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکوگے بلکہ اس سے خود تمہارا ہی نقصان یہ ہوگا کہ تمہارے سارے اعمال اکارت چلے جائیں گے۔
o آیت۳۳ ، ۳۴ میں مسلمانوں کو اطاعت الہی او ر اطاعت رسول کا حکم دیا گیاہے اور کافروں کا طریقہ اختیار کرکے اپنے اعمال کو رائیگاں کرنے سے روکا گیا ہے اور یہ تسلی دی گئی ہے کہ تم کافروں کی طاقت سے مرعوب ہوکر ان سے صلح کی پیش کش مت کرو،یاد رکھو کہ اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہیں بے سہارا نہیں چھوڑے گا۔
o آیت 35سے سورت کے خاتمے تک مسلمانوں کو جان و مال کے ذریعے جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے،دنیا کی زندگی کی حقارت اور ایمان و تقوی کی دعوت دی گئی ہے۔
o آخری آیت میں مسلمانوں کو اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے مال خرچ کرنے کی دعوت دی گئی ہے،بخل کے برے نتائج او راللہ کی طرف سے غنی کر دینے کی امید دلائی گئی ہے۔
o پھر ایک الہی اصول پر سورت کا خاتمہ کیا گیاہے کہ اگر تم پھر جاؤ گے تو اللہ تمہارے بدلے میں کوئی دوسری قوم لے آئے گا جو تمہارے جیسی نہیں ہو گی۔
سورت الفتح
یہ سورت مدنی ہے۔
سنہ 6 ہجری، صلح حدیبیہ کے بعد اس واقعے پر بطور تبصرہ کے نازل ہوئی۔
o ابتدائی آیات میں اللہ تعالی نے صلح حدیبیہ کو فتح مبین قرار دیا ہے۔گویا یہ خوشخبری دی کہ اب فتح مکہ کا دروازہ کھل گیا ہے او ر اے محمد[ﷺ] آپ عنقریب مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے۔
o دوسری بات یہ ہے کہ صلح او راب تک آپ کی کوسش قابل قدر رہی ہے اس لئے ان کے عوض اللہ تعالی آپ کو چار نعمتوں سے نواز رہا ہے:
1) آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف۔
2) آپ پر نعمتوں کی تکمیل، (لوگوں کا دین میں فوج در فوج داخلہ)۔
3) صراط مستقیم پر گامزنی۔
4) بہت بڑی مدد ۔
o آیت 4تا7میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقت میں مدد و تائید صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔
o صلح حدیبیہ کے موقع پر اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کے دل کو اطمینان دلایا،ان کے عزم میں پختگی عطا فرمائی اور ان کے اندر یقین کی نعمت رکھ دی، تاکہ اللہ تعالی ان کے درجات کو بلند کرے اور ان کے گناہوں کو معاف کردے۔
گویا پہلی آیتوں میں اللہ کے رسول ﷺ پر انعام کا ذکر تھا اور ان آیات میں نبی کے صحابہ پر انعام کا ذکر ہے۔
نیز یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اس کے مقابل میں منافقین او رکفار پر اللہ تعالی کی طرف سے چار مصیبتیں آنے والی ہیں، کیونکہ وہ مسلمانوں کی ہمت پست کرنے اور انہیں مسلسل ڈرا نے میں لگے ہوئےہیں۔
1- دنیاوی عذاب۔
2- اللہ کا غضب ۔
3- اللہ کی لعنت۔
4- اور جہیم میں داخلہ جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔
o آیت 8تا10میں اللہ کے رسول ﷺ کے مقام و مرتبہ کو مسلمانوں کے سامنے واضح کیا گیا ہے کہ تم پر فرض ہے کہ اللہ پر ،اس کے رسول پر ایمان لاؤ جو شاہد(گواہ) او رمبشر و نذیر (خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا)بن کر آیا ہے۔ اللہ کے رسول کی تائید و توقیر کرو۔ اور اس نعمت پر صبح و شام اللہ کی تسبیح بیان کرو۔
o اور یاد رکھو کہ رسول کا مقام بڑا اونچا ہے ،اس کے ہاتھ پر بیعت کرنا گویا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرنا ہے اور اس کا ساتھ دینا گویا کہ اللہ کا ساتھ دینا ہے۔ لہذا جو اس میں کامیاب رہا وہ اجر عظیم کا مستحق ہے اور جس نے اس سے منہ موڑا تو وہ خود اس کا ذمہ دار ہے۔ ۔
o آیت 11تا15میں ان بدوی منافقین کا ذکر ہے جو صلح حدیبیہ کے موقع پر نبیﷺ کے ساتھ اس لئے جانے سے انکار کر رہے تھے کہ وہ اللہ کے بارے میں سوئے ظن کے شکار تھے، جس کی وجہ سے ایک طرف انہیں اپنی جان کا خطرہ تھا اور دوسری وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ رسول اللہﷺ کو کامیابی نصیب نہ ہوگی۔ اللہ تعالی نے ان سے متعلق نبیِ کریمﷺ کو تین باتوں پر مطلع کیا۔
1- اول تو یہ کہ کہ وہ آکر اپنا عذر بیان کریں گے کہ ہماری نیت تو شرکت کی تھی لیکن مال وجائداد کے کاموں میں مشغولیت کی وجہ سے ہم نہیں جاسکے۔ لہذا آپ ہمیں معذور سمجھیں اور ہمارے لئے اللہ سے مغفرت کی دعا کریں۔
ان سے متعلق اللہ تعالی نے نبیِ کریمﷺ کو یہ ہدایت دی کہ آپ ان سے کہئےکہ یہ سب تمہارا جھوٹا بہانہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ تمہارے پاس اس کے سوا کوئی عذر نہیں تھا کہ تم یہ سمجھ رہے تھے کہ مقابلہ بڑا سخت ہے اور جان کو خطرہ ہے،اس لڑائی سے رسول او ر مسلمانوں کا بچ نکلنا مشکل ہے۔
اللہ کے بارے میں تمہارا یہ گمان تھا جو سراسر کفر ہے اور کافروں کے لئے اللہ تعالی نے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
2- دوم یہ کہ مالِ غنیمت کی لالچ میں وہ لوگ خیبر کی جنگ میں شریک ہونے کی خواہش ظاہر کریں گے، اور منع کرنے کی صورت میں تمہیں حسد وغیرہ کا الزام دیں گے۔
اس بارے میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کو یہ ہدایت دی کہ ان کی اس طلب کو قبول نہ کرنا اور صاف صاف کہدینا کہ اللہ تعالی نے اس جنگ میں صرف بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں کو شامل کیا ہے ۔
3- سوم یہ کہ ان منافقین کی آزمائش کے لئے خیبر کے بعدانہیں دیگر جنگوں میں شرکت کی اجازت دی جائے گی۔ اور ایسے لوگوں سے جنگ کی دعوت ہوگی ، جوبڑے ہی طاقتور اور جنگجو ہونگے۔ وہاں تمہارے ایمان کا امتحان ہو جائے گا کہ تم اطاعت کرتے ہویا پہلی بار کی طرح بہانے بنا کر پیچھے رہ جاتے ہو،اگر ایسا ہوا تو پھر تمہیں دردناک عذاب کی دھمکی ہے ۔
o آیت نمبر 17میں واضح کیا گیا کہ جو لوگ بیماری یا لولے لنگڑے ہونے کی وجہ سے شرعا معذور ہیں تو پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ اور اگر وہ صدق دل سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہے تو ان کے لئے بھی اجر عظیم ہے۔
o آیت نمبر 18-۱۹ میں ان جاں نثار مسلمانوں کی فضیلت بیان ہوئی ہے جو بیعت رضوان کے موقع پر ایک درخت کے نیچے اپنی جان کی بازی لگا دینے کے لئے اللہ کے رسول ﷺ سے بیعت کر رہے تھے ۔اس کے عوض اللہ تعالی ان سے راضی ہو گیا ،ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں بڑے اجر کے ساتھ بہت زیادہ مال غنیمت دینے کا وعدہ بھی کیا ہے جو انہیں فتح خیبر وغیرہ کے موقع پر حاصل ہوا تھا۔
o ۲۰-۲۲ میں ان نعمتوں اور غنیمتوں کا ذکر ہے جو خیبر کے علاوہ مسلمانوں کو ملنے والا تھا۔
۱- فتح مکہ۔ ۲-ہوازن اور ان کے بعد فارس وروم سے حاصل شدہ مالِ غنیمت۔ ۳- ہر میدان میں مسلمانوں کی مدد اور کافروں کی رسوائی۔ وغیرہ
o آیت نمبر 24میں صلح حدیبیہ کے موقعہ پر پیش آمدہ بعض واقعات کی طرف اشارہ ہے کہ جب قریش کے ستر یا اسی اوباش عین صلح کے وقت چھپ کر مسلمانوں پر حملہ کر دینا چاہتے تھے تاکہ صلح نہ ہونے پائے ،لیکن وہ گرفتار ہوئے اور اللہ کے رسول ﷺ نے انہیں معاف کرکے چھوڑ دیا ۔
o آیت نمبر 25میں کفار کی اس نازیبا حرکت کا ذکر ہے جو انہوں نے مسلمانوں کو حرم میں داخلے سے روک کر کی تھی۔ اس موقع پر اللہ تعالی نے اپنے رسول کو جنگ کی اجازت کیوں نہ دی ؟ اس کے متعدد اساب کا ذکر کیا ہے۔
1) اول یہ کہ کچھ کمزور مسلمان مکہ میں موجودتھےاورکچھ وہ بھی تھے جنہوں نے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کیا تھا۔ ایسی صورت میں اگر جنگ ہو جاتی تو وہ بھی مارے جاتے جس کا افسوس دونوں طرف سے ہوتا ۔
2) دوم یہ کہ اس سے دین کی ترویج مقصود تھی ، کیونکہ کافروں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کے بارے میں اللہ تعالی کو معلوم تھا کہ وہ مسلمان ہون گے۔ پھر اگر جنگ ہوجاتی تو لامحالہ وہ لوگ بھی مارے جاتے۔
3) سوم کافروں کی ضد اور اسلام کے مقابلے میں ان کی جاہلی حمیت کا خاتمہ۔ کیونکہ اگر ان پر حملہ ہوجاتا تو اپنی جاہلی ضد میں آکر وہ مقابلے کو آجاتے جس سے ان کا نقصان ہوتا۔
4) چہارم۔ اللہ تعالی اپنے رسول اور اس کے ساتھی مومن بندوں کو سکینت و وقار سے نوازنے کے ساتھ ساتھ انہیں اس بات کا عادی بنانا ہے کہ وہ خوشی وغمی ہر حال میں کلمہ تقوی کو لازم پکڑیں۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت پر گامزن رہیں ۔
o آیت27اور 28میں نبی ﷺ کے اس خواب کے تکمیل کا ذکر ہے جو آپ نے مکہ مکرمہ میں داخلے کے لئے دیکھا تھا اور اس وجہ سے احرام باندھ کر عمرہ کی غرض سے مدینہ سے نکلے تھے۔ لیکن حدیبیہ کے مقام پر جب آپﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو روک دیا گیا اور آپ ﷺ عمرہ نہ کر سکے۔ پھر اہلِ مکہ اور مسلمانوں کے درمیان ایک صلح ہو ئی جس میں یہ طےپایا کہ مسلمان اس سال واپس ہوجائیں اور آئندہ سال تین دن کے لئے آکر عمرہ کریں۔ اس صلح کے نتیجے میں آپﷺ اور صحابہ کرام آئندہ سال یعنی 7 ہجری میں پر امن طریقے سے مکہ میں داخل ہوئےاور عمرہ سے سرفراز ہوئے۔ اس طرح وہ خواب سچا ہوا جسے آپ ﷺنے ایک سال دیکھا تھا۔
o ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہاں دوبشارتیں بھی دی گئی ہیں۔ ایک "فتح قریب” کے نام سے یعنی اس صلح کے بعد جلد ہی ایک بڑی فتح نصیب ہوگی، جو چند ماہ بعد فتح خیبر کی شکل میں پوری ہوئی۔
o دوسری بشارت یہ کہ یہ دین ساری دنیا پر غالب آکر رہے گا۔
جہاں تک دلائل وبرہان کا غلبہ ہے ہو تو ہر وقت اور ہر زمانے میں حاصل رہے گا۔البتہ سیف و سنان کااور عسکری غلبہ بھی مسلمانوں کو عرصہ دراز تک حاصل رہا اور آج بھی یہ مادی غلبہ ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان مسلمان بن جائیں۔ وَلَا تَهِنُواْ وَلَا تَحۡزَنُواْ وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ (١٣٩) آل عمران”اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب ہو، اگر تم مومن ہو”۔ تفسیر احسن البیان ص:۱۴۳۶
o اس سورت کی آخری آیت میں صحابہ کرام کے فضائل بیان ہوئے ہیں،ان کی تعریف کی گئی ہے اور ان کی ان صفات کا ذکر ہے جو تورات و انجیل میں بھی مذکور ہیں۔
1- کافروں کےمقابلہ میں لئے اور آپس میں نرمہوتے ہیں۔
2- رکوع وسجود کرنے والے، یعنی نمازی اور عبادت گزار ہیں۔
3- ان کی پیشانیوں پر خاص نشانی ۔ اس سے مراد وہ رونق اور حسنِ سمت ہے جو اللہ تعالی سے تعلق کی بنیاد پر انسان کے کردار وتصرفات پر ظاہر ہوتے ہیں
4- وہ اپنے رب کے فضل اور رضامندی کو تلاش کرتے ہیں۔ اس سے ان کے خلوص اور دل کی سچائی کی طرف اشارہ ہے۔
5- کثرت اور ترقی۔ اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ یہ امت کبھی ختم نہیں ہوگی، بلکہ اس میں برابر اضافہ ہوتا رہے گا اور انہیں دینی طور پر تقویت حاصل ہوتی رہے گی، جس پر کافر چڑھتے اور کڑھتے رہیں گے ۔
6- اور سورت کا اختتام ان کے ساتھ مغفرت اور اجر عظیم یعنی جنت کے وعدے پر ہوا ہے ۔جیسا کہ سورت کی ابتدا اسی موضوع سے ہوئی تھی۔
سورت الحجرات
یہ سورت مدنی ہے ۔
اس کا موضوع ہےاسلامی آداب ۔
یعنی ایک مومن کا اللہ کے ساتھ ادب،اللہ کے رسول کے ساتھ ادب،مسلمانوں کے ساتھ ادب ۔ حتی کہ مسلمانوں کے بارے میں اگر کوئی خبر آتی ہے تو اس وقت کیا ادب ملحوظ رکھنا چاہئے۔حتی کہ فاسق وفاجر مسلمانوں کے ساتھ کیا ادب ہو، اس کا بھی ذکر ہے۔ وغیرہ۔
o پہلی آیت میں ہرمسلمان کو یہ ادب سکھلایا گیا ہےکہ اللہ تعالی کے اوامر و نواہی کا احترام کرنا اُن پر فرض ہے۔ نیز اس بارے میں اپنی طرف سے کوئی ایسی رائے ظاہر کرنے سے بچنا چاہئے جس بارے میں اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم موجود نہ ہو۔
o آیت 2تا5میں نبی ﷺ کے ساتھ خصوصی آداب کا ذکر ہے۔
۰– آپ کی آواز پر اپنی آواز کو بلند نہ کیا جائے۔
۰– جیسے عام لوگوں کو پکارا جاتا ہے ویسے رسول کو نہ پکارا جائے۔
۰– رسول ﷺ کے آرام کا وقت ہو تو خلل اندازی نہ کی جائے ۔
بلکہ اس امر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا کہ اللہ تعالی تقوی کی نعمت انہیں کے دلوں میں رکھتا ہے جو اللہ کے رسول کے سامنے گفتگو کے آداب کو سامنے رکھتے ہیں او ر جولوگ اس ادب کو ملحوظ نہیں رکھتے، ان کے بارے میں خطرہ ہے کہ کہیں ان کے اعمال ضائع نہ ہو جائیں ۔
o آیت نمبر 6میں مسلم معاشرے کا ایک ادب یہ بیان ہوا ہے کہ اگر کسی فرد ،جماعت یا افراد کے بارے میں ایک شخص کوئی ایسی خبر لے کر آتا ہے جو سچ اور جھوٹ دونوں کا احتمال رکھتی ہے تو اس کے بارے میں تحقیق کرنا ضرور ہے، ورنہ اس کے نتائج برے ہو سکتے ہیں جس سے بعد میں شرمندگی ہو سکتی ہے۔
o آیت7اور 8میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کی فضیلت بیان ہوئی ہے، اور یہ کہ یہ ضروری نہیں کہ رسول تمہاری ہر خواہش کو پورا کرے ،تمہارے ہر قول کی تصدیق کرے اور تمہاری ہر رائے کو قبول کر لے۔کیونکہ اگر ایسا ہوا تو ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے تم خود مشقت میں پڑ جاو ۔
o پھر صحابہ کی عظمت اس طرح بیان ہوئی کہ اللہ تعالی نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت رکھ دی ہےاور اور اس کے نتیجے میں اطاعتِ رسول کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا گیاہے اور اس کے برخلاف کفر وفسق کی باتوں کی نفرت تمہارے دلوں میں ڈال دی گئی ہے ، جس کی وجہ سے تم اس بارے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے کہ اللہ کے رسول نے تمہاری رائے کو کیوں قبول نہ کیا۔
o جس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں کے دل میں ایمان یا امور ایمان کی محبت ہو تو یہ ان پر اللہ کا فضل ہے کہ وہی لوگ رشد و ہدایت سے سرفراز ہیں اور جس کے دل میں گناہ کے کاموں کی محبت ہو تو وہ بہت بڑا عذاب ہے ۔
o آیت9اور 10میں اسلامی بھائی چارگی کی اہمیت اور اس کا حکم بیان ہوا ہے ،اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہر مسلمان فرد و جماعت پر واجب ہے کہ مسلمانوں کے بیچ اختلاف کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں نہ کہ اسے بڑھائیں۔
o چنانچہ حکم یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتیں لڑ کھڑی ہوں تو اولا نصیحت، وعظ اور صلح کے ذریعے دونوں میں صلح کرا دینی چاہئے، لیکن اگر کوئی فریق صلح پر راضی نہ ہو تو اسے زور وطاقت سے صلح پر مجبور کیا جائے ، حتی کہ اگرلڑائی پر اتر آئے تو اس کے خلاف لڑائی سے بھی پرہیز نہ کیا جائے۔ البتہ یہ بات دھیان میں رہے کہ یہ سب کچھ اخلاص وعدل اور اللہ کے تقوی کو سامنے رکھ کر کیا جائے اور کسی فریق پر ظلم نہ ہونے پائے ۔
o آیت نمبر11تا13میں ان امور سے روکا گیا ہے جو دو بھائیوں کے دلوں میں نفرت ڈالتے ہیں اور دو ساتھیوں کے بیچ لڑائی اور معاشرے میں فساد کا سبب بنتے ہیں۔
1- مذاق اڑانا کہ کوئی دوسرے کو اپنے سے حقیر سمجھے اور اس کی توہین کرے۔
2- طعن وتشنیع کرنا۔ یعنی کسی کو اس کی کسی کوتاہی پر یا اس میں کوئی عیب ہو تو اس کی وجہ سے اسے ملامت کرنا، اس پر بھپتیاں کسنا، عیب چینی کرنا وغیرہ۔
3- بُرے القاب سے یاد کرنا۔ یعنی کسی مسلمان کو کسی ایسے نام سے پکارنا جسے وہ ناپسند کرتا ہو، یا اسے کسی اور برے نام سے یاد کیا جائے، جیسے لنگڑا، اندھا، کانا۔ یا کسی گناہ سے متعلقہ نام سے یاد کیا جائے ، جیسے چور، نشےباز وغیرہ۔
4- بلا سببِ شرعی کسی کے بارے میں سوئے ظن رکھنا۔ کیونکہ بدگمانی باہمی بغض ونفرت کا دروازہ کھولتی ہے۔ خاص کر اہلِ خیر وصلاح اور مسلمان حاکموں کے بارے میں سوئے ظن تو بڑی خطرناک صورت اختیار کر جاتا ہے۔
5- عیب جوئی اور جاسوسی کرنا۔
6- غیبت اور چغلی۔ کیونکہ غیبت جہاں باہمی جھگڑے کا سبب ہے، وہیں اس کی مثال اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے بیان کی گئی ہے۔
7- خاندانی فخر ومباہات(مقابلہ بازی) سے پرہیز۔ کیونکہ تمام اولادِ آدم بنیادی وپیدائش کے لحاظ سے سب برابر ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک فضیلت وبرتری کی بنیاد صرف تقوی ہے۔
o آیت نمبر 14سے آخر تک کلام کا رخ ان صحرا میں بسنے والوں کی طرف ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ ایمان صرف زبان سے دعوے کا نام ہے۔ان کایہ خیال تھا کہ اگر وہ مسلمان ہوئے ہیں تو اللہ اور اس کے رسول پر احسان کر رہے ہیں۔
o ان کی اس بدخیالی کی اصلاح کرتے ہوئے انہیں صحیح دین کے اصول بتائے گئے ہیں۔
۱– یقین باللہ رکھنا۔ ۲– اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق کرنا۔ ۲–اخلاص نیت ۔ ۳– جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
o پھر ان پر تنقید کی ہے کہ تم لوگ”آمنا” کہکر اور اپنے اسلام کا اعلان کرکے یہ بتانے چلے ہو کہ سچے مومن اور دیندار تم ہی ہو؟ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اللہ تعالی دل کے رازوں اور ضمیر کے خیالات تک کو جانتا ہے اور تمہاری کوئی چیذ اس سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔
o اسی طرح صحراء میں رہنے والوں کے اس رویے پر بھی تنقید کی گئی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے سامنےاپنے ایمان کا اظہار احسان جتلانے کے لئے کرتے ہیں وہ اس کے عوض کچھ دنیاوی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اس پر اللہ تعالی نےفرمایا کہ تمہاراایمان لانا یہ حقیقت میں اللہ ورسول پر کوئی احسان نہیں، بلکہ فی الواقع تمہارے اوپر یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی توفیق بخشی ہے۔
o پھر اس سورت کی آخری آیت میں اللہ جل سبحانہ کی عظمت واضح کرنے کے لئےدو اہم امور پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
1- ایک تو اللہ تعالی کے علم کی وسعت کا بیان کہ وہ صرف ظاہری اشیاء تک محدودنہیں ہے بلکہ مخفی اشیاء کو بھی شامل ہے۔
2- دوم ، انسان کو دھمکی کہ تمہارا کوئی عمل اللہ تعالی سے مخفی نہیں ہے۔
سورت ق:
سورت "ق” مکی ہے۔
اس سورت کا موضوع عقیدہ آخرت کا اثبات ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت وغیرہ کا موضوع بھی درمیان میں آیا ہے۔
اسی سورت سے "المفصل” کی ابتدا ہے۔
نبی ﷺ اس سورت کو بڑی اہمیت دیا کرتے تھے۔چنانہ آپﷺ اس کی تلاوت عید کی نماز میں کرتے، فجر کی نماز میں اس کو پڑھتے اور جمعہ کے خطبے میں بھی برابر اس کی تلاوت کرتے ۔
o ابتدائی پانچ آیتوں میں قرآن مجید کی قسم کھا کر نبی ﷺ کی رسالت کا اثبات ہے اور پھر کافروں کے ان الزامات کی تردید ہے جو وہ نبی ﷺ پر بطور تعجب لگاتے تھے:
1) انہی الزامات میں سے تھا کہ انہیں جیسےکسی انسان کو رسول بنا کر ڈرانے والا کیسے بھیجا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے محض تکبر کی بنیاد پر ہمارے پیغمبر کو جھٹلا رہے ہیں، ورنہ اگر وہ اس بارے میں غور و فکر کرتے تو حقیقت سمجھ میں آجاتی کہ انہیں خبر دارکرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔
2) دوسری بات جس سے انہیں تعجب ہوتا تھا کہ جب ہم گل سڑ جائیں گے تو دوبارہ کیسے زندگی ملے گی؟
اس کا جواب یہ دیا گیاکہ جب وہ گل سڑ کر زمین میں مل جاتے ہیں تو ان کا ایک ایک ذرہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ جب وہ ان کے ہر ایک ذرے کے بارے میں جانتا ہے تو اس کے لئے دوبارہ زندہ کرنا کیسے مشکل ہے؟ ۔
o آیت 6سے 11تک مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر دلیل کے طور پر کائنات میں موجود ایسی چیزوں کی طرف اہل مکہ کو توجہ دلائی گئی ہے جنہیں ہر عام و خاص او ر ہر عالم و جاہل محسوس کر سکتا ہے۔ اگر بعث کے منکرین ان نشانیوں پر غور کر لیں تو اللہ کی عظمت اور دوبارہ زندہ کرنے پر اس کی قدرت کا اندازہ بآسانی کر سکتے ہیں۔
1) جیسے آسمان او راس کی بناوٹ میں پختگی اور خوبصورتی۔
2) زمین اور اس پر موجود پہاڑ۔
3) زمین میں اگنے والا سبزہ ۔
4) آسمان سے بارش کا نزول اور پھر اس سے درختوں ،کھیت او ر غلے وغیرہ کا اگنا۔
5) نیز اس سے ایک طرف انہیں روزی ملتی ہے اور دوسری طرف مردہ زمین زندہ ہو اٹھتی ہے۔ اسی طرح ایک دن انہیں بھی زندہ کیا جائے گا ۔
o آیت 12سے 15تک کچھ ایسےتاریخی شواہد پیش کئے گئے ہیں جن کا علم اہل مکہ کو پہلے سے تھا۔ جس سے اولا: اہلِ مکہ کو تنبیہ ودھمکی دینا مقصودہے کہ اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے کا جوحشر ان قوموں کا ہوا وہ تم سے دور نہیں ۔
o ثانیا: نبی ﷺ کو تسلی دینا بھی مقصود ہے کہ یہ لوگ کوئی پہلے لوگ نہیں ہیں جو اپنے رسول کو جھٹلا رہے ہوں، بلکہ ان سے پہلے آنے والی قوم نوح،اصحاب الرس،عاد و ثمود وغیرہ بھی اپنے رسولوں کو جھٹلا چکے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ چکے ہیں۔
o ان آیات کے آخر میں مشرکین کے اس قول کا جواب ہے جو یہ کہکر موت کے بعد کی زندگی کا انکار کرتے تھے کہ ” اگر ہم مرکر مٹی ہوگئے تو دوبارہ زندہ ہونا ایک بعید از عقل امر ہے” ۔
اس پرانسان کی پہلی مرتبہ پیدا کئے جانےسے حجت قائم کی گئی ہے کہ جب پہلی بار پیدا کرنا اللہ کے لئے مشکل نہیں ہوا تو دوبارہ بنانا کیونکر مشکل ہوسکتا ہے ۔
o آیت نمبر16تا۲۹میں انسان کی تخلیق اور اس کے اعادہ سے متعلق اللہ تعالی کے کمالِ علم اور اس کی کمالِ قدرتِ کا ذکر ہے۔ کہ ہمارے علم نے انسان کو اندر اور باہر سے گھیر رکھا ہے، حتی کہ اس کی رگِ گردن بھی اس سے اتنی قریب نہیں ہے جتنا ہمارا علم اور ہماری قدرت اس سے قریب ہے۔تفہیم القرآن
o اسی طرح بندے پر ہماری نگرانی اس قدر سخت ہے کہ اس کی کوئی حرکت حتی کہ اس کے دل کے وسوسے بھی ہم سے غائب نہیں ہیں۔ پھر ہم نے اپنے اس علم ہی پر نہیں اعتمادکیا ہے، بلکہ اس کی ہر چھوٹی بڑی حرکت کو ضبط کرنے کے لئے اس کے دائیں اور بائیں دو فرشتے متعین کر دئیے ہیں۔
جس سے مشرکین کو یہ درس دینا ہے کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے علم و قدرت سے باہر نہیں ہے ،بلکہ وہ انہیں دوبارہ جمع کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
o آگے آخرت ،موت،محشر اور جنت و جہنم کے ایسے مناظر کا بیان ہے کہ دل دہل جائے۔ اور ایسے حقائق کی طرف توجہ دلانا مطلوب ہے جو انسان کے بہت قریب ہیں۔
1) اے آخرت کے منکر یاد رکھ ،موت اور اس کی سختیاں جن سے توبھاگتا رہا ہے وہ بالکل تیرے قریب پہنچ چکی ہیں۔
2) رسولوں کی نافرمانی پر قیامت کی جو وعید سنائی گئی تھی یہ اس کے پورے ہونے یعنی صور میں پھونک مارنے کا وقت آگیا ہے۔
3) صور میں پھونک مار دیا گیا ۔
4) صور پھونکے جانے کے بعد جب محشر کی طرف جانا ہوگا تو ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہونگے، ایک اسے ہانک کر لائے گا اور دوسرا اس کے اعمالِ بد پر گواہ ہوگا۔
5) یہی وقت ہوگا جب آخرت سے غافل لوگوں سے غفلت کا پردہ اٹھ جائے گا اور جس کے آنےکا وہ انکار کرتے تھے اس کا کھلی آنکھوں سےمشاہدہ کر لیں گے۔
6) اس وقت ساتھ آنے والافرشتہ اللہ تعالی کے سامنے اس مجرم کا نامہ اعمال پیش کرکے عرض کرے گا: یہ جو میرے پاس تھا اسے ہم نے حاضر کردیا ہے۔
o اس موقع پر اللہ تعالی کے فیصلے کا ذکر ہےکہ ایسے شخص کو یہ کہتے ہوئے جہنم میں ڈال دیا گیا کہ جو نا شکرا، حد سے تجاوز کرنے والا، خیر سے روکنے والا اور مشرک ہے ،اس کا ٹھکانہ یہی جہنم ہے۔
o آیت نمبر ۲۷ – ۲۸ میں اس منظر کا بیان ہے جو اپنا انجام سن لینے کے بعد برے ساتھیوں کے درمیان پیش آئے گا۔ یعنی اس دن مجرم اپنی بد اعمالی کا ا لزام اپنے ساتھی- شاید وہ شیطان ہو- پر رکھے گا،لیکن برا ساتھی لاتعلقی کا اظہار کرےگا۔ پھر اس موقع پر اللہ تعالی کا فرمان صادر ہوگا۔ ﵟقَالَ لَا تَخۡتَصِمُواْ لَدَيَّ وَقَدۡ قَدَّمۡتُ إِلَيۡكُم بِٱلۡوَعِيدِ (٢٨) مَا يُبَدَّلُ ٱلۡقَوۡلُ لَدَيَّ وَمَآ أَنَا۠ بِظَلَّٰمٍ لِّلۡعَبِيدِ (٢٩) "حق تعالیٰ فرمائے گا بس میرے سامنے جھگڑنے کی بات مت کرو میں تو پہلے ہی تمہاری طرف وعید (وعدہٴ عذاب) بھیج چکا تھا۔ میرے ہاں بات بدلتی نہیں اور نہ میں اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والاہوں”۔
o آیت نمبر30 میں جہنم کے عذاب او راس کی ہولناکی کا بیان ہےکہ اس وقت جہنم اس قدر غضبناک ہوگی کہ وہ برابر مزید کا مطالبہ کرتی رہے گی۔
o آیت 31 –37 ۔ جہنم اور جہنمیوں کی صفات وانجام کے بعد جنت اور اس میں داخل ہونے والوں کی صفات کا بیان ہے۔ یہ وضاحت ہے کہ جنت متقی لوگوں کیےلئے ہے۔ اور ان کی علامات یہ ہیں ۔
1- وہ ظاہری طور پر ” اواب” (بہت زیادہ رجوع کرنے والے)او ر” حفیظ”(فرائض او ر حدود اللہ کی پابندی کرنے والے) ہوتے ہیں۔
2- باطنی طور پر ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے او ران کا دل "قلبِ منیب” ہوتا ہے۔ یعنی اللہ کا اطاعت گزار یا اس کی طرف رجوع کرنے والا دل۔
3- یہی وہ لوگ ہیں جنہیں جنت میں وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے ، بلکہ مزید وہ بھی ملنے والا ہے جن کا انہیں خیال تک نہ آیا ہوگا۔
o آیت نمبر 36میں قریش کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اپنی طاقت پر اتراؤ نہیں ،تم سے پہلے بڑی بڑی طاقتور قومیں گزری ہیں، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا تو تم کیا چیز ہو۔
o آیت 37میں نصیحت کن لوگوں پر اثر کرتی ہے ان کی صفات کا بیان ہے۔نصیحت وہی حاصل کرتا ہے: ۱- جس کے دل میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت ہو۔ ۲- وہ غور سے اورتوجہ دے کر بات کو سنے۔
گویا قرآن سے مستفید ہونے کیلئے غور سے سننا اور حاضر دل رہنا بہت ضروری ہے۔
o آیت 38میں اللہ تعالی کی قدرتِ کاملہ کا بیان ہے کہ چھ دن میں آسمان و زمین کو کس طرح پیدا کیا او راس میں اللہ کی عظمت یہ کہ اسے کوئی تھکان بھی محسوس نہیں ہوئی ۔
o سورت کے آخر میں نبی ﷺ کو صبر کی تلقین کے ساتھ ساتھ صبح و شام اللہ کے ذکر کی تلقین کی گئی ہے۔ جس کا مفہوم ہے کہ الجھن وقلق کے اوقات میں صبر کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار انسان کے لئے بہت ضروری ہیں۔
o صبر کی تلقین کے بعد نبیِ کریمﷺ کو تسلی اور اس وقت کےانتظار کی تلقین کہ وہ وقت دور نہیں ہے جب صور پھونکا جائے گا جس کی آواز کو وہ بہت قریب سے سنیں گے اور اللہ کے سامنے حاضری کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
o سورت کے آخر میں قیامت کی حقانیت اور بعث بعد الموت کے امکان کا دوبارہ ذکر ہے۔
o کہ ہم ہی موت وزندگی کے مالک ہیں، اور یہ کام عبث نہیں بلکہ ایک امتحان ہے ، جس کے بعد سب کو ہماری طرف پلٹ کر آنا ہے، اس دن جب زمین پھٹے گی اور لوگ ہماری طرف دوڑ پڑیں گے۔
o آخری آیت میں کفار کو دھمکی اور نبی کریمﷺ کو تسلی دینے کے ساتھ ساتھ یہ توجیہ کہ آپ اس قرآن کے ذریعے اسے نصیحت کریں جو میری وعیدوں سے ڈرتا ہو ۔
سورت الذاریات:
یہ سورت مکی ہے ۔
اس کا موضوع عمومی طور پر اسلام کے بنیادی عقائد ہیں جیسے توحید، رسالت اور آخرت کی زندگی۔ خاص کر عقیدہ تو حید و رسالت کو چابت کرنے پر زیادہ زور ہے۔
o ابتدائی چھ آیتوں میں چار چیزوں(اڑانے اوربکھیرنے والی ،بادلوں کے بوجھ کو اٹھانے والی ،بآسانی چلنے والی او ر بھاری بادلوں کو ادھر ادھر تقسیم کرنے اور بکھیرنے والی ہواؤں) کی قسم کھا کر قیامت کے وقوع کی تاکید کی گئی ہے۔
o پھر اس کے بعد راستوں والے آسمان کی قسم کھائی گئی کہ اہل مکہ قیامت،نبی اور اس قرآن کے بارے میں مختلف نظریات رکھتے ہیں۔البتہ ایسا وہی لوگ کرتے ہیں جو بھٹکے ہوئے،محروم اور اٹکل پچو لگانے والے ہیں۔
o آیت ۱۳ – 14میں مذکورہ صفات کے حامل یعنی آخرت کے منکر ین اور اس بارے میں شک کرنے والے اور قیامت سے متعلق اٹکل پچو چلانے والوں کو آگ پر تپائے جانے کی دھمکی دی گئی ہے کہ جس دن کو تم جھٹلا رہے ہو، یہ وہ دن ہوگا جس دن تمہیں آگ پر تپایا جائے گا۔
o آیت نمبر15تا19میں ان متقی لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنی جنتوں میں داخل کرے گا۔ان کی صفات یہ ہیں۔
1) احسان کرنے والے۔ یعنی نیکیاں کرنے والے اور اللہ کی نگرانی کو سامنے رکھنے والے۔
2) رات کو کم سونا یعنی رات کے اکثر حصوں میں ذکر ، اذکار،تلاوت کرنا اور بالخصوص تہجد پڑھنا۔
3) سحرکے وقت استغفار کرنا۔
4) مال میں غریبوں اور مسکینوں کے حق کویاد رکھنا۔
o آیت نمبر20تا23میں لوگوں کی توجہ اس طرف دلائی گئی ہے کہ اللہ کی قدرت ،اس کی مالکیت او ر بعث و نشور پر خود انسان کے نفس میں اور جس زمین پر رہتا ہے اس میں نشانیاں موجود ہیں۔ انہیں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نے زمین میں جو روزی رکھی ہے اس کا مصدر آسمان میں ہے یعنی بارش۔
o آیت نمبر24تا46میں چند نبیوں کا تذکرہ ہے۔اس کا ذکر آئندہ پارے میں ہوگا۔