چھینک کے آداب / حديث نمبر: 264

بسم اللہ الرحمن الرحیم

264:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

چھینک کے آداب

بتاریخ : 12/ جمادی الاول 1436 ھ، م  03،مارچ  2015 م

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ العُطَاسَ وَيَكْرَهُ التَّثَاؤُبَ، فَإِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ وَحَمِدَ اللَّهَ، كَانَ حَقًّا عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ سَمِعَهُ أَنْ يَقُولَ لَهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ، وَأَمَّا التَّثَاؤُبُ: فَإِنَّمَا هُوَ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا تَثَاءَبَ أَحَدُكُمْ فَلْيَرُدَّهُ مَا اسْتَطَاعَ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَثَاءَبَ ضَحِكَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ ” (  صحيح البخاري:6223، الأدب – سنن أبو داؤد:5028 ، الأدب – سنن الترمذي: 2747 ، الأدب )

ترجمہ  : حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بلاشبہ  اللہ تعالی  چھینک کو پسند فرماتا ہے اور  جمائی کو ناپسند کرتا ہے ، لہذا  جب تم  میں سے کسی کو چھینک  آئے  اور وہ ” الحمد للہ”   کہے تو  ہر سننے  والے  مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے جواب  میں” یرحمک اللہ” کہے  ، لیکن  جہاں تک جمائی  کا تعلق ہے تو وہ شیطان  کی طرف  سے ہے ، لہذا  تم میں سے جب کسی کو جمائی  آئے  تو حتی المقدور  اسے روکنے کی کوشش کرنا چاہئے  کیونکہ  جب تم میں سے کوئی جمائی لیتا ہے تو شیطان  اس سے ہنستا ہے ۔ { صحیح بخاری ، سنن ابو داود ، سنن ترمذی } ۔

تشریح : فطری  طور پر انسانوں کو بعض ایسے  حالات پیش آتے ہیں کہ اس کی  ہیئت  بدل جاتی ہے ، اس کی صورت  بدنما ہوجاتی ہے اور خود اسے بھی اس کے دفع کرنے پر قدرت نہیں ہوتی  ، نیز اس کے ساتھ موجود  لوگوں کو بھی  اس پر  بدمزگی پیدا ہوتی ہے ، انہیں حالتوں میں  چھینک  ، جمائی  اور ڈکار  وغیرہ بھی ہیں ، چونکہ  اسلام  اچھے اخلاق  و آداب  کا دین ہے اور ہر چھوٹی بڑی چیزوں  سے متعلق  انسانوں  کی رہنمائی  کرتا ہے ،  لہذا  ہمیں  دیکھنا چاہئے کہ ایسے موقعوں  پر وہ کونسے اسلامی  آداب ہیں  جنہیں  ملحوظ رکھنا چاہئے ۔        چھینک لینے کے آداب :

[۱] چھینک اللہ تعالی کو پسند ہے :  جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح  ہے کہ اللہ تعالی چھینک کو پسند فرماتا ہے اور  جمائی کو نا پسند کرتا ہے ، ایک اور حدیث میں ہے کہ  جب حضرت آدم علیہ السلام  کے جسم میں روح پھونکی  گئی ، روح سر تک  پہنچی  اور انہیں چھینک  آئی تو  آدم  علیہ السلام نے  کہا :”الحمد للہ رب العالمین ” اس کے جواب میں  اللہ تعالی نے فرمایا : "یرحمک اللہ” ۔{ صحیح ابن حبان : 6132 – مستدرک حالم :4/263 ، عن انس }۔   اس کی وجہ یہ ہے کہ  چھینک آنے سے دماغ  سے ایسے  ابخرے اور  رطوبت  خارج ہوجاتی ہے  جو اگر نہ نکلیں  تو کسی  بیماری کا باعث بنتی ہیں ۔

[۲] الحمد للہ کہے : اس کے لئے مختلف صیغے وارد ہیں : ۱-” الحمد اللہ” ، ارشاد نبوی ہے : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے چاہئے کہ "الحمد للہ ” کہے ۔ {صحیح بخاری :6224}۔ ۲”  الحمد للہ رب العالمین” ، حدیث نبوی ہے : جب تم  میں سے کسی کو چھینک آئے تو کہے : ” الحمد للہ  رب العالمین ” ۔ {مسند احمد :6/807- سنن ابو داود : 5031، عن سالم بن عبید } ۔  ۳- "الحمد اللہ علی کل حال "، ارشاد نبوی ہے : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو کہے  : ” الحمد للہ علی کل حال ” ۔ {سنن ابوداود :5022 ، عن ابی ہریرہ }۔ ۴- الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ  مبارکا علیہ  کما یحب  ربنا و یرضی۔  حضرت  رفاعہ  بیان کرتے ہیں کہ  ایک بار میں نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے چھینک آگئی تو میں نے کہا :

” الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ  مبارکا علیہ  کما یحب  ربنا و یرضی” تو آپ  ﷺ نے فرمایا:  اللہ کی قسم  میں دیکھ رہاتھا کہ  تیس سے زائد فرشتے  سبقت  کررہے تھے کہ سب سے  پہلے  ان کلمات  کو کون  لکھتا ہے ۔ {سنن ترمذی :404، الصلاۃ – سنن ابو داود :773 ، الصلاۃ }۔ ۵- الحمد للہ رب العالمین طیبا مبارکا فیہ ۔ ایک شخص  نے نبی ﷺ کے پاس چھینک کے بعد  صرف” الحمد للہ” کہنے پر اکتفا کیا  اور دوسرے نے” الحمد للہ رب العالمین  حمدا طیبا کثیرا  مبارکا فیہ  ” پڑھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کا مقام پہلے شخص کے مقابلہ میں انیس درجہ  بڑھ کر ہے ۔ {الطبری فی التھذیب  – الفتح :10/600، عن ام سلمہ }۔

ان اذکار کے علاوہ  اپنی طرف  سے کسی ذکر کا ایجاد کرنا یا اس میں  اضافہ کرنا جائز نہ ہوگا ۔

[۳]آواز پست کرے ۔  [۴] اپنا منھ  ڈھک لے : نبی ﷺ جب چھینک  لیتے تو اپنا چہرہ  اپنے   ہاتھ یا کپڑے سے چھپا لیتے  اور آواز پست کرتے ۔ {مسند احمد :2/439- سنن ابو داود:5039 ، عن ابی ہریرہ }۔

[۵] گردن کو دائیں بائیں نہ موڑے : اس  کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ہے البتہ  گردن  کے متاثر ہونےسے  بچنے کے لئے  علماء نے اس شرط کا ذکر کیا ہے ۔ {شرح سنن ترمذی لابن  العربی :10/306 – فتح الباری :10/618}۔

[۶] حالت نماز میں بھی الحمد للہ کہے : جیسا کہ حضرت رفاعہ کی حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے ۔ لیکن اپنے من میں  یا پست آواز سے کہے  گا تاکہ  تشویش نہ ہو۔

[۷] الحمد للہ   اتنی آواز سے کہے کہ اس کا ساتھی سن لے : کیونکہ  اس کے الحمد للہ کہنے پر جواب  دینے کا حکم ہے ۔

[۸] سننے والا کہے ” یرحمک اللہ " : جیسا کہ زیر بحث حدیث میں گزرا ۔ نیز نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان  پر پانچ حق ہیں،  نبیﷺنے ان میں سے ایک چھینک  کا جواب دینا بھی بتلایا  ہے ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم عن ابی ہریرہ }۔

[۹] چھینک کا  جواب  تین بار دینا واجب ہے : ارشاد نبوی ہے : اپنے بھائی کی چھینک کا جواب  تین بار دو، اگر اس سے زیادہ  چھینک آئے تو وہ زکام کی وجہ سے ہے ۔  {سنن ابو داود :5034 ، عن ابی ہریرہ }۔

[۱۰] چھینک لینے والا  جواب  میں ” یھدیکم اللہ و یصلح بالکم ” کہے : ارشاد نبوی ہے : جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ الحمدللہ کہے ، اور اس کا بھائی یا ساتھی  {جو سنے تو }وہ یرحمک اللہ کہے  ، پھر جب وہ  یرحمک اللہ کہے تو چھینک لینے والا : یھدیکم اللہ و یصلح بالکم  ” کہے ۔ {صحیح بخاری:6224، الادب ، عن ابی ہریرہ }۔

[۱۱] غیر مسلم کی چھینک کا جواب : حضرت  ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  یہود  رسول اللہ ﷺ کے پاس بتکلف چھینک لیتے  اس امید پر کہ  ” یرحمک اللہ ” کہہ کر  آپ ﷺ ا ن کے لئے  رحمت کی دعا کریں گے ، لیکن آپ ﷺ نے ان کے جواب  میں صرف  "یھدیکم اللہ  و یصلح بالکم”  کہا کرتے تھے ۔ { سنن ابی داود :5038- سنن ترمذی :2739 } ۔

[۱۲] کن لوگوں کی چھینک کا جواب نہ دیا  جائے : ۱- جو چھینک پر الحمد للہ نہ کہے ۔ ۲- تین سے زائد بار چھینک لینے والا ۔۳- جو چھینک کے جواب کو پسند نہیں کرتا ۔ ۴- نماز میں یا جمعہ کے خطبہ کے دوران ۔ ۵- کسی ایسی حالت میں ہو کہ اس وقت اللہ  کا ذکر مشروع نہیں ہے ۔