ڈکار کے آداب/ حديث نمبر: 265

بسم اللہ الرحمن الرحیم

265:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

ڈکار  کے آداب

بتاریخ : 26/ جمادی الاول 1436 ھ، م  17،مارچ  2015 م

عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: تَجَشَّأَ رَجُلٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «كُفَّ عَنَّا جُشَاءَكَ فَإِنَّ أَكْثَرَهُمْ شِبَعًا فِي الدُّنْيَا أَطْوَلُهُمْ جُوعًا يَوْمَ القِيَامَةِ»:   (  سنن الترمذي : 2478 ، صفة القيامة – سنن ابن ماجة : 3350 ، الأطعمة )

ترجمہ  : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ کے پاس  ڈکار لیا ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : اپنی ڈکار کو ہم سے دور رکھو ، کیونکہ  اس دنیا میں جو لوگ زیادہ سیر ہوتے ہیں وہ قیامت کے دن زیادہ لمبی بھوک والے ہونگے ۔ { سنن ترمذی و ابن ماجہ }۔

تشریح :  خوب سیر ہوکر کھانے  اور پیٹ بھر جانے کے سبب  جو ہوا منھ کے ذریعہ  خارج ہوتی ہے اسے ڈکار کہتے ہیں ، کبھی کبھار  ہوا  کے ساتھ  کچھ کھانے اور پانی کا حصہ  بھی منھ تک آجاتا ہے اور عموما اس ہوا کے ساتھ منھ سے بدبو بھی  خارج ہوتی ہے ، اس ہوا کے خروج سے نہ ہی وضو ٹوٹتا ہے اور نہ ہی روزہ میں  کوئی فرق  پڑتا ہے ، حتی کہ اگر نماز  میں بھی  کسی کو ڈکار  آجائے اور اس ڈکار کے سبب  منھ سے کوئی  حرف بھی  ظاہر ہوجائے تو بھی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا  ، البتہ  چونکہ کسی مجلس میں ڈکار لینا مجلس کے ادب کے خلاف سمجھا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اسے سخت ناپسند کرتے ہیں  لہذا  یہ دیکھنا  چاہئے کہ شریعت  نے اس بارے میں  ہمیں کیا  آداب سکھلائے ہیں ۔ زیر بحث حدیث میں  ان میں سے بعض آداب پر روشنی ڈالی جارہی ہے ۔

[۱] پیٹ بھر کر کھانا : عموما خوب پیٹ بھر کر کھانا اور پینا  ہی ڈکار کا سبب بنتا ہے، لہذا  اس سے پرہیز  کرنا چاہئے  ،خاص کر  مسجد و مجلس  میں حاضری  کے وقت، کیونکہ  خوب پیٹ بھر کر کھانا  طبی اور شرعی  دونوں  اعتبار سے پسندیدہ  عمل نہیں ہے ،  چنانچہ نبی ﷺکا ارشاد ہے : آدمی  اپنے پیٹ  سے برا بر تن  نہیں بھرتا ، آدم کے بیٹے  کے لئے تو چند لقمے  ہی کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھی رکھیں ، پھر اگر ضرور بالضرور  خوب کھانا ہی ہے تو پیٹ  کا ایک تہائی  حصہ  کھانے  کے لئے  ، دوسرا تہائی پانی کیلئے اور تیسرا تہائی  سانس لینے  کے لئے  ۔ { سنن ترمذی – سنن ابن ماجہ  بروایت  المقدام }۔

کیونکہ زیادہ کھانے اور پینے  سے جہاں طرح طرح  کی بیماریاں  جنم لیتی ہیں وہیں  اس کی وجہ   نیند  زیادہ آتی ہے ، حدیث میں فرمان نبوی :” جو لوگ  دنیا میں زیادہ  سیر ہوتے ہیں وہ قیامت کے دن زیادہ لمبی بھوک  والے ہوں گے ” سے اسی طرف اشارہ ہے ۔

[۲] ڈکار کو روکنا چاہئے :

جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہے کہ نبی ﷺ نے اس شخص  سے  فرمایا :”اپنی ڈکار کو ہم سے دور رکھو”  لہذا حتی المقدورڈکار کو  روکا جائے اور اگر رکے نہیں تو حتی  الامکان پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جائے ۔

 

[۳] لوگوں کے سامنے ڈکار :

اس حدیث سے ہمیں  ایک  رہنمائی یہ بھی  ملتی  ہے کہ لوگوں کی مجلس  ، عام اجتماع اور مسجد وغیرہ میں ڈکار لینا  خلاف ادب ہے ،  کیونکہ  بسا اوقات  ڈکار سے کھانے اور پینے  کی چیز بھی منھ تک  آجاتی ہے جس سے لوگ نفرت کرتے ہیں ، اسی طرح سے  عموما  ڈکار کی وجہ سے منھ سے بو خارج ہوتی ہے ، خاص کر اگر کوئی بدبودار  چیز کھائی گئی ہے، جس سے اہل  مجلس کو اذیت  لاحق ہوگی،  اسی لئے امام احمد بن حبنل رحمہ اللہ  کا قول ہے کہ اگر کسی کو نماز میں ڈکار  لینا پڑ جائے  تو اسے چاہئے کہ اپنے منھ کو اوپر کی جانب  کرلے ، دائیں اوربائیں یا سامنے کرکے  ڈکار نہ  لے  تاکہ نمازیوں  کو اذیت نہ پہنچے ۔

[۴] ڈکار آئے تو آواز کو پست کرے :

جان بوجھ کر اور بتکلف  زور کی آواز نہ نکالے کیونکہ  نبی ﷺ نے اس شخص  کواپنی ڈکار  روکنے کا حکم دیا  ، لیکن  اگر مجبوری ہی ہو تو  اس کے اثر کو کم از کم  کرنے کی کوشش کرنی چاہئے  ، اس سلسلے میں ایک حدیث  بھی وارد ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ڈکار لیتے یا چھینک لیتے  ہوئے تم  میں سے کوئی اپنی آواز کو بلند نہ کرے، کیونکہ  اس سے شیطان خوش ہوتا ہے ۔  { شعب الایمان  : 8912 ، عن عبادۃ  و شداد و واثلہ }۔

[۵] منھ چھپالے :

چھینک  اور جمائی  پر قیاس  کرتے ہوئے  یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ڈکار  کے وقت بھی مسلمان کو چاہئے  کہ  اپنے ہاتھوں سے اپنا منھ چھپا لے اس سے ایک فائدہ  تو یہ ہوگا  کہ لوگوں کے سامنے منھ کا اندرونی حصہ ظاہرنہ         ہوگا ، دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس طرح آواز پست رہےگی اور تیسرا بڑا فائدہ  یہ ہوگا کہ منھ سے کوئی بو بھی خارج  ہوگی تو اس کا اثر کم ہوگا ۔

[۶] ڈکار کا ذکر  اور اس کا جواب :

بعض لوگ ڈکار لیتے وقت الحمد للہ کہتے ہیں اور حاضرین  اس کے  جواب میں ” اللہ  آپ کو آسودہ رکھے” "، یا اللہ صحت دے ”  کے الفاظ استعمال کرتے ہیں،جب کہ  نبی کریم ﷺ  اور صحابہ  سے ایسا کوئی ذکر  وارد نہیں ہے ۔  ۔۔ واللہ اعلم ۔

فوائد :

  • ہر وہ عمل جو عبادت میں کوتاہی  یا سستی  کا سبب بنے شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے  ۔
  • دنیا میں زیادہ آرام پرستی اور ہر قسم کی نعمتوں سے مستفید  ہونا آخرت  میں ان  چیزوں سے محرومی کا سبب ہوسکتا ہے ۔
  • لوگوں کے مجمعہ میں آواز  سے ڈکار لینا ایک غیر مرغوب عمل ہے ۔